مواد

مسلط کردہ جنگ کے دوران سردار قاسم سلیمانی کی سیرت اور سرگرمیاں


Jan 07 2021
مسلط کردہ جنگ کے دوران سردار قاسم سلیمانی کی سیرت اور سرگرمیاں
شہید قاسم سلیمانی 11 مارچ 1957ء کو صوبہ کرمان کے ایک شہر رابر میں پیدا ہوئے، قاسم نے اپنے بچپن اور جوانی کو اپنے والد کے ساتھ ایک مستری کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے گزارا اور جوانی کے دوران وہ کرمان واٹر آرگنائزیشن میں ٹھیکیدار بن گئے۔ انہوں نے اسلامی انقلاب کی فتح اور سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے قیام کے بعد اس تنظیم میں شمولیت اختیار کی، مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ، قاسم سلیمانی نے کرمان فوجیوں کی متعدد بٹالینوں کو تربیت دی اور انہیں جنوبی محاذوں پر بھیج دیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ، انہیں ایک کمپنی کے سربراہ کےکے طور پر سوسنگارڈ بھیجا گیا تاکہ بعث حکومت کو مالکیہ محاذ پر آگے بڑھنے سے روکیں۔
قاسم سلیمانی 1981 میں انقلابی گارڈز کے اس وقت کے کمانڈر محسن رضائی کے حکم سے 41  ویں ثاراللہ ڈویژن کے کمانڈر مقرر ہوگئے۔
اس شہید کمانڈر نے بہت ساری کارروائیوں میں حصہ لیا۔ شہید سلیمانی والفجر 8 ، کربلا 4 اور کربلا 5 آپریشنوں کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، 1988 میں جنگ کے خاتمے کے ساتھ ، ثاراللہ کا 41 واں ڈویژن سردار سلیمانی کی سربراہی میں کرمان واپس آیا اور ان شرپسندوں کے خلاف کاروائیاں شروع کیں جنہیں ملک کی مشرقی سرحدوں سے بھیجا جاتا تھا۔
جنرل قاسم سلیمانی نے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ خامنہ ای کے ہاتھوں سے فروری 2011 میں میجر جنرل (ایران میں اعلی فوجی رینک) کا درجہ حاصل کیا۔
جنرل  قاسم سلیمانی اور پاسداران انقلاب سلامی کی قدس فورس کے کمانڈر
جنرل قاسم سلیمانی، سنہ 2000 ء کو رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای  کی جانب سے  قدس فورس کے کمانڈر مقرر کیئے گئے۔ اطلاعات کے مطابق ، انقلاب اسلامی کی قدس فورس ایران کی بیرون ملک سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے تشکیل دی گئی تھی ، اور سلیمانی احمد وحیدی کے بعد ایران کی قدس فورس کے دوسرےکمانڈر بن گئے۔
شہید قاسم سلیمانی نے مشرق وسطی میں خاص طور پر اس خطے میں بدامنی میں جو کلیدی کردار کو اسلامی بیداری (عرب بہار) کے نام سے جانا جاتا ہے میں اہم کردار ادا کیا۔ قدس فورس کا کمانڈر مقرر ہونے سے پہلے شہد سلیمانی نے ایران – افغانستان سرحد پر منشیات فروشی گروہوں کا مقابلہ کیا۔ کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آتے ہی جنرل سلیمانی کو قدس فورس کا کمانڈر مقرر کرنا محض ایک اتفاق نہیں تھا،  بلکہ انہیں اس لئے منتخب کیا گیا کیونکہ وہ کرمان کے رابر نامی پہاڑی علاقے کے رہنے والے تھے اور عام طور پر قبائلی برادریوں کے سیاسی نظام اور خاص طور پر افغان معاشرے کو بہت قریب سے جانتے تھے۔
شہید سلیمانی ، اپنے کردستان خانہ جنگی کے تجربے کے ساتھ ، ایک اچھا اختیار بھی تھا، کیونکہ انہیں ایسے افغانستان میںوارد عمل ہونا تھا جہاں طالبان کے وجود سے ملک بھر میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوچکا تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ شہید سلیمانی نے قدس فورس کے کمانڈر کے عہدے پر تقرری سے قبل ،مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالوں کے دوران اور ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منشیات کے گروہوں سے لڑنے کا بے مثال تجربہ حاصل کیا ہوا تھا۔
اس سلسلے میں موساد کے سابق سربراہ میر ڈگن نے سردار سلیمانی کے بارے میں کہا تھا: “اس کے  دنیا کےنظام کے ہر گوشے سے تعلقات ہیں،  اسی لیئے میں اسے سیاسی نظام کا ایک ذہین شخص کہتا ہوں”۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب