سردار جرنل شہید حاج قاسم سلیمانی کے چہلم پر شہید کا مکمل وصیت نامہ شائع کیا جا رہا ہے ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اصول دین کی گواہی دیتا ہوں۔
اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمدا رسول اللہ و اشہد ان امیر المومنین علی ابن ابی طالب و اولادہ المعصومین اثنی عشر ائمتنا و معصومیننا حجج اللہ
میں گواہی دیتا ہوں کہ قیامت حق و سچ ہے، قرآن حق ہے، جنت و جہنم حق ہے، سوال و جواب حق ہے، معاد، عدل، امامت و نبوت حق ہے ۔
اے میرے اللہ میں تیری ہر نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں ۔
خدایا ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ایک صلب سے دوسرے صلب ، ایک زمانے سے دوسرے زمانے اور پھر اصلاب سے منتقل کرتے ہوئے ایک ایسے وقت میں ظہور و وجود عطا فرمایا کہ جس میں میں تیرے ایک عظیم المرتبت ، معصومین سے قربت رکھنے والے ولی اور عبد صالح خمینی کبیر کو درک کر سکوں اور اُن کی رکاب میں ایک سپاہی بن سکوں ۔ اگر میں تیرے رسول اعظم محمد مصطفیٰ ﷺ کا صحابی بننے کی توفیق حاصل نہ کرسکا اور اگرچہ میں علی ابن ابی طالب ؑ اور اُن کی مظلوم و معصوم اولاد کی مظلومیت کے دور میں اُن کے ہمراہ نہ تھا لیکن تو نے مجھے اُنہی کی راہ پر قرار دیا ، جس راہ پر چلتے ہوئے انہوں نے اپنے خالق و مالک کے سامنے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔
اے میرے اللہ ! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے اپنے عبد صالح خمینی کے بعد مجھے ایک اور عبد صالح کی راہ پر گامزن کیا، کہ جس کی مظلومیت بہت بڑی ہے ، جوکہ حکیم اُمت ہے ، اسلام ، تشیع ، ایران اور عالم اسلام کے سیاسی میدان کا مرد ہے یعنی میرے عزیز خامنہ ای ، کہ ( حق تو یہ ہے کہ میں ) اُن پر میں اپنی جان نچھاوڑ کر دوں ۔
پروردگارا ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے اپنے بہترین بندوں یعنی اس راہ کے مجاہدین و شہدا کی ہم نشینی عطا کی ، اُن کے جنتی گالوں پر بوسہ لینے اور اُن کی الہی خوشبو سونگھنے کے خوبصورت موقعے عنائت فرمائے ۔
خدایا ! اے قادر مطلق ، اے رحمت والے رازق ، اپنی شرم و حیا اور ادب و احترام کے ساتھ تیری چوکھٹ پر سجدہ شکر کرتا ہوں کہ تو نے مجھے فاطمہ اطہر سلام اللہ علیہا اور اُن کی اولاد مطہر کے راستے مذہب تشیع ، حقیقی اسلام کی خوشبو پر قرار دیا اور مجھے اولاد علی و فاطمہ ( سلام اللہ علیہا ) کی مصیبت پر گریہ کرنے والوں میں شامل کیا۔ یہ کتنی ہی عظیم ، بہترین اور اچھی نعمت ہے ! وہ نعمت جس میں نور ہے ، معنویت ، بے قراری ہے ، جس کے اندر بلند پایہ عہد و پیمان ہیں ، ایسا غم جس میں قلبی اطمینان اور روحانیت ہے ۔
خدایا ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے غریب لیکن دیندار ، عاشق اہل بیت اور پاک راستے پر چلنے والے ماں باپ عطا فرمائے۔ میں عاجزی کے ساتھ تجھ سے چاہتا ہوں کہ انہیں جنت میں اپنے اولیا کے جوار میں جگہ عنائت فرما اور مجھے عالم آخرت میں اُن کے حضور سے بہرہ مند فرما ۔
اے میرے خدا ! تیرے عفو و درگزر کا طلب گار ہوں
اے اللہ ، اے عزیز ، اے بے مثال ، صاحب حکمت خالق ! میرے ہاتھ خالی ہیں ، میرے پاس زاد راہ نہیں ہے ، میں خالی ورق لیے اور کاسہ اُمید اٹھائے، تیرے عفو و کرم کی ضیافت پر آگیا ہوں ۔ میرے پاس کوئی توشہ نہیں ؛ چونکہ فقیر کو کریم کے در پر دعوت اور توشہ کی کیا ضرورت ہے ؟ !
میرا دامن ، تجھ سے اُمید ، تیرے فضل و کرم سے پُر ہے ۔ میں اپنے ساتھ دو بند آنکھیں لایا ہوں کہ جن کی دولت ، تمام ناپاکیوں کے ساتھ ایک پاک و قیمتی ذخیرہ بھی ہے ، اور وہ آنسوؤں کے موتی ہیں ، جو فاطمہ کے لعل حسین پر بہے ہیں، وہ آنسووں کے موتی جو غم اہل بیت میں بہے ہیں ، وہ آنسووں کے موتی جو مظلوم ، یتیم کے دفاع میں بہے ہیں ، جو ظالم کے پنجوں میں جھکڑے مظلوموں کے دفاع میں بہے ہیں ۔
اے میرے پروردگار ! میرے ہاتھوں میں کچھ نہیں ؛ نہ پیش کرنے کو کچھ ہے اور نہ دفاع کی طاقت رکھتے ہیں ، لیکن میں اپنے ہاتھوں میں ایک چیز کا ذخیرہ کر رکھا ہے اور مجھے اپنے اس ذخیرہ پر بہت بھروسہ ہے اور وہ اِن کا تیری طرف پھیلائے رکھنا ہے ۔ جب میں نے انہیں تیری طرف اٹھایا ، جب میں نے انہیں تیری خاطر زمین اور زانو پر رکھا ، جب میں نے اِن کی مدد سے تیرے دین کے دفاع کی خاطر اسلحہ اٹھایا ، یہی میرے ہاتھوں کی دولت ہے ، مجھے اُمید ہے کہ تو نے اپنی بارگاہ میں انہیں قبول کر لیا ہوگا ۔
خدایا ! میرے پاؤں سست ہیں ، اِن میں رمقِ جاں نہیں ، جہنم پر رکھے گئے پل کو پار کرنے کی جرأت نہیں رکھتے۔ ایک عام پل پر میرے پاؤں کانپتے ہیں ، وائے ہو مجھ پر ، ہائے وہ تیرا صراط جو بال سے زیادہ باریک اور جس کی کاٹ تلوار سے زیادہ تیز ہے۔ ایسے میں ایک اُمید مجھے حوصلہ دیتی ہے کہ ہوسکتا وہاں میرے پاؤں نہ کانپیں ، ممکن ہے کہ میں نجات پا لوں ، کیونکہ میں نے اِن کے ساتھ تیرے حرم میں قدم رکھا ، تیرے گھر کا طواف کیا ہے ، تیرے اولیا کے حرم ، تیرے حسین اور عباس کے بین الحرمین میں اِنہیں پا برہنہ دوڑایا ہے ۔ بڑے اور طویل مورچوں پر میں نے اِنہیں خم کیے رکھا ہے ۔ میں اِن کے ساتھ تیرے دین کے دفاع کی خاطر دوڑا ہوں ، اوچھلا ہوں ، بیٹھا ہوں ، رینگا ہوں ، ہنسایا ہے ، ہنسا ہوں ، رویا ہوں ، رولایا ہے ، گرا ہوں ، اٹھا ہوں ، مجھے اُمید ہے کہ اُس اُوچھلنے اور رینگے اور اپنے حرم کی حُرمت کے صدقے انہیں معاف کر دو گے ۔
اے میرے اللہ ! میرا سر ، میری عقل ، میرے ہونٹ ، میرے کان ، میرا دل ، میرے تمام اعضا و جوارح ایسی ہی اُمیدوں کے سہارے زندگی گزار رہے ہیں ۔ اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے ! مجھے قبول کر لے ، پاکیزہ ( بنا کر ) قبول کر لے ، یوں ( پاکیزہ ) قبول کر لے کہ تیرے دیدار ( تجھ سے ملاقات ) کے قابل ہو جاؤں ، تیرے دیدار (تیری ملاقات ) کے سوا کچھ نہیں چاہتا ۔ میری جنت کو اپنا جوار قرار دے ۔ یا اللہ !
الہی ! اپنے دوستوں کے قافلے سے پیچھے رہ گیا ہوں
الہی ، اے میرے مہربان ! کئی سالوں سے میں ایک قافلے سے رہ گیا ہوں اور مسلسل اُس کی طرف لوگوں کو روانہ کر رہا ہوں لیکن خود پیچھے رہ گیا ہوں ۔ بے شک تم خود جانتے ہو کہ میں نے انہیں کبھی نہیں بھلایا ، ہمیشہ اُن کی یاد میں رہتا ہوں ۔ اُن کی یادیں اور اُن کے نام نہ صرف میرے ذہن میں ہیں بلکہ میرے دل میں ، میری آنکھوں میں اشکوں اور سیکیوں کے ساتھ آتے ہیں ۔
اے میرے مہربان خدا ! میرا بدن بیمار ہو رہا ہے ، کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص چالیس تیرے دروازے پر کھڑا ہوتا رہا ہے ، تم کیونکر اُسے قبول نہیں کرو گے ؟ !
اے میرے خالق ، میرے محبوب ، میرے عشق ! میں نے ہمیشہ تم سے چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق ڈبو دو ، اپنے فراق میں مجھے جلا دو اور مار ڈالو ۔
اے میرے مہربان ! میں پیچھے رہ جانے کی بے قراری اور رسوائی کی وجہ سے سڑکوں پر آوارہ ہوگیا ہوں۔ میں گرمیوں سردیوں میں ایک ماہوم اُمید لیے ہوئے اس شہر سے اُس شہر ، اس صحرا سے اُس صحرا میں در بدر پھر رہا ہوں ۔
اے کریم ، حبیب ! تیرے کرم سے اُمید لگا رکھی ہے ، تو خود جانتا ہے کہ میں تجھ سے پیار کرتا ہوں ، اچھی طرح جانتے ہو کہ میں تیرے علاوہ کسی کو نہیں چاہتا ، مجھے اپنا وصل عطا فرما ۔
اے میرے خدا ! وحشت نے میرے پورے وجود کو گھیر لیا ہے ، میں اپنے نفس پر قابو پانے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ مجھے رسوا نہ کر، اُن ہستیوں کی حُرمت کے صدقے میں ، جن کی حُرمت کو تم نے اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے ، اس حُرمت کے پامال ہونے سے پہلے ، جوکہ اُن کے حرم پر خدشہ وارد کرے ، مجھے اُس قافلے سے ملا دے ، جو تیری طرف بڑھ چکا ہے۔
میرے معبود ، میرے عشق ، میرے معشوق ، میں تجھ سے محبت کرتا ہوں ۔ میں نے کئی دفعہ تمہاری جھلک دیکھی اور تجھے محسوس کیا ۔ میں تجھ سے الگ نہیں رہ سکتا ، بہت ہوگئی ، بس ، مجھے قبول کر لے ، لیکن اس طرح کہ تیرے لائق ہو جاؤں ۔
مجاہد بہن بھائیوں کے نام ۔۔۔
دنیا کے میرے تمام مجاہد بہن بھائیو ! جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنے سروں کو عاریتاً دے دیا ، اپنی جانوں کو ہاتھوں پر لیے بازار عشق میں فروخت کرنے آگئے ، یاد رکھئیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، اسلام و تشیع کا مرکز ہے ۔ آج حسین ابن علی ؑ کی خیمہ گاہ ایران ہے ۔ جان لیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک حرم ہے اور اگر یہ حرم باقی رہا تو دوسرے حرم بھی باقی رہیں گے ۔ اگر دشمن نے اس حرم کو تباہ کر دیا تو کوئی حرم باقی نہیں بچے گا ، نہ ابراہیمی حرم اور نہ محمدی ؐ حرم ۔
میرے بہن بھائیو ! عالم اسلام کو ہمیشہ قیادت کی ضرورت ہے ، ایسی قیادت جو شرعی اور فقہی اعتبار سے معصوم ؑ سے متصل ہو ۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے زاہد ترین ، پاک باز عالم دین ، جنہوں نے دنیا کو ہلا دیا ، اسلام کو زندہ کیا ، یعنی ہمارے پاک و مطہر اور عظیم خمینی ۔ وہ ولایت فقیہ کو اُمت کی نجات کا نسخہ قرار دیتے ہیں ۔
لہذا آپ چاہے بعنوان شیعہ اس پر دینی اعتقاد رکھتے ہیں یا اہل سنت ہوتے ہوئے عقلی اعتقاد رکھتے ہیں ، جان لیں کہ ہر اختلاف سے دور رہتے ہوئے ، اسلام کی نجات کے لیے خیمہ ولایت کو نہ چھوڑیئے گا ۔ یہ خیمہ ، خیمہ رسول اللہ ؐ ہے ۔ ایران کے دنیا والوں کی دشمنی یہی ہے کہ وہ اس خیمہ کو آگ لگا کر ویران کرنا چاہتے ہیں ۔ اس گرد اکٹھے ہو جاؤ ۔ خدا کی قسم ، خداکی قسم ، خدا کی قسم ، اگر یہ خیمہ ویران ہوگیا ، بیت اللہ الحرام ، حرم مدینۃ الرسول اللہ ، نجف ، کربلا ، کاظمین ، سامرا اور مشہد باقی نہ رہیں گے ؛ قرآن ویران ہو جائے گا ۔
ایرانی بہن بھائیو سے خطاب ۔۔۔
اے میرے پیارے ایرانی بہن بھائیو ! اے سربلند اور پُرافتخار لوگو ! آپ پر میری جان اور مجھ جیسوں کی جان ، ہزار مرتبہ نثار ہو ، جیسے تم لوگوں نے ہزاروں جانیں اسلام اور ایران پر قربان کی ہیں ۔ اس اصول کی حفاظت کرنا ، اصول یعنی ولی فقیہ ، خاص طور پر اس حکیم ، مظلوم اور دین ، فقہ ، عرفان ، معرفت میں ممتاز ، عزیز خامنہ ای کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا ۔ اس کے احترام کو مقدسات میں سے شمار کرنا ۔
میرے تمام محترم بہن بھائیو اور سارے والدین !
آج اسلامی جمہوریہ ایران اپنے بہترین دور سے گزر رہا ہے ۔ یہ اہم نہیں ہے کہ دشمن آپ کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ دشمن آپ کے پیغمبر ؐ کو کس نگاہ سے دیکھتا تھا ؟ اور دشمنوں نے پیغمبر خدا اور ان کی اولاد کے ساتھ کیا کیا ؟ کیسے کیسے الزامات لگائے ؟ اُن کی پاک آل کے ساتھ کیسا سلوک کیا ؟ لہذا دشمنوں کا مذمت کرنا اور برائی کرنا ، دباؤ ، تمہارے درمیان اختلاف پیدا نہ کر دے ۔
جان لیں کہ آپ جانتے ہیں ، امام خمینی کا کارنامہ یہ تھا کہ پہلے اسلام کو ایران کا پشت پناہ بنایا اور پھر ایران کو اسلام کی خدمت میں دے دیا ۔ اگر اسلام نہ ہوتا ، اگر اس قوم میں اسلامی روح نہ ہوتی تو صدام خونخوار درندہ کی طرح اس ملک کو چھیڑ پھاڑ دیتا ۔ امریکہ آوارہ کتے کی طرح ایسا ہی کام کرتا ۔ لیکن امام خمینی کا یہ کارنامہ تھا کہ انہوں نے اسلام کو ہمارا پشت پناہ بنا دیا ۔ عاشورا ، محرم ، صفر اور ایام فاطمیہ کو اس قوم کا پشت پناہ بنا دیا ۔ انہوں نے انقلاب کے اندر کئی انقلابات پیدا کیے ۔ اسی بنا پر ہر دور میں آپ ، ایرانی قوم ، ایرانی سر زمین اور اسلام پر قربان ہونے کے لیے ہزاروں جانثار سینہ سپر رہے ہیں اور انہوں دنیا کی سب سے بڑی مادی طاقتوں کو ذلیل و خوار کر دیا ہے ۔ میرے پیارو ! لہذا اس اصول ( ولایت فقیہ ) میں اختلاف نہ کرنا ۔
شہدا ، ہم سب کی عزت و سر بلندی کے نشان ہیں ۔ صرف آج کے لیے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لیے خدائے سبحان کے وسیع سمندر سے متصل ہوچکے ہیں ۔ انہیں اپنی آنکھوں ، دل اور زبانوں سے محترم شمار کریں ، جیسا کہ وہ ہیں ۔ اپنی اولادوں کو اُن کے ناموں اور تصویروں کی پہچان کروائیں ۔ شہدا کی اولاد ، جوآپ سب کی یتیم ہے ، کو ادب و احترام کی نگاہ سے دیکھیں ۔ اُن کی بیوگان اور والدین کی عزت کریں ، جیسے آپ اپنی اولاد کے لیے چشم پوشی کرتے ہیں۔ انہیں ماں باپ کے نہ ہونے ، سرپرست اور اولاد کے نہ ہونے کا احساس نہ ہونے دیں ۔
آپ کا ، اپنے مذہب ، اسلام اور ملک کا دفاع کرنے کی خاطر اپنی مسلح افواج کا احترام کریں ، جن کا آج سربراہ ولی فقیہ ہے ۔
مسلح افواج بھی اپنے گھر کا دفاع کرنے کی طرح ، قوم اور ان کی ناموس ، ارض وطن کی حفاظت ، حمایت اور ادب و احترام کرتی رہیں ۔ اور قوم کے حوالے سے جیسا کہ امیر المومنین مولائے متقین نے فرمایا : مسلح افواج کو قوم کی عزت و وقار کا مرکز ہونا چاہیے ۔ مستضعفین اور عوام کے لیے قلع ، پناہ گاہ اور ملک کی زینت بن کر رہیں ۔
کرمان کی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے ۔۔۔
کرمان کی عوام کے لیے ایک اہم بات کہنا چاہتا ہوں ۔ وہ لوگ جو بہت پیارے ہیں ، انہوں نے آٹھ سالہ مقدس دفاع میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں ۔ بہترین سردار اور بلند مرتبہ مجاہدین کو اسلام کے لیے پیش کیا ہے ۔ میں ہمیشہ سے اُن کا شکر گزار ہوں ۔ آٹھ سال تک انہوں نے اسلام کی خاطر مجھ پر اعتبار کیا ؛ اپنی اولاد کو قتل گاہوں کی طرف روانہ کیا۔ سخت ترین لڑائیوں جیسے کربلا ۵ ، والفجر ۸ ، طریق القدس ، فتح المبین ، بیت المقدس وغیرہ میں بھیجا ۔ انہوں نے امام مظلوم حسین ابن علی ؑ کے عشق میں ،اُن کے نام ’’ ثار اللہ ‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم اور مضبوط لشکر کی بنیاد رکھی۔ اس لشکر نے تیز دھار تلوار کی حیثیت سے کئی مرتبہ قوم اور مسلمانوں کے دلوں شادمان کیا ہے اور غموں کو اُن کے چہروں سے دور کیا ہے ۔
اے میرے عزیزو ! میں تقدیر الہی کی بنا پر آج آپ کے درمیان سے چلا گیا ہوں ۔ میں آپ کو اپنی اولاد ، اپنے والدین اور اپنے بہن بھائیوں سے زیادہ چاہتا ہوں کیونکہ اُن سے زیادہ آپ کے ساتھ رہا ہوں ۔ جبکہ میں اُن کے وجود کا حصہ تھا اور وہ میرے وجود کا حصہ تھے ، لیکن انہوں نے بھی مان لیا تھا کہ میں اپنے وجود کو آپ پر اور ایرانی قوم پر نثار کر دوں ۔
میں چاہتا ہوں کہ کرمان ہمیشہ اور آخر تک ولایت کے ساتھ کھڑا رہے ۔ یہ ولایت ، ولایت علی ابن ابی طالب ؑ ہے ۔ اس کا خیمہ ، فاطمہ کے لعل حسین کا خیمہ ہے ۔ اس کا طواف کرو ۔ آپ سب سے مخاطب ہوں ۔ کیا جانتے ہو کہ میں نے زندگی میں انسانیت ، احساسات اور فطرت پر سیاسی رنگوں کی نسبت زیادہ نگاہ کی ہے ؟ میں آپ سب سے مخاطب ہوں کہ آپ مجھے اپنے میں سے سمجھتے ہیں ، اپنا بھائی اور اپنا بیٹا سمجھتے ہیں ۔
میں وصیت کرتا ہوں کہ اسلام ، جو اس زمانہ میں اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ منسلک ہوچکا ہے ، اکیلے نہ چھوڑنا ۔ اسلام کے دفاع میں ہوشیاری اور خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ سیاسی مسائل میں جہاں اسلام ، اسلامی جمہوریہ ایران ، مقدسات اور ولایت فقیہ کی گفتگو ہوتی ہے تو یہ خدا کے رنگ ہیں اور خدا کے رنگ کو ہر رنگ پر اولویت دیتے رہو ۔
شہدا کے خاندانوں سے بات ۔۔۔
میرے بیٹو ، بیٹیوں ، میرے بچو ، شہدا کے بچو ، شہدا کے والدین ، اے ملک کے روشن چراغو ، میری بہنو ، میرے بھائیو ، شہدا کی وفادار اور دیندار بیویو ! اس دنیا میں میں ہر روز جس آواز کو سن کر پُر سکون ہوتا تھا ، جس سے میں مانوس تھا ، وہ آوازیں جو مجھے تلاوت قرآن کی طرح سکون دیتی تھیں ، جنہیں میں اپنے لیے روحانی غذا تصور کرتا تھا ، وہ فرزندان شہدا کی آوازیں تھیں ۔ جن میں سے کچھ آوازیں جنہیں میں روازنہ سننا چاہتا تھا ، وہ شہدا کے ماں باپ کی آوازیں تھیں کیونکہ میں اِن میں اپنے ماں باپ کو محسوس کرتا تھا ۔
اے میرے پیارو ! جب تک آپ اس قوم کے علمبردار ہو ، اپنی قدر کو جانو ۔ اپنے شہیدوں کو اپنے اندر جلوہ گر کر لو۔ اس طرح کہ جب کوئی آپ کو دیکھے تو شہید باپ یا شہید بیٹے کو آپ کے اندر احساس کرے ، اُسی روحانیت ، پاکیزگی اور خصوصیات کے ساتھ ۔
میری درخواست ہے کہ میری کوتاہیوں کو درگزر کریں اور مجھے معاف کر دیں ۔ آپ میں سے بہت سوں ، شہدا کے خاندانوں کا میں حق ادا نہیں کرسکا ۔ اس پر میں استغفار بھی کرتا ہوں اور آپ سے معافی کا طلبگار بھی ہوں ۔
میری خواہش ہے کہ شہدا کے بچے میرے جنازے کو کندھا دیں ۔ شاید اُن کے پاک ہاتھ میرے جنازے کے ساتھ لگنے سے خداوند متعال کی عنایات میرے شامل حال ہوجائیں ۔
ملکی سیاستدانوں سے کچھ گزارشات ۔۔۔
ملک کے سیاستدانوں سے ایک مختصر بات کہنا چاہتا ہوں ۔ وہ جو خود کو اصلاح طلب کہتے ہیں یا وہ جو خود کو اصول گر شمار کرتے ہیں ۔ آپ سے گزارش ہے کہ میں چند موقعوں پر سخت تکلیف میں رہا کرتا تھا ، جن میں ہم خدا ، قرآن اور اقدار کو بالکل بھول جاتے ہیں بلکہ قربان کر دیتے ہیں ۔ میرے محترم ! آپ کسی بھی میدان میں باہم رقابت کریں ، کچھ بھی بحث و گفتگو کریں لیکن اگر آپ کے عمل ، کلام یا جھگڑوں سے کسی بھی حوالے سے دین و انقلاب کمزور پڑتے ہیں تو خبردار رہیں کہ آپ پر نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور شہدائے اسلام کا غضب ہوگا ۔ حدووں کو متعین کریں ۔ اگر چاہتے ہو کہ اکٹھے رہو تو اس کی شرط ’’اتفاق ‘‘ اور کچھ اصولوں کی پاسداری ہے ۔ یہ اصول کوئی لمبے چوڑے اصول نہیں ہیں بلکہ کچھ خاص باتیں ہیں :
پہلا اصول یہ ہے کہ ولایت فقیہ پر عملی اعتقاد رکھیں ۔ یعنی اُن کی نصیحت کو سنیں اور دل و جان کے ساتھ ، نیز حقیقی ، شرعی اور علمی طبیب کی حیثیت سے اُن کی نصیحتوں اور ہدایات پر عمل پیرا ہو جائیں ۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں اگر کوئی کسی عہدے کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کی بنیادی شرط یہی ہے کہ وہ ولایت فقیہ پر سچا اعتقاد رکھتا ہو اور اس پر عمل کرتا ہو ۔ میں نہ کہتا ہوں کہ ولایت تھیئوری ؟؟؟؟؟ نہ کہتا ہوں کہ ولایت قانونی ۔ ان میں سے دونوں ، وحدت کی مشکل کو حل نہیں کرتیں ۔ قانونی ولایت ، عام لوگوں ، مسلمان ہوں یا غیر مسلمان ، سب کے لیے ہے۔ لیکن عملی ولایت مخصوص ہے ، عہدیداران کے لیے ۔ جو اس ملک کی بھاری ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر اٹھانا چاہتے ہیں ۔ وہ بھی ایک مسلمان ملک ، اتنے سارے شہیدوں کے ساتھ !!
اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی اساس پر عملی سچا اعتقاد ضروری ہے ۔ اخلاقیات ، اقدار اور ذمہ داریوں سے آگاہی لازمی ہے ۔ قوم و ملت کی نسبت ذمہ داری ہو یا اسلام کی نسبت ہو ، ہر طرح کی ذمہ داری پاک طینت ، معتقد اور عوامی خدمتگار لوگوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیے ۔ چاہے وہ ذمہ داری کسی ایک گاؤں میں کونسلر کی سطح پر ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ انقلاب سے پہلے والے خانوں کی یاد تازہ ہو جائے ۔
ہر طرح کے فساد کے ساتھ مقابلہ ، اس سے دوری ، پُر آسائش زندگی اور رکھ رکھاؤ سے دوری کو اپنا شیوہ قرار دیں۔ اپنے دور حکومت میں یا کسی بھی عہدے پر ہوتے ہوئے ، لوگوں کے احترام اور اُن کی خدمت کو عبادت سمجھ کر کریں ۔ خود ایک سچا خدمتگار اور اقدار کو نافذ کرنے والا بنائیں ۔ بے بنیاد بہانوں کے ساتھ اقدار کو پامال نہ کریں ۔
تمام حکام اور سرکاری عہدیدار معاشرے کے شفیق باپ کی طرح اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں ، معاشرے کی تربیت اور حفاظت پر خاص توجہ دیں ۔ صرف ووٹ حاصل کرنے کی خاطر ایک مختصر عرصہ میں لوگوں کے احساسات کے ساتھ نہ کھیلیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسی اخلاقیات کو عام کیا جائے ، جن کی وجہ سے معاشرے میں طلاق اور فساد کی شرح میں اضافہ ہو جائے اور خاندان ٹوٹ جائیں ۔ خاندانوں کے مضبوطی سے جڑے رہنے اور ٹوٹنے میں حکومتوں کا اہم کردار ہوا کرتا ہے ۔
اگر اصول کی پاسداری کی جائے تو پھر ہم سب رہبر ، اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ ایران کی راہ پر ہیں اور اسی اصول کی بنیاد پر بہترین کے انتخاب کے لیے میدان رقابت سجیں گے۔
سپاہیوں اور فوجیوں سے خطاب ۔۔۔
اپنے محترم، پیارے، جانثار اور مجاہد سپاہیوں فوجیوں کے لیے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ کمانڈروں کے انتخاب میں شجاعت اور بحرانوں پر قابو پانے کی صلاحیت کو معیار قرار دیں۔ واضح ہے کہ ولایت کی طرف اشارہ نہیں کر رہا چونکہ مسلح افواج میں ولایت جزو نہیں ہے بلکہ مسلح افواج کے بقا کی بنیاد ہے۔ یہ بنیادی شرط ہے، جس میں کسی قسم کی کمزوری نہیں۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ موقعہ محل پر اور بروقت دشمن کی شناخت کرنا، اس کے مقاصد و اہداف اور منصوبوں تک پہنچنا نیز بروقت فیصلہ کرنا اور اس پر فوری عمل کرنا۔ اگر اِن میں سے کچھ بھی وقت پر نہ ہوگا تو آپ کی کامیابی پر اس کے گہرے اثرات مترتب ہونگے۔
علمائے کرام اور مراجع عظام سے عرائض ۔۔۔
چالیس سال سے محاذ پر موجود ایک سپاہی کی عظیم الشان اور کرانقدر علمائے کرام اور مراجع عظام جوکہ معاشرے کی روشنی کا باعث اور تاریکیوں کو دور کرنے کا سبب ہیں، سے مختصر عرض ہے۔ مراجع عظام عزیز ! آپ کے ایک سپاہی نے اپنی چوکی سے یہ دیکھا ہے کہ اگر اس نظام کو نقصان پہنچا تو دین اور وہ تمام اقدار، جن کو بچانے کی خاطر آپ نے حوزہ ہائے علمیہ میں اپنی ہڈیوں تک کو پھگلا دیا، دن رات زحمتیں اور تکلیفیں اٹھائی ہیں، سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
یہ دور گزشتہ تمام ادوار سے مختلف ہے۔ اگر اس مرتبہ پہلے والے لوگ مسلط ہوگئے تو اسلام میں سے کچھ بھی باقی نہیں بچے گا۔ لہذا (میرے خیال میں) صحیح راستہ انقلاب ، اسلامی جمہوریہ ایران اور ولی فقیہ کی بلا مشروط حمایت ہے۔
آپ جو اُمید اسلام ہیں، کہیں کوئی آپ کو مختلف حوادث کے دوران ملاحظات و تحفظات کی طرف نہ دھکیل دے ۔ آپ سب امام راحل سے محبت کرتے تھے اور اُن کے راستے پر اعتقاد رکھتے تھے ۔ راہ امام یہی ہے کہ ولایت فقیہ کے پرچم تلے امریکہ سے مقابلہ کیا جائے، اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت و تائید نیز استکباری ظالمانہ نظام میں زندگی گزارنے والے مسلمانوں کی حمایت کی جائے۔
میں نے اپنی ناقص فہم سے دیکھا ہے کہ بعض خناس لوگوں کی کوشش تھی اور ہے کہ مراجع اور معاشرے میں موثر علما کو اپنی گمراہ کن باتوں کے ذریعہ حق جانبی سے غیر جانبداری کی طرف لے جائیں جبکہ حق واضح ہے ۔ اسلامی جمہوریہ، اس کی اقدار اور ولایت فقیہ، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی میراث ہے اور ہر صورت میں ان کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔ میں حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کو بہت مظلوم اور اکیلا پاتا ہوں ۔ انہیں آپ کے ساتھ اور مدد کی ضرورت ہے۔ آپ حضرات اپنے بیانات، اپنی ملاقاتوں اور اپنی حمایت کے ذریعہ ان کے ساتھ مل کر معاشرے کو صحیح جہت دیں ۔ اگر اس انقلاب کو نقصان پہنچا تو حتیٰ شاہ لعنتی کے دور کی بدبختی تک سلسلہ نہ رکے گا، بلکہ استکبار کی کوشش ہوگی کہ الحاد و کفر اور گہری گمراہی کو رائج کر دے، جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ باقی نہ بچے۔
میں آپ کے مبارک ہاتھوں پر بوسہ دیتا ہوں اور ان عرائض و جسارت پر معذرت چاہتا ہوں۔ میں چاہتا تھا کہ خود آپ کی خدمت میں شرف یاب ہو کر اِن عرائض کو پیش کرتا لیکن توفیق حاصل نہیں ہوسکی۔
آپ کا سپاہی اور دست بوسی کا خواہش مند
سب سے معافی کا طلبگار ہوں
اپنے ہمسائیوں، کلیک اور دوستوں سے معافی اور درگزر کا طلبگار ہوں ۔ لشکر ثار اللہ کے مجاہدوں ، ’’ قدس ‘‘ برگیڈ جوکہ دشمن کی آنکھ کا کانٹا اور اُن کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے، کے سب دوستوں سے عفو و درگزر کی درخواست ہے، خاص طور پر اُن سے جنہوں نے برادرانہ میری مدد کی ہے۔
نہیں ہوسکتا کہ میں جناب حسین پور جعفری کا نام نہ لوں، جو اپنے بیٹے کی طرح خیر خواہانہ اور مشفقانہ میری مدد کیا کرتے تھے۔ میں اپنے بھائیوں کی طرح اِن سے بہت پیار کرتا تھا، میں ان کے گھر والوں سے بھی معافی کا طلب گار ہوں۔ اسی طرح اپنے تمام سپاہی مجاہد بھائیوں سے بھی معافی چاہتا ہوں، جنہیں میں نے زحمت میں ڈالا۔ البتہ تمام قدس برگیڈ کے دوست مجھ سے خاص برادرانہ محبت رکھتے تھے، مدد کرتے تھے ۔ آخر میں دوست عزیز جناب سردار قاآنی کا شکر گزار اور ان سے معافی کا طلبگار ہوں، جنہوں نے مجھے صبر اور متانت کے ساتھ برداشت کیا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب