ہمارے حاج قاسم زندہ ہیں!
ایرانی قوم کے عظیم ہیرو کی شہادت کی مناسبت سے کچھ سطریں
المختصر، ذلت اور رسوائی کی زندگی گزارنے کے بجائے عزت کی موت مرنے کو ترجیح دینا چاہئے۔ (عزت کی موت بہتر ذلت کی زندگی سے)
۱۳۹۸ھ،شمسی ماہ دی کی تیرہویں تاریخ کو جمعہ کورات ایک بجے امریکی سپر دہشت گردشیطانی حکومت کے مجرموں کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کے نتیجہ میں عراقی سرزمین یعنی حضرت علی اورامام حسین علیہما السلام کی زمین میں ایک عظیم الشان شخصیت کو شہید کر دیا کہ جن کی فضیلت اور مردانگی کی بلندیاں آسمان چھو رہی تھیں اور کہکشانوں تک بھی پہنچ چکی تھیں۔
قاسم سلیمانی سرزمینِ ایران (حضرت امام رضاعلیہ السلام اورحضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی سرزمین ) کے جنتی صحرا کے بیٹے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قدس فورس کے ہمیشگی بہادر کمانڈر، مظلوموں کی حمایت اورعظیم برصغیر کے مغربی محاذوں پر امریکی ۔عبرانی۔وہابی مثلث کے ہاتھوں پالے گئے دہشتگردوں کی ناک کو زمین پر رگڑنے کے مقصد سے خدا کی راہ میں پوری زندگی پیکار و جدوجہدکے بعدآخرکاربہادرانہ انداز میں منزل شہادت پر فائز ہو گئے۔
اس طرح کی عظیم شخصیت کے بارے میں لکھنا اتنا آسان نہیں ہےکہ جس کی فتوحات اور بہادری کی شہرت نے ایران کی سرحدوں کو پار کردیااور کرۂ ارض کے کونے کونے میں ظالموں و ستمگروں کے خلاف لڑنے میں مشہور و معروف بن چکے تھے۔
ایسےبہادر مجاہد کے غم میں کچھ لکھنا بہت مشکل کام ہے کہ سپاہِ قدس پرجس نے اپنی ۲۰ سالہ کمانڈرنگ کے دوران ایرانی عوام کے خدائی انقلاب کی ہزاروں میں سے صرف ایک خدمت، عالمی سطح پرمظلوموں کی امید بننا اور اس کے نتیجہ میں امریکہ کی حمایت یافتہ دہشت گرد حکومتوں ،زوال پذیر صیہونی حکومت اور اس کے وہابی۔ خلیجی اتحادی یعنی داعش کی صہیونی ، سفیانی خلافت کو اسلامی دنیا کے بنیادی خطے سے اس کے خطرناک و گھناؤنے منصوبوں کو ناکام بنانے میں پوشیدہ ہے، جی ہاں!اس طرح کی عظیم الشان شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا آسان کام نہیں ہے۔
ایرانی قوم کے کامیاب انقلاب کے عالمی کمانڈر کی شہادت کے بعد ان دردناک اورتکلیف دہ دنوں میں صرف اپنے وطن کے سوگوارلوگوں کی تسلی کے لئے ۔ ایک ایسا وطن جو مظلوم کشمیرکی وادی سے لے کرپاکستان سند کی وادی تک،وادی کابل، بامیان اور ہرات سے لے کربحیرہ عمان اوربحر خیلج ایران اورکوفہ ، سامراہ و نجف و کربلااور موصل سے لے کرتدمور، دیر الزور و دمشق و بیروت و بقاع اور اسی طرح جنوب لبنان سے لے کر بیت المقدس اور غزّہ ۔ تک پھیل گیا ۔ یہ کہنا کافی ہےکہ قاسم سلیمانی نہ صرف اخروی دینا میں بلکہ اس دنیا میں بھی ہمیشہ زندہ اورقائم ہیں۔
آج گزشتہ دنوں سے کہیں زیادہ سپاہِ ثاراللہ(ع)کے کمانڈراپنی دنیوی زندگی میں دشت عبّاس کی بلند پہاڑیوں اور کرخہ نور کے ساحل ، کشک اور سومرکی بلندیوں کے پیاسے صحرا اور کارون، ارونداورشبہ جزیرۂ فو اور دشتِ شلمچہ وغیرہ میں زندہ ہیں اورسرزمین فکّہ کے پھولوں میں ان کی سانسوں کی دھڑکنیں محسوس ہوتی ہیں۔
قدس فورس کے جنرل، آج مغربی ایشیاء کی مظلوم اقوام کی مکمل جدوجہدکے محوروں اورایک ایک کاروائی میں امریکی حمایت یافتہ بدنام زمانہ تکفیریوں کے خاتمے کے لئے عراقی عوامی مجاہدوں کی گرما گرم لڑائی میں ، شام کے بہادر محب وطن اور لبنانی مزاحمت میں ان کے انسداد دہشت گردی ساتھیوں کی جدوجہد، فاطمیوں، حیدریوں اور زینبیوں کی بہادرانہ لڑائی میں شامل ہیں اور ان کی مسلسل کامیابیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
یہ ان کی مقدس سانسیں ہیں جوزمین کےمظلوموں کی حمایت کی علامت کے طور پرحضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بہادر علمدار حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور اسی طرح امّ المصائب حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے بلند و سنہری گنبدوں کے اوپر لہراتے ہوئے پرچموں کی سرخی میں ڈھڑکتی ہیں اور اس کرۂ ارض پر حکمرانی کرنے والے تمام قابیلوں(ظالموں) کو للکار رہی ہیں کہ ہابیلوں(مظلوموں) کا پرچم اب بھی اسی طرح لہرا رہا ہے۔
ہمارے حاج قاسم، نُبُل اور الزہراء کے رنجیدہ اور یتیم بچوں کی ایک ایک مسکراہٹ میں آج بھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے حاج قاسم مغرب کی وحشیانہ تہذیب کے ہاتھوں پرورش پانے والے بدبخت انسانیت خواروں کی تلوارسے غمزدہ بیویوں، بہنوں اور ماؤں میں سے ہر ایک کے آنسوؤں کے ایک ایک قطرہ میں ہمیشہ بہتے اور جاری رہیں گے۔
ہمارے حاج قاسم، آج غزّہ کی پٹی اور دریائے اردن کے کنارہ کرانہ باختری میں اپنے شہید نوجوانوں کے غم میں بیٹھے ہوئے باپوں کی ٹھنڈی آہوں میں ، بندوقوں کے بٹن اور فلسطین کی مظلوم قوم کی مزاحمت کے میزائلوں کے لانچر بٹن پر دبی انگلیوں میں پہلےکی نسبت زیادہ مضبوطی سے حاضر ہیں۔
شیطان بزرگ کے دلدادہ چھوٹے اور بڑے مکار و گناہگار وں کو نسلِ انسانی کے اس عظیم غم پرخوشی منانے دو۔
قاسم سلیمانی ، ہمارے زمانےکے قبیلۂ انسانیت کی سالمیت کے لئے رنگ، زبان، صنف، مذہب اورآئین سے قطع نظر، اندھیرے میں بٹھکتی ہوئی کرۂ ارض پر”انسان ہونے” اور ” انسانی زندگی بسر کرنے” کے کلیدی کردارہیں۔
میڈیا کی دنیا میں جہاں سیٹلائٹز نے ہر طرف سے منہ کھولا ہوا ہے اور اس میں کسی جرم ۔ حتیٰ کہ مغربی ایشیاء کی مظلوم اقوام کی سپاہ مقدس کے عظیم جنرل کے قتل کی عظمت بھی۔کی اجازت نہیں ہے تاکہ اس خیالی جنت میں بسنے والے نظر انداز لوگوں کے امن کو پریشان کیا جائے کہ جس کی بنیاد زوال پذیر مغرب نے تمام زوال پذیر چیزوں پر رکھی ہے۔
“و سَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ”
ایرانی قوم کے عظیم ہیرو کی شہادت کی مناسبت سے کچھ سطریں
المختصر، ذلت اور رسوائی کی زندگی گزارنے کے بجائے عزت کی موت مرنے کو ترجیح دینا چاہئے۔ (عزت کی موت بہتر ذلت کی زندگی سے)
۱۳۹۸ھ،شمسی ماہ دی کی تیرہویں تاریخ کو جمعہ کورات ایک بجے امریکی سپر دہشت گردشیطانی حکومت کے مجرموں کی جانب سے داغے گئے میزائلوں کے نتیجہ میں عراقی سرزمین یعنی حضرت علی اورامام حسین علیہما السلام کی زمین میں ایک عظیم الشان شخصیت کو شہید کر دیا کہ جن کی فضیلت اور مردانگی کی بلندیاں آسمان چھو رہی تھیں اور کہکشانوں تک بھی پہنچ چکی تھیں۔
قاسم سلیمانی سرزمینِ ایران (حضرت امام رضاعلیہ السلام اورحضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی سرزمین ) کے جنتی صحرا کے بیٹے اور اسلامی جمہوریہ ایران کی قدس فورس کے ہمیشگی بہادر کمانڈر، مظلوموں کی حمایت اورعظیم برصغیر کے مغربی محاذوں پر امریکی ۔عبرانی۔وہابی مثلث کے ہاتھوں پالے گئے دہشتگردوں کی ناک کو زمین پر رگڑنے کے مقصد سے خدا کی راہ میں پوری زندگی پیکار و جدوجہدکے بعدآخرکاربہادرانہ انداز میں منزل شہادت پر فائز ہو گئے۔
اس طرح کی عظیم شخصیت کے بارے میں لکھنا اتنا آسان نہیں ہےکہ جس کی فتوحات اور بہادری کی شہرت نے ایران کی سرحدوں کو پار کردیااور کرۂ ارض کے کونے کونے میں ظالموں و ستمگروں کے خلاف لڑنے میں مشہور و معروف بن چکے تھے۔
ایسےبہادر مجاہد کے غم میں کچھ لکھنا بہت مشکل کام ہے کہ سپاہِ قدس پرجس نے اپنی ۲۰ سالہ کمانڈرنگ کے دوران ایرانی عوام کے خدائی انقلاب کی ہزاروں میں سے صرف ایک خدمت، عالمی سطح پرمظلوموں کی امید بننا اور اس کے نتیجہ میں امریکہ کی حمایت یافتہ دہشت گرد حکومتوں ،زوال پذیر صیہونی حکومت اور اس کے وہابی۔ خلیجی اتحادی یعنی داعش کی صہیونی ، سفیانی خلافت کو اسلامی دنیا کے بنیادی خطے سے اس کے خطرناک و گھناؤنے منصوبوں کو ناکام بنانے میں پوشیدہ ہے، جی ہاں!اس طرح کی عظیم الشان شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا آسان کام نہیں ہے۔
ایرانی قوم کے کامیاب انقلاب کے عالمی کمانڈر کی شہادت کے بعد ان دردناک اورتکلیف دہ دنوں میں صرف اپنے وطن کے سوگوارلوگوں کی تسلی کے لئے ۔ ایک ایسا وطن جو مظلوم کشمیرکی وادی سے لے کرپاکستان سند کی وادی تک،وادی کابل، بامیان اور ہرات سے لے کربحیرہ عمان اوربحر خیلج ایران اورکوفہ ، سامراہ و نجف و کربلااور موصل سے لے کرتدمور، دیر الزور و دمشق و بیروت و بقاع اور اسی طرح جنوب لبنان سے لے کر بیت المقدس اور غزّہ ۔ تک پھیل گیا ۔ یہ کہنا کافی ہےکہ قاسم سلیمانی نہ صرف اخروی دینا میں بلکہ اس دنیا میں بھی ہمیشہ زندہ اورقائم ہیں۔
آج گزشتہ دنوں سے کہیں زیادہ سپاہِ ثاراللہ(ع)کے کمانڈراپنی دنیوی زندگی میں دشت عبّاس کی بلند پہاڑیوں اور کرخہ نور کے ساحل ، کشک اور سومرکی بلندیوں کے پیاسے صحرا اور کارون، ارونداورشبہ جزیرۂ فو اور دشتِ شلمچہ وغیرہ میں زندہ ہیں اورسرزمین فکّہ کے پھولوں میں ان کی سانسوں کی دھڑکنیں محسوس ہوتی ہیں۔
قدس فورس کے جنرل، آج مغربی ایشیاء کی مظلوم اقوام کی مکمل جدوجہدکے محوروں اورایک ایک کاروائی میں امریکی حمایت یافتہ بدنام زمانہ تکفیریوں کے خاتمے کے لئے عراقی عوامی مجاہدوں کی گرما گرم لڑائی میں ، شام کے بہادر محب وطن اور لبنانی مزاحمت میں ان کے انسداد دہشت گردی ساتھیوں کی جدوجہد، فاطمیوں، حیدریوں اور زینبیوں کی بہادرانہ لڑائی میں شامل ہیں اور ان کی مسلسل کامیابیوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔
یہ ان کی مقدس سانسیں ہیں جوزمین کےمظلوموں کی حمایت کی علامت کے طور پرحضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بہادر علمدار حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور اسی طرح امّ المصائب حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے بلند و سنہری گنبدوں کے اوپر لہراتے ہوئے پرچموں کی سرخی میں ڈھڑکتی ہیں اور اس کرۂ ارض پر حکمرانی کرنے والے تمام قابیلوں(ظالموں) کو للکار رہی ہیں کہ ہابیلوں(مظلوموں) کا پرچم اب بھی اسی طرح لہرا رہا ہے۔
ہمارے حاج قاسم، نُبُل اور الزہراء کے رنجیدہ اور یتیم بچوں کی ایک ایک مسکراہٹ میں آج بھی زندہ ہیں اور سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے حاج قاسم مغرب کی وحشیانہ تہذیب کے ہاتھوں پرورش پانے والے بدبخت انسانیت خواروں کی تلوارسے غمزدہ بیویوں، بہنوں اور ماؤں میں سے ہر ایک کے آنسوؤں کے ایک ایک قطرہ میں ہمیشہ بہتے اور جاری رہیں گے۔
ہمارے حاج قاسم، آج غزّہ کی پٹی اور دریائے اردن کے کنارہ کرانہ باختری میں اپنے شہید نوجوانوں کے غم میں بیٹھے ہوئے باپوں کی ٹھنڈی آہوں میں ، بندوقوں کے بٹن اور فلسطین کی مظلوم قوم کی مزاحمت کے میزائلوں کے لانچر بٹن پر دبی انگلیوں میں پہلےکی نسبت زیادہ مضبوطی سے حاضر ہیں۔
شیطان بزرگ کے دلدادہ چھوٹے اور بڑے مکار و گناہگار وں کو نسلِ انسانی کے اس عظیم غم پرخوشی منانے دو۔
قاسم سلیمانی ، ہمارے زمانےکے قبیلۂ انسانیت کی سالمیت کے لئے رنگ، زبان، صنف، مذہب اورآئین سے قطع نظر، اندھیرے میں بٹھکتی ہوئی کرۂ ارض پر”انسان ہونے” اور ” انسانی زندگی بسر کرنے” کے کلیدی کردارہیں۔
میڈیا کی دنیا میں جہاں سیٹلائٹز نے ہر طرف سے منہ کھولا ہوا ہے اور اس میں کسی جرم ۔ حتیٰ کہ مغربی ایشیاء کی مظلوم اقوام کی سپاہ مقدس کے عظیم جنرل کے قتل کی عظمت بھی۔کی اجازت نہیں ہے تاکہ اس خیالی جنت میں بسنے والے نظر انداز لوگوں کے امن کو پریشان کیا جائے کہ جس کی بنیاد زوال پذیر مغرب نے تمام زوال پذیر چیزوں پر رکھی ہے۔
“و سَیعلَمُ الّذینَ ظَلَموا أَی مَنقَلَبٍ ینقَلِبونَ”
رائے
ارسال نظر برای این مطلب