مواد

33روزہ جنگ کی  ناگفتہ باتیں میجر جنرل سلیمانی کی زبانی


Jan 09 2021
33روزہ جنگ کی  ناگفتہ باتیں میجر جنرل سلیمانی کی زبانی
یہ ذمہ داری قبول کرنے کے بعد   میڈیا کے ساتھ اپنی پہلی گفتگو  میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر نے لبنانی مزاحمت اور صیہونی حکومت کے مابین ۳۳ روزہ جنگ  اور اس جنگ کی تشکیل  اور حزب اللہ لبنان کی کامیابی کی وجوہات پتفصیل سے بتایا۔
میجرجنرل حاج قاسم سلیمانی نے ” حفظ و نشر آثار حضرت آیت اللہ خامنہ ای ” نامی  دفتر کے ساتھ گفتگو کے آغاز میں ۳۳ روزہ جنگ سے پہلے  اور اس کے تناظرمیں خطے کی صورتحال کی اطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکہ نے ۱۱ ستمبر(نائن الیون) کے واقعہ کے بعد سے ہمارے خطے میں اپنی مسلح افواج کی موجودگی میں اہم ترقی حاصل کی تھی کہ مقدار کے لحاظ سے تقریباً اس کے مشابہ صرف دوسری  عالمی جنگ  میں موجود تھا اور کیفیت کے لحاظ سے  حتیٰ اس جنگ میں بھی وجود نہیں تھا۔
انہوں نے مزید بیان کرتے ہوئے عراق اور افغانستان میں امریکی اور اس کی اتحادی افواج کی موجودگی کے بارے میں تفصیل سے بتایا اور کہا:طبیعی طور پر خطے میں امریکی فوجی موجودگی صیہونی حکومت کو موقع فراہم کرتی تھی کہ وہ اس مسئلے سے فائدہ اٹھائے  اورکوئی قدم اٹھائے۔ اس طرح سے کہ یہ تسلط  ایران کو ڈرانے اور شام کو روکنے اور دھمکانے میں موثر ثابت ہو تاکہ یہ دونوں حکومتیں کسی طرح کی کوئی کاروائی نہ کریں۔
قدس فورس کے کمانڈر کے مطابق  ۳۳ روزہ جنگ کی بنیادی وجوہات  ” خطے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی سےصیہونی حکومت کو فائدہ اٹھانا” ، ” صدام کے زوال ” سے اس حکومت کو فائدہ اٹھانا،  ” افغانستان میں امریکی ابتدائی کامیابی” اور سخت   “دہشت پھیلانا” وغیرہ      ہو سکتی  ہیں کہ  جو  خطے میں امریکہ نے ایجاد کی تھیں۔  جنگ کے بارے میں اپنے تجزیہ کو جاری رکھتے ہوئے   قدس فورس  کے کمانڈرنے بتایا کہ  صیہونی حکومت کی طرف سے اس کی منصوبہ بندی  نہ صرف لبنان میں حزب اللہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تھی   بلکہ اس کا مقصد لبنانی عوام کے  قبضہ سے ایک اہم حصہ کو چھڑانا تھا۔
لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ کے لئے کچھ عرب ممالک کے رضایت مندی  اور حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل سلیمانی نے بیان کیا:  صیہونی حکومت نے اپنے اعلیٰ سطح پر یعنی  اس  حکومت کے سربراہ اولمرٹ نے   اس مسئلہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پہلی بار عرب ممالک نے کسی عرب تنظیم کے خلاف  اسرائیل کا ساتھ دیا۔جنرل سلیمانی نے اس حصہ میں  اپنی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے ۳۳ روزہ جنگ شروع کرنے کے لئے تین پوشیدہ اہداف کو اس طرح سے بیان کیا:پہلا مقصدعراق میں امریکی موجودگی  کو موقع فراہم کرنا  اور اس کی  وسیع موجودگی کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں   رعب و دہشت ایجاد کرنا ۔  دوسرا مقصد عرب ممالک کی تیاری اورحزب اللہ کے خاتمے  اورجنوبی لبنان میں ڈموگرافی و آبادیات کو تبدیل کرنے کےلئے صیہونی حکومت کے ساتھ ان کے تعاون کا خفیہ اعلان۔ اور تیسرا مقصد، حزب اللہ سے ہمیشہ کے لئے نجات پانے کے  لئے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے خود صیہونی حکومت کے  اپنے مقاصد۔
۳۳ روزہ جنگ شروع کرنے کی واضح وجوہات اوربہانہ کے بارے میں ایک  سوال کے جواب میں، جنرل سلیمانی  نے صیہونی حکومت کی جیل میں لبنانی قیدیوں کے تبادلے کے لئے کاروائی کی منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کیا کہ اس کے مطابق مزاحمتی تحریک مقبوضہ علاقے کے اندر سے دو صیہونی فوجیوں کو اسیربنانے میں کامیاب رہی۔
اس اہم کاروائی کی ذمہ داری شہید عماد مغنیہ کو سونپی گئی تھی لہذا اس موقع پر انہوں نے مزاحمت کے اس شہید کی تعریف کی اورکہا: وہ حقیقت میں صحیح معنوں میں ایک کمانڈر تھے۔ شائد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک ایے کمانڈر کہ جو میدانِ  جنگ  میں  مالک اشتر کی صفات سے مشابہت رکھتے تھے۔سپاہ قدس فورس کے کمانڈر نے یہ کہتے ہوئے اپنا بیان جاری  رکھا کہ حزب اللہ مستقل طور پر تیاری کی حالت میں بسر کر رہی ہے، انہوں نے کہا:  دشمن کے رد عمل کی توقع میں حزب اللہ نے  اپنی کاروائی شروع کرنے سے پہلے جو اقدامات اور منصوبوں بنائے تھے وہ سب کے سب  جو کچھ اسرائیل نے حزب اللہ کی کاروائی کے جواب میں انجام دیا  اس کی توقعات کے منافی نکلا۔
سپاہ  پاسداران کی قدس  فورس کے کمانڈر نے گفتگو کے ایک اور حصہ میں صیہونی حکومت کے لبنان پر حملوں کے ایک ہفتہ بعد رہبر معظم انقلاب  کی موجودگی میں اعلیٰ عہدیداروں کے اجلاس کے بارے میں بیان کیا اور کہا:  اس اجلاس کے اختتام پر میری تلخ رپورٹ سننے کے بعد رہبر معظم انقلاب نے فرمایا: میرا خیال یہ ہے کہ اس جنگ کی کامیابی جنگِ خندق کی کامیابی جیسی ہوگی۔
جنرل سلیمانی نے لبنان میں اپنی واپسی اوررہبر معظم انقلاب کی سفارشات اور خیالات کو  حزب اللہ کے سکریٹری جنرل حجت الاسلام والمسلمین سید حسن نصراللہ کے سامنے بیان کرنے کی طرف اشارہ کیا اورتاکید کی: اس پیغام نے حزب اللہ کے وجود میں تازہ خون دوڑا دیاتا کہ حزب اللہ ایک نئی امید اور خود اعتمادی کے ساتھ دشمن کے ساتھ جنگ میں داخل ہو سکے  اور حزب اللہ کویقین ہو گیا کہ اس جنگ میں اسے کامیابی نصیب ہو گی۔
انہوں نے مزاحمتی تحریک کی حمایت  کے بارے میں اس وقت کے اسلامی جمہوریہ کے دیگر عہدیداروں کی رائے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بیان کیا: اس طرف سے کوئی تشویش نہیں تھی اورپوری طرح سے حزب اللہ کی حمایت اور حزب اللہ کی کامیابی کے لئے جدوجہد کے لئے جمہوری اسلامی ایران میں مکمل طور پر اتحاد پایا جاتا تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے” حفظ و نشر آثار حضرت آیت اللہ خامنہ ای” نامی دفتر کے ساتھ گفتگو کے ایک اور حصہ میں سپاہ کی قدس فورس کے کمانڈر نے ۳۳ روزہ جنگ میں اپنی  موجودگی کے بارے میں بیان کیا اور کہا: اس جنگ میں حزب اللہ ہر مرحلے میں ایک نئے آلے اور ایک نئے اقدام کے ساتھ دشمن کو حیرت  و تعجب میں ڈال رہی تھی یعنی وہ اپنے تمام اوزار ایک ساتھ استعمال نہیں کر رہی تھی۔
انہوں نے ۳۳ روزہ جنگ کے دوران حزب اللہ کے کچھ منصوبوں کے بارے میں بھی وضاحت کی اور کہا: دوسری جنگوں کے برعکس کہ ان میں ایک فرنٹ لائن ہوتی ہے لیکن  اس جنگ میں کوئی فرنٹ لائن نہیں تھی، اس کا ہر  ایک حصہ  فرنٹ لائن تھی یعنی  لبنان کے ساتھ مقبوضہ فلسطینی سرحد کے چوراہے  سے لے کر کم از کم  دریائے لیٹانی تک  پہاڑوں، دیہاتوں، مکانات سمیت وہاں سے ہر ایک حصہ  ایک فرنٹ لائن تھی۔
ہمارے ملک کے اس سینئرفوجی عہدیدار نے صیہونیوں پر حزب اللہ کے حملوں کے ایک واقعہ کو بیان کیا جس میں حزب اللہ نے اسرائیلی بحریہ  پرپہلا بحری  میزائل  مارا جب  سید حسن نصراللہ کی تقریرکر رہے تھے اور اس کاروائی میں اس حکومت کی بحری فوج کو اپنے منصوبے میں ناکام بنا دیا۔
جنگ ختم ہونےکی کیفیت  کے بارے میں بھی جنرل سلیمانی اسرائیلی سفیر اور جان بولٹن اور اس وقت کے قطری وزیر خارجہ کے مابین ہونے والی ملاقات کویاد کرتے ہوئے اس کا حوالہ دیتے ہوئے   کہتے ہیں: ان کا کہنا تھا کہ اگر جنگ بند نہ ہوئی تو اسرائیلی فوج نیست و نابود ہو جائے گی۔
انہوں نے مزید کہا: اسرائیلیوں نے اپنے گزشتہ تمام شرائط کو نظر انداز کر دیا اور انہوں نے تمام حدیں پار کر دیں اور وہ حزب اللہ کے شرائط  اور جنگ بندی کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئےاور یہ حزب اللہ کے لئے ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
دفاعِ مقدس کے دوران کرمان میں لشکرِ ۴۱ ثاراللہ کے کمانڈر نے اس گفتگو کے اختتام پر اس چیز پر تاکید کی کہ ہمارے دفاع مقدس کو  دوسرے تما م مقدس دفاعوں پر برتری حاصل ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ان تمام دفاعوں کو دفاع مقدس  کی طرف  نسبت دینا ایسے ہی ہے جیسے  البزر کے بڑے بڑے پہاڑوں کو دماوند کی چوٹی سے نسبت دی جائے۔دفاع مقدس بقیہ تمام مقدس دفاعوں پر برتری رکھتا ہے اس کی اونچائی ان سب سے زیادہ ہے اور یہ اس کی ڈھلوان اوراس کی سلسلہ وار  چوٹیاں ہیں۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب