والدین جب اپنے بچوں کو حاج قاسم سلیمانی جیسی شخصیات کی خصوصیات سے روشناس کرواتے ہیں تو حقیقت میں وہ اُنہیں طاقت کے ایک ایسے سرچشمے سے جوڑتے ہیں جو دیرپا اور معنوی ہوتا ہے۔ اکثر اوقات انسان پر کوئی چیز اثر تب ہی ڈالتی ہے جب وہ اسے محسوس کرے اور سمجھ سکے۔ خداوندِ عالم بھی کئی مرتبہ مفاہیمِ نظری کو قابلِ لمس حکایتوں میں بدل دیتا ہے تاکہ بندہ اُس سے صحیح تعلق قائم کر سکے۔
اسی اصول کا اطلاق بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ جب تک بچہ کسی چیز کو دیکھے اور اس کا احساس نہ کرے، وہ اس سے قلبی تعلق قائم نہیں کر پاتا۔ لہٰذا، اگر ہم بچوں کو انیمی کرداروں کے بجائے حقیقی اور دینی طاقت کی مثالوں سے روشناس کروائیں تو ان کے اندر طاقت کے سہارے کی جو فطری خواہش ہے، وہ صحیح سمت میں پروان چڑھے گی۔
ایسا بچہ جس نے حاج قاسم سلیمانی کی زندگی کا دور دیکھا ہو، ان کا عملی رویہ محسوس کیا ہو، وہ آسانی سے ان سے محبت کرتا ہے۔ ان کی شجاعت، وقار اور محبت بھرے رویے کو دیکھ کر اُس کا دل حاج قاسم کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، کھیل کود میں اُن کا کردار ادا کرتا ہے اور اپنی شناخت پر فخر محسوس کرتا ہے۔
جب رہبر انقلاب اسلامی، آیت اللہ خامنہای نے حاج قاسم کو "ایک مکتب" قرار دیا تو یہ صرف ایک تشہیری بیان نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اُن کے طرزِ زندگی اور فکری راستے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔ کیونکہ ان کی دینی بصیرت، ایمان، اور خلوص کا ادراک ہی سلیمانی جیسے افراد کی تربیت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ بچوں کے لیے حاج قاسم جیسی حقیقی طاقتوں کو مختلف زندگی کے پہلوؤں میں پیش کریں۔ ان صفات کو ان کی زندگی میں محسوس کروائیں تاکہ وہ دینی مفاہیم سے جڑ سکیں۔ مکتبِ حاج قاسم دراصل دینی تعلیمات کی مجسم صورت ہے۔ ایک ایسا انسان جو اسلامی تربیت کا پروردہ تھا، اُس کی پوری زندگی طاقت کا مظہر تھی۔ یہی خصلتیں اُنہیں ایک منفرد اور آئیڈیل شخصیت بناتی ہیں۔ یہ طاقت دین اور مکتبِ اہل بیت علیہم السلام سے جڑی ہوئی تھی۔
اسی اصول کا اطلاق بچوں پر بھی ہوتا ہے۔ جب تک بچہ کسی چیز کو دیکھے اور اس کا احساس نہ کرے، وہ اس سے قلبی تعلق قائم نہیں کر پاتا۔ لہٰذا، اگر ہم بچوں کو انیمی کرداروں کے بجائے حقیقی اور دینی طاقت کی مثالوں سے روشناس کروائیں تو ان کے اندر طاقت کے سہارے کی جو فطری خواہش ہے، وہ صحیح سمت میں پروان چڑھے گی۔
ایسا بچہ جس نے حاج قاسم سلیمانی کی زندگی کا دور دیکھا ہو، ان کا عملی رویہ محسوس کیا ہو، وہ آسانی سے ان سے محبت کرتا ہے۔ ان کی شجاعت، وقار اور محبت بھرے رویے کو دیکھ کر اُس کا دل حاج قاسم کی محبت سے لبریز ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی شخصیت کو ان کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے، کھیل کود میں اُن کا کردار ادا کرتا ہے اور اپنی شناخت پر فخر محسوس کرتا ہے۔
جب رہبر انقلاب اسلامی، آیت اللہ خامنہای نے حاج قاسم کو "ایک مکتب" قرار دیا تو یہ صرف ایک تشہیری بیان نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ اُن کے طرزِ زندگی اور فکری راستے کا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے۔ کیونکہ ان کی دینی بصیرت، ایمان، اور خلوص کا ادراک ہی سلیمانی جیسے افراد کی تربیت کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ بچوں کے لیے حاج قاسم جیسی حقیقی طاقتوں کو مختلف زندگی کے پہلوؤں میں پیش کریں۔ ان صفات کو ان کی زندگی میں محسوس کروائیں تاکہ وہ دینی مفاہیم سے جڑ سکیں۔ مکتبِ حاج قاسم دراصل دینی تعلیمات کی مجسم صورت ہے۔ ایک ایسا انسان جو اسلامی تربیت کا پروردہ تھا، اُس کی پوری زندگی طاقت کا مظہر تھی۔ یہی خصلتیں اُنہیں ایک منفرد اور آئیڈیل شخصیت بناتی ہیں۔ یہ طاقت دین اور مکتبِ اہل بیت علیہم السلام سے جڑی ہوئی تھی۔