مواد

همارا سامنا ایسے دشمن سے ہے جس کے ساتھ کسی بھی صورت میں صلح اور سمجھوتہ ممکن نہیں


Jan 10 2021
همارا سامنا ایسے دشمن سے ہے جس کے ساتھ کسی بھی صورت میں صلح اور سمجھوتہ ممکن نہیں
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سلام اور آداب عرض کرنے کے بعد ایام عزا کی مناسبت سے تعزیت پیش کرتا ہوں۔ دفتر حفظ و نشر آثار حضرت آیت اللہ خامنہ ای مختلف موضاعات کے بارے میں رہبر معظم کے نظریات کی تشریح اور توضیح کے لئے مختلف اداروں کے سربراہان اور مبصرین کی طرف رجوع کرتا ہے۔ لبنان اور اسرائیل کے درمیان رونما ہونے والی 33 روزہ جنگ اہم موضوعات میں سے ہے جس کے بارے میں حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ سے گفتگو ہوئی تھی۔ اس جنگ کی وجہ سے مشرق وسطی اور مقاومتی محاذ کے اندر بڑی تبدیلی رونما ہوئی۔ 33 روزہ جنگ کے دوران قدس فورس کے سربراہ کی حیثیت سے میدان جنگ میں ہونے کی وجہ سے آپ کا تبصرہ سننے کے لئے ہم حاضر ہوئے ہیں۔ البتہ یہ میڈیا کو آپ کا پہلا انٹرویو ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی انٹرویو نہیں دیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پہلے سوال کے طور 33 روزہ جنگ کے مقدمات پر تبصرہ کریں مخصوصا خطے کے دو ممالک عراق اور افغانستان میں امریکی موجودگی کے پانچ سال گزرنے کے بعد یہ جنگ رونما ہوئی تھی۔
 
میجر جنرل قاسم سلیمانی: بسم الله الرحمن الرحیم، الحمد لله رب العالمین، والصلاة والسلام علی رسول الله وعلی آله، الحمد لله الذی هدانا لهذا وما کنا لنهتدی لو لا أن هدانا الله.
 
السلام علیک یا أبا عبد الله وعلی الأرواح التی حلت بفنائک، علیکم منی جمیعاً سلام الله أبداً ما بقیت وبقی اللیل والنهار.
 
آپ کی خدمت میں عرض کروں کہ 33 روزہ جنگ کے کچھ مخفی اور پوشیدہ عوامل تھے جو اس جنگ کے حقیقی عوامل شمار کئے جاتے ہیں جن پر صہیونی حکومت مقررہ وقت پر عمل کرنا چاہتی تھی۔ بعض ظاہری عوامل تھے جو درحقیقت پوشیدہ عوامل کے لئے بہانہ تھے۔ دشمن کی جنگی تیاریوں کے بارے میں ہمارے پاس اطلاعات تھیں لیکن کسی اچانک ہونے والے حملے کے بارے میں ہمیں کوئی رپورٹ موصول نہیں ہوئی تھی۔ دو موضوعات پر تحقیق کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ اصل جنگ سے پہلے اچانک جنگ چھیڑکر حزب اللہ کو مفلوج کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ بہرحال یہ جنگ ایسے حالات میں رونما ہوئی جب خطے میں دو اہم واقعات رونما ہوچکے تھے؛ ایک کا پورے مشرق وسطی سے اور دوسرے کا اسرائیل سے تعلق تھا۔
 
نائن الیون کے بعد امریکہ نے فیصلہ کیا تھا کہ خطے میں تعیینات فوج کی تعداد میں وسیع پیمانے پر اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح کے حالات دوسری جنگ عظیم کے بعد بھی پیش آئے تھے۔ 1991 میں صدام کی جانب سے کویت پر حملے کے بعد امریکہ نے فوجی کاروائی کی جو بعد میں امریکی فوج کے قیام پر منتج ہوئی۔ گیارہ ستمبر کے بعد امریکہ کی طرف سے ہونے والی دو بڑی فوجی کاروائیوں کی وجہ سے چالیس فیصد امریکی فوج مشرق وسطی میں داخل ہوگئی۔ بعد میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے نیشنل گارڈز اور رزرو فوج کو بھی احتیاطی تدابیر کے طور پر لایا گیا جس سے 60 فیصد سے زائد امریکی فوجی خطے میں تعیینات کئے گئے بنابراین اتنی بڑی تعداد میں امریکی سپاہی ہمارے خطے میں موجود تھے۔ عراق میں ڈیڑھ لاکھ فوجی تعیینات تھے۔ افغانستان میں کولیشن فورس کے 15 ہزار جوانوں کے علاوہ 30 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود تھے پس دو لاکھ تربیت یافتہ فوجی ہمارے خطے میں فلسطین کے نزدیک موجود تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کی موجودگی سے اسرائیل کو موقع ملا تھا۔ عراق میں امریکہ کی موجودگی اور شام میں بغاوت دمشق اور ایران کے لئے خطرہ تھا۔
 
2006 میں ہونے والی 33 روزہ جنگ کے دوران عراق مقاومتی بلاک کے لئے رابطہ پل کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس ملک میں تقریبا 2 لاکھ امریکی فوجی، سینکڑوں جنگی جہاز، ہیلی کاپٹرز اور بکتربند گاڑیوں کی موجودگی ایران کے لئے خوف کی علامت اور شام کو روکنے کا بہترین وسیلہ تھا جس کی وجہ سے دونوں ممالک فوجی کاروائی کرنے سے قاصر تھے۔ بش کی زیرقیادت وائٹ ہاوس میں قائم تندمزاج اور فوری فیصلہ کرنے والی حکومت کی ساری ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ تھیں اسی لئے اس طرح کے اقدام کے لئے بہترین موقع میسر تھا۔ سرائیل کی طرف سے خطے میں امریکی فوج کی موجودگی سے فائدہ اٹھانے کا بنیادی سبب صدام کے سقوط سے فائدہ لینا، افغانستان میں امریکہ کو ملنے والی ابتدائی کامیابیوں اور خطے میں ایجاد ہونے والے امریکی رعب و دبدبے جس کی بنیاد پر امریکی پالیسی کی مخالفت کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا تھا، اس کی آڑ میں اپنے مقاصد حاصل کرنا تھا۔ صہیونی حکومت کے خیال میں یہ 2000 میں حزب اللہ کے ہاتھوں اسرائیل کو ہونے والی شکست کا بدلہ لینے اور لبنان پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لئے ایک جنگ کا بہترین موقع تھا۔
 
اب دوبارہ لبنان کی آبادی کا تناسب بدلنے کے موضوع پر آتا ہوں؛ جنگ کی ابتدا میں معلوم ہوا تھا کہ جنوبی لبنان میں موجود عوامی فورس کا حزب اللہ سے مذہبی رشتہ ہے، ان کو شام سے نکالا جائے جس طرح 1967 میں فلسطینیوں کے ساتھ جنوبی لبنان میں کیا گیا؛ فلسطینیوں کو جنوبی لبنان سے نکال کر شام، مراکش اور دوسرے عرب ممالک میں خیموں میں بسایا گیا۔ یاسر عرفات کو ل
 
بنان سے اپنا دفتر تیونس اور مراکش منتقل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اسی طرح جنوبی لبنان میں شیعوں کے ساتھ سلوک کرنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ موضوع کو مکمل کرنے کے لئے اب میں جنگ کے ایام کی بات کرتا ہوں۔
 
 
 
جنوبی لبنان کے عوام کے بارے میں صدر بش کی توہین آمیز گفتگو
جنگ کے ابتدائی ایام میں صدر بش نے جنوبی لبنان کے عوام کے بارے میں نہایت توہین آمیز بات کی۔ مائیکروفون آن تھا۔ یہ جملہ صدر بش کے لئے ہی مناسب ہے۔ میں اس کو تکرار کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ جنگ کا نتیجہ کونڈالیزا رائس نے شائستہ انداز میں بیان کیا ہے کہ جنوبی لبنان میں ہونے والے قتل عام، آہ و زاری اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے والی بمباری سے قانا کا واقعہ پس منظر میں چلاگیا۔ انہوں نے ایسا جملہ استعمال کیا تھا جس کو بعد میں خارج کیا گیا یعنی انہوں نے اس آہ و زاری کو توہین آمیز طریقے سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ نئے مشرق وسطی کی پیدائش کی آواز ہے۔ بے گناہ بچوں اور عورتوں کی آہ و بکا کو وضع حمل کے دوران عورت کی آواز سے تشبیہ دی گئی۔ پس ایک بڑا اور وسیع منصوبہ تشکیل دیا گیا تھا۔ اسرائیل کے بارے میں بات یہ ہے کہ اس نے بڑے کیمپ کا منصوبہ بنایا تھا۔ شروع میں فلسطین کے اندر تقریبا 30 ہزار افراد کو اس میں منتقل کرنے کا منصوبہ تھا۔ دوسرے مرحلے میں عام افراد کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنا تھا جبکہ ان کی نظر میں مجرم قرار پانے والوں یا حزب اللہ سے تعلق رکھنے والوں کو گرفتار کرنا تھا۔ لوگوں کو لانے والی کشتی روانگی کے لئے تیار تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس جنگ میں ٹیکنالوجی کو انتہائی مہارت اور دقت کے ساتھ استعمال کیا گیا یعنی ایک مخصوص گروہ کو ہدف بنایا گیا۔
 
جنگ کے تین پوشیدہ اہداف
شروع میں حزب اللہ تک محدود کرنے کی کوشش کی گئی بعد میں جنوبی لبنان کے تمام شیعوں کو شامل کیا گیا تاکہ پورے جنوبی لبنان کی آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جائے بنابراین اس جنگ کے پوشیدہ اہداف میں سے ایک یہی تھا چنانچہ ایہود اولمرٹ اور اسرائیلی فوج کے سربراہ نے اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ ان کے مطابق اچانک حملے کا منصوبہ بنایا گیا تھا کہ اگر کامیابی ہوتی تو جنگ کے پہلے مرحلے میں ہی فضائی حملے کے ذریعے حزب اللہ کے بنیادی اثاثے تباہ ہوجاتے اور جنگ کے اگلے مراحل میں بقیہ حصوں کو ختم کرنا تھا۔ اس جنگ کی بنیاد عراق اور افغانستان میں امریکہ کی بھرپور موجودگی، عرب ممالک کی اسرائیل کے لئے پس پردہ حمایت اور جنوبی لبنان سے حزب اللہ سمیت شیعہ جماعتوں کی ریشہ کنی تھی۔ یہی باتیں ایہود اولمرٹ نے کہی تھیں۔ انہوں (اولمرٹ) نے کہا تھا کہ پہلی مرتبہ تمام عرب ممالک البتہ تمام ممالک سے مراد اکثریت ہے۔ اکثر خلیجی ممالک اسرائیل کے حامی تھے جس میں مصر بھی شامل تھا۔ کچھ ممالک اس فہرست میں شامل نہیں تھے کیونکہ عراق میں مقامی حکومت نہیں تھی بلکہ امریکی فوجی آمر بریمر حاکم تھے پس عملی طور پر حکومت امریکہ کے ہاتھ میں تھی۔ شام میں حافظ الاسد کی موت کے بعد نئی حکومت تھی لہذا تمام سے مراد اکثر ممالک ہے۔ اولمرٹ نے کہا تھا کہ پہلی مرتبہ کسی عرب تنظیم کے خلاف جنگ میں اسرائیل کو عرب ممالک کی حمایت حاصل تھی جوکہ ایک حقیقت ہے۔
 
 
بنابراین ہمیں تین چیزوں کو مدنظر رکھنا ہوگا پہلی بات یہ کہ خطے میں امریکہ کی موجودگی، عراق میں امریکی حکومت اور بڑی تعداد میں فوج تعیینات ہونے کی وجہ سے خطے میں امریکی رعب و دبدبہ، دوسری بات حزب اللہ کی ریشہ کنی اور جنوبی لبنان سے شیعہ آبادی کو ختم کرنے کے لئے عرب ممالک کا اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعاون اور تیسری بات صہیونی ریاست کا حزب اللہ کو ختم کرنے کے لئے اس فرصت سے استفادہ کرنا، یہ 33 روزہ جنگ کے تین پوشیدہ اور مخفی اہداف تھے جنہوں نے اس جنگ میں بنیادی کردار ادا کیا۔
 
سوال: جنگ کے مخفی اہداف کی توضیح کے بعد ظاہری اہداف پر تھوڑی روشنی ڈالیں
قاسم سلیمانی: ظاہری وجوہات میں ایک مسئلہ یہ تھا کہ حزب اللہ نے لبنانی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اسرائیل کی جیلوں سے لبنانی جوانوں کو آزاد کرایا جائے گا۔ حزب اللہ کے علاوہ کوئی اور طاقت اس وعدے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتی تھی۔ حسن نصراللہ نے ایک بیان میں وعدہ کیا تھا کہ ہم اسرائیلی قید سے لبنانی جوانوں کو آزاد کرانے کے وعدے پر قائم ہیں۔ لبنان کے دروزی، مسلمان اور مسیحی عوام کے پاس حزب اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے۔ اسرائیل کی وحشی حکومت کو روکنے اور لبنانی قوم کو دفاع کرنے کے لئے بہترین سہارا حزب اللہ تھی۔ ماضی میں ہونے والے قیدیوں کے تبادلوں میں اسرائیل بعض نوجوانوں کی رہائی پر آمادہ نہیں ہوا تھا۔ زندانوں میں طویل عرصہ گزارنے کی وجہ سے یہ جوان بڑھاپے میں قدم رکھ چکے تھے۔ حزب اللہ نے یہ وعدہ کیا اور پہلے تبادلے میں عملی نہ ہوسکا یا اسرائیل ان قیدیوں کو آزاد کرنے پر راضی نہ ہوا اسی لئے حزب اللہ نے اپنے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے کامیاب کاروائی کی۔ ایک مخصوص ٹیم کی نگرانی میں خصوصی کاروائی انجام دی گئی۔
 
شہید عماد مغنیہ میدان جنگ میں مالک اشتر سے بہت شباہت رکھتے تھے۔ آج کل فوجی اصطلاح میں دو کلمے بہت معروف ہوئے ہیں؛ سردار اور امیر۔ در حقیقت شہید عماد مغنیہ حقیقی معنوں میں ایک سردار اور کمانڈر تھے۔ ان کو جنگی امور میں مالک اشتر سے تشبیہ دے سکتا ہوں۔ ان کی شہادت کے بعد وہی حالت طاری ہوگئی جو جناب مالک اشتر کی شہادت سے حضرت امیر المومنین علیہ السلام پر طاری ہوگئی تھی۔ البتہ یہ ان باتوں کے بارے میں گفتگو کا مقام نہیں ہے، مالک کی شہادت کے بعد امام علی علیہ السلام ممبر پر گئے اور فرمایا: مالک کو کوئی کیا پہچان سکتا ہے۔ واللہ اگر وہ پہاڑ ہوتا تو سب سے بلند تر ہوتا۔ اور اگرپتھر ہوتا تو سب سے زیادہ سخت تر ہوتا۔ اس کی بلندیوں کو نہ کوئی سم روند سکتا ہے اور نہ وہاں کوئی پرندہ پرواز کرسکتا ہے۔ اس کے بعد یہ جملہ بہت اہم تھا جس میں فرمایا کہ مالک میرے لئے ایسے تھے جیسے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تھا۔ عماد مغنیہ کے بارے میں آج کے زمانے میں رائج اصطلاحات سے بڑھ کر کہہ سکتا ہوں اور ان کے بارے میں وہی جملہ ادا کروں گا جو حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے مالک اشتر کے بارے میں فرمایا تھا کہ عورتوں کو مالک جیسا بیٹا پیدا کرنے کے لئے متعدد مرتبہ بچہ جننا ہوگا۔
 
عماد ایسی شخصیت کے مالک تھے۔ سخت ترین امور ان کے ذمے تھے۔ اس مخصوص آپریشن کی نگرانی ان کے حوالے کی گئی تھی۔ انہوں نے انتہائی قریب سے کمانڈنگ کی۔ انہوں نے فلسطین کے اندر گھس کر اسرائیلی فوجی گاڑی پر کامیاب حملہ کیا اور اس کے اندر سے دو زخمیوں کو گرفتار کرلیا۔ اس موقع پر درحقیقت تین امور انجام دیئے گئے؛ پہلا آپریشن کا نقشہ کھینچنا، دوسرا اسرائیل  کی جانب سے بچھائی گئی وسیع اور گھنے خاردار تار کو عبور کرنا۔ اس آپریشن کا  ہدف فقط دشمن پر حملہ کرکے نقصان پہنچانا اور بھاگنا نہیں تھا بلکہ فوجیوں کو زندہ گرفتار کرنا مقصد تھا بنابراین ہر مرحلے پر احتیاط کی ضرورت تھی۔ حملے میں دشمن کے فوجیوں کو مارنے کے بجائے زخمی کرنا ہدف تھا۔ حملے کے فورا بعد گرفتار شدگان کو دشمن کے علاقے سے باحفاظت اغوا کرنا تھا۔ دشمن فوری حرکت میں آکر زمینی حملہ کرسکتا تھا؛ فضائی حملہ اس سے بھی زیادہ اور تیزی سے ہوسکتا تھا۔ تیسرا حفاظت کے ساتھ جلدی سے کسی پرامن مقام تک مغویوں کو پہنچانا تھا۔
 
سوال: اس بہانے سے یہ جنگ رونما ہوئی اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملے کئے گئے۔ حملوں کے جواب میں حزب اللہ کا ابتدائی ردعمل کیا اور کیسا تھا جبکہ اسرائیل نے حزب اللہ کی طرف سے فوجیوں کے اغوا کو بہانہ بنایا تھا؟
قاسم سلیمانی: دو نکات کی طرف اشارہ کرتا ہوں؛ پہلا نکتہ یہ کہ حزب اللہ کا سامنا ایسے دشمن سے ہے جس کے ساتھ کسی بھی صورت میں صلح اور سمجھوتہ ممکن نہیں۔ حزب اللہ اور اسرائیل دونوں سیاسی اور اعتقادی لحاظ سے اس بات سے بخوبی واقف ہیں بنابراین یہ دشمنی ہمیشہ رہے گی۔ ایسے دشمن سے روبرو ہونے کی وجہ سے حزب اللہ ہمیشہ دفاع کے لئے تیار رہتی ہے۔ اس حملے سے قطع نظر حزب اللہ آمادہ تھی۔ جنگی امور میں حزب اللہ پہلے سے آمادہ تھی اس جنگ اور اس سے حاصل ہونے والے تجربات کی روشنی میں کچھ اور امور میں بھی حزب اللہ ہوشیار ہوگئی ہے۔ آج بھی حزب اللہ انتہائی چوکس ہے۔ حزب اللہ کے لئے بالترتیب تیس فیصد آمادگی، ستر فیصد آمادگی اور اس کے بعد سو فیصد آمادگی کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ یہ تنظیم ہمیشہ سو فیصد آمادہ رہتی ہے البتہ زمانے اور حالات کے مطابق آمادگی کی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔
 
دوسرا نکتہ یہ کہ حزب اللہ کوئی بھی کاروائی کرنے سے پہلے اس کے مقدمات کو انجام دیتی ہے بنابراین جب فیصلہ کیا گیا کہ قیدیوں کا تبادلہ انجام دینے کے لئے اسرائیلی فوجیوں کو قیدی بنایا جائے گا تو پہلے مکمل چوکس ہوگئی۔ یہ تیاری اور آمادگی دو صورتوں پر مشتمل تھی؛ پہلی یہ کہ دشمن کی طرف سے متوقع جوابی کاروائیوں سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ دشمن کی طرف سے حملے کے ابتدائی لمحات میں حزب اللہ کے ٹھکانوں اور اثاثوں کی اطلاعات فضائیہ کے حوالے کی گئی۔ اسرائیلی طیاروں نے ان اطلاعات کے مطابق مختلف مقامات کو نشانہ بنایا لیکن حزب اللہ کی جانب سے احتیاطی تدابیر کی وجہ سے انسانی اور غیر انسانی وسائل کو بہت کم نقصان پہنچا بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ ابتدائی حملوں میں کچھ بھی نقصان نہیں ہوا۔ دشمن نے دس روز بعد اعتراف کیا کہ ہماری اطلاعات کے مطابق اہداف پورے ہوگئے ہیں یعنی حزب اللہ کے تمام اہم مقامات کو ہدف بنایا گیا ہے لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ سب کچھ دشمن کی توقع اور تصور کے برعکس ہوا کیونکہ حزب اللہ کی  جانب سے احتیاطی تدابیر کی وجہ سے کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ہمارے تجربات کے مطابق دشمن نے اس سے پہلے ابتدائی لمحات میں ہی کبھی اتنی وسیع کاروائی نہیں کی تھی۔ معمولا شروع میں مخصوص مقامات اور اہداف کو نشانہ بنایا جاتا تھا لیکن اس جنگ میں مخفیانہ انجام دینے والے منصوبوں کو ایک ساتھ عملی جامہ پہنایا گیا۔ مخفیانہ ہونے کی وجہ بعد میں بیان کروں گا۔ ہم تقریبا دو ہفتے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ دشمن نے پہلے سے حکمت عملی مرتب کرلی تھی اور اچانک اس کو انجام دینا چاہتا تھا۔ دشمن کے بیانات کے مطابق ہم نے یہی سمجھ لیا تھا بنابراین یہ جنگ مختصر وقت میں وسیع جنگ میں بدل گئی۔ ایک ایسی جنگ جس میں بڑی مقدار میں جمع دہماکہ خیز مواد بیک وقت پھٹ جاتا ہے۔ اس 33 روزہ جنگ کے دوران ایسا ہی ہوا۔
 
میں جنگ سے ایک دن پہلے لبنان سے شام گیا تھا پھر جنگ کے پہلے دن ہی شام سے لبنان پہنچا۔ تمام راستے حملوں کی زد میں تھے۔ شام سے لبنان جانے والی سرحدی گزرگاہوں پر مسلسل فضائی حملے ہورہے تھے۔ مخصوص اور پرامن وسائل کے ذریعے لبنان میں اپنے دوستوں سے رابطہ کیا۔ عماد آئے اور مجھے غیر معروف راستے سے لبنان لے گئے۔ ہم نے آدھا راستہ پیدل اور آدھا گاڑی میں طے کیا۔ اس وقت زیادہ تر جنوبی لبنان اور بعض اوقات شمالی اور وسطی لبنان میں موجود حزب اللہ کے ٹھکانے اور اثاثے ہی حملوں کے مرکزی اہداف تھے۔ پہلے ہفتے کے دوران تہران سے تاکید کی گئی کہ جنگ کے بارے میں بریفنگ دینے حاضر ہوجاوں۔ ایک مخصوص راستے سے ایران پہنچا۔ رہبر معظم مشہد میں تھے۔ ان کی خدمت میں پہنچا۔ اس میٹنگ میں مقننہ، مجریہ اور عدلیہ کے سربراہان کے علاوہ نیشنل سیکورٹی کونسل کے اعلی عہدیدار مدعو تھے۔ میں نے جنگ کے بارے میں بریفنگ دی جو تلخ اور مایوس کن تھی یعنی میرے مشاہدات سے کامیابی کے بجائے دوسرا رخ سامنے آرہا تھا۔ یہ جنگ جدید ٹیکنالوجی کے بل بوتے پر لڑی جارہی تھی۔ بارہ منزلہ عمارتیں ایک ہی حملے میں زمین بوس ہورہی تھیں۔ اہداف کو انتہائی دقت کے ساتھ نشانہ بنایا جارہا تھا۔ ایک دیہات کا دوسرے سے بہت کم فاصلہ تھا اس لئے کسی ایک دیہات کو توپخانے کے ذریعے ایک دیہات کو نشانہ بنانا بہت مشکل کام تھا۔ اس وقت جنگ کا ہدف حزب اللہ کے بجائے پوری شیعہ قوم تھی۔ شیعہ نشین دیہات سنی نشین یا مسیحی نشین دیہاتوں سے مختلف تھی۔ ایک جگہ ایک نفر تمباکو نوشی میں مصروف تھا اسی وقت ہزاروں گولے آسمان سے گرتے تھے۔
 
رہبر معظم  نے فرمایا کہ میں سمجھ گیا؛ بریفنگ ختم ہوگئی؟ میں نے کہا نہیں۔ سب نے نماز پڑھ لی اور میٹنگ میں دوبارہ حاضر ہوئے۔ میری رپورٹ ختم ہونے کے بعد رہبر معظم نے گفتگو کی اور فرمایا کہ فلان کی بریفنگ جنگ کا حصہ ہے۔ جنگ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ یہ ایک سخت اور شدید جنگ ہے۔ میرے خیال میں اس کو جنگ خندق سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ جنگ خندق کی آیات کو پڑھیں تو اس جنگ پر صدق آتی ہے۔ رہبر معظم نے ان آیات کی تلاوت کی۔ مسلمانوں اور اصحاب رسول کی حالت اور جنگ کے دوران پیدا ہونے والی صورتحال کو بیان کیا۔ پھر فرمایا میں خیال کرتا ہوں کہ اس جنگ میں بھی خندق کی طرح ہمیں فتح نصیب ہوگی۔  مجھے جھٹکا سا لگا کیونکہ فوجی قوانین کے مطابق اس طرح کا نتیجہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ میں نے تمنا کی کہ کاش رہبر معظم اس طرح بیان نہ کرتے۔ اس کے بعد مزید دو نکات کی طرف اشارہ کیا۔ مجھے رہبر معظم کے حضور 20 سال بیٹھنے کے بعد یقین ہوا ہے جو اپنے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ تقوی اختیار کرنے کے بعد انسان کے دل، زبان اور عقل سے حکمت کے چشمے جاری ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کو میں نے رہبر معظم کے وجود میں پوری طرح مشاہدہ کرلیا ہے۔ اب جس چیز میں بھی شک ہوجائے، اطمینان ہوجاتا ہے کہ آخر میں کوئی قابل اطمینان حل نکل آئے گا۔
رہبر معظم نے فرمایا کہ میرے خیال میں اسرائیل نے پہلے ہی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ حزب اللہ کو غفلت میں ڈال کر اچانک اس پر عمل کرنا تھا۔ حزب اللہ نے دو فوجیوں کو گرفتار کرکے اس منصوبے کو برملا کردیا ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت ہم میں سے کسی کو اس کی خبر نہیں تھی۔ ان کی یہ بات میرے لئے باعث اطمینان تھی کیونکہ یہ جملہ سید کے لئے انتہائی اطمینان اور سکون کا باعث تھا۔ شہداء کی تعداد بڑھنے لگی۔ نقصانات میں اضافہ ہونے لگا۔ رہبر کے بیانات سے مجھ پر بہت اثر ہورہا تھا جو میں بیان نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اسرائیلی فوجی اغوا کرنے کی وجہ سے حزب اللہ کی سرزنش  کرسکتے تھے کیونکہ پوری شیعہ قوم خطرے میں پڑگئی تھی۔ لیکن در حقیقت حزب اللہ نے فوجیوں کو اغوا کرکے نہ فقط خود کو بلکہ پوری لبنانی قوم کو نجات دی تھی۔  یہ بات بہت اطمینان بخش تھی۔ تیسرا نکتہ جس کی طرف رہبر معظم نے اشارہ کیا اس میں روحانی اور معنوی پہلو نمایاں تھا۔ آپ نے فرمایا ان کو دعائے جوشن صغیر پڑھنے کی تاکید کریں۔ شیعوں میں دعائے جوشن کبیر معروف ہے لیکن جوشن صغیر زیادہ مشہور نہیں ہے۔ آپ نے بعد میں وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ کوئی خیال نہ کرے کہ یہ دعائے جوشن صغیر کیا ہے مثلا بعض کہتے ہیں کہ چار مرتبہ قل ھو اللہ پڑھیں یا سورہ حمد پڑھیں مشکل حل ہوجائے گی۔ دعائے جوشن صغیر ایک مجبور اور مشکلات سے دوچار انسان کی اندرونی کیفیات پر مشتمل ہے جو خدا سے گفتگو کرنا چاہتا ہے۔
 
میں اسی روز تہران واپس آیا اور شام چلا گیا لیکن بہت بہتر محسوس کررہا تھا کیونکہ اپنے وجود کے اندر ایسی کیفیت محسوس کررہا تھا جو سید حسن نصراللہ کے لئے ہر چیز سے زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ عماد میرے پاس آئے اور دوبارہ اسی راستے لبنان گئے۔ میں سید حسن کے پاس گیا اور پوری داستان ان کو سنادی۔ ان کلمات نے سب سے زیادہ سید کا حوصلہ بڑھایا۔ ان کی ایک خصوصیت یہ ہے جس میں ان کا کوئی ثانی نہیں اور میں سوچتا ہوں کہ ولایت کو ان سے سیکھنا چاہئے وہ رہبر معظم کی باتوں پر دل سے یقین رکھتے ہیں۔ وہ ان کے بیانات کو الہی اور غیبی بیانات سمجھتے ہیں لہذا رہبر معظم کی ہر بات کو بہت اہمیت اور توجہ سے سنتے ہیں۔ میں نے وضاحت کے ساتھ مسئلے کو بیان کیا۔ رہبر معظم کی جانب سے اس جنگ خندق سے تشبیہ دینے اور فتح کی خوشخبری کو سننے کے  بعد مجاہدین میں خوشی لہر دوڑ گئی دوسری بات یہ کہ دشمن کی جانب سے پہلے سے ہی اس جنگ کی حکمت عملی طے کی گئی تھی جس سے حزب اللہ کی کاروائی کو معقول توجیہ مل گئی۔ تیسری بات یہ کہ رہبر معظم کے پیغام کے بعد بہترین عرفانی اور معنوی مفاہیم پر مشتمل دعائے جوشن صغیر کی تلاوت رائج ہوگئی۔ المنار ٹی وی چینل سے دعائے جوشن صغیر کی محفلوں کو لائیو نشر کیا گیا۔ عیسائی عبادتگاہوں میں بھی یہ دعا پڑھی گئی کیونکہ عرفانی دعا ہونے کی وجہ سے ایک فرقے سے مختص نہیں ہے بلکہ خدا کی عبادت پر یقین رکھنے والوں کے لئے یکساں طور پر موثر ہے۔ اس سے جنگ کا نیا مرحلہ شروع ہوا گویا حزب اللہ کے اندر نئی روح پھونک دی گئی اور نئے جوش اور اعتماد کے ساتھ میدان میں آگئی۔ میں جنگ کے شروع سے آخر تک لبنان میں رہا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد تہران میں رہبر معظم کے حضور اعلی حکام کی میٹنگ تھی۔ اس سے پہلے مخصوص وسائل سے جنگ کی خبریں تہران بھیجتا تھا۔
 
 
سوال: ایران کے اندر جنگ کے بارے میں کیا ردعمل پایا جاتا تھا؟ کیا اعلی حکام کے درمیان اس مسئلے پر کوئی اختلاف رائ پایا جاتا تھا؟
قاسم سلیمانی: نہیں؛ اس مسئلے پر کوئی اختلاف نہیں تھا؛ حزب اللہ کی ہر ممکن اخلاقی اور مادی حمایت پر سب متفق تھے۔ جنگ کے دوران میں خود موجود تھا۔ حزب اللہ کی حمایت اور کامیابی کے لئے پوری قوم مدد کرنے پر متحد تھی۔ عالم اسلام اور ایران کے وسیع مفاد میں حزب اللہ کی حمایت کی پشت پر رہبر معظم تھے بنابراین کوئی اختلاف نہیں تھا۔ آج بھی حزب اللہ کے بارے میں تمام طبقوں میں نظریاتی اتحاد پایا جاتا ہے۔
 
سوال: 33 روزہ جنگ کے دوران ہونے والے کاروائیوں کے بارے میں گفتگو کم ہوئی ہے۔ ابھی تک اسرائیل کے بارے میں معلومات جیسے موضوعات ہی زیربحث آئے ہیں۔ میدان جنگ میں فعال کردار کرنے کی وجہ سے آپ کی زبانی حزب اللہ کی کاروائیوں کے بارے میں کچھ سننا چاہتے ہیں۔
قاسم سلیمانی: دیکھیں اب بھی جنگ کے بارے میں کچھ موضوعات ہیں جن پر گفتگو نہیں کی جاسکتی ہے۔ تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی اس جنگ کے کچھ اسرار حزب اللہ کے پاس راز کے طور پر رہنا چاہئے۔ البتہ بعض امور پر گفتگو کی جاسکتی ہے جو کہ مفید بھی ہے۔ چند اہم نکات کی طرف توجہ کیجئے۔ میں کچھ واقعات بھی بیان کروں گا۔ درحقیقت حزب اللہ کے پاس ضاحیہ کے علاقے میں ایک آپریشن روم تھا جس کے اردگرد عمارتوں پر مسلسل حملے ہوتے تھے۔ ہر رات بارہ سے پندرہ منزلوں پر مشتمل عمارتیں بمباری سے مکمل تباہ ہوجاتی تھیں۔ ایک دفعہ رات کو تمام اعلی حکام آپریشن روم میں موجود تھے۔ آپریشن روم تہہ خانے میں نہیں تھا بلکہ معمولی کمرہ تھا۔ اس میں رابطے کا کام انجام دینے کے لئے بعض سہولتیں فراہم کی گئی تھیں جس سے مختلف مقامات سے براہ راست رابطہ کیا جاتا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ ہمارے اردگرد موجود عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا۔ رات گیارہ بجے مجھے محسوس ہوا کہ سید حسن نصراللہ کے لئے کوئی بڑا خطرہ درپیش ہے۔ سید کو کسی جگہ منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ میں اور عماد مغنیہ نے مشورہ کیا۔ سید آپریشن روم کو چھوڑنے کے لئے بہت مشکل سے آمادہ ہوتے تھے۔ ہم ضاحیہ کے علاقے سے باہر نکلنا نہیں چاہتے تھے کیونکہ عمارت میں مشکوک رفت و آمد دیکھ کر دشمن کے ڈرون طیارے مسلسل پرواز کررہے تھے۔ چھوٹی اور معمولی چیز کو بھی مکمل نگرانی میں رکھتے تھے بنابراین رات کے بارہ بجے ہم عمارت کو بدلنا چاہتے تھے۔
 
ضاحیہ کا علاقہ اتنا سنسان تھا کہ زندگی کا کوئی نام و نشان نہیں تھا۔ اس علاقے میں موجود حزب اللہ کے مرکز سے سید کو کسی دوسری عمارت میں منتقل کرنا تھا۔ دونوں عمارتوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ نئی عمارت میں داخل ہوتے قریبی مکانات پر دوبارہ بمباری شروع ہوگئی۔ ہم نے تھوڑی دیر صبر کیا کیونکہ رابطے کے لئے پرامن وسیلہ موجود تھا۔ سید اور عماد کے درمیان رابطہ برقرار رہنا ضروری تھا۔ تیسری مرتبہ حملہ ہوا جس میں قریب میں موجود پل کو نشانہ بنایا گیا ایسا لگتا تھا کہ تیسرا ٹارگٹ بھی موجود ہے جو ممکنہ طور پر وہی عمارت ہوسکتی ہے جس میں ہم تینوں موجود تھے چنانچہ عمارت سے نکلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ہم تینوں پیدل باہر نکل گئے۔ ہر طرف تاریکی تھی۔ فضا میں موجود اسرائیلی طیارے زمین پر طاری خاموشی کو توڑ رہے تھے۔ میں فوجی لباس میں تھا جس کے نیچے عوامی لباس پہنا ہوا تھا۔ عماد نے کہا آپ دونوں درخت کے نیچے بیٹھ جائیں۔ رات کا وقت تھا پھر بھی نگاہوں سے بچنے کے لئے درخت کے سایے میں بیٹھنے کو کہا۔ اگرچہ دشمن کی نظروں سے بچنا بہت مشکل تھا کیونکہ ایم کا ڈرون طیارے انسانی جسم کی حرارت کو تشخیص کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بہرحال ہم سایے میں بیٹھ گئے۔ اس موقع پر مجھے سید کی بے  کسی دیکھ کر حضرت مسلم بن عقیل کا واقعہ یاد آیا۔ عماد گئے اور فورا ایک گاڑی لے آئے۔ میں عماد کی زیادہ تعریف کروں تو ڈر لگتا ہے کہ کل کی طرح پروگرام خراب ہوجائے گا۔
 
وہ منصوبہ سازی میں بے مثال تھے۔ جب گاڑی پہنچی تو اس وقت بھی ڈرون طیارے ہمارے سروں پر محو پرواز تھے۔ طیاروں نے گاڑی پر توجہ مرکوز کرلی۔ ظاہر ہے ان طیاروں کے ذریعے اطلاعات کو فوری طور تل ابیب بھیجا جاتا تھا جہاں سے آپریشن روم میں تعیینات اہلکار فیصلے کرتے تھے۔ اس دوران ہمیں وقت ملا اور گاڑیوں اور دوسرے وسائل کے ذریعے جن کا ذکر مناسب نہیں سمجھتا، ہم ایک تہہ خانے سے دوسرے میں منتقل ہوئے۔
 
اس طرح ہم نے دشمن کو چکمہ دیا اور بچنے میں کامیاب ہوئے۔ رات کے اڑھائی بجے دوبارہ آپریشن روم میں آگئے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ معمولا جنگوں میں انتہائی سرعت سے کام لیا جاتا ہے۔ مجھے جنگوں میں کام کرنے کا چالیس سالہ تجربہ ہے کہ ابتدائی فرصت میں ہی کام انجام دیا جاتا ہے۔ جنگ کے ہر مرحلے پر حزب اللہ نیا حربہ استعمال کرتے ہوئے دشمن کو چکمہ دیتی جس سے دشمن پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی۔ حزب اللہ ایک ہی مقام اور مرحلے پر تمام وسائل کو بروئے کار نہیں لاتی تھی۔ اس حوالے سید ایک جملہ استعمال کرتے جس سے دشمن پر شدید خوف طاری ہوجاتا تھا۔
 
مرحلہ وار آگے بڑھتے تھے۔ پہلے فرمایا: حیفا کا مرحلہ؛ پھر فرمایا حیفا کے بعد کا مرحلہ؛ اسی طرح دشمن کو سمجھانے کے لئے بیانات دیتے تھے۔ ہر نئے مرحلے میں جدید اسلحہ سامنے لایا جاتا تھا۔ دشمن کو متاثر کرنے کے لئے پوری قوت سے حملہ کیا جاتا تھا۔ اس طرح دشمن کو یقین ہوگیا کہ 2006 میں حزب اللہ جنگ کا دائرہ تل ابیب تک بڑھانے کی طاقت رکھتی ہے۔ حزب اللہ کو فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ اعصابی برتری بھی حاصل تھی۔ دشمن کو جغرافیائی طور پر مشکلات سے دوچار کرنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی طور پر بھی پریشان کردیتی تھی۔
 
وسائل کو استعمال کرنے کے بارے میں دشمن کو توقع تھی کہ شروع کے حملوں میں ہی حزب اللہ کا دفاعی نظام تباہ کردیا گیا ہے یا بہت کمزور ہوگیا ہے۔ کسی بھی وقت اعلان ممکن تھا کہ حزب اللہ کے پاس میزائل طاقت ختم ہوگئی ہے لیکن حزب اللہ نے پہلے سے زیادہ شدید میزائل حملے کئے۔
 
میزائل فائر کرنا آسان کام نہیں تھا کیونکہ فضا سے باریک بینی کے ساتھ نگرانی کی جارہی تھی۔ زمین پر دشمن کے بھاری توپ خانے کی وجہ سے حرکت کرنا بہت مشکل تھا۔ ان حالات میں حزب اللہ کے جوانوں کا اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلنا، نقصان سے بچتے ہوئے دشمن کو ہدف بنانا اور دوبارہ پرامن مقام پر منتقل ہونا نہایت مشکل کام تھا۔ 2000 میں جنوبی لبنان سے اسرائیل کے انخلا سے لے کر 2006 تک سخت ٹریننگ کی وجہ سے حزب اللہ کے جوانوں کے اندر ایسی کاروائیاں کرنے کی صلاحیت آگئی تھی۔ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے نام سے منسوب ٹریننگ کے اس پروگرام کو عماد مغنیہ نے ترتیب دیا تھا۔ انہوں نے انتہائی دقت اور باریک بینی سے دشمن کے ساتھ مقابلہ کرنے کا گر سکھایا تھا۔ عام جنگوں میں حفاظتی دیوار یا اگلے محاذوں پر دشمن کو روکنے کے لئے حفاظتی بند باندھا جاتا ہے۔ حزب اللہ کے پاس اس قسم کا کوئی نظام نہیں تھا۔ ہر جگہ اور ہر محاذ پر دشمن کی طرف سے حملے کا امکان تھا لہذا کوئی بھی مکان یا جگہ پرامن نہیں تھی۔ آپ دیکھیں دشمن نے کس طرح حرکت کی۔ بعض مقامات پر دشمن حرکت سے عاجز آئے اور دیہاتوں اور شہروں میں داخل نہ ہوسکے عیتا الشعب جیسی دیہاتوں میں براہ راست داخل نہ ہوسکے اسی لئے لیطانی کی طرف سے داخل ہونا چاہا۔ اسی مقام پر دشمن کو شکست فاش دی گئی۔
 
اس جنگ کے دوران حزب اللہ نے اسرائیل پر ایسا وار کیا جو خندق میں حضرت علی علیہ السلام کی طرف سے عمر بن عبدود پر ہونے والے وار سے شباہت رکھتا ہے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہ ضربت ثقلین کی عبادت سے افضل ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اسلام کو نجات ملی تھی۔ حزب اللہ نے اسرائیل پر ایسے وار کئے جس سے اسرائیل کا پورا منصوبہ ناکام ہوگیا۔ ان میں سے ایک اسرائیلی بحریہ پر حملہ تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ جنوب سے رابطے کے لئے ایک مواصلاتی راستہ ہے جو مدیترانہ اور صیدا وغیرہ سے گزرتا ہے۔ گذشتہ جنگوں کے دوران اسرائیلی کشتیاں سمندر میں ٹھہرتی اور دقت کے ساتھ گولے برساکر ان راستوں کو بند کرتی تھیں۔ اس جنگ کے دوران بھی شروع میں ہی یہ کام انجام دیا گیا۔ حزب اللہ کے بحری میزائلوں نے اسرائیل کو توقع سے بالاتر فریب دیا۔ ان میزائلوں کو پہلی مرتبہ اس جنگ کے دوران استعمال کرنا تھا البتہ اس سے پہلے کبھی ان کا تجربہ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ یہ میزائل خفیہ رکھے گئے تھے اسی لئے کسی خفیہ مقام سے باریک بینی کے ساتھ کاروائی کی ضرورت تھی۔ کسی خفیہ مقام سے خارج ہوکر فائرنگ کے لئے موزون مقام پر آنا ضروری تھا۔ اسرائیل کی کئی کشتیان سامنے کھڑی تھیں۔ سید اور عماد کے درمیان اسی بات پر اتفاق ہوا تھا۔ ان دنوں سید کے زخمی ہونے کی افواہ پھیل گئی تھی جس سے عوام کے درمیان شدید بے چینی پائی جاتی تھی اسی لئے سید کا بیان جاری ہونا ضروری تھا۔ اس ہفتے میں دشمن کو برتری حاصل تھی۔ ہم نے میزائل فائر کرنے کے علاوہ کوئی قابل ذکر کاروائی انجام نہیں دی تھی لہذا اس طرح کی کاروائی لازمی ہوچکی تھی۔ کئی مرتبہ میزائل کو تیار کرکے لانچنگ پیڈ پر لایا گیا لیکن سید کا خطاب اس میزائل کے فائر کرنے کے وقت میں آڑے آرہا تھا۔ سید براہ راست خطاب کرنا چاہتے تھے۔ سید کا خطاب کسی کمرے میں ریکارڈ کروانا تھا۔ میرے ساتھ عماد مغنیہ اور دوسرے دوست بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑائی جاری تھی۔ میزائل فائر ہونے میں تاخیر ہورہی تھی۔ سید کے خطاب کا وقت شروع ہوا۔ انہوں نے کہا سلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ۔ سید کا اصل خطاب شروع ہونے سے پہلے میزائل فائر کیا گیا۔ میزائل کی رفتار آواز سے بھی زیادہ ہونے کی وجہ سے فورا ہدف کو جالگا اسی لئے سید نے اپنے خطاب کے آخر میں غیبی خبر دینے کے انداز میں کہا کہ آپ اس وقت اسرائیلی کشتی سے آگ کے شعلے بلند ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ یہ جملہ اسی وقت کہا گیا جب اسرائیلی کشتی کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا تھا یہ اپنی نوعیت کا ایک معجزہ تھا۔ حالانکہ کشتی میں جیمر سسٹم تھا۔ حملہ آور میزائل کا رخ موڑنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جدید میزائل شکن نظام نصب تھا لیکن ان تمام سہولیات کے باوجود میزائل نے کشتی کو نشانہ بنالیا۔ کشتی دو ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ اس کے بعد جنگ کے آخر تک کوئی اسرائیلی کشتی سمندر میں نہیں دیکھی گئی یعنی ایک میزائل سے اسرائیلی بحریہ کو مفلوج کردیا گیا۔
 
البتہ یہاں اسرائیلی دفاعی نظام کے بارے میں بحث کی جاسکتی ہے یعنی ایک میزائل سے اسرائیل بحریہ میدان چھوڑ کر جاتی ہے۔ اگلی دفعہ اگرچہ کئی کشتیاں آجائیں تو مختلف رینج کے میزائل فائر کرکے انہیں میدان جنگ سے فرار کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔ یہ کامیابی کسی معجزے سے کم نہ تھی یعنی اسرائیلی حملوں سے متاثر اور ہجرت کرنے پر مجبور لبنانی عوام اس خبر کے سننے پر اللہ اکبر کا نعرہ لگانے لگے۔ حزب اللہ نے اس مرتبہ بھی اسرائیل کو حیرت میں ڈالا اس طرح جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ اسرائیل ان حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے صحرائے خیام اور لیطانی کی طرف عقب نشینی پر مجبور ہوا۔
 
ستائیسواں اور اٹھائیسواں دن بہت سخت دن تھے۔ میں اور عماد ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ پہلے ہم دونوں ساتھ رہتے اور رات کو سید کے ساتھ میٹنگ کرتے تھے۔ مخصوص راستے سے ہم دونوں سید کے پاس پہنچے۔ ملاقات کے دوران عماد نے جنگ کے بارے میں بریفنگ دی۔ سید مختلف فیصلے کرتے تھے۔ 33 روزہ جنگ کے دوران یہ سب سے زیادہ سخت ترین اور دشوارترین دن تھے۔ بعض واقعات کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ عماد نے نیا نقشہ کھینچا جو کہ بہت موثر تھا۔ اگر اس کا موازنہ رہبر معظم کے بیان اور خوشخبری سے کروں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس قدر اس نقشے کی اہمیت تھی۔ دشمن کے ساتھ مختلف محاذوں پر برسرپیکار مجاہدین کی جانب سے سید کے نام لکھا گیا خط بہت ہی عجیب تھا۔ جب خط سنایا جارہا تھا عماد بلند آواز میں گریہ کررہا تھا۔ جو بھی سنتا تھا روپڑتا تھا۔ سب سے زیادہ اہم سید کا جواب تھا۔ اس خط کو کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی مدد اور دفاع کے لئے اصحاب کے اشعار سے تشبیہ دی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مجاہدین کی تعریف اور تمجید میں سید کے بیانات کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے فرمودات سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔
 
یہ دونوں باتیں غیبی اور موثر ثابت ہوئی۔ میدان میں برسرپیکار مجاہدین پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا اور ان کا حوصلہ بلند ہوا۔ اس کے بعد جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ اگر نشر کریں تو یہاں ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ہر سننے والے سے میری درخواست ہے کہ اس طرح کے مناظر ہم نے دفاع مقدس کے دوران بہت دیکھے تھے۔ ایک زمانے میں ہم شلمچہ میں تھے اور آپریشن کرنا چاہتے تھے۔ اس سے پہلے کربلا پانچ نامی آپریشن کا مرحلہ درپیش تھا۔ اس سے ڈیڑھ سال پہلے ہم نے دشمن کی نظروں سے بچنے کے لئے مخصوص افراد کو تعیینات کیا تھا۔ ہمارے سامنے پانی تھا۔ اس دن صادقی اور موسایی پور کے نام سے دو بچے سراغ رسانی کے لئے گئے لیکن واپس نہیں آئے۔ ایک دوست تھا جو مدرسے کا طالب علم اور نہایت ہی عارف تھا۔ عرفان میں اس کی طرح کے بہت کم لوگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کئی سال ریاضت کے بعد لوگ اس مقام پر پہنچتے ہیں۔ اس لڑکے نے مجھ سے رابطہ کیا۔ میں اہوازمیں تھا۔ اس نے کہا میں واپس آیا ہوں لیکن موسائی پور اور صادقی واپس نہیں آئے۔ میں بہت پریشان ہوا کیونکہ کاروائی سے پہلے ہی دشمن نے ہمارے بندوں کو گرفتار کرلیا تھا۔ آپریشن ناکام ہوگئی تھی۔ میں نے غصے کے عالم میں یہ باتیں کیں۔ اس دن میں نے وہاں قیام کیا اس کے بعد واپس آیا۔ دو روز بعد مجھ سے دوبارہ رابطہ کرکے بلایا۔ میں گیا۔ اس نوجوان نے کہا کہ کل اکبر موسائی پور واپس آئے گا۔
 
اس نوجوان کا نام حسین تھا۔ میں نے حسین کہہ کر ایسا لفظ بولا جو ابھی تکرار نہیں کرنا چاہئے۔ کہا حسین ایک مسکراہٹ کے ساتھ ہونٹ کو حرکت دیتا تھا۔ غلام حسین کا بیٹا حسین ایک گرانقدر استاد تھا۔ اس کے والدین بھی اساتذہ تھے۔ نوجوانی میں درس دیتا تھا۔ یونٹ میں کئی دوستوں کا نام حسین تھا لیکن حسین آقا کے نام سے فقط وہی معروف تھا۔ اس نے کہا کہ کل موسائی پور واپس آئے گا اور اس کے بعد صادقی بھی آئے گا۔ میں نے کہا کیسے کہتے ہو؟ کہا آپ بس یہیں رکیں۔ میں اسی جگہ رک گیا۔ دوپہر ایک بجے کا ٹائم تھا۔ ہم نے بوری کے ذریعے ڈھانپ کر مورچے میں کیمرا نصب کررکھا تھا۔ ہمارے ساتھی نگرانی کررہے تھے۔ کہنے لگے پانی پر کوئی سیاہ چیز تیر رہی ہے۔ میں نے کھڑے ہوکر اچھی طرح دیکھا تو پانی میں سیاہ چیز لیٹی نظر آئی۔ ساتھیوں نے پانی میں اترکر دیکھا تو اکبر تھا۔ اگلے دن صادقی کو بھی ہم نے نکال لیا۔ دونوں شہید ہوچکے تھے۔ عجیب بات یہ تھی کہ دریا کی پرتلاطم موجوں نے اسی جگہ دونوں لاشوں کو باہر نکالا جہاں سے یہ روانہ ہوئے تھے۔ میں نے حسین سے دوبارہ پوچھا تجھے کیسے پتہ چلا؟ کہا میں نے کل رات اکبر موسائی پور کو خواب میں دیکھا تھا۔ اکبر نے مجھ سے کہا کہ حسین! ہم دشمن کے ہاتھوں گرفتار نہیں بلکہ شہید ہوچکے ہیں۔ میں کل فلاں ٹائم پر واپس آوں گا اور صادقی دوسرے دن آئے گا۔ اس کے بعد حسین نے مجھ سے ایک جملہ کہا جو بہت اہم ہے؛ کہنے لگا اکبر نے مجھ سے بات کی لیکن صادقی نے کچھ  نہیں کہا؛ آپ جانتے ہو ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کہا: نہیں۔ کہنے لگا کہ موسائی پور میں دو اچھی صفات تھیں؛ پہلی بات وہ شادی شدہ تھا اور دوسری یہ کہ پانی میں بھی اس کی نماز شب قضا نہیں ہوئی۔ اس وجہ سے انہوں نے خواب میں مجھ سے بات کی تھی۔ البتہ بعد میں حسین بھی شہید ہوگیا۔
 
33 روزہ جنگ کے واقعات کی طرف آنا چاہتا تھا۔ جنگ کے سخت ایام میں جنوبی لبنان میں متعین حزب اللہ سے تعلق رکھنے والا ایک بہت ہی دین دار ساتھی تھا۔ ان دنوں جنگ کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ ایک خاتون آئی جس کے ساتھ دو اور خواتین بھی تھیں۔ میں ان کے پاوں کی طرف گیا۔ مجھے خواب میں محسوس ہوا کہ یہ خاتون حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہماری حالت دیکھئے۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ میں نے کہا: نہیں؛ میں خود کو ان تک پہنچانے پر اصرار کررہا تھا۔ میں کوشش کررہا تھا کہ ان سے کوئی چیز لے لوں۔ اس خاتون نے دوبارہ کہا کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ خاتون نے چادر سے ایک رومال نکالا اور ہلاتے ہوئے کہا کہ حل ہوگیا۔
 
کچھ ہی دیر بعد میزائل سے اسرائیلی ہیلی کاپٹر کو گرایا گیا اس کے بعد اسرائیلی کی عقب نشینی شروع ہوگئی یعنی ٹینکوں پر حملے ہونے لگے۔ اس طرح تازہ دور شروع ہوا۔ جدید میزائلوں کی رونمائی ہوئی۔ پہلی مرتبہ آبرامس ٹینک؛ معذرت پہلی مرتبہ سات میرکاو ٹینکوں کو ایک ہی دن میں کو تباہ کیا گیا۔ حمد آل خلیفہ قطر کے وزیراعظم کی حیثیت سے ثالثی کے لئے ان دنوں لبنان آتے رہتے تھے۔ انہوں نے  کہا کہ شروع میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی شدید مخالفت کی جارہی تھی چنانچہ انہوں نے اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے بارے میں مایوسی کا بھی اظہار کیا تھا۔ حمد آل خلیفہ نے کہا کہ میں اپنے گھر میں آرام کررہا تھا؛ جان بولٹن سراسیمہ مجھے ڈھونڈنے آئے اور پریشانی کے عالم میں کہا: کہاں ہو؟ میں نے کہا: کیا ہوا؟ کہا: اقوام متحدہ چلتے ہیں۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ اسرائیلی سفیر پریشانی اور اضطراب کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ دونوں نے مجھ سے کہا کہ اگر فوری طور پر جنگ بندی نہ ہوئی تو اسرائیلی فوج بکھر جائے گی۔ اس طرح جنگ بندی کے لئے پیش کردہ تمام سابقہ شرائط کو نظر انداز کرتے ہوئے حزب اللہ کی شرائط قبول کرنے پر آمادہ ہوئے۔ بالاخر جنگ بندی پر متفق ہوئے جوکہ نہ فقط حزب اللہ کے لئے بہت بڑی فتح تھی بلکہ اس سے لبنان پر قبضے کا اسرائیلی خواب بھی چکنا چور ہوگیا۔ البتہ اسرائیل اپنے وہم و خیال میں یہ خواب آج بھی دیکھ رہا ہے۔
 
اس جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کے جارحانہ عزائم کے سامنے حزب اللہ کی استقامت کا چرچا ہونے لگا بلکہ 33 روزہ جنگ کے بعد بن گوریان کی جانب سے پیش کردہ جارحانہ حملے کا تصور دفاعی حکمت عملی میں بدل گیا چنانچہ آپ نے دیکھا کہ چند ہفتے پہلے حزب اللہ نے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی دہمکی دی اور دو شہداء کا انتقام لینے کے لئے اسرائیل کے مرکز کے نہایت قریب جاکر تین سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر حملہ کیا۔ المیادین چینل کے رپورٹر نے خاردار تار کی دوسری طرف سے خبر دیتے ہوئے کہ میں اس وقت فلسطین کی سرحد کے اندر ہوں۔
 
سوال: آج کل ہم ایام دفاع مقدس منارہے ہیں؛ مقاومتی بلاک پر دفاع مقدس کے اثرات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
قاسم سلیمانی: دیکھیں اگر آپ تاریخ اسلام میں پیش آنے والے واقعات کا مطالعہ کریں؛ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کی۔ جب آپ کوئی نصیحت کرتے؛ خط لکھتے؛ خطبہ دیتے تو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو بنیاد قرار دیتے ہوئے قدم اٹھاتے تھے۔ اسی طرح حضرت اباعبداللہ حسین علیہ السلام نے اپنے نانا اور بابا کی سیرت کو بنیاد قرار دیا اور عینی شاہد کے طور پر ان کی پیروی کی۔ ہمارے دفاع مقدس کی حیثیت بھی یہی ہے یعنی دوسرے تمام دفاع مقدس اور مقاومتی بلاک کی جنگوں کے لئے محور اور نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگرچہ دعوی نہیں کرسکتے کہ دفاع مقدس نہ ہوتا تو میرا مطلب یہ ہے کہ دفاع مقدس کے دوران معنوی اور روحانی موضوعات اپنی بہترین شکل میں سامنے آئے۔ دینی تبلیغ، عبادی اور اعتقادی موضوعات اور ایثار و قربانی کے جذبات کا اعلی ترین پیمانے پر مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ مختلف عہدوں اور مراتب پر فائز افراد کے درمیان انتظامی امور پر اچھے روابط سامنے آئے۔ بجاطور پر اسلام کے ابتدائی دور سے اس کا مقایسہ کرسکتے ہیں بنابراین دفاع مقدس ان تمام مقدس جنگوں کے درمیان چوٹی کی مانند ہے۔ دوسری جنگیں اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ آپ دیکھیں البرز کا پہاڑی سلسلہ ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ لمبا ہے لیکن اس کی اصل پہچان دماوند کی چوٹی ہے کیونکہ سب سے اونچا حصہ دماوند ہے؛ دفاع مقدس بھی باقی جنگوں کے مقابلے میں دماوند کی چوٹی کی مانند ہے۔ دفاع مقدس اور دیگر جنگوں کے درمیان موازنہ کریں تو یہی مثال دے سکتے ہیں۔
و صلی اللہ علی محمد و آل محمد


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب