مواد

قاسم سلیمانی اور مکتب مقاومت


Jan 03 2021
قاسم سلیمانی اور مکتب مقاومت
مقدمہ: شہداء کے سردار کی عظیم شخصیت کے بارے میں کچھ لکھنا بہت دشوار ہے لیکن دلی تمنا قلم اٹھانے  پر مجبور کرتی ہے تاکہ ظاہری طور پر ہمارے درمیان سے جانے والے اس عزیز ترین فرد کی یاد مناتے ہوئے کچھ لمحے خوش رہیں۔ گذشتہ تحریر میں اس شہید بزرگوار کی چند صفات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ اس تحریر میں شہید کے بے شمار فضائل میں سے کچھ مزید بیان کریں گے۔
پہلا نکتہ: حاج قاسم ایک مکتب اور درسگاہ ہیں۔
رہبر معظم نے ان کے بارے میں فرمایا: وہ ایک مکتب، درسگاہ اور راستہ تھے۔ زمانے کے ولی فقیہ کی جانب سے پہلی مرتبہ کسی کو ایسا لقب ملا ہے جس میں چند ظریف نکات پنہاں ہیں؛
1۔ مکتب قرار پانے کی وجہ سے شہید سلیمانی شخص اور ذات کے دائرے سے نکل شخصیت میں بدل گئے بنابراین وہ ایک شخص یا فرد نہیں بلکہ ایک عقیدے اور مسلک کا نام ہے۔ فرد اور شخص وہ ہے جو شخصی معلومات تک محدود ہوتا ہے جن میں پیدائش اور وفات کی تاریخ، والدین، خاندان اور تعلیمی قابلیت جیسے بنیادی معلومات شامل ہیں۔ شخصیت ان معلومات سے ماوراء ہوتی ہے جس میں افکار، عقیدہ، نظریات، روش اور طریقے اور مختلف معاشروں پر اس کے اثرات جیسے موضوعات شامل ہوتے ہیں۔
2۔ جب مکتب کی بات کی جاتی ہے تو حقیقت میں ایک پیغام اور مفہوم کی طرف اشارہ ہوتا ہے دوسرے الفاظ میں نظریہ اور تھیوری کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے۔ شہید سلیمانی کے کردار اور رفتار میں ایک نظریہ اور پیغام پنہاں ہے جو قابل توجہ ہے۔
3۔ مکتب کے اصولوں اور مفاہیم کی وضاحت کے لئے کوئی معلم اور مفسر درکار ہوتا ہے۔ اس مکتب کی وضاحت کرنے والے پہلے معلم رہبر ہیں۔ ان کے بعد دوسرے مرتبے پر دشمن سے برسرپیکار مجاہدین ہیں۔ ان لوگوں کو چاہئے کہ حق اور حقیقت کے تشنہ عوام کے سامنے اس مکتب کے ظاہری اور باطنی زاویوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کریں۔ اگر اس مکتب کی وضاحت نااہل اور منحرف افراد کے ذریعے کی جائے تو بعض دوسرے مکاتب کی طرح یہ بھی تحریف کا شکار ہوجائے گا۔
4۔ مکتب ناقابل زوال ہوتا ہے بنابراین مکتب کابانی چلے جانے سے وہ مکتب ختم نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ کے لئے امر ہوجاتاہے؛ نظریات اور افکار کا حصہ بن جاتا ہے اور تاریخ میں کسی نظرئیے  کی صورت میں اپنا جلوہ دکھاتا رہتا ہے۔
5۔ مکتب ثقافت اور نظریہ بن جاتا ہے اسی لئے افراد، گروہوں اور سیاسی جماعتوں میں منحصر نہیں ہوتا۔ اس ثقافت کی حقیقت اور ماہیت ہی جدا ہوتی ہے؛ مکتب انقلابی، ایثار و شہادت، انسانیت و معنویت، محبت اور عشق، اتحاد و یگانگی اور عرفان و معرفت سے بھرپور فرھنگ ہے۔
6۔ مکتب ثقافت کا جز ہونے کی وجہ سے سرحدوں میں مقید نہیں ہوتا ہے۔ مکتب جغرافیائی سرحدوں سے ماوراء ایک حقیقت ہے۔ اس دنیا میں بسنے والے حریت پسند اور حق کے طالب افراد کے دل و جان میں پیوستہ ہوکر ان کے اندر تبدیلی ایجاد کرتا ہے۔
7۔ شخصیات کے اس دنیا سے جانے کی وجہ سے عام طور پر ان کے حامیوں کی تعداد میں کمی آجاتی ہے لیکن مکتب کے دامن میں جانثار فدائیوں اور پیروکاروں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے۔ مکتب سرحدوں میں محدود ہوئے بغیر ان پیروکاروں کی تربیت اور پرورش کرتا ہے۔ شہید سلیمانی کے ٹکروں میں تقسیم ہونے والے جنازے کی تشییع میں ایران اور دیگر ممالک کے لوگوں مخصوصا پرجوش جوانوں کی بڑی تعداد میں شرکت اس بات کواضح  دلیل ہے۔ یہ شرکاء “میں بھی سلیمانی ہوں” کا نعرہ لگاکر اس مکتب کے پیروکار ہونے کا علی الاعلان اظہار کررہے تھے۔
8۔ مکتب ایک ہدف اور مقصد کے تحت حرکت کرتا ہے۔ مکتب نشوونما کرتا ہے۔ مکتب کا آغاز و انجام ہوتا ہے۔ مکتب اپنے پیروکاروں کو پہلے اپنی اصلاح اس کے بعد دوسروں کی اصلاح، اختلاف سے اتحاد، ذاتیات سے اجتماع، دنیا سے آخرت، مادیت سے معنویت اور فرش سے عرش کی طرف بلاتا ہے اور اس سلسلے میں مکمل اور جامع قانون دیتا ہے۔ مکتب کے دامن میں سننے والوں کے لئے نئے مطالب ہوتے ہیں۔
9۔ مکتب کے اندر پیغام اور روش ہوتا ہے اسی لئے مختلف علوم اور مفکرین کو اپنا مطالعہ کرنے پر ابھارتا ہے۔ نفسیاتی اور معاشرتی امور کے اساتذہ اور دفاعی مبصرین اس کے بارے میں تحقیق کرتے ہیں اور مختلف زاویوں سے تفصیل کے ساتھ تحقیق کرکے نتائج پیش کرتے ہیں تاکہ مستقبل میں محققین کے لئے مفید ثابت ہوں۔ پی ایچ ڈی اور دیگر سطح کے طلباء کو چاہئے کہ ان مکاتب اور ان کو وجود میں لانے والوں کے بارے میں تھیسز اور مقالے لکھیں اور پوشیدہ مطالب اور نکات کو سامنے لائیں۔
10۔ اس مکتب کے مفاہیم اور موضوعات نہایت وسیع ہیں۔ انفرادی و اخلاقی مفاہیم سے لے کر سیاسی و اجتماعی مسائل اور دفاعی موضوعات اس میں شامل ہیں بنابراین اس کے بارے میں تحقیق کرنے کے لئے مختلف شعبوں سے علمی استفادہ کرنا ضروری ہے۔ اس مکتب کے کچھ حدود و قیود ہیں۔ اس کے سرخ خطوط اور لکیروں کی وضاحت ضروری ہے۔ اگر یہ خطوط مشخص نہ ہوں تو منحرف لوگوں کے ہاتھوں مکتب اپنی راہ سے خارج ہوسکتا ہے۔ یہ مکتب، مقاومت کا مکتب ہے؛ اس میں “ہم کرسکتے ہیں” کا نعرہ لگایا جاتا ہے؛ دوسروں کے سامنے تسلیم اور اظہار عاجزی اس مکتب کی روح کے منافی ہے پس ان حدود کی رعایت اور تحفظ ضروری ہے۔
دوسرا نکتہ: شہید ہمارے رفیق ہیں؛ رہبر معظم نے شہید سلیمانی کے لئے رفیق کا لفظ استعمال کیا۔ رفیق یعنی دوست؛ ایسا فرد جو  رفاقت اور ہمدردی کے ساتھ پیش آتا ہے۔ درحقیقت اس لفظ کو استعمال کرکے شہید سلیمانی کو پیرو، اطاعت گزار اور مرید سے بڑھ کر مقام عطا کیا ہے۔ ان کو دوست اور رفیق کے مقام پر بٹھادیا ہے۔ فرض کریں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر کسی کو رفیق اور دوست کا مقام عطا کریں  تو کتنے فخر کی بات ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ شہید سلیمانی کو رہبر معظم نے اپنا رفیق قرار دیا۔ مجھے یاد نہیں کہ کسی اور کے بارے میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہو۔ قرآن میں آیا ہے: وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا کتنے ہی اچھے دوست اور رفیق ہیں۔
 تیسرا نکتہ: رہبر معظم نے شہید سلیمانی کو “حاج قاسم” کے نام سے پکارا۔ عام طور مذہبی قائدین مخصوصا رہبر معظم لوگوں کو ان کے اصلی نام سے نہیں پکارتے ہیں۔ پہلی مرتبہ رہبر معظم کے کلام میں اس طرح کی تعبیر آئی ہے جس کے بعد عوام نے بھی اس نام کو استعمال کرنا شروع کیا۔ “حاج قاسم” کا لفظ فردی اور ذاتی روابط کی حکایت کرتا ہے گویا رہبر معظم اور شہید سلیمانی کے درمیان ماضی میں بھی قریبی رابطہ تھا۔ درحقیقت شہید سلیمانی رہبر معظم کے لئے بھائی کی حیثیت رکھتے تھے اسی لئے ان کے ذاتی اور اصلی نام سے پکارنا پسند ہے۔ “حاج قاسم” سے تعبیر کرنے میں یہ  نکتہ بھی پوشیدہ ہے کہ شہید سلیمانی کے پاس آیت اللہ، ڈاکٹر، انجنئیر اور جنرل جیسے رنگین القاب نہیں ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ ان کے اندر یہ تمام صفات ہونے کے باوجود  “حاج قاسم” کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔
چوتھا نکتہ: اقلیت کی اکثریت پر فتح
اقلیت پر مشتمل طالوت کے لشکر کا جب جالوت کی  بڑی فوج سے سامنا ہوا تو سپاہی کہنے لگے: آج ہم جالوت اور اس کے لشکر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اسی لشکر میں شہادت اور خدا کی دیدار کے طلبگار افراد کہنے لگے: پریشان نہ ہوں؛ متعدد مواقع پر اللہ کے ارادے سے چھوٹے لشکر نے بڑے لشکر کو شکست دی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق شہید سلیمانی نے عراق اور شام میں محدود افراد کے ساتھ 70 ممالک کی فوج کا دلیری سے مقابلہ کیا اور کامیابی حاصل کی۔ وہ اور  ان کے سپاہی اسی قرآنی آیت کے مصداق قرار پائے اور اقلیت کی اکثریت پر فتح کے الہی وعدے کی حقیقت بن کر دنیا کے سامنے آگئے۔
پانچواں نکتہ: یوم اللہ
رہبر معظم نے شہید سلیمانی کی شہادت کے لئے یوم اللہ کا لفظ استعمال کیا۔ اگرچہ سال کے تمام ایام اللہ کے ہی ہیں لیکن بعض ایام  مخصوص واقعات کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔ شہید سلیمانی کی شہادت اور تشییع جنازہ میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے دسیوں لاکھ افراد کی شرکت درحقیقت نعمت الہی کی طرف اشارہ اور یاددہانی ہے۔ رہبر معظم کے مطابق یوم اللہ وہ دن ہے جب تمام انسانوں پر اللہ کی قدرت آشکار ہوجاتی ہے۔ اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنے کردار اور رفتار کی وجہ سے ایسے واقعات کا باعث بنے جس کی بنا پر امام زمان عجل اللہ فرجہ کا نائب  اس دن کو یوم اللہ قرار دے۔
اے عزیز حاج قاسم! یہ افتخار اور اعزاز آپ کو مبارک
امید ہے اس سفر میں پیچھے رہ جانے والے ہم دنیا والوں کو آخرت میں اپنی شفاعت سے بہرہ مند کریں گے۔ سنا ہے آپ نے بعض لوگوں سے شفاعت کا وعدہ کیا ہے؛ ہم بھی آپ کے دوست اور چاہنے والے ہیں۔



نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب