مواد

لاوروف کی سلیمانی سے ملنے کی آرزو


Jan 07 2021
لاوروف کی سلیمانی سے ملنے کی آرزو
29 جنوری ، 2002 ء  کو یہ شراکت  داری ختم ہو گئی۔ اقوام متحدہ سے اپنے سالانہ خطاب میں   امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے عراق اور شمالی کوریا کے شانہ بشانہ ایران کو شر کا محور قرار دیا۔ امریکی عراق پر حملے کی تیاری کر رہے تھے۔ ایک بار پھر  ماضی کی حیرت  اور تعجب  اور مغرب کی طرح   مشرق کی طرف سے بھی  امریکیوں کے گھیرے میں آنے کا خوف  ایرانی رہنماؤں پر طاری ہو گیا    لیکن انہوں نے سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کو ترجیح دی کیونکہ امریکی ایران کے بدترین دشمن صدام حسین کو ختم کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔
جب واشنگٹن ، عراقی اپوزیشن  جلاوطن فورسز کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہا تھا  تو اسی اثناء میں  تہران نے  اپنے نیٹ ورک کو متحرک کیا  اور اس نے پرانے لوگوں تک پہنچنے میں جلدی کی۔
عراقی شیعہ جماعت الدعو ۃ  کے ایک رہنما علی الادیب  کہتے ہیں:  تہران نے  1980ء  کی دہائی میں جلاوطن افراد میں سے   اپنے وفاداروں کی   ایک عراقی شیعہ فوجی فورس تشکیل دی تھی  جس میں سلیمانی بھی شامل تھے  اور میں نے ان ہی سالوں میں ان سے ملاقات کی تھی۔
الادیب  کا مزید کہنا ہے کہ سلیمانی ایک سیاستدان ہیں ، ایک حکمت عملی ہیں اور وہ نہ صرف ایک فوجی ہیں ،   وہ غور سے بات سنتے ہیں  لیکن  اس کے باوجود وہ  یہ ظاہر نہیں کرتے کہ انہوں نے تائید کی ہے لیکن  وہ حقیقت میں غور سے بات سنتے ہیں اور ہر ایک سے گفتگو کرتے ہیں۔ شیعہ ، کرد ، سنی اور یہاں تک کہ بعث پارٹی کے سابق ممبران سے بھی۔
عراق میں ثالثی کا کردار کرنے  والوں  میں  سلیمانی نے 2003 ء میں بغداد میں پہلی عبوری حکومت کی تشکیل کے لئے جناب  کروکر سے بات چیت کا آغاز کیا   اس شرط پر کہ ایران کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے امیدواروں کو خارج کردیا جائے۔
ایرانی طاقت  میں جنرل سلیمانی کا کردار  اہم غیر ملکی مبصرین اور ماہرین  کی نظروں سے بھی  دور نہیں ہے۔  2005 ء میں تہران کے دورے کے دوران  وسطی تہران کے ایک بڑے ہوٹل میں قیام پذیر سرگئی لاوروف نے ایک رپورٹر سے انٹریو میں کہا تھا  کہ میں صرف دو لوگوں سے ملنا چاہتا ہوں  قائد (آیت اللہ)  علی خامنہ ای اور سلیمانی۔جہاں روسی وزیر خارجہ سے ان کی ملاقات میں کچھ مختصر امور پر تبادلہ خیال بھی طے تھا۔
امریکیوں نے  عراق میں بھی  افغانستان کی طرح طولانی مدت اپنا قبضہ جما لیا۔ لیکن اس بار سلیمانی نے پڑوسی ملک میں امریکیوں سے مقابلہ کرنے کی کوشش کی جب واشنگٹن کو یقین ہو گیا کہ وہ  ایک نیا فوجی محاذ  کا آغاز کرنا چاہتے ہیں(اور ایران کی طرف سے طالبان کا تختہ الٹنے کے لئے امریکہ کے ساتھ ماضی کے تعاون کا نتیجہ یہ ہوا کہ  بش نے ایران کو شرّ  کا محور قراردے  دیا ) سلیمانی نے  آہستہ آہستہ اپنے عراقی اتحادیوں کو مسلح کردیا   جن میں ایک 34 سالہ دوست ابو مہدی المہندس بھی شامل  ہیں  جن پر  واشنگٹن نے یہ الزام عائد کیا   کہ انہوں نے ایران اور عراق جنگ میں صدام حسین کی مغربی حمایت کی  انتقامی کارروائی میں  دسمبر  1983 ء میں کویت میں امریکی اور فرانسیسی سفارت خانوں کے خلاف منصوبہ بند خود کش بم دھماکوں کا اہتمام کیا تھا جس میں پانچ افراد مارے گئے تھے جو سب کے سب کویتی تھے۔
یہ  المہندس نامی  عراقی  جنہوں  نے کئی سال  ایران میں بسر کئے  اور وہ رواں فارسی زبان میں بات کرتے تھے  وہ  اپنے دوست اور مددگار کے نام پر فخر کی سرخی لگانا چاہتے ہیں   اور وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سید قاسم سلیمانی  ایک خاص  صفت کے حامل ہیں کہ وہ  نبی اسلامؐ کی اولاد  اور پوتوں سے ہیں  جو  انہیں باقیوں سے ممتاز کرتی ہے۔
بغداد میں  سلیمانی نے لبنان کی حزب اللہ کی مثال قائم کرتے ہوئے  ایک نیم فوجی نیٹ ورک تشکیل دیا اور منظم کیا   جو 1980 ء کی دہائی میں  سپاہ پاسداران  کی مدد سے لبنان کی وادی بقاع میں تشکیل دیا گیا تھا۔
عماد مغنیہ (لبنانی حزب اللہ کے خصوصی آپریشن کے کمانڈر جو  2008 ء میں دمشق میں اسرائیل کے ہاتھوں مارے گئے تھے) بغداد آئے۔ ایک نوجوان عراقی عالم قیس الخزالی کہتے ہیں :  عماد مغنیہ ہمارے لئے ہیرو تھے کیونکہ انہوں نے اسرائیل سے جنگ کی تھی ۔ قیس الخزالی صدام کے وقت سے بچی ہوئی فورسز کو پھانسی دینے اور انہیں ٹھکانے لگانے کے  انچارج ہیں۔ عراقی پائلٹوں کو پھانسی دینے میں بھی ان کا بہت اہم کردار رہا ہے   جنہوں نے  1980 ءسے 1988 ءکے درمیان ایران ،عراق جنگ میں ایران پر بمباری میں  شرکت کی۔
الخزالی  مزید کہتے ہیں:  حزب اللہ نے ہمیں تربیت دی۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ  ہم کس طرح ہدایت شدہ بارودی سرنگیں بنائیں اور عراق میں امریکی افواج کے خلاف ان کا استعمال کیسے کریں۔ سپاہ پاسداران کو عراق کے ساتھ معمول کی جنگ کا تجربہ تھا تاہم  یہ ہمارے لئے زیادہ  مفید نہیں تھا لیکن لبنانی حزب اللہ خانہ جنگی جنگجو تھے اور انہوں نے ایک قابض فوج کے خلاف جنگ کا تجربہ کیا تھا۔
اس وقت  ایک امریکی سرکاری  انٹلیجنس رپورٹ کے مطابق ، سلیمانی نے بشار الاسد کو شام – عراق سرحد کھولنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ پوری دنیا سے سنی جہادی امریکی افواج کا مقابلہ کرنے عراق جاسکیں۔ اس کے نتیجہ میں  عراق میں خانہ جنگی میں تیزی آئی۔ اس جہادی تحریک کے بیچ ، بعض عراقی جہادیوں نے القاعدہ کو وجود بخشا ، انہوں نے جلد ہی اپنے حملوں کا رخ عراقی شیعوں کی جانب موڑ دیا  کہ اسی سے دولت اسلامیہ یا داعش کا وجود نکلا۔
حقیقت میں ایک شیطانی شخصیت  وہ جملہ ہے جسے   عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر ، جنرل ڈیوڈ ایچ پیٹراؤس   اکثر اپنی نجی گفتگو میں سلیمانی کا ذکر کرتے وقت استعمال کرتے ہیں جنہوں نے جنوری 2007 ء میں اقتدار سنبھالا تھا ۔ جنرل پیٹراؤ س نے سنی قبائل اور خانہ بدوشوں کو القاعدہ سے لڑنے کی ترغیب دے کر پورے ملک میں امن قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ 2011 ء میں ، امریکی فوج نے عراق چھوڑ دیا، باراک اوباما خود کو خطے کے مسائل سے دور  رکھنا چاہتے تھے۔
اس کے نتیجے میں  ایران نے عراق میں واحد غیرملکی طاقت حاصل کرلی ، اور سلیمانی نے پڑوسی ملک میں استحکام قائم کرنے کی کوشش کی ، لیکن ان  کے مقامی شیعہ اتحادیوں  چاہے وہ جماعتیں ہوں یا   افواج دونوں نے واضح طور پر حکومت کو فرقہ وارانہ پالیسیاں اپنانے پر مجبور کیا۔ عراقی وزیر اعظم نوری المالکی نے سنیوں کو خود سے دور کردیا اور انہیں اپنی حکومت کا دشمن بنا دیا ، ان کے اقدامات،  داعش کے جہادیوں کو دوبارہ اقتدار  ملنے کا سبب بنے۔
بغداد سے پارلیمنٹ کے سنی ممبر حمید المطلق کہتے ہیں:  یہ کوئی شکست نہیں تھی  بلکہ یہ سلیمانی کی ایک بے مثال اور ناقابل یقین  کامیابی تھی  ۔ ایران نے بدعنوان اور فرقہ وارانہ سیاسی رہنماؤں پر دباؤ ڈال کر عراقی عوام کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ شیعہ سیاستدان اور فوجی اور نیم فوجی کمانڈر بھی سلیمانی کا براہ راست چہرہ دیکھنے کی جرأت نہیں کرتے ، وہ ان کے حکم کے تابعدار ہیں   وہ ان سے بہت ڈرتے ہیں نیز  وہ ان کے سامنے  کمزور ہیں۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب