دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں حاج قاسم کا وسیع کردار اتنا باارزش اور کلیدی ہے جس کا اندازہ سالوں گزرنے اور مشرق وسطی میں مغربی ممالک کی شیطانی چالبازیوں کے برملا ہونے کے بعد ہی لگایا جاسکے گا۔ داعش کے حملے کے بعد عراقی حکام امریکہ اور ایران سے مدد کے لئے ہاتھ جوڑ رہے تھے اس وقت شہید سلیمانی تھے جس نے عراق کے لئے داعش کے مقابلے میں کامیابی کے دروازے کھول دئیے۔ قدس فورس کے سربراہ نے سپریم لیڈر سے براہ راست ہماہنگی اور اجازت کے بعد عراق کی وسیع پیمانے پر مدد کی۔ ایرانی فضائیہ کے طیاروں نے عراقی حکومت سے ہماہنگی کے بعد سامرا کے گرد و نواح میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے ہوئے بغداد کی طرف دہشت گردوں کی پیش قدمی کو روک دیا اور دارالحکومت کے اردگرد حفاظتی حصار تشکیل دینے کا موقع فراہم کیا۔ دوسرے مرحلے میں کرد علاقوں میں فوجی امداد بھیجی گئی اور آخر میں مشترکہ آپریشن کے ذریعے داعش کے دہشت گردوں کو آمرلی شہر سے پیچھے دھکیل دیا گیا۔ شام اور عراق میں داعش کے خلاف جنگ منطقی انجام تک پہنچنے میں چار سال لگے آخری معرکے میں جنرل سلیمانی کی قیادت میں شام کے شہر ابو کمال کو داعش کے چنگل سے آزاد کرایا گیا۔ 1997 میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کا سربراہ بننے کے بعد شہید سلیمانی نے خطے کے معاملات میں کردار ادا کرنا شروع کیا۔ انقلاب اسلامی کے اثرات اور ثمرات کے تحفظ کی غرض سے تشکیل پانے والی فوجی ونگ نے آہستہ آہستہ ایران کے موثر ترین فوجی ادارے کی شکل اختیار کرلی۔ عوام کے درمیان قدس فورس کو ایک مسلح ونگ کے طور پر زیادہ شہرت حاصل نہیں تھی۔ ایران کے خلاف امریکی اور اسرائیلی فوجی یلغار کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرنے کے بعد یہ ونگ خطے کی بنیادی اور طاقتور فورس کے طور پر سامنے آگئی۔ اس کی شہرت کو عروج اس وقت ملا جب گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر خطے میں لشکرکشی شروع کردی۔ افغانستان کے بعد عراق شکار بنا۔ اکثر لوگوں کو گمان تھا کہ تیسرا ہدف ایران ہوگا۔ اس مرحلے پر قدس فورس نے کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اس خطرے کو ختم کردیا جو کہ شہید سلیمانی کا پہلا کارنامہ تھا۔ 2006 میں یہ معرکہ اپنے عروج کو پہنچا۔ شہید سلیمانی نے براہ راست جنگ کی قیادت سنبھالی۔ اسرائیل کی جانب سے لبنان پر شدیدفضائی حملے جاری تھے اس وقت شہید سلیمانی پہلی فرصت میں شام کے راستے ایران آئے تاکہ سپریم لیڈر اور دیگر حکام سے مشورہ کرسکیں۔ ان کے لبنان واپس جانے کے بعد جنگ کا نتیجہ حزب اللہ کے حق میں بدلنے لگا۔ مرکاو ٹینک سے تشکیل پانے والے صیہونی فوجی دستوں کو روسی ساختہ میزائلوں کے ذریعے جنوبی لبنان میں مفلوج کردیا گیا۔ یہ واقعہ فلسطین میں دوبارہ تکرار ہوا جب رہبر معظم کے بقول اسرائیل سے مقابلے کے لئے اٹھنے والے فلسطینیوں کے خالی ہاتھوں کو بھر دیا گیا۔
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں قدس فورس کا کردار
عراق اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید سلیمانی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 2011 میں امریکہ اور خطے کے بعض عرب ممالک کی ملی بھگت سے شام کے اندر بدامنی پھیل گئی جس کا آغاز درعا شہر سے ہوا۔ سلفی اور جہادی گروہوں کو مسلح کرنے کے لئے مشرقی یورپ کے ممالک سے روسی ساختہ اسلحوں کو فضائی راستوں کے ذریعے ترکی، اردن اور لبنان پہنچایا گیا جس کی قیمت قطر، سعودی عرب اور عرب امارات کے خزانوں سے ادا کی گئی۔
جب شام کی حکومت متزلزل اور دمشق سقوط کے نزدیک تھا شہید سلیمانی شام کی مدد کو پہنچے۔ حزب اللہ نے القصیر شہر کو آزاد کرانے کے لئے جوانوں کو مغربی سرحد پر واقع اپنے اتحادی ملک میں داخل کرکے مدد میں پہل کی۔ اگلے مرحلے میں ایران کے فوجی مشیروں نے شامی فوج کی تنظیم نو کا بیڑہ اٹھایا۔ جنگ کی شدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ دونوں جانب افرادی قوت میں اضافہ ہونے لگا۔ عراقی القاعدہ کی باقیات سے داعش کی تشکیل اور شام و عراق کے مختلف علاقوں پر دہشت گردوں کے قبضے سے جنگ مزید شدت اختیار کرگئی۔ داعش سب سے وسیع اور پیچیدہ دہشت گرد جماعت تھی جس کو پوری دنیا سے امداد مل رہی تھی۔ 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی اس تنظیم کا مقصد عالمی حکومت کی تشکیل تھا۔ اس موقع پر بھی شہید سلیمانی نے کامیاب کردار ادا کیا۔ عراقی صوبے دیالی کے شہر جلولا میں پہلا معرکہ پیش آیا۔ اس جنگ کے دوران تکریت، سامرا، فلوجہ اور الانبار جیسے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا گیا۔
شام میں روسی فضائیہ کی موجودگی سے مقاومتی بلاک کو فضائی برتری مل گئی دوسری طرف عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے رضاکار مجاہدین حزب اللہ اور شامی فوج کی مدد کو آئے جس کے نتیجے میں نہ فقط دہشت گرد گروہوں کی پیش قدمی رک گئی بلکہ تین سال سے بھی کم عرصے میں شام اور عراق سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہوگیا۔ شہید سلیمانی اپنی جانثاری کی بدولت ایران کے اندر اور باہر ہر طبقے کی
آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ایرانی ادارے کی جانب سے 2019 میں ہونے والے سروے میں شہید سلیمانی ایران میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت قرار پائے۔ ان کی شہادت کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی تشییع سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید سلیمانی کے کردار کو موجودہ حالات میں شاید صحیح درک نہیں کیا جاسکے۔ چند سال بعد خطے میں مغربی ممالک کی سازشیں برملا ہونے کے بعد اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے۔ جس وقت مغربی ممالک میں مشرق وسطی کے اندر 30 سالہ مذہبی کشیدگی کے بارے میں چہ میگوئیاں کی جارہی تھیں، ایران نے شہید سلیمانی کی قیادت میں مغربی ممالک کی اس سازش کو بروقت ناکام بنادیا جس کا مقصد مشرق وسطی کے سیاسی معاملات سے اسلام کو مکمل طور پر بے دخل کرنا تھا۔ مشرق وسطی سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے کے بعد داعش نے یورپ کا رخ کیا ہے جو موجودہ حالات میں مغربی ممالک کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔
داعش کے خلاف نبرد میں شہید سلیمانی کے کردار کو سمجھنے کے لئے یہی نکتہ کافی ہے کہ ان کی شہادت کے بعد عراقی فوج کے ٹھکانوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شہید سلیمانی کے اقدامات کی وجہ سے مقاومتی بلاک کے لئے اتنی مادی اور معنوی طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ امریکہ جیسے سپرپاور کی حمایت کے باوجود ماضی کے تلخ واقعات تکرار نہیں ہوسکتے۔ علاقائی امور کے ماہرین بھی اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں قدس فورس کا کردار
عراق اور شام میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید سلیمانی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ 2011 میں امریکہ اور خطے کے بعض عرب ممالک کی ملی بھگت سے شام کے اندر بدامنی پھیل گئی جس کا آغاز درعا شہر سے ہوا۔ سلفی اور جہادی گروہوں کو مسلح کرنے کے لئے مشرقی یورپ کے ممالک سے روسی ساختہ اسلحوں کو فضائی راستوں کے ذریعے ترکی، اردن اور لبنان پہنچایا گیا جس کی قیمت قطر، سعودی عرب اور عرب امارات کے خزانوں سے ادا کی گئی۔
جب شام کی حکومت متزلزل اور دمشق سقوط کے نزدیک تھا شہید سلیمانی شام کی مدد کو پہنچے۔ حزب اللہ نے القصیر شہر کو آزاد کرانے کے لئے جوانوں کو مغربی سرحد پر واقع اپنے اتحادی ملک میں داخل کرکے مدد میں پہل کی۔ اگلے مرحلے میں ایران کے فوجی مشیروں نے شامی فوج کی تنظیم نو کا بیڑہ اٹھایا۔ جنگ کی شدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ دونوں جانب افرادی قوت میں اضافہ ہونے لگا۔ عراقی القاعدہ کی باقیات سے داعش کی تشکیل اور شام و عراق کے مختلف علاقوں پر دہشت گردوں کے قبضے سے جنگ مزید شدت اختیار کرگئی۔ داعش سب سے وسیع اور پیچیدہ دہشت گرد جماعت تھی جس کو پوری دنیا سے امداد مل رہی تھی۔ 80 ممالک سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کی اس تنظیم کا مقصد عالمی حکومت کی تشکیل تھا۔ اس موقع پر بھی شہید سلیمانی نے کامیاب کردار ادا کیا۔ عراقی صوبے دیالی کے شہر جلولا میں پہلا معرکہ پیش آیا۔ اس جنگ کے دوران تکریت، سامرا، فلوجہ اور الانبار جیسے علاقوں کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا گیا۔
شام میں روسی فضائیہ کی موجودگی سے مقاومتی بلاک کو فضائی برتری مل گئی دوسری طرف عراق اور افغانستان جیسے ممالک سے رضاکار مجاہدین حزب اللہ اور شامی فوج کی مدد کو آئے جس کے نتیجے میں نہ فقط دہشت گرد گروہوں کی پیش قدمی رک گئی بلکہ تین سال سے بھی کم عرصے میں شام اور عراق سے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہوگیا۔ شہید سلیمانی اپنی جانثاری کی بدولت ایران کے اندر اور باہر ہر طبقے کی
آنکھوں کا تارا بن گئے۔ ایرانی ادارے کی جانب سے 2019 میں ہونے والے سروے میں شہید سلیمانی ایران میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت قرار پائے۔ ان کی شہادت کے بعد وسیع پیمانے پر ہونے والی تشییع سے اس کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں شہید سلیمانی کے کردار کو موجودہ حالات میں شاید صحیح درک نہیں کیا جاسکے۔ چند سال بعد خطے میں مغربی ممالک کی سازشیں برملا ہونے کے بعد اس کے مختلف پہلو سامنے آئیں گے۔ جس وقت مغربی ممالک میں مشرق وسطی کے اندر 30 سالہ مذہبی کشیدگی کے بارے میں چہ میگوئیاں کی جارہی تھیں، ایران نے شہید سلیمانی کی قیادت میں مغربی ممالک کی اس سازش کو بروقت ناکام بنادیا جس کا مقصد مشرق وسطی کے سیاسی معاملات سے اسلام کو مکمل طور پر بے دخل کرنا تھا۔ مشرق وسطی سے دہشت گردوں کا صفایا ہونے کے بعد داعش نے یورپ کا رخ کیا ہے جو موجودہ حالات میں مغربی ممالک کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔
داعش کے خلاف نبرد میں شہید سلیمانی کے کردار کو سمجھنے کے لئے یہی نکتہ کافی ہے کہ ان کی شہادت کے بعد عراقی فوج کے ٹھکانوں پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نکتے کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ شہید سلیمانی کے اقدامات کی وجہ سے مقاومتی بلاک کے لئے اتنی مادی اور معنوی طاقت حاصل ہوگئی ہے کہ امریکہ جیسے سپرپاور کی حمایت کے باوجود ماضی کے تلخ واقعات تکرار نہیں ہوسکتے۔ علاقائی امور کے ماہرین بھی اس حقیقت کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب