شہید قاسم سلیمانیؒ ایک ایسا نام ہے جو آج بھی دشمنانِ اسلام کے لیے خوف کی علامت اور اہلِ حق کے لیے امید و استقامت کا نشان ہے۔ ان کی شہادت نے عالمِ اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مگر ان کی زندگی کا ہر لمحہ ایک پیغام چھوڑ گیا — ظلم کے خلاف قیام، ولایت کی اطاعت، اور مظلومین کی نصرت۔ ان کی شخصیت میں روحانیت، قیادت، اور جہاد کی وہ جامعیت نظر آتی ہے جو کسی ایک فرد میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ صرف ایک سپہ سالار نہیں، بلکہ ایک فکری مکتب تھے، ایک چلتی پھرتی مزاحمتی تحریک۔
عارفانہ حیات: باطن کی گہرائی
شہید سلیمانیؒ کی روحانیت ان کی شخصیت کا سب سے گہرا اور مستحکم پہلو تھا۔ وہ صرف ایک عسکری کمانڈر نہیں بلکہ ایک عارفِ باللہ تھے۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق، وہ تہجد گزار، ذکر و دعا سے مانوس، اور دعائے کمیل و دعائے عرفہ کے عاشق تھے۔ ان کا اللہ پر توکل، شہادت کی تمنا، اور اہل بیت علیہم السلام سے قلبی وابستگی انہیں ایک روحانی بلند مقام پر لے گئی تھی۔
قائدانہ حکمت: وحدت کا معمار
قاسم سلیمانیؒ نے مشرق وسطیٰ کی الجھی ہوئی سیاست میں ایک ایسی راہ نکالی جو نہ صرف عسکری سطح پر کامیاب رہی بلکہ فکری و ثقافتی میدان میں بھی امت مسلمہ کو بیداری دی۔ انہوں نے ایران، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور یمن کے مختلف گروہوں کو ایک نظریے کے تحت جوڑا — "مزاحمتِ اسلامیہ"۔ وہ فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اسلامی اتحاد کے علمبردار تھے، اور ان کی قیادت میں "محورِ مقاومت" ایک ناقابلِ شکست محاذ بن گیا۔
مجاہدانہ استقامت: گریٹر اسرائیل کا خاتمہ
صیہونی منصوبہ "گریٹر اسرائیل" ایک ایسا خواب تھا جس کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کر کے اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی دیوار قاسم سلیمانیؒ بنے۔ انہوں نے داعش جیسے امریکی-صیہونی منصوبے کو شام و عراق میں شکست دی، حزب اللہ کو مضبوط کیا، فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہی کی، اور یمن میں انصار اللہ کی حمایت کر کے اسرائیل کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کی شہادت دراصل اسی مزاحمتی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش تھی۔
شہادت: ایک آغاز، اختتام نہیں
3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ان کی شہادت، اس بات کی علامت تھی کہ دشمن اس فردِ واحد سے کس قدر خوفزدہ تھا۔ مگر شہادت نے قاسم سلیمانی کو ختم نہیں کیا، بلکہ انہیں ایک عالمی تحریک کا نشان بنا دیا۔ آج "ہم سب قاسم سلیمانی ہیں" کا نعرہ عراق، ایران، لبنان، شام، یمن، اور دنیا کے دیگر خطوں میں گونج رہا ہے۔ ان کی شہادت نے اسلامی مزاحمت کو مزید مضبوط کیا اور ان کے خون نے بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی۔
ایک عہد، ایک فکر
شہید قاسم سلیمانیؒ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک مومن اگر اخلاص، عبادت، اطاعتِ ولایت اور جہاد کو اپنا شعار بنالے تو وہ دشمنانِ دین کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ان کی حیات ایک مکتب ہے جس سے رہنما اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں — چاہے وہ دینی ہو، سیاسی ہو، یا عسکری۔ ان کی سیرت، بالخصوص نوجوانانِ امت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا چاہتے ہیں۔
عارفانہ حیات: باطن کی گہرائی
شہید سلیمانیؒ کی روحانیت ان کی شخصیت کا سب سے گہرا اور مستحکم پہلو تھا۔ وہ صرف ایک عسکری کمانڈر نہیں بلکہ ایک عارفِ باللہ تھے۔ ان کے قریبی ساتھیوں کے مطابق، وہ تہجد گزار، ذکر و دعا سے مانوس، اور دعائے کمیل و دعائے عرفہ کے عاشق تھے۔ ان کا اللہ پر توکل، شہادت کی تمنا، اور اہل بیت علیہم السلام سے قلبی وابستگی انہیں ایک روحانی بلند مقام پر لے گئی تھی۔
قائدانہ حکمت: وحدت کا معمار
قاسم سلیمانیؒ نے مشرق وسطیٰ کی الجھی ہوئی سیاست میں ایک ایسی راہ نکالی جو نہ صرف عسکری سطح پر کامیاب رہی بلکہ فکری و ثقافتی میدان میں بھی امت مسلمہ کو بیداری دی۔ انہوں نے ایران، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور یمن کے مختلف گروہوں کو ایک نظریے کے تحت جوڑا — "مزاحمتِ اسلامیہ"۔ وہ فرقہ واریت سے بالاتر ہو کر اسلامی اتحاد کے علمبردار تھے، اور ان کی قیادت میں "محورِ مقاومت" ایک ناقابلِ شکست محاذ بن گیا۔
مجاہدانہ استقامت: گریٹر اسرائیل کا خاتمہ
صیہونی منصوبہ "گریٹر اسرائیل" ایک ایسا خواب تھا جس کے ذریعے امریکہ اور اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام کا شکار کر کے اپنے قبضے میں لینا چاہتے تھے۔ اس خواب کی راہ میں سب سے بڑی دیوار قاسم سلیمانیؒ بنے۔ انہوں نے داعش جیسے امریکی-صیہونی منصوبے کو شام و عراق میں شکست دی، حزب اللہ کو مضبوط کیا، فلسطینی مزاحمت کی پشت پناہی کی، اور یمن میں انصار اللہ کی حمایت کر کے اسرائیل کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کی شہادت دراصل اسی مزاحمتی نظام کو مفلوج کرنے کی کوشش تھی۔
شہادت: ایک آغاز، اختتام نہیں
3 جنوری 2020 کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ان کی شہادت، اس بات کی علامت تھی کہ دشمن اس فردِ واحد سے کس قدر خوفزدہ تھا۔ مگر شہادت نے قاسم سلیمانی کو ختم نہیں کیا، بلکہ انہیں ایک عالمی تحریک کا نشان بنا دیا۔ آج "ہم سب قاسم سلیمانی ہیں" کا نعرہ عراق، ایران، لبنان، شام، یمن، اور دنیا کے دیگر خطوں میں گونج رہا ہے۔ ان کی شہادت نے اسلامی مزاحمت کو مزید مضبوط کیا اور ان کے خون نے بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی۔
ایک عہد، ایک فکر
شہید قاسم سلیمانیؒ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ایک مومن اگر اخلاص، عبادت، اطاعتِ ولایت اور جہاد کو اپنا شعار بنالے تو وہ دشمنانِ دین کے تمام منصوبوں کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ان کی حیات ایک مکتب ہے جس سے رہنما اصول اخذ کیے جا سکتے ہیں — چاہے وہ دینی ہو، سیاسی ہو، یا عسکری۔ ان کی سیرت، بالخصوص نوجوانانِ امت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے جو باطل کے خلاف سینہ سپر ہونا چاہتے ہیں۔