سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کو ایران امریکا کے درمیان مفاہمت کی باتیں کرنے سے بھی گریز کرنا چاہیئے کیونکہ پاکستان تو اپنے کئے گئے فیصلے دوسرے ملک کے کہنے پر تبدیل کردیتا ہے۔ ہم نیوز کے پروگرام ایجنڈا پاکستان میں عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے میزبان سینئر تجزیہ کار زاہد حسین نے کہا کہ لگتا یہی ہے امریکہ اور ایران نے قدم پیچھے کھینچ لئے ہیں، ایران نے عراق میں جو حملے کئے اور جان بوجھ کر غلط نشانے لگائے وہ صرف پیغام دینا تھا کہ ہم اس طرح کی کارروائی کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی گزشتہ روز ہونے والی تقریر میں جارحانہ رویہ نظر نہیں آیا، شاید اس لئے بھی کہ امریکہ میں بھی ان پر سخت تنقید کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے جہاں ایران سے مذاکرات کی حامی بھری ہے وہیں انہوں نے مزید پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دی ہے تاہم امریکہ نے یہ نہیں بتایا کہ ایران پر جو نئی پابندیاں لگائی جائیں گی وہ کیا ہوں گی۔ زاہد حسین نے کہا کہ ایران پر پہلے سے ہی امریکہ کی جانب سے بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں اور جو کمپنیاں ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی کوشش کرتی ہیں ان پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایران کو پہلے ہی بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت کسی بھی تنازعہ میں کسی کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہیئے اور یہ پالیسی پاکستان کی پرانی پالیسی ہے، مفاہمت کی باتیں کرنے سے بھی پاکستان کو پرہیز کرنا چاہیئے، پاکستان دوسرے ملک کے کہنے پر اپنے فیصلے پر کھڑا نہیں رہ سکتا تو وہ کس طرح سے مفاہمت کرائے گا۔
سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور کسی قسم کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے، فارن پالیسی انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیئے کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پالیسی بیان پارلیمنٹ میں لانا چاہیئے جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم پاکستان کی فارن پالیسی کہاں بنتی ہے جس کا وزارت داخلہ کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے جہاں ایران سے مذاکرات کی حامی بھری ہے وہیں انہوں نے مزید پابندیاں لگانے کی دھمکی بھی دی ہے تاہم امریکہ نے یہ نہیں بتایا کہ ایران پر جو نئی پابندیاں لگائی جائیں گی وہ کیا ہوں گی۔ زاہد حسین نے کہا کہ ایران پر پہلے سے ہی امریکہ کی جانب سے بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں اور جو کمپنیاں ایران کے ساتھ تجارت کرنے کی کوشش کرتی ہیں ان پر بھی پابندی لگا دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ایران کو پہلے ہی بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت کسی بھی تنازعہ میں کسی کا بھی ساتھ نہیں دینا چاہیئے اور یہ پالیسی پاکستان کی پرانی پالیسی ہے، مفاہمت کی باتیں کرنے سے بھی پاکستان کو پرہیز کرنا چاہیئے، پاکستان دوسرے ملک کے کہنے پر اپنے فیصلے پر کھڑا نہیں رہ سکتا تو وہ کس طرح سے مفاہمت کرائے گا۔
سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت بہت ہی محتاط رویہ اختیار کرنا چاہیئے اور کسی قسم کی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے، فارن پالیسی انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور اداروں کو اپنا کام کرنا چاہیئے کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو پالیسی بیان پارلیمنٹ میں لانا چاہیئے جیسا کہ دنیا بھر میں ہوتا ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم پاکستان کی فارن پالیسی کہاں بنتی ہے جس کا وزارت داخلہ کو بھی معلوم نہیں ہوتا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب