زندگی کے بعد موت معین ہے، کسی بھی شخص کا موت سے فرار ممکن نہیں۔ موت وعدہ الہیٰ ہے اور قرآن پاک کے مطابق ہر ایک نفس کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔ اس دار فانی میں بے شمار افراد پیدا ہوتے ہیں اور پھر عمر عزیز گزار کر اپنی اصل منزل کی جانب چلے جاتے ہیں۔ عزیز و اقارب اپنے عزیز کے چلے جانے سے رنج و غم میں مبتلا ہوتے ہیں، لیکن یہ غم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ مگر دنیا میں بعض ایسی عظیم الشان شخصیات بھی پیدا ہوتی ہیں، جو روئے زمین پر اپنی معنویت، اخلاق اور انسانیت کے نقوش چھوڑ کر جاتے ہیں، جو ہر دلعزیز بن جاتے ہیں اور بےشمار انسانی نسلیں تا دیر ان شخصیات کے افکار، اخلاق و معنویت سے مستفید ہوتی رہتی ہیں۔ ان شخصیات کا چلے جانا کسی بڑے سانحے اور حادثے سے کم نہیں ہوتا، کیونکہ یہ عظیم المرتبت شخصیات خاص کمالات کی مالک ہوتی ہیں اور ان کے کمالات میں بیداری اور دینداری کا اہم کردار ہوتا ہے۔
ایسی ہی ایک عظیم شخصیت شہید قدس قاسم سلیمانی ؒہیں، جنہوں نے اکیسویں صدی کے طاغوت کو اپنے بلند افکار، عزم و حوصلے اور مردانہ وار طریقے سے للکارا۔ مزاحمت کے تفکرات کو قوی کرکے عالم بشریت کو ایک ایسے ناسور سے نجات دلا دی، جن کی شریانوں میں فرعونی، یزیدی اور طاغوتی خون گردش کر رہا تھا۔ توحید کے نام پر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے یا پھر مسلمانوں کی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے والے طاغوتی پیدوار ٹولے کو جہنم کا راستہ دکھایا۔ شہید قاسم سلیمانی ؒکے اوراق حیات عارفانہ، قائدانہ اور مجاہدانہ صفات سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی حیات اقدس کا ایک ایک پہلو مزاحمت اور روحانیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ان پہلوؤں کا تذکرہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ آپ کا الہیٰ وصیت نامہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سردار سلیمانی تقرب خدا کے ممتاز درجہ پر فائز تھے۔ تقرب خدا، خلوص نیت، شرافت، صداقت اور تقویٰ و پاکیزگی نے شہید کو کمال تک پہنچایا اور ان اوصاف نے شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنا دیا۔
قاسم سلیمانی ؒ فرد واحد نہیں تھے بلکہ ایک عہد اور ایک مکتب تھے، جس نے مردہ اور خفتہ ضمیر مسلمانوں کو جگا جگا کر ان میں مزاحمت کی نئی روح پھونک دی اور انہیں طاغوت کی ناپاک چالوں، منحوس منصوبوں اور خطرناک سازشوں سے آگاہ کیا، نہ فقط آگاہ کیا بلکہ ان میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا عنصر پیدا کرکے اسلامی دنیا پر آنے والی ایک بڑی آفت کو ٹال دیا۔ موجودہ صدی کی یہ عہد ساز شخصیت قوم کی تقدیر کا محافظ بن کر اٹھی۔ آپ کی تدبیروں، آپ کے افکار، آپ کی جوانمردی، آپ کے بلند و بالا حوصلے اور آپ کے صبر و رضا نے طوفانوں کے رخ موڑ کر امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگایا اور کربلا کی وہ خونین تاریخ دہرائی، جس میں یزید ملعون اور اس کے ہزاروں کارندے ظاہری جیت کے باوجود رسوا اور خوار ہوگئے۔ صفحہ ہستی سے جن کا نام و نشان تک مٹ گیا اور امام عالی مقام اور آپ کے باوفا اصحاب و انصار تا روز ابد زندہ و جاوید بن گئے، بلکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل بن گئے۔
شہید سلیمانی خداداد صلاحیتوں کے مالک ایک سماجی رہنماء، فوجی رہنماء، سیاست مدار اور دین شناس رہنماء تھے۔ قوم کے بے باک، نڈر اور جرائت مند نوجوانوں نے شہید سلیمانی ؒکی قیادت میں باطل کے خلاف جن جن محاذوں پر بندوقوں کے دھانے کھولے، وہاں فتح و نصرت نے ان کے قدم چومے۔ طاغوتی، صیہونی اور سامراجی طاقتوں نے دین ناب محمدیؐ اور ایران کے خلاف دنیا بھر خصوصاً مشرق وسطیٰ میں محاذ کھولے تھے، جس کے لئے داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی سینکڑوں تنظیموں کو وجود بھی بخشا گیا اور انہیں جدید ساز و سامان سے لیس کرکے ایران کا گھیراو کرنے کے لئے مڈل ایسٹ کے مختلف علاقوں میں بٹھایا گیا۔ شیطان بزرگ امریکہ، برطانیہ، غاصب صیہونی ریاست اور اس کے حواریوں نے ملاؤں اور مفتیوں کو بھی ڈالروں میں خریدا تھا۔ جنہوں نے اسلام کو بطور بدصورت اور متشدد چہرہ دکھانے کے لئے حربے اور ہتھکنڈے آزمائے، یہاں تک کہ زنا کو جہاد النکاح کا نام دیکر کر اس کو جائز قرار دیا۔
لیکن قاسم سلیمانیؒ جیسے مدبر قائد کے سامنے دشمن کی یہ تمام تدبیریں ایک ایک کرکے ناکام ہوگئیں۔ حاج قاسم خطے میں فکری اور انقلابی تحریک کو پروان چڑھا کر ایک ایسی تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کا شیطان بزرگ نے اپنی ناجائز اولاد کے ساتھ مل کر اور آل سعود کی مالی امداد سے آغاز کیا تھا۔ دہشتگردوں کو اپنے آقاؤں کے ہمراہ شام و عراق کے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ شکست اور ذلالت نے ان کا دامن نہ چھوڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے سب سے بڑے خونخوار دہشتگرد اور شیطان بزرگ کو افغانستان سے بھی بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ امریکہ جو کرہ ارض پر دہشتگردوں کی سب سے بڑی فیکٹری ہے، رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی مدبرانہ قیادت اور قاسم سلیمانیؒ کے مستحکم ارداوں کے آگے طاغوتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ شہادت کے بعد بھی سلیمانی کی تدبیریں ایک ایک کرکے اس ناسور پر آفتیں بن کر نازل ہو رہی ہیں اور یہی باعث بن رہا ہے کہ امریکہ کی چنگیزیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی ؒ کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی مذہبی، لسانی، قومی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر ترجمانی نہیں کی بلکہ انسانیت کی بقاء اور انسانیت کی آزادی کے خاطر دشمن کے خلاف ہر محاذ پر نکلے۔ شہید سلیمانی قومی یکجہتی، سماجی انصاف اور مساوات و اخوت کے قائل رہنماء تھے اور انہی بنیادوں پر اپنے تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند تھے۔ اتحاد بین المسلمین کیلئے شہید قدس نہ صرف کوشاں رہے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھائے، جن سے مسلم دنیا کا مزاحمتی خیمہ کلمہ لا الہ کے جھنڈے تلے یک جٹ ہوگیا اور یک زبان ہوکر مرگ بر اسرائیل مرگ بر دشمنان اسلام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس دہشتگرد پر میزائیلوں کی برسات کرتے رہے۔ آپ کی یہ خصوصیت اور اعتدال سب سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ شہید سلیمانی قدس شریف کی آزادی کے لئے بھی میدان محاذ پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے نکلے، ان کی عسکری رہنمائی کرتے تھے اور شام و عراق میں بھی میدان کارزار کے سپہ سالار بن کر دن رات بیدار رہتے تھے۔ مدافع حرمین بن کر آپ نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
نصرت الٰہی پر یقین رکھنے والے شہید قاسم سلیمانیؒ وہ نایاب عبقری شخصیت، دور اندیش مفکر اور نڈر مجاہد تھے، جنہوں نے رضائے رب اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، نہ صرف جنگ بلکہ ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امن و استحکام کے قیام میں بھی ایک مثبت کردار ادا کیا۔ کرمان سے کربلا تک کے سفر میں شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام اور انسانیت کی خدمت گزاری میں صرف ہوا۔ زندگی کے آخری سانس تک شہرت کی چکاچوند سے دور رہے، ریاکاری اور دکھاوے سے گریز کرتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے ولایت مداری میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی۔ شہید قاسم سلیمانی رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے لیے مالک اشتر کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ رہبر معظم انقلاب نے حاج قاسم سلیمانی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں زندہ شہید کے خطاب سے نوازا تھا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کے گھر جا کر افراد خانہ سے تعزیت کی اور اس موقع پر فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ نعمت حاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس عظیم نعمت کے حقدار تھے۔
حاج قاسم سلیمانی شہادت کے مشتاق تھے۔ آپ وصیت نامہ میں فرماتے ہیں کہ اے میرے مہربان خدا! میرا بدن بیمار ہو رہا ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص چالیس سال تیرے دروازے پر کھڑا ہوتا رہا ہے، آپ کیونکر اُسے قبول نہیں کریں گے۔؟ آج سے دو برس قبل 3 جنوری کو کرہ ارض کے سب سے بڑے سفاک اور خونخوار دہشتگرد امریکہ نے حاج قاسم سلیمانی کو ان کے دست راست، شہید ابو مہدی مہندس اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ڈرون حملے کے ذریعے شہید کر دیا۔ حاج قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا اصل مقصد خطے میں مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا تھا، لیکن قاسم سلیمانی کے شہادت کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کو واضح پیغام ملا کہ زندہ سلیمانی سے بڑھ کر شہید سلیمانی ؒ ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔ شہید سلیمانی ایک مکتب اور ایک نظریہ بن گئے، جو دشمن کی آنکھوں میں تا دیر کانٹے کی طرح کھٹکتا رہے گا۔
ایسی ہی ایک عظیم شخصیت شہید قدس قاسم سلیمانی ؒہیں، جنہوں نے اکیسویں صدی کے طاغوت کو اپنے بلند افکار، عزم و حوصلے اور مردانہ وار طریقے سے للکارا۔ مزاحمت کے تفکرات کو قوی کرکے عالم بشریت کو ایک ایسے ناسور سے نجات دلا دی، جن کی شریانوں میں فرعونی، یزیدی اور طاغوتی خون گردش کر رہا تھا۔ توحید کے نام پر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے یا پھر مسلمانوں کی صفوں میں دراڑیں پیدا کرنے والے طاغوتی پیدوار ٹولے کو جہنم کا راستہ دکھایا۔ شہید قاسم سلیمانی ؒکے اوراق حیات عارفانہ، قائدانہ اور مجاہدانہ صفات سے بھرے پڑے ہیں اور ان کی حیات اقدس کا ایک ایک پہلو مزاحمت اور روحانیت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ ان پہلوؤں کا تذکرہ سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ آپ کا الہیٰ وصیت نامہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ سردار سلیمانی تقرب خدا کے ممتاز درجہ پر فائز تھے۔ تقرب خدا، خلوص نیت، شرافت، صداقت اور تقویٰ و پاکیزگی نے شہید کو کمال تک پہنچایا اور ان اوصاف نے شہید کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ و جاوید بنا دیا۔
قاسم سلیمانی ؒ فرد واحد نہیں تھے بلکہ ایک عہد اور ایک مکتب تھے، جس نے مردہ اور خفتہ ضمیر مسلمانوں کو جگا جگا کر ان میں مزاحمت کی نئی روح پھونک دی اور انہیں طاغوت کی ناپاک چالوں، منحوس منصوبوں اور خطرناک سازشوں سے آگاہ کیا، نہ فقط آگاہ کیا بلکہ ان میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا عنصر پیدا کرکے اسلامی دنیا پر آنے والی ایک بڑی آفت کو ٹال دیا۔ موجودہ صدی کی یہ عہد ساز شخصیت قوم کی تقدیر کا محافظ بن کر اٹھی۔ آپ کی تدبیروں، آپ کے افکار، آپ کی جوانمردی، آپ کے بلند و بالا حوصلے اور آپ کے صبر و رضا نے طوفانوں کے رخ موڑ کر امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو کنارے لگایا اور کربلا کی وہ خونین تاریخ دہرائی، جس میں یزید ملعون اور اس کے ہزاروں کارندے ظاہری جیت کے باوجود رسوا اور خوار ہوگئے۔ صفحہ ہستی سے جن کا نام و نشان تک مٹ گیا اور امام عالی مقام اور آپ کے باوفا اصحاب و انصار تا روز ابد زندہ و جاوید بن گئے، بلکہ عالم بشریت کے لئے نمونہ عمل بن گئے۔
شہید سلیمانی خداداد صلاحیتوں کے مالک ایک سماجی رہنماء، فوجی رہنماء، سیاست مدار اور دین شناس رہنماء تھے۔ قوم کے بے باک، نڈر اور جرائت مند نوجوانوں نے شہید سلیمانی ؒکی قیادت میں باطل کے خلاف جن جن محاذوں پر بندوقوں کے دھانے کھولے، وہاں فتح و نصرت نے ان کے قدم چومے۔ طاغوتی، صیہونی اور سامراجی طاقتوں نے دین ناب محمدیؐ اور ایران کے خلاف دنیا بھر خصوصاً مشرق وسطیٰ میں محاذ کھولے تھے، جس کے لئے داعش اور النصرہ فرنٹ جیسی سینکڑوں تنظیموں کو وجود بھی بخشا گیا اور انہیں جدید ساز و سامان سے لیس کرکے ایران کا گھیراو کرنے کے لئے مڈل ایسٹ کے مختلف علاقوں میں بٹھایا گیا۔ شیطان بزرگ امریکہ، برطانیہ، غاصب صیہونی ریاست اور اس کے حواریوں نے ملاؤں اور مفتیوں کو بھی ڈالروں میں خریدا تھا۔ جنہوں نے اسلام کو بطور بدصورت اور متشدد چہرہ دکھانے کے لئے حربے اور ہتھکنڈے آزمائے، یہاں تک کہ زنا کو جہاد النکاح کا نام دیکر کر اس کو جائز قرار دیا۔
لیکن قاسم سلیمانیؒ جیسے مدبر قائد کے سامنے دشمن کی یہ تمام تدبیریں ایک ایک کرکے ناکام ہوگئیں۔ حاج قاسم خطے میں فکری اور انقلابی تحریک کو پروان چڑھا کر ایک ایسی تحریک کو نابود کرنے میں کامیاب ہوئے، جس کا شیطان بزرگ نے اپنی ناجائز اولاد کے ساتھ مل کر اور آل سعود کی مالی امداد سے آغاز کیا تھا۔ دہشتگردوں کو اپنے آقاؤں کے ہمراہ شام و عراق کے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی۔ شکست اور ذلالت نے ان کا دامن نہ چھوڑا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے سب سے بڑے خونخوار دہشتگرد اور شیطان بزرگ کو افغانستان سے بھی بوریا بستر گول کرنا پڑا۔ امریکہ جو کرہ ارض پر دہشتگردوں کی سب سے بڑی فیکٹری ہے، رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی مدبرانہ قیادت اور قاسم سلیمانیؒ کے مستحکم ارداوں کے آگے طاغوتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ شہادت کے بعد بھی سلیمانی کی تدبیریں ایک ایک کرکے اس ناسور پر آفتیں بن کر نازل ہو رہی ہیں اور یہی باعث بن رہا ہے کہ امریکہ کی چنگیزیت کا جنازہ نکل رہا ہے۔
شہید قاسم سلیمانی ؒ کی سب سے بڑی خوبی اور خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے کبھی بھی مذہبی، لسانی، قومی، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر ترجمانی نہیں کی بلکہ انسانیت کی بقاء اور انسانیت کی آزادی کے خاطر دشمن کے خلاف ہر محاذ پر نکلے۔ شہید سلیمانی قومی یکجہتی، سماجی انصاف اور مساوات و اخوت کے قائل رہنماء تھے اور انہی بنیادوں پر اپنے تعلقات استوار کرنے کے خواہشمند تھے۔ اتحاد بین المسلمین کیلئے شہید قدس نہ صرف کوشاں رہے بلکہ عملی طور پر ایسے اقدامات اٹھائے، جن سے مسلم دنیا کا مزاحمتی خیمہ کلمہ لا الہ کے جھنڈے تلے یک جٹ ہوگیا اور یک زبان ہوکر مرگ بر اسرائیل مرگ بر دشمنان اسلام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اس دہشتگرد پر میزائیلوں کی برسات کرتے رہے۔ آپ کی یہ خصوصیت اور اعتدال سب سے نمایاں اور ممتاز ہے۔ شہید سلیمانی قدس شریف کی آزادی کے لئے بھی میدان محاذ پر جوانوں کا حوصلہ بڑھانے نکلے، ان کی عسکری رہنمائی کرتے تھے اور شام و عراق میں بھی میدان کارزار کے سپہ سالار بن کر دن رات بیدار رہتے تھے۔ مدافع حرمین بن کر آپ نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔
نصرت الٰہی پر یقین رکھنے والے شہید قاسم سلیمانیؒ وہ نایاب عبقری شخصیت، دور اندیش مفکر اور نڈر مجاہد تھے، جنہوں نے رضائے رب اور خدمت خلق کے جذبے کے تحت میدان جنگ میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، نہ صرف جنگ بلکہ ہمیشہ علاقائی و عالمی سطح پر امن و استحکام کے قیام میں بھی ایک مثبت کردار ادا کیا۔ کرمان سے کربلا تک کے سفر میں شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اسلام اور انسانیت کی خدمت گزاری میں صرف ہوا۔ زندگی کے آخری سانس تک شہرت کی چکاچوند سے دور رہے، ریاکاری اور دکھاوے سے گریز کرتے تھے۔ شہید قاسم سلیمانی نے ولایت مداری میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ برتی۔ شہید قاسم سلیمانی رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے لیے مالک اشتر کی سی حیثیت رکھتے تھے۔ رہبر معظم انقلاب نے حاج قاسم سلیمانی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں زندہ شہید کے خطاب سے نوازا تھا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد ان کے گھر جا کر افراد خانہ سے تعزیت کی اور اس موقع پر فرمایا کہ شہید قاسم سلیمانی کا جہاد بہت عظیم تھا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی شہادت کو بھی عظیم شہادت قرار دیا، یہ نعمت حاج قاسم کو مبارک ہو، جو اس عظیم نعمت کے حقدار تھے۔
حاج قاسم سلیمانی شہادت کے مشتاق تھے۔ آپ وصیت نامہ میں فرماتے ہیں کہ اے میرے مہربان خدا! میرا بدن بیمار ہو رہا ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص چالیس سال تیرے دروازے پر کھڑا ہوتا رہا ہے، آپ کیونکر اُسے قبول نہیں کریں گے۔؟ آج سے دو برس قبل 3 جنوری کو کرہ ارض کے سب سے بڑے سفاک اور خونخوار دہشتگرد امریکہ نے حاج قاسم سلیمانی کو ان کے دست راست، شہید ابو مہدی مہندس اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب ڈرون حملے کے ذریعے شہید کر دیا۔ حاج قاسم سلیمانی کو شہید کرنے کا اصل مقصد خطے میں مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا تھا، لیکن قاسم سلیمانی کے شہادت کے بعد امریکہ اور اس کے حواریوں کو واضح پیغام ملا کہ زندہ سلیمانی سے بڑھ کر شہید سلیمانی ؒ ہر دل عزیز شخصیت بن گئے۔ شہید سلیمانی ایک مکتب اور ایک نظریہ بن گئے، جو دشمن کی آنکھوں میں تا دیر کانٹے کی طرح کھٹکتا رہے گا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب