امریکی صدر کے بیانات پر جنرل سلیمانی کا سخت ردعمل
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کا اس دھمکی آمیز ٹویٹ پر ردعمل جس میں امریکی صدر نے ایرانی صدر حسن روحانی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے شائع کی تھی اور مغربی میڈیا نے اس پر خصوصی توجہ دی تھی۔ انہوں نے ٹرمپ کی دھمکی آمیز الفاظ کو میکدے میں استعمال ہونے والے الفاظ سے تشبیہ دے کر پکارا تھا اور انہوں نے خطے میں امریکی شکستوں اور ڈر کے مارے امریکی فوجیوں کی جانب سے ڈائپر پہننے کو یاد کرتے ہوئے امریکی فوج کو ایران کے خلاف جنگ میں حصہ لینے سے ناتواں قرار دیا۔
امریکی فوجی اور “پانچویں ستون ” نامی میگزین کے ایڈیٹر جسٹن کنگ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی غلطی اور جنرل سلیمانی کے رد عمل نے امریکی عوام کو حیران کردیا۔ وہ امریکی فوجیوں کی جانب سے ڈائپر کے استعمال کی توثیق کرتے ہوئے قدس فورس کے کمانڈر کی باتوں کو بہت مودبانہ باتیں کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنرل سلیمانی نے جیسے کہا ہے وہ ایک حقیقی سپاہی ہیں۔
جسٹن کنگ نے کہا: زیادہ تر لوگ سمجھ رہے ہیں کہ جنرل سلیمانی کا ردعمل ڈونلڈ ٹرمپ کی توہین اور بے احترامی ہے۔ انہوں نے دنیا کے سب سے طاقتور فرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صدر کو آپ کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے ، اور میں قوم کے سپاہی کی حیثیت سے تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور تمہیں جواب دوں گا۔ ان باتوں نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ امریکیوں کو عادت نہیں کہ کوئی شخص ان کے ملکی صدر سے اس طرح کی بات کرے۔
انہوں نے مزید کہا:جنرل سلیمانی کا خطاب امریکہ میں بہت زیادہ مورد توجہ قرار اپایا۔ لیکن فوجیوں کے ڈائپز پہننے کے بارے میں کہیں اشارہ نہیں ہوا تاہم وہ چیز جس نے بہت سے ذرائع ابلاغ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا وہ یہ حصہ تھا جس میں انہوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں تمہارا حریف ہوں اور مسلح افواج اور دوسروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا حصہ جو لوگوں کے لئے اور میڈیا میں دلچسپ تھا وہ جنرل کی وہ باتیں تھیں جس میں انہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکی ناکامی کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ امریکہ کو عراق اور افغانستان میں جس فوجی طاقت کا سامنا ہے ایران کی فوجی طاقت اس سے بہت مختلف ہے۔
امریکہ میں جنرل سلیمانی کے خطاب کی عکاسی کے بارے میں جسٹن نے کہا: امریکہ میں ان کے خطاب کی بڑے پیمانے پر عکاسی ہوئی ہے۔ امریکی عوام عراق اور افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے تھے۔ صورتحال تبدیل نہیں ہوئی ہے اور بہت سے امریکی نئی جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ فوج کے مقابل میں ایران ہے۔ میری نظر میں جنرل سلیمانی نے صحیح وقت پر صحیح کام انجام دیا۔ انہوں نے ایسے انداز میں بات کی کہ جس میں ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں ایران اور اس کے عہدیداروں کے مہذب چہروں کی عکاسی کی گئی ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کا اس دھمکی آمیز ٹویٹ پر ردعمل جس میں امریکی صدر نے ایرانی صدر حسن روحانی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے شائع کی تھی اور مغربی میڈیا نے اس پر خصوصی توجہ دی تھی۔ انہوں نے ٹرمپ کی دھمکی آمیز الفاظ کو میکدے میں استعمال ہونے والے الفاظ سے تشبیہ دے کر پکارا تھا اور انہوں نے خطے میں امریکی شکستوں اور ڈر کے مارے امریکی فوجیوں کی جانب سے ڈائپر پہننے کو یاد کرتے ہوئے امریکی فوج کو ایران کے خلاف جنگ میں حصہ لینے سے ناتواں قرار دیا۔
امریکی فوجی اور “پانچویں ستون ” نامی میگزین کے ایڈیٹر جسٹن کنگ کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی غلطی اور جنرل سلیمانی کے رد عمل نے امریکی عوام کو حیران کردیا۔ وہ امریکی فوجیوں کی جانب سے ڈائپر کے استعمال کی توثیق کرتے ہوئے قدس فورس کے کمانڈر کی باتوں کو بہت مودبانہ باتیں کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جنرل سلیمانی نے جیسے کہا ہے وہ ایک حقیقی سپاہی ہیں۔
جسٹن کنگ نے کہا: زیادہ تر لوگ سمجھ رہے ہیں کہ جنرل سلیمانی کا ردعمل ڈونلڈ ٹرمپ کی توہین اور بے احترامی ہے۔ انہوں نے دنیا کے سب سے طاقتور فرد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے صدر کو آپ کو جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے ، اور میں قوم کے سپاہی کی حیثیت سے تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور تمہیں جواب دوں گا۔ ان باتوں نے بہت سے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا کیونکہ امریکیوں کو عادت نہیں کہ کوئی شخص ان کے ملکی صدر سے اس طرح کی بات کرے۔
انہوں نے مزید کہا:جنرل سلیمانی کا خطاب امریکہ میں بہت زیادہ مورد توجہ قرار اپایا۔ لیکن فوجیوں کے ڈائپز پہننے کے بارے میں کہیں اشارہ نہیں ہوا تاہم وہ چیز جس نے بہت سے ذرائع ابلاغ کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا وہ یہ حصہ تھا جس میں انہوں نے ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: میں تمہارا حریف ہوں اور مسلح افواج اور دوسروں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا حصہ جو لوگوں کے لئے اور میڈیا میں دلچسپ تھا وہ جنرل کی وہ باتیں تھیں جس میں انہوں نے عراق اور افغانستان میں امریکی ناکامی کی طرف اشارہ کیا اور یہ کہ امریکہ کو عراق اور افغانستان میں جس فوجی طاقت کا سامنا ہے ایران کی فوجی طاقت اس سے بہت مختلف ہے۔
امریکہ میں جنرل سلیمانی کے خطاب کی عکاسی کے بارے میں جسٹن نے کہا: امریکہ میں ان کے خطاب کی بڑے پیمانے پر عکاسی ہوئی ہے۔ امریکی عوام عراق اور افغانستان کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے تھے۔ صورتحال تبدیل نہیں ہوئی ہے اور بہت سے امریکی نئی جنگ نہیں چاہتے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ فوج کے مقابل میں ایران ہے۔ میری نظر میں جنرل سلیمانی نے صحیح وقت پر صحیح کام انجام دیا۔ انہوں نے ایسے انداز میں بات کی کہ جس میں ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں ایران اور اس کے عہدیداروں کے مہذب چہروں کی عکاسی کی گئی ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب