جنرل سلیمانی پر حملہ کرکے بین الاقوامی اور امریکی قوانین کو پاوں تلے روند ڈالا گیا
امریکی سیاستدانوں اور مبصرین نے بغداد میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج کے بارے میں تنبیہ کی۔ امریکہ نے اس اقدام سے ثابت کیا کہ دوسرے ممالک کی خودمختاری و آزادی اور مغربی ایشیا میں صلح ایجاد کرنا واشنگٹن کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جنرل سلیمانی پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ کے ردعمل سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی جب انہوں نے ملک کی عسکری طاقت سے غلط فائدہ اٹھایا اور کہا کہ ہمارے پاس دنیا کی طاقت ور ترین اور جدید اسلحوں سے مسلح فوج ہے۔ ٹرمپ کے اس رویے سے دنیا پر امریکی غنڈہ گردی واضح ہوگئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکہ قانون کے بجائے فقط طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ وائٹ ہاوس انسانی قوانین کے بجائے جنگل کے قانون کا پابند ہے۔ بغداد میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر حملے سے عالمی سطح پر مقاومتی بلاک کے لئے مفت میں کامیابی مل گئی ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد خطے اور بین الاقوامی فورمز پر امریکہ کی حیثیت مزید تنزلی کا شکار ہوگئی ہے۔
سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنرل سلیمانی کا قتل مقاومتی محاذ پر حملہ ہے۔ یہ واقعہ ایسے مرحلے پر پیش آیا جب مشرق وسطی میں تعیینات امریکی فوجیوں کے لئے ہر دور سے زیادہ سیکورٹی کی ضرورت تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس اقدام سے امریکی فوجیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے بنابراین انہوں نے جنرل سلیمانی پر حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ امریکی قوانین کو بھی پاوں تلے روند ڈالا ہے۔
کیا بہتر نہیں کہ وائٹ ہاوس دہشت گردی کے خلاف امریکی قانون کی شق نمبر 2331 میں دہشت گردی کی بین الاقوامی تعریف پر نظرثانی کرے؟ اس شق کے ایک حصے میں وحشیانہ اور انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات اور سرگرمیوں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے لہذا اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی اور امریکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
امریکی سیاستدانوں اور مبصرین نے بغداد میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے نتائج کے بارے میں تنبیہ کی۔ امریکہ نے اس اقدام سے ثابت کیا کہ دوسرے ممالک کی خودمختاری و آزادی اور مغربی ایشیا میں صلح ایجاد کرنا واشنگٹن کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ جنرل سلیمانی پر حملے کے بعد صدر ٹرمپ کے ردعمل سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی جب انہوں نے ملک کی عسکری طاقت سے غلط فائدہ اٹھایا اور کہا کہ ہمارے پاس دنیا کی طاقت ور ترین اور جدید اسلحوں سے مسلح فوج ہے۔ ٹرمپ کے اس رویے سے دنیا پر امریکی غنڈہ گردی واضح ہوگئی۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ امریکہ قانون کے بجائے فقط طاقت کی زبان سمجھتا ہے۔ وائٹ ہاوس انسانی قوانین کے بجائے جنگل کے قانون کا پابند ہے۔ بغداد میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر حملے سے عالمی سطح پر مقاومتی بلاک کے لئے مفت میں کامیابی مل گئی ہے کیونکہ اس واقعے کے بعد خطے اور بین الاقوامی فورمز پر امریکہ کی حیثیت مزید تنزلی کا شکار ہوگئی ہے۔
سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جنرل سلیمانی کا قتل مقاومتی محاذ پر حملہ ہے۔ یہ واقعہ ایسے مرحلے پر پیش آیا جب مشرق وسطی میں تعیینات امریکی فوجیوں کے لئے ہر دور سے زیادہ سیکورٹی کی ضرورت تھی۔ صدر ٹرمپ نے اس اقدام سے امریکی فوجیوں کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے بنابراین انہوں نے جنرل سلیمانی پر حملہ کرکے بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ امریکی قوانین کو بھی پاوں تلے روند ڈالا ہے۔
کیا بہتر نہیں کہ وائٹ ہاوس دہشت گردی کے خلاف امریکی قانون کی شق نمبر 2331 میں دہشت گردی کی بین الاقوامی تعریف پر نظرثانی کرے؟ اس شق کے ایک حصے میں وحشیانہ اور انسانی زندگی کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات اور سرگرمیوں کو بھی بین الاقوامی دہشت گردی کے زمرے میں شامل کیا گیا ہے لہذا اس طرح کے اقدامات بین الاقوامی اور امریکی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب