شہید حاج قاسم سلیمانی کا وصیت نامہ
خدا وندا! تیراشکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے پشت در پشت،صدی در صدی ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کیا اور ایسے زمانے میں وجود کی شکل میں آنے کی اجازت دی جہاں آئمہ ٔ معصومین علیہم السلام کے سب سے قریب اور تیرے عظیم ولی کے زمانے کو درک کرنے کا امکان تھا،تو نے مجھے توفیق دی کہ تیرے نیک اور صالح بندے خمینی عظیم کو درک کر سکوں اور ان کی رکاب میں ایک سپاہی بن سکوں،اگر مجھے تیرے عظم پیغمبر محمد مصطفیﷺ کا صحابی بننے کی توفیق نصیب نہ ہو سکی اور اگر میں علی ابن ابی طالب اور ان کی معصوم اولاد علیہم السلام کی مظلومیت کے زمانے کو درک کرنے کی سعادت سے محروم رہا تو تو نے مجھے اسی راستہ پر قرار دیا جس پر انھوں نے جو عالم اور خلقت کی جان تھے ،اپنی جانیں قربان کیں،خدا وندا! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے نیک بندے خمینی عزیز کے بعد اپنے ایک اور نیک بندے جس کی مظلومیت اس کے صالح ہونے سے زیادہ ہے،ایسا مرد جو آج اسلام ،تشیع،ایران اور اسلام سیاسی دنیا کا مدبر اور حکیم خامنہ ای عزیز کہ میری جان ان پر قربان ہو جائے، کے راستہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائی۔
پروردگارا! میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو مجھے اپنے بہترین بندوں کی صف میں شامل کیا اوران کے بہشتی رخساروں پر بوسہ دینے نیز ان (یعنی اس راہ کے مجاہدین اور شہدا) سے عطر الہی کی خوشبو کو محسوس کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
خداوندا! ائے قادر عزیر، ائے رحمان رزاق تیری چوکھٹ پر شکر شرم کے ساتھ سر جھکاتا ہوں کہ تو نے مجھےمذہب تشیع اور اسلام کے حقیقی عطر فاطمۂ اطہر اور ان کی اولاد کے راستے پر چلنے کی توفیق عنایت کی ،تو نے مجھے علی ابن ابی طالب اور فاطمۂ اطہر علیہما السلام کی اولاد پر آنسو بہانے کی سعادت عطا کی؛یہ کتنی عظیم نعمت ہے جوتیری سب سے عظیم اور سب سے گرانقدر نعمت ہے،یہ ایسی نعمت ہے جس میں نور ہے،معنویت ہے،ایسی بے قراری ہے جس کے اندر سے زیادہ سکون پایا جاتا ہے،ایسا غم ہے جو سکون اور معنویت کا حامل ہے۔
خدا وندا! تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھےغریب لیکن دیندار،عاشق اہل بیت علیہم السلام اور ہمیشہ پاک راستہ پر چلنے والے ماں باپ عطا کیے،میں تجھ سے عاجزانہ التماس کرتا ہوں کہ انھیں جنت میں اپنے اولیا کے ساتھ قرار دے اور مجھے عالم آخرت میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے توفیق عنایت فرما۔
خدایا! مجھے تیری بخشش کی امید ہے
ائے خدائے عزیز،ائے خالق حکیم اور یکتا ! میرے ہاتھ خالی ہیں اور زادہ سفر نہیں ہے، میں بغیر کسی زاد راہ اور توشہ کے تیری بخشش اور کرم کے دسترخوان کی امید میں آرہا ہوں،میں کوئی توشہ نہیں لارہا ہوں اس لیے کہ ایک فقیر کو کریم اور سخی کے پاس زاد اور توشہ لانےکی کیا ضرورت ہے؟! میں تو صرف اور صرف تیرے فضل وکرم کی امید میں آرہا ہوں،میں اپنے ساتھ دو بند آنکھیں لا رہا ہوں جن میں تمام ناپاکیوں کے ساتھ ساتھ ایک گرانقدر زخیرہ موجود ہے اور فطمہ کے لال پر بہنے والے آنسوؤں کے موتی ہیں،اہل بیت علیہم السلام پر بہنے والے اشکوں کے گوہر ہیں،مظلوم کے دفاع میں بہنے والے اشکوں کے لعل ہیں، ظالم کے چنگل میں پھنسے مظلوم اور یتیم کے دفاع میں بہنے والے آنسو ہیں۔
خداوندا! میں ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے،نہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے اور نہ ہی ان میں دفاع کرنے کی طاقت ہے لیکن میں نے اپنے ہاتھوں میں ایک چیز ذخیرہ کی ہوئی ہے اور مجھے اسی کی امید ہے ،وہ ان کا ہمیشہ تیری بارگاہ میں اٹھنا ہے، جب میں نے انھیں تیر طرف بلند کیا، جب میں نے انھیں تیرے لیے زمین پر اور زانو پر رکھا، جب میں نے تیرے دین کے دفاع میں اسلحہ ہاتھ میں لیا،یہ میری ہاتھوں کی دولت ہے جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ تو نے قبول کیا ہو گا۔
خداوندا!میری ٹانگیں کمزور ہیں ، ان میں رمق نہیں ہے،ا ن میں جہنم کے اوپر کے پل سے گذرنے کی ہمت نہیں ہے،میرے پیر تو عام پل سے گذرتے ہوئے لرزنے لگتے ہیں تو میں تیرے پل صراط جو بال سے باریک اورتلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے ، سے کیسے گذروں گا لیکن ایک امید ہے جو مجھے نوید دیتی ہے کہ ہو سکتا ہے میرے پیر نہ لرزیں،ممکن ہے میں نجات حاصل کر لوں، میں نے ان پیروں سے تیرے حرم قدم رکھا ہے ،تیرے گھر کا طواف کیا ہے،تیرے ولیوں کی بارگاہوں میں ، حسین اور عباس کے بین الحرمین میں ننگے پیر چلا ہوں، میں نے ان پیروں کو طولانی مورچوں میں رکھا ہے،تیرے دین کے دفاع میں ان سے دوڑا ہوں،چھلانگیں لگائی ہیں،گھٹنوں کے بل چلا ہوں، میں رویا ہوں رولایاہے ،ہنسا ہوں اور ہنسایا ہے،گرا ہوں ،اٹھا ہوں،مجھے امید ہے کہ ان چھلانگیں لگانے ، گھٹنوں کے بل چلنے اور ان روضوں کے احترام میں تو انھیں بخش دے گا۔
خدا وندا: میرا سر، میری عقل، میرے ہونٹ ،میرے کان ،میرا دل ،میرے تمام اعضاء و جوار اسی امید میں ہیں یا ارحم الراحمین، مجھے قبول کر لے، پاکیزہ قبول کر لے ویسے قبول کر کہ میں تیرے دیدار کے لائق ہو سکوں ،میں تیرے دیدار کے سوا کچھ نہیں چاہتا، میری جنت تیرا جوار ہے، یا اللہ!
خدایا !میں اپنے دوستوں کے قافلے سے بچھڑ ا ہوا ہوں خدا وند،اے عزیز کئی سال ہو چکے ہیں کہ میں ایک قافلے سے بچھڑہوا ہوں ،میں ہمیشہ کچھ لوگوں کو اس طرف روانہ کرتا ہوں لیکن خود یہیں رہ جاتا ہوں ،تو جانتا ہے کہ میں ہرگز تجھے بھلانہیں سکا، میں ہمیشہ انہیں یاد کرتا ہوں ان کے نام نہ صرف میرے ذہن میں بلکہ میرے دل میں، میری آنکھوں میں اور میرے آنسو میں محفوظ ہیں۔
میرے عزیز! میرا جسم بیمار ہوتا جا رہا ہے کیونکر ممکن ہے کہ جو چالیس سال تک تیرے در پر کھڑا رہے تو اسے قبول نہ کرے ؟،ائے میرے خالق ،میرے محبوب، میرے عشق، میں نے ہمیشہ تجھ سے یہی چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق سے لبریز کر دے ،مجھےاپنے فراق میں اور جدائی میں جلا دے اور مار دے۔
میرے عزیز ! میں بے قراری اور بچھڑنے کی رسوائی سے بیابانوں میں رہا ہوں، میں ایک امید میں اس شہر سے اس شہر، اس صحرا سے اس صحرا میں، سر دی سے گرمی میں جاتا ہوں، اے کریم ،اے حبیب میں نے تیرے کرم سے لو لگائی ہے ،تو خود جانتا ہے کہ میں تجھے چاہتا ہوں ، تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تیرے علاوہ کچھ نہیں چاہتا مجھے اپنے آپ سے ملا دے،
خدایا !میرے پورے وجود پر وحشت طاری ہے، میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے پر قادر نہیں ہوں، مجھے رسوا نہ کرنا، ان لوگوں کے احترام میں جن کا احترام تو نے اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، کسی بھی بے احترامی سے پہلے کہ جس کی وجہ سے ان کے احترام پر بھی حرف آئے مجھے اس قافلے سے ملا دے جو تیری طرف آ چکا ہے۔
میرے معبود، میرے عشق ،میرے معشوق، میں تجھے بہت چاہتا ہوں، میں کئی بار دیکھا اور محسوس کیا کہ میں تجھ سے الگ نہیں رہ سکتا بس اب بہت ہوگیا بس ،مجھے قبول کرلے لیکن ایسے قبول کر کہ میں تیرے لائق ہو سکوں۔
اپنے مجاہدبھائیوں اور بہنوں سے خطاب …
اس دنیا میں میرے مجاہد بھائیو اور بہنو،اے وہ لوگو جنہوں نے اپنے سروں خدا کے لیے عاریہ پر دیا ہے اور اپنی جانوں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بازار عشق میں سودا کرنے آئے ہیں،توجہ کیجئے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام اور تشیع کا مرکز ہے،آج حسین ابن علی کا خیمہ ایران ہے،جان لو کہ اسلامی جمہوریہ حرم ہے اور اگر یہ حرم باقی بچے گا تو دوسرے حرم بچیں گے ،اگر دشمن اس حرم کو ختم کر دے تو کوئی حرم باقی نہیں بچے گا ، نہ حرم ابراہیمی ؐ اور نہ حرم محمدیﷺ۔
میرے بھائیو اور بہنو! عالم اسلام ہمیشہ قیادت کا محتاج ہے ایسی قیادت جو معصوم کی جانب سے منصوب نیز شرعی اور فقہی لحاظ سے ان سے متصل ہو، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کو لرزانے والا سب سے زیادہ پاکیزہ عالم دین جس نے اسلام کو زندہ کیا یعنی ہمارے عظیم اور پاک خمینی نے نے اس امت کی نجات کا واحد راستہ ولایت فقیہ کو قرار دیا ہے لہذا چاہے آپ شیعہ ہونے کے ناطے اس پر مذہبی عقیدہ رکھتے ہوں یا سنی ہونے کی حیثیت سے اس عقلی عقیدہ رکھتے ہوں،جان لیجئے کہ ہر طرح کے اختلاف کو کنارے رکھ کر اسلام کو بچانے کے لیے اس خیمہ کو نہ چھوڑنا اس لیے کہ یہ خیمہ رسول اللہ ﷺ کا خیمہ ہے، اسلامی جمہوریہ کے ساتھ دنیا کی دشمنی کی بنیاد اس خیمے کو آگ لگانا اور اسے ختم کرنا ہے، اس کے گرد گھومیئے،خدا کی قسم ، خدا کی قسم ، خدا کی قسم اگر اس خیمے کو نقصان پہنچا تو خانۂ کعبہ،روضۂ رسول خدا ، نجف اشرف ، کربلائے معلی ، کاظمین ، سامرا اور مشہد مقدس باقی نہیں رہیں گے، قرآن مجید کو نقصان پہنچے گا۔
ایرانی بھائی بہنوں سے خطاب …
میرے پیارے ایرانی بھائیو اور بہنو، قابل فخر اور سربلند لوگو ، مجھ اور مجھ جیسوں کی جانیں ہزاروں بارآپ کر قربان ہوں، جس طرح آپ نے اسلام اور ایران کے لئے لاکھوں جانیں قربان کیں اسی طرح اصولوں کا خیال رکھنا ، اصولوں سے مراد ولایت فقیہ ہے، خاص کر اس مدبر مظلوم اور دین،عرفان، فقہ اور معرفت میں ڈوبے ہوئے عزیزخامنہ ای کو اپنی جان سمجھئے گا ، ان کے تقدس کا خیال رکھیےگا۔
میرے بھائیو ، بہنو ، ماں،باپ اور پیارو! اسلامی جمہوریہ آج اپنے قابل فخر دور سے گزر رہا ہے،جان لیجئے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دشمن آپ کس نظر سے دیکھ رہا ہے، دشمن نے آپ کے نبی کو کس نظر سے دیکھا ، خدا کے نبی اور اس کی اولاد کے ساتھ کے ساتھ کیا سلوک کیا ، ان پر کیا کیا الزامات لگائے گئے؟ انہوں نے پیغمبر ﷺ کے پاک بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ دشمنوں کی مذمت، ان کے بہتان اور دباؤ آپ میں تفرقہ نہ ڈالے،جان لیجئے کہ خمینی عزیز کا سب سے اہم فن یہ تھا کہ وہ پہلے اسلام کو ایران کی پشت پناہی میں لائے اور پھر ایران کو اسلام کی خدمت میں لگادیا، اگر یہ اسلام نہ ہوتا اور اگر اسلامی روح اس قوم پر حکومت نہ کرتی تو صدام اس ملک کو بھیڑیے کی طرح چیر پھاڑ دیتا، امریکہ بھی پاگل کتے کی طرح ایسا ہی کرتا لیکن امام کا فن یہ تھا کہ وہ اسلام کو پشت پناہی میں لائے ،آپ عاشورا ،محرم، صفر اور فاطمیہ کو اس قوم کی حمایت میں لائے،امام انقلاب کے اندر انقلابات لائے، اسی وجہ سے ہر دور میں ہزاروں فداکاروں نے آپ ، ایران کے عوام ، سرزمین ایران اور اسلام کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور عظیم ترین مادی طاقتوں کی تذلیل کی ہے، میرے عزیزو اصولوں میں اختلاف نہ کرنا، شہدا ہم سب کی عزت اور وقار کا مرکز ہیں صرف آج کے لئے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ خدائے قادر مطلق کے وسیع سمندر سے جڑ چکے ہیں، اپنی آنکھوں ، دل اور زبان میں ان کو بڑا دیکھیں جیسے وہ ہیں، اپنے بچوں کو ان کے نام اور تصاویر کا تعارف کروائیں، شہدا کے بچوں کو جو آپ سب کے یتیم ہیں ، شائستگی اور احترام کی نگاہ سے دیکھئے گا، ان کی زوجاؤں اور والدین کا احترام کریں، جس طرح آپ اپنے بچوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اسی طرح ان کےوالدین ، ماؤں ، بیویوں اور بچوں کی غیر موجودگی میں ان پر خصوصی توجہ دیں، مسلح افواج ، جن کے کمانڈر آج ولی فقیہ ہیں، اپنے ، اپنے مذہب ، اسلام اور اپنے ملک کے دفاع کی خاطر ان کا احترام کریں اور مسلح افواج کو بھی اپنے گھر کا دفاع کرنے کی طرح شائستگی اور احترام کے ساتھ اپنی قوم، اپنی عوام، اپنی عزت،اپنی سرزمین کی حفاظت اور مدد کرنا چاہئےاور اپنی قوم کی بہ نسبت جیسا کہ امام المتقین امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا مسلح افواج کوقوم کی عزت کا سرچشمہ اور کمزوروں اور عوام کے قلعہ اور پناہ گاہ نیز اپنے ملک کی زینت ہونا چاہیے۔
کرمان کے عزیز لوگوں سے خطاب …
کرمان کے عزیزلوگوں سے خطاب میں بھی میں ایک نقطہ بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ لوگ بڑے پیارے ہیں ، انھوں نے 8 سال کے مقدس دفاع کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، انھوں نے اسلام کی راہ میں عظیم کمانڈر اور مجاہد پیش کیے ہیں، میں ہمیشہ ان سے شرمسار ہوں، انہوں نے اسلام کی خاطر آٹھ سال مجھ پر اعتماد کیا، انھوں نے اپنے بچوں کو قتلگاہوں اور شدید لڑائیوں ، کربلا 5 ، والفجر 8 ، طریق القدس ، فتح المبین ، بیت المقدس وغیرہ جیسی کاروائیوں میں بھیجا، اور انہوں نے مظلوم امام حسین ابن علی کے نام اور ان کی محبت کے نام پر ثاراللہ نامی ایک بڑی اور قیمتی فوج کی بنیاد رکھی ، اس لشکر نے متعدد مرتبہ ایک فاتح تلوار کی طرح ایرانی ملت اور مسلمانوں کے دلوں کو خوش کیا اور ان کے چہروں سے رنج وغم کو دور کیا،میرے عزیزو! میں خدا کی مرضی سے آج تمہارے درمیان سے چلا گیا ہوں، میں آپ کو اپنے والدین ، اپنے بچوں اور بہن بھائیوں سے زیادہ چاہتا ہوں کیونکہ میں ان سے زیادہ آپ کے ساتھ رہاہوں جبکہ میں ان کے جگر کا ٹکڑا تھا اور وہ بھی میرا ایک حصہ تھے لیکن انہوں نے بھی قبول کیا کہ میں آپ کے ایرانی قوم کے سامنے اپنے وجود کا نذرانہ پیش کرؤں، میں چاہوں گا کہ کرمان ہمیشہ اور آخر تک ولایت کے ساتھ رہے ، یہ ولایت علی ابن ابی طالب کی ولایت ہے اور یہ خیمہ فاطمہ کے لال حسین کا خیمہ ہے ، اس کاطواف کرتے رہیے،میں آپ سب سے مخاطب ہوں، آپ جانتے ہیں کہ میں نے زندگی میں سیاسی رنگوں کے بجائے انسانیت ، جذبات اور جبلت پر زیادہ توجہ دی، میرا خطاب آپ سب سے ہے کہ آپ مجھے اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتے ہیں، میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ اس وقت آپ اسلام کو تنہا مت چھوڑیں کیونکہ اس زمانے میں اسلام اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی شکل میں موجود ہے، اسلام کے دفاع کے لئے خصوصی ہوشیاری اور توجہ کی ضرورت ہے ، سیاسی معاملات میں جہاں اسلام ، اسلامی جمہوریہ ، مقدسات مقامات اورولایت فقیہ کی بات آتی ہے تو یہ خدا کے رنگ ہیں اور خدا کے رنگ پر کسی بھی رنگ کوترجیح مت دیں۔
شہدا کے لواحقین سے خطاب …
میرے بچو ، میری بیٹیو اور بیٹو ، شہدا کے بچو ، شہدا ہے والدین، اے ہمارے ملک کے جلتے چراغو ،شہدا کے بھائیو بہنو اور شہداء کی وفادار اور متقی بیویو، اس دنیا میں جس آواز کو میں روزانہ سنتا تھا، اس سے میری دل لگی تھی تھا ، مجھے قرآن کی آواز کی طرح چین او رسکون عطا کرتی تھی اور روحانی طور پرمیری سب سے بڑی مدد گار تھی ، وہ شہدا کے بچوں کی آواز تھی، ایک وہ آواز تھی جس سے میں کبھی کبھی روزانہ کی بنیاد پر مانوس ہوتا تھا، یہ شہدا کے والدین کی آواز تھی کہ ان کے وجود میں میں نے اپنی والدہ اور والد کی موجودگی کو محسوس کیا ، میرے عزیزو! آپ اس قوم کے غازی ہیں، اپنی قدر جانیں،آپ اپنے شہید کو اپنے اندر ظاہر کریں تاکہ جو بھی آپ کو ، شہید کے باپ یا شہید کے بچے کو دیکھے وہ خود شہید کو محسوس کرے گا وہ بھی اسی روحانیت ، طاقت اور کردار کے ساتھ، میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ مجھے بخش دیں اور معاف کر دیں، میں آپ میں سے بہت سے حتی کہ آپ کے شہید کے بچوں کے بارے میں بھی ضروری حق پورا نہیں کرسکا ، اس کے لیے میں توبہ بھی کر رہا ہوں اور معافی کا طلبگار بھی ہوں، میں چاہوں گا کہ شہدا کے بچے میری جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں کہ شاید خدا ان کے پاکیزہ ہاتھوں کے میرے جسم کے ساتھ لگنے کی برکت سے مجھے معاف کردے۔
ملک کے سیاستدانوں سے خطاب …
میں ملک کے سیاست دانوں کے لئے بھی کچھ جملے کہنا چاہوں گا، ان کے لیے بھی جو خود کو اصلاح پسند کہتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو اپنے آپ کو اصول پسند مانتے ہیں، جس چیز پر مجھے ہمیشہ دکھ رہا ہے وہ یہ ہےکہ ہم عام طور پر خدا ، قرآن اور اقدار کو دو جگہوں پر بھول جاتے ہیں بلکہ انھیں قربان کر دیتے ہیں،عزیزو! آپ ایک دوسرے سے جوبھی مقابلہ کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے جیسی بھی بحث کر رہے ہیں اگر آپ کے عمل ، آپ کے الفاظ یا آپ کے بحث مباحثے کسی بھی طرح سے دین اور انقلاب کو کمزور کررہے ہیں تو جان لیجئے کہ آپ پیغمبر اسلام اور اس راہ کے شہداء کے مغضوب ہیں،سرحدوں کو معین کر لیجئے، اگر آپ متفق رہنا چاہتے ہیں تو اکٹھے ہونے کی شرط یہ ہے کہ اصول کے دائرے میں رہ کر اتفاق رائے کریں اور واضح طور پر اظہار کریں، اصول کوئی بہت لمبے چوڑے نہیں ہیں بلکہ کچھ اہم نقطے ہیں، ان میں سے پہلا ولایت فقیہ پر عملی عقیدہ ہے،یعنی اس کے مشوروں کو سنیے، ایک سچے مذہبی اور علمی معالج کی حیثیت سے ، اس کے مشوروں اور یاد دہانیوں پر پورے دل وجان سے عمل کیجئے جو بھی اسلامی جمہوریہ میں کسی ذمہ داری قبول کرنا چاہتا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ ولایت فقیہ پر حقیقی عقیدہ اور عمل کا حامل ہو، میں نظریاتی ولایت کو نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد قانونی ولایت ہے کیونکہ ان دنوں میں سے کوئی بھی اتحاد کا مسئلہ حل نہیں کرتی ہے، قانونی ولایت عام لوگوں کے لئے مخصوص ہے جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں لیکن عملی ولایت ان عہدیداروں کے لئے ہے جو ملک کا اہم بوجھ اٹھانا چاہتے ہیں وہ بھی اسلامی اور اتنے شہید دینے والے ملک کا۔
اسلامی جمہوریہ اور اس کی بنیاد پر حقیقی یقین، اخلاقیات اور اقدار سے لے کر ذمہ داریوں تک؛ چاہے وہ ذمہ داری اسلام کے تئیں ہو یا قوم کی ،پاکیزہ ،ایماندار اور قوم کی خدمت کرنے والےافرادکو ملازمت دینا نہ کہ ایسے افراد جو اگر ایک گاؤں کی میز تک پہنچ جاتے ہیں تو سابق خانوں کی یاد کو تازہ کر دیتے ہیں، بدعنوانی سے لڑنے اور کرپشن اور تعیشات سے دوری کو اپنا نصب العین قراردیں، اپنی حکومت اور اختیار کے دور میں چاہے وہ کسی بھی ذمہ داری کی شکل میں ہوں انہیں لوگوں کے احترام اور ان کی خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دینا چاہیے ، انہیں لوگوں کا حقیقی خادم ، اقدار کو فروغ دینے والا ہونا چاہیے نہ کہ بے بنیاد تأویلوں کے ساتھ اقدار کا بائیکاٹ کرنے والا، عہدیداروں کو معاشرے کے باپ کی طرح اس تربیت اور حفاظت پر مبنی اپنی ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے ، نہ کہ انہیں جذبات میں آکر اور کچھ جذباتی اور وقت ووٹوں کو حاصل کرنے کی خاطر معاشرے میں طلاق اور بدعنوانی کو فروغ دینے اور کنبوں کو توڑنے والے اخلاقیات کی حمایت کرنا چاہیے، حکومتیں خاندان کی طاقت کا ایک اہم عنصر ہیں اور دوسری طرف کنبہ کے ٹوٹنے میں بھی ان کا اہم کردار ہوتا ہے، اگر اصولوں پر عمل کیا جائے گا توہر ایک رہبر، انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی راہ پر گامزن ہوگا نیز صالح فرد کا انتخاب کرنے کے لئے انہیں اصولوں پر مبنی ایک مناسب مقابلہ ہوگا۔
سپاہی اور فوجی بھائیوں سے خطاب…
کچھ جملے عزیر اور جانثار سپاہیوں اور فوجی بھائیوں سے کہنا چاہوں گا: کمانڈروں کے انتخاب میں ذمہ داریوں کا معیار شجاعت اور بحران کو سنبھالنے کی ہمت قرا دیجئے، فطری طور پر میں ولایت کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ولایت مسلح افواج کا حصہ نہیں ہے بلکہ مسلح افواج کی بقا کی اساس ہے اور اس شرط میں رخنہ ایجاد نہیں ہوسکتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دشمن، اس کے اہداف اوراس کی پالیسیوں کو بروقت سمجھنا ہے اور وقت پر فیصلہ کرنا اور بروقت عمل کرناہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اگر اپنے وقت میں انجام دیا جائے تو یہ آپ کی کامیابی پر بہت بڑا اثر ڈالتا ہے۔
علماء کرام اور مراجع عظام سے خطاب …
چالیس سال سے میدان میں موجود سپاہی کی طرف سے عظیم الشأن علما اور معاشرے میں روشنی بکھیرنے والے نیز تاریکیوں کو دور کرنے والےمراجع عظام تقلید؛ آپ کے سپاہی نے ایک چوکی سے دیکھا ہےکہ اگر اس نظام کو نقصان پہنچا تومذہب اور اس کی تمام اقدار جن کے لیے آپ حضرات نے حوزۂ علمیہ میں پاپڑ بیلےاور صعوبتیں برداشت کی ہیں، کو ختم کردیا جائے گا، یہ زمانہ باقی زمانوں سے الگ ہے ، اس بار اگر وہ مسلط ہوگئے تو اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا،صحیح طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی مصلحت کے انقلاب ، اسلامی جمہوریہ اور ولی فقیہ کی مدد کی جائے،حوادث میں دوسرے آپ کو جو اسلام کی امید ہیں کسی مصلحت اندیشی کا شکا ر نہ بنادیں، آپ سب نےہمیشہ امام خمینی سے محبت کی اور ان کے راستے کے عقیدت مند رہے، امام خمینی کا راستہ ولایت فقیہ ہے پرچم تلے امریکہ کا مقابلہ ، اسلامی جمہوریہ اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ہے، میں نے اپنی ناقص عقل سے دیکھا ہے کہ شیطان صفت افراد نے بہت کوشش کی اور آج بھی کر رہے ہیں کہ مراجع عظام اور معاشرے میں بااثر علما کو اپنی باتوں کے ذریعہ اور اپنے آپ کوحق کا طرف دار ظاہر کرتے ہوئے خاموشی اور مصلحت اندیشی کے جال میں پھنسا دیں،جبکہ حق ظاہر ہے ، اسلامی جمہوریہ ،اقدار اور ولایت فقیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی میراث ہیں اور ان کی سنجیدگی سے تائید کی جانی چاہئے، میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو بہت مظلوم اور تنہا دیکھ رہا ہوں، انہیں آپ کی مدد اور ساتھ کی ضرورت ہے ، آپ حضرات کو اپنے بیانات ، ملاقاتوں اور مدد کے ذریعہ ان کے ساتھ مل کر معاشرے کی رہنمائی کرنی چاہئے، اگر اس انقلاب کو نقصان پہنچا تو ملعون شاہ جیسا زمانہ بھی نہیں ہوگا بلکہ سامراج کی مکمل الحاد اور گہرا انحراف پیدا کرنے کی ناقابل تلافی کوشش ہوگی، میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو چومتا ہوں اور اس بیان پر معذرت چاہتا ہوں ، میں آپ کے حضور میں شرفیاب ہو کر آمنے سامنے یہ باتیں کرنے کا اعزاز چاہتا تھا لیکن توفیق نہیں ہوئی۔
میں اپنے پڑوسیوں ، دوستوں اور ساتھیوں سے بخشش اور معافی چاہتا ہوں، میں ثار اللہ بٹالین کے مجاہدین اور سپاہ قدس کی عظیم فوج جو دشمن کی آنکھ کا کانٹا ہے اور اس کے راستے میں رکاوٹ ہے،عفو وبخشش کا طلبگار ہوں خاص کر ان افراد سے جنہوں نے بھائیوں کی طرح میری مدد کی، میں حسین پور جعفری کا نام لیے بغیر نہیں رہ سکتا جنہوں نے خیر خواہانہ اور برادارنہ ایک بچے کی طرح مدد کی،میں انہیں اپنے بھائیوں کی طرح چاہتا تھا،ان کے اہل خانہ اور تمام مجاہد بھائی جنہیں میں نے بہت تکلیف دی ہے معافی چاہتا ہوں، البتہ قدس فورس کے سب بھائیوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت کی اور میری مدد کی نیزمیرے عزیر دوست جنرل قاآنی جنہوں نے صبر اور حوصلہ کے ساتھ مجھے برداشت کیا۔
والسلام
خدا وندا! تیراشکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے پشت در پشت،صدی در صدی ایک صلب سے دوسرے صلب میں منتقل کیا اور ایسے زمانے میں وجود کی شکل میں آنے کی اجازت دی جہاں آئمہ ٔ معصومین علیہم السلام کے سب سے قریب اور تیرے عظیم ولی کے زمانے کو درک کرنے کا امکان تھا،تو نے مجھے توفیق دی کہ تیرے نیک اور صالح بندے خمینی عظیم کو درک کر سکوں اور ان کی رکاب میں ایک سپاہی بن سکوں،اگر مجھے تیرے عظم پیغمبر محمد مصطفیﷺ کا صحابی بننے کی توفیق نصیب نہ ہو سکی اور اگر میں علی ابن ابی طالب اور ان کی معصوم اولاد علیہم السلام کی مظلومیت کے زمانے کو درک کرنے کی سعادت سے محروم رہا تو تو نے مجھے اسی راستہ پر قرار دیا جس پر انھوں نے جو عالم اور خلقت کی جان تھے ،اپنی جانیں قربان کیں،خدا وندا! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے اپنے نیک بندے خمینی عزیز کے بعد اپنے ایک اور نیک بندے جس کی مظلومیت اس کے صالح ہونے سے زیادہ ہے،ایسا مرد جو آج اسلام ،تشیع،ایران اور اسلام سیاسی دنیا کا مدبر اور حکیم خامنہ ای عزیز کہ میری جان ان پر قربان ہو جائے، کے راستہ پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائی۔
پروردگارا! میں تیرا شکر گزار ہوں کہ تو مجھے اپنے بہترین بندوں کی صف میں شامل کیا اوران کے بہشتی رخساروں پر بوسہ دینے نیز ان (یعنی اس راہ کے مجاہدین اور شہدا) سے عطر الہی کی خوشبو کو محسوس کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔
خداوندا! ائے قادر عزیر، ائے رحمان رزاق تیری چوکھٹ پر شکر شرم کے ساتھ سر جھکاتا ہوں کہ تو نے مجھےمذہب تشیع اور اسلام کے حقیقی عطر فاطمۂ اطہر اور ان کی اولاد کے راستے پر چلنے کی توفیق عنایت کی ،تو نے مجھے علی ابن ابی طالب اور فاطمۂ اطہر علیہما السلام کی اولاد پر آنسو بہانے کی سعادت عطا کی؛یہ کتنی عظیم نعمت ہے جوتیری سب سے عظیم اور سب سے گرانقدر نعمت ہے،یہ ایسی نعمت ہے جس میں نور ہے،معنویت ہے،ایسی بے قراری ہے جس کے اندر سے زیادہ سکون پایا جاتا ہے،ایسا غم ہے جو سکون اور معنویت کا حامل ہے۔
خدا وندا! تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھےغریب لیکن دیندار،عاشق اہل بیت علیہم السلام اور ہمیشہ پاک راستہ پر چلنے والے ماں باپ عطا کیے،میں تجھ سے عاجزانہ التماس کرتا ہوں کہ انھیں جنت میں اپنے اولیا کے ساتھ قرار دے اور مجھے عالم آخرت میں ان کی خدمت میں حاضر ہونے توفیق عنایت فرما۔
خدایا! مجھے تیری بخشش کی امید ہے
ائے خدائے عزیز،ائے خالق حکیم اور یکتا ! میرے ہاتھ خالی ہیں اور زادہ سفر نہیں ہے، میں بغیر کسی زاد راہ اور توشہ کے تیری بخشش اور کرم کے دسترخوان کی امید میں آرہا ہوں،میں کوئی توشہ نہیں لارہا ہوں اس لیے کہ ایک فقیر کو کریم اور سخی کے پاس زاد اور توشہ لانےکی کیا ضرورت ہے؟! میں تو صرف اور صرف تیرے فضل وکرم کی امید میں آرہا ہوں،میں اپنے ساتھ دو بند آنکھیں لا رہا ہوں جن میں تمام ناپاکیوں کے ساتھ ساتھ ایک گرانقدر زخیرہ موجود ہے اور فطمہ کے لال پر بہنے والے آنسوؤں کے موتی ہیں،اہل بیت علیہم السلام پر بہنے والے اشکوں کے گوہر ہیں،مظلوم کے دفاع میں بہنے والے اشکوں کے لعل ہیں، ظالم کے چنگل میں پھنسے مظلوم اور یتیم کے دفاع میں بہنے والے آنسو ہیں۔
خداوندا! میں ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے،نہ ان کے پاس پیش کرنے کے لیے اور نہ ہی ان میں دفاع کرنے کی طاقت ہے لیکن میں نے اپنے ہاتھوں میں ایک چیز ذخیرہ کی ہوئی ہے اور مجھے اسی کی امید ہے ،وہ ان کا ہمیشہ تیری بارگاہ میں اٹھنا ہے، جب میں نے انھیں تیر طرف بلند کیا، جب میں نے انھیں تیرے لیے زمین پر اور زانو پر رکھا، جب میں نے تیرے دین کے دفاع میں اسلحہ ہاتھ میں لیا،یہ میری ہاتھوں کی دولت ہے جس کے بارے میں مجھے امید ہے کہ تو نے قبول کیا ہو گا۔
خداوندا!میری ٹانگیں کمزور ہیں ، ان میں رمق نہیں ہے،ا ن میں جہنم کے اوپر کے پل سے گذرنے کی ہمت نہیں ہے،میرے پیر تو عام پل سے گذرتے ہوئے لرزنے لگتے ہیں تو میں تیرے پل صراط جو بال سے باریک اورتلوار کی دھار سے زیادہ تیز ہے ، سے کیسے گذروں گا لیکن ایک امید ہے جو مجھے نوید دیتی ہے کہ ہو سکتا ہے میرے پیر نہ لرزیں،ممکن ہے میں نجات حاصل کر لوں، میں نے ان پیروں سے تیرے حرم قدم رکھا ہے ،تیرے گھر کا طواف کیا ہے،تیرے ولیوں کی بارگاہوں میں ، حسین اور عباس کے بین الحرمین میں ننگے پیر چلا ہوں، میں نے ان پیروں کو طولانی مورچوں میں رکھا ہے،تیرے دین کے دفاع میں ان سے دوڑا ہوں،چھلانگیں لگائی ہیں،گھٹنوں کے بل چلا ہوں، میں رویا ہوں رولایاہے ،ہنسا ہوں اور ہنسایا ہے،گرا ہوں ،اٹھا ہوں،مجھے امید ہے کہ ان چھلانگیں لگانے ، گھٹنوں کے بل چلنے اور ان روضوں کے احترام میں تو انھیں بخش دے گا۔
خدا وندا: میرا سر، میری عقل، میرے ہونٹ ،میرے کان ،میرا دل ،میرے تمام اعضاء و جوار اسی امید میں ہیں یا ارحم الراحمین، مجھے قبول کر لے، پاکیزہ قبول کر لے ویسے قبول کر کہ میں تیرے دیدار کے لائق ہو سکوں ،میں تیرے دیدار کے سوا کچھ نہیں چاہتا، میری جنت تیرا جوار ہے، یا اللہ!
خدایا !میں اپنے دوستوں کے قافلے سے بچھڑ ا ہوا ہوں خدا وند،اے عزیز کئی سال ہو چکے ہیں کہ میں ایک قافلے سے بچھڑہوا ہوں ،میں ہمیشہ کچھ لوگوں کو اس طرف روانہ کرتا ہوں لیکن خود یہیں رہ جاتا ہوں ،تو جانتا ہے کہ میں ہرگز تجھے بھلانہیں سکا، میں ہمیشہ انہیں یاد کرتا ہوں ان کے نام نہ صرف میرے ذہن میں بلکہ میرے دل میں، میری آنکھوں میں اور میرے آنسو میں محفوظ ہیں۔
میرے عزیز! میرا جسم بیمار ہوتا جا رہا ہے کیونکر ممکن ہے کہ جو چالیس سال تک تیرے در پر کھڑا رہے تو اسے قبول نہ کرے ؟،ائے میرے خالق ،میرے محبوب، میرے عشق، میں نے ہمیشہ تجھ سے یہی چاہا ہے کہ میرے وجود کو اپنے عشق سے لبریز کر دے ،مجھےاپنے فراق میں اور جدائی میں جلا دے اور مار دے۔
میرے عزیز ! میں بے قراری اور بچھڑنے کی رسوائی سے بیابانوں میں رہا ہوں، میں ایک امید میں اس شہر سے اس شہر، اس صحرا سے اس صحرا میں، سر دی سے گرمی میں جاتا ہوں، اے کریم ،اے حبیب میں نے تیرے کرم سے لو لگائی ہے ،تو خود جانتا ہے کہ میں تجھے چاہتا ہوں ، تو اچھی طرح جانتا ہے کہ میں تیرے علاوہ کچھ نہیں چاہتا مجھے اپنے آپ سے ملا دے،
خدایا !میرے پورے وجود پر وحشت طاری ہے، میں اپنے نفس کو قابو میں رکھنے پر قادر نہیں ہوں، مجھے رسوا نہ کرنا، ان لوگوں کے احترام میں جن کا احترام تو نے اپنے اوپر واجب قرار دیا ہے، کسی بھی بے احترامی سے پہلے کہ جس کی وجہ سے ان کے احترام پر بھی حرف آئے مجھے اس قافلے سے ملا دے جو تیری طرف آ چکا ہے۔
میرے معبود، میرے عشق ،میرے معشوق، میں تجھے بہت چاہتا ہوں، میں کئی بار دیکھا اور محسوس کیا کہ میں تجھ سے الگ نہیں رہ سکتا بس اب بہت ہوگیا بس ،مجھے قبول کرلے لیکن ایسے قبول کر کہ میں تیرے لائق ہو سکوں۔
اپنے مجاہدبھائیوں اور بہنوں سے خطاب …
اس دنیا میں میرے مجاہد بھائیو اور بہنو،اے وہ لوگو جنہوں نے اپنے سروں خدا کے لیے عاریہ پر دیا ہے اور اپنی جانوں کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر بازار عشق میں سودا کرنے آئے ہیں،توجہ کیجئے کہ اسلامی جمہوریہ اسلام اور تشیع کا مرکز ہے،آج حسین ابن علی کا خیمہ ایران ہے،جان لو کہ اسلامی جمہوریہ حرم ہے اور اگر یہ حرم باقی بچے گا تو دوسرے حرم بچیں گے ،اگر دشمن اس حرم کو ختم کر دے تو کوئی حرم باقی نہیں بچے گا ، نہ حرم ابراہیمی ؐ اور نہ حرم محمدیﷺ۔
میرے بھائیو اور بہنو! عالم اسلام ہمیشہ قیادت کا محتاج ہے ایسی قیادت جو معصوم کی جانب سے منصوب نیز شرعی اور فقہی لحاظ سے ان سے متصل ہو، آپ بخوبی جانتے ہیں کہ دنیا کو لرزانے والا سب سے زیادہ پاکیزہ عالم دین جس نے اسلام کو زندہ کیا یعنی ہمارے عظیم اور پاک خمینی نے نے اس امت کی نجات کا واحد راستہ ولایت فقیہ کو قرار دیا ہے لہذا چاہے آپ شیعہ ہونے کے ناطے اس پر مذہبی عقیدہ رکھتے ہوں یا سنی ہونے کی حیثیت سے اس عقلی عقیدہ رکھتے ہوں،جان لیجئے کہ ہر طرح کے اختلاف کو کنارے رکھ کر اسلام کو بچانے کے لیے اس خیمہ کو نہ چھوڑنا اس لیے کہ یہ خیمہ رسول اللہ ﷺ کا خیمہ ہے، اسلامی جمہوریہ کے ساتھ دنیا کی دشمنی کی بنیاد اس خیمے کو آگ لگانا اور اسے ختم کرنا ہے، اس کے گرد گھومیئے،خدا کی قسم ، خدا کی قسم ، خدا کی قسم اگر اس خیمے کو نقصان پہنچا تو خانۂ کعبہ،روضۂ رسول خدا ، نجف اشرف ، کربلائے معلی ، کاظمین ، سامرا اور مشہد مقدس باقی نہیں رہیں گے، قرآن مجید کو نقصان پہنچے گا۔
ایرانی بھائی بہنوں سے خطاب …
میرے پیارے ایرانی بھائیو اور بہنو، قابل فخر اور سربلند لوگو ، مجھ اور مجھ جیسوں کی جانیں ہزاروں بارآپ کر قربان ہوں، جس طرح آپ نے اسلام اور ایران کے لئے لاکھوں جانیں قربان کیں اسی طرح اصولوں کا خیال رکھنا ، اصولوں سے مراد ولایت فقیہ ہے، خاص کر اس مدبر مظلوم اور دین،عرفان، فقہ اور معرفت میں ڈوبے ہوئے عزیزخامنہ ای کو اپنی جان سمجھئے گا ، ان کے تقدس کا خیال رکھیےگا۔
میرے بھائیو ، بہنو ، ماں،باپ اور پیارو! اسلامی جمہوریہ آج اپنے قابل فخر دور سے گزر رہا ہے،جان لیجئے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دشمن آپ کس نظر سے دیکھ رہا ہے، دشمن نے آپ کے نبی کو کس نظر سے دیکھا ، خدا کے نبی اور اس کی اولاد کے ساتھ کے ساتھ کیا سلوک کیا ، ان پر کیا کیا الزامات لگائے گئے؟ انہوں نے پیغمبر ﷺ کے پاک بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا؟ دشمنوں کی مذمت، ان کے بہتان اور دباؤ آپ میں تفرقہ نہ ڈالے،جان لیجئے کہ خمینی عزیز کا سب سے اہم فن یہ تھا کہ وہ پہلے اسلام کو ایران کی پشت پناہی میں لائے اور پھر ایران کو اسلام کی خدمت میں لگادیا، اگر یہ اسلام نہ ہوتا اور اگر اسلامی روح اس قوم پر حکومت نہ کرتی تو صدام اس ملک کو بھیڑیے کی طرح چیر پھاڑ دیتا، امریکہ بھی پاگل کتے کی طرح ایسا ہی کرتا لیکن امام کا فن یہ تھا کہ وہ اسلام کو پشت پناہی میں لائے ،آپ عاشورا ،محرم، صفر اور فاطمیہ کو اس قوم کی حمایت میں لائے،امام انقلاب کے اندر انقلابات لائے، اسی وجہ سے ہر دور میں ہزاروں فداکاروں نے آپ ، ایران کے عوام ، سرزمین ایران اور اسلام کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور عظیم ترین مادی طاقتوں کی تذلیل کی ہے، میرے عزیزو اصولوں میں اختلاف نہ کرنا، شہدا ہم سب کی عزت اور وقار کا مرکز ہیں صرف آج کے لئے نہیں بلکہ وہ ہمیشہ خدائے قادر مطلق کے وسیع سمندر سے جڑ چکے ہیں، اپنی آنکھوں ، دل اور زبان میں ان کو بڑا دیکھیں جیسے وہ ہیں، اپنے بچوں کو ان کے نام اور تصاویر کا تعارف کروائیں، شہدا کے بچوں کو جو آپ سب کے یتیم ہیں ، شائستگی اور احترام کی نگاہ سے دیکھئے گا، ان کی زوجاؤں اور والدین کا احترام کریں، جس طرح آپ اپنے بچوں کی غلطیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اسی طرح ان کےوالدین ، ماؤں ، بیویوں اور بچوں کی غیر موجودگی میں ان پر خصوصی توجہ دیں، مسلح افواج ، جن کے کمانڈر آج ولی فقیہ ہیں، اپنے ، اپنے مذہب ، اسلام اور اپنے ملک کے دفاع کی خاطر ان کا احترام کریں اور مسلح افواج کو بھی اپنے گھر کا دفاع کرنے کی طرح شائستگی اور احترام کے ساتھ اپنی قوم، اپنی عوام، اپنی عزت،اپنی سرزمین کی حفاظت اور مدد کرنا چاہئےاور اپنی قوم کی بہ نسبت جیسا کہ امام المتقین امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا مسلح افواج کوقوم کی عزت کا سرچشمہ اور کمزوروں اور عوام کے قلعہ اور پناہ گاہ نیز اپنے ملک کی زینت ہونا چاہیے۔
کرمان کے عزیز لوگوں سے خطاب …
کرمان کے عزیزلوگوں سے خطاب میں بھی میں ایک نقطہ بیان کرنا چاہتا ہوں، یہ لوگ بڑے پیارے ہیں ، انھوں نے 8 سال کے مقدس دفاع کے دوران سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں، انھوں نے اسلام کی راہ میں عظیم کمانڈر اور مجاہد پیش کیے ہیں، میں ہمیشہ ان سے شرمسار ہوں، انہوں نے اسلام کی خاطر آٹھ سال مجھ پر اعتماد کیا، انھوں نے اپنے بچوں کو قتلگاہوں اور شدید لڑائیوں ، کربلا 5 ، والفجر 8 ، طریق القدس ، فتح المبین ، بیت المقدس وغیرہ جیسی کاروائیوں میں بھیجا، اور انہوں نے مظلوم امام حسین ابن علی کے نام اور ان کی محبت کے نام پر ثاراللہ نامی ایک بڑی اور قیمتی فوج کی بنیاد رکھی ، اس لشکر نے متعدد مرتبہ ایک فاتح تلوار کی طرح ایرانی ملت اور مسلمانوں کے دلوں کو خوش کیا اور ان کے چہروں سے رنج وغم کو دور کیا،میرے عزیزو! میں خدا کی مرضی سے آج تمہارے درمیان سے چلا گیا ہوں، میں آپ کو اپنے والدین ، اپنے بچوں اور بہن بھائیوں سے زیادہ چاہتا ہوں کیونکہ میں ان سے زیادہ آپ کے ساتھ رہاہوں جبکہ میں ان کے جگر کا ٹکڑا تھا اور وہ بھی میرا ایک حصہ تھے لیکن انہوں نے بھی قبول کیا کہ میں آپ کے ایرانی قوم کے سامنے اپنے وجود کا نذرانہ پیش کرؤں، میں چاہوں گا کہ کرمان ہمیشہ اور آخر تک ولایت کے ساتھ رہے ، یہ ولایت علی ابن ابی طالب کی ولایت ہے اور یہ خیمہ فاطمہ کے لال حسین کا خیمہ ہے ، اس کاطواف کرتے رہیے،میں آپ سب سے مخاطب ہوں، آپ جانتے ہیں کہ میں نے زندگی میں سیاسی رنگوں کے بجائے انسانیت ، جذبات اور جبلت پر زیادہ توجہ دی، میرا خطاب آپ سب سے ہے کہ آپ مجھے اپنا بھائی اور بیٹا سمجھتے ہیں، میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ اس وقت آپ اسلام کو تنہا مت چھوڑیں کیونکہ اس زمانے میں اسلام اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی شکل میں موجود ہے، اسلام کے دفاع کے لئے خصوصی ہوشیاری اور توجہ کی ضرورت ہے ، سیاسی معاملات میں جہاں اسلام ، اسلامی جمہوریہ ، مقدسات مقامات اورولایت فقیہ کی بات آتی ہے تو یہ خدا کے رنگ ہیں اور خدا کے رنگ پر کسی بھی رنگ کوترجیح مت دیں۔
شہدا کے لواحقین سے خطاب …
میرے بچو ، میری بیٹیو اور بیٹو ، شہدا کے بچو ، شہدا ہے والدین، اے ہمارے ملک کے جلتے چراغو ،شہدا کے بھائیو بہنو اور شہداء کی وفادار اور متقی بیویو، اس دنیا میں جس آواز کو میں روزانہ سنتا تھا، اس سے میری دل لگی تھی تھا ، مجھے قرآن کی آواز کی طرح چین او رسکون عطا کرتی تھی اور روحانی طور پرمیری سب سے بڑی مدد گار تھی ، وہ شہدا کے بچوں کی آواز تھی، ایک وہ آواز تھی جس سے میں کبھی کبھی روزانہ کی بنیاد پر مانوس ہوتا تھا، یہ شہدا کے والدین کی آواز تھی کہ ان کے وجود میں میں نے اپنی والدہ اور والد کی موجودگی کو محسوس کیا ، میرے عزیزو! آپ اس قوم کے غازی ہیں، اپنی قدر جانیں،آپ اپنے شہید کو اپنے اندر ظاہر کریں تاکہ جو بھی آپ کو ، شہید کے باپ یا شہید کے بچے کو دیکھے وہ خود شہید کو محسوس کرے گا وہ بھی اسی روحانیت ، طاقت اور کردار کے ساتھ، میں آپ سے گذارش کرتا ہوں کہ مجھے بخش دیں اور معاف کر دیں، میں آپ میں سے بہت سے حتی کہ آپ کے شہید کے بچوں کے بارے میں بھی ضروری حق پورا نہیں کرسکا ، اس کے لیے میں توبہ بھی کر رہا ہوں اور معافی کا طلبگار بھی ہوں، میں چاہوں گا کہ شہدا کے بچے میری جنازے کو اپنے کندھوں پر اٹھائیں کہ شاید خدا ان کے پاکیزہ ہاتھوں کے میرے جسم کے ساتھ لگنے کی برکت سے مجھے معاف کردے۔
ملک کے سیاستدانوں سے خطاب …
میں ملک کے سیاست دانوں کے لئے بھی کچھ جملے کہنا چاہوں گا، ان کے لیے بھی جو خود کو اصلاح پسند کہتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو اپنے آپ کو اصول پسند مانتے ہیں، جس چیز پر مجھے ہمیشہ دکھ رہا ہے وہ یہ ہےکہ ہم عام طور پر خدا ، قرآن اور اقدار کو دو جگہوں پر بھول جاتے ہیں بلکہ انھیں قربان کر دیتے ہیں،عزیزو! آپ ایک دوسرے سے جوبھی مقابلہ کر رہے ہیں اور ایک دوسرے سے جیسی بھی بحث کر رہے ہیں اگر آپ کے عمل ، آپ کے الفاظ یا آپ کے بحث مباحثے کسی بھی طرح سے دین اور انقلاب کو کمزور کررہے ہیں تو جان لیجئے کہ آپ پیغمبر اسلام اور اس راہ کے شہداء کے مغضوب ہیں،سرحدوں کو معین کر لیجئے، اگر آپ متفق رہنا چاہتے ہیں تو اکٹھے ہونے کی شرط یہ ہے کہ اصول کے دائرے میں رہ کر اتفاق رائے کریں اور واضح طور پر اظہار کریں، اصول کوئی بہت لمبے چوڑے نہیں ہیں بلکہ کچھ اہم نقطے ہیں، ان میں سے پہلا ولایت فقیہ پر عملی عقیدہ ہے،یعنی اس کے مشوروں کو سنیے، ایک سچے مذہبی اور علمی معالج کی حیثیت سے ، اس کے مشوروں اور یاد دہانیوں پر پورے دل وجان سے عمل کیجئے جو بھی اسلامی جمہوریہ میں کسی ذمہ داری قبول کرنا چاہتا ہے اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ ولایت فقیہ پر حقیقی عقیدہ اور عمل کا حامل ہو، میں نظریاتی ولایت کو نہیں کہہ رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد قانونی ولایت ہے کیونکہ ان دنوں میں سے کوئی بھی اتحاد کا مسئلہ حل نہیں کرتی ہے، قانونی ولایت عام لوگوں کے لئے مخصوص ہے جس میں مسلمان اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں لیکن عملی ولایت ان عہدیداروں کے لئے ہے جو ملک کا اہم بوجھ اٹھانا چاہتے ہیں وہ بھی اسلامی اور اتنے شہید دینے والے ملک کا۔
اسلامی جمہوریہ اور اس کی بنیاد پر حقیقی یقین، اخلاقیات اور اقدار سے لے کر ذمہ داریوں تک؛ چاہے وہ ذمہ داری اسلام کے تئیں ہو یا قوم کی ،پاکیزہ ،ایماندار اور قوم کی خدمت کرنے والےافرادکو ملازمت دینا نہ کہ ایسے افراد جو اگر ایک گاؤں کی میز تک پہنچ جاتے ہیں تو سابق خانوں کی یاد کو تازہ کر دیتے ہیں، بدعنوانی سے لڑنے اور کرپشن اور تعیشات سے دوری کو اپنا نصب العین قراردیں، اپنی حکومت اور اختیار کے دور میں چاہے وہ کسی بھی ذمہ داری کی شکل میں ہوں انہیں لوگوں کے احترام اور ان کی خدمت کو عبادت سمجھ کر انجام دینا چاہیے ، انہیں لوگوں کا حقیقی خادم ، اقدار کو فروغ دینے والا ہونا چاہیے نہ کہ بے بنیاد تأویلوں کے ساتھ اقدار کا بائیکاٹ کرنے والا، عہدیداروں کو معاشرے کے باپ کی طرح اس تربیت اور حفاظت پر مبنی اپنی ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے ، نہ کہ انہیں جذبات میں آکر اور کچھ جذباتی اور وقت ووٹوں کو حاصل کرنے کی خاطر معاشرے میں طلاق اور بدعنوانی کو فروغ دینے اور کنبوں کو توڑنے والے اخلاقیات کی حمایت کرنا چاہیے، حکومتیں خاندان کی طاقت کا ایک اہم عنصر ہیں اور دوسری طرف کنبہ کے ٹوٹنے میں بھی ان کا اہم کردار ہوتا ہے، اگر اصولوں پر عمل کیا جائے گا توہر ایک رہبر، انقلاب اور اسلامی جمہوریہ کی راہ پر گامزن ہوگا نیز صالح فرد کا انتخاب کرنے کے لئے انہیں اصولوں پر مبنی ایک مناسب مقابلہ ہوگا۔
سپاہی اور فوجی بھائیوں سے خطاب…
کچھ جملے عزیر اور جانثار سپاہیوں اور فوجی بھائیوں سے کہنا چاہوں گا: کمانڈروں کے انتخاب میں ذمہ داریوں کا معیار شجاعت اور بحران کو سنبھالنے کی ہمت قرا دیجئے، فطری طور پر میں ولایت کا ذکر نہیں کر رہا ہوں کیونکہ ولایت مسلح افواج کا حصہ نہیں ہے بلکہ مسلح افواج کی بقا کی اساس ہے اور اس شرط میں رخنہ ایجاد نہیں ہوسکتا۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ دشمن، اس کے اہداف اوراس کی پالیسیوں کو بروقت سمجھنا ہے اور وقت پر فیصلہ کرنا اور بروقت عمل کرناہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کو اگر اپنے وقت میں انجام دیا جائے تو یہ آپ کی کامیابی پر بہت بڑا اثر ڈالتا ہے۔
علماء کرام اور مراجع عظام سے خطاب …
چالیس سال سے میدان میں موجود سپاہی کی طرف سے عظیم الشأن علما اور معاشرے میں روشنی بکھیرنے والے نیز تاریکیوں کو دور کرنے والےمراجع عظام تقلید؛ آپ کے سپاہی نے ایک چوکی سے دیکھا ہےکہ اگر اس نظام کو نقصان پہنچا تومذہب اور اس کی تمام اقدار جن کے لیے آپ حضرات نے حوزۂ علمیہ میں پاپڑ بیلےاور صعوبتیں برداشت کی ہیں، کو ختم کردیا جائے گا، یہ زمانہ باقی زمانوں سے الگ ہے ، اس بار اگر وہ مسلط ہوگئے تو اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا،صحیح طریقہ یہ ہے کہ بغیر کسی مصلحت کے انقلاب ، اسلامی جمہوریہ اور ولی فقیہ کی مدد کی جائے،حوادث میں دوسرے آپ کو جو اسلام کی امید ہیں کسی مصلحت اندیشی کا شکا ر نہ بنادیں، آپ سب نےہمیشہ امام خمینی سے محبت کی اور ان کے راستے کے عقیدت مند رہے، امام خمینی کا راستہ ولایت فقیہ ہے پرچم تلے امریکہ کا مقابلہ ، اسلامی جمہوریہ اور مظلوم مسلمانوں کی حمایت کرنا ہے، میں نے اپنی ناقص عقل سے دیکھا ہے کہ شیطان صفت افراد نے بہت کوشش کی اور آج بھی کر رہے ہیں کہ مراجع عظام اور معاشرے میں بااثر علما کو اپنی باتوں کے ذریعہ اور اپنے آپ کوحق کا طرف دار ظاہر کرتے ہوئے خاموشی اور مصلحت اندیشی کے جال میں پھنسا دیں،جبکہ حق ظاہر ہے ، اسلامی جمہوریہ ،اقدار اور ولایت فقیہ امام خمینی رحمت اللہ علیہ کی میراث ہیں اور ان کی سنجیدگی سے تائید کی جانی چاہئے، میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای کو بہت مظلوم اور تنہا دیکھ رہا ہوں، انہیں آپ کی مدد اور ساتھ کی ضرورت ہے ، آپ حضرات کو اپنے بیانات ، ملاقاتوں اور مدد کے ذریعہ ان کے ساتھ مل کر معاشرے کی رہنمائی کرنی چاہئے، اگر اس انقلاب کو نقصان پہنچا تو ملعون شاہ جیسا زمانہ بھی نہیں ہوگا بلکہ سامراج کی مکمل الحاد اور گہرا انحراف پیدا کرنے کی ناقابل تلافی کوشش ہوگی، میں آپ کے مبارک ہاتھوں کو چومتا ہوں اور اس بیان پر معذرت چاہتا ہوں ، میں آپ کے حضور میں شرفیاب ہو کر آمنے سامنے یہ باتیں کرنے کا اعزاز چاہتا تھا لیکن توفیق نہیں ہوئی۔
میں اپنے پڑوسیوں ، دوستوں اور ساتھیوں سے بخشش اور معافی چاہتا ہوں، میں ثار اللہ بٹالین کے مجاہدین اور سپاہ قدس کی عظیم فوج جو دشمن کی آنکھ کا کانٹا ہے اور اس کے راستے میں رکاوٹ ہے،عفو وبخشش کا طلبگار ہوں خاص کر ان افراد سے جنہوں نے بھائیوں کی طرح میری مدد کی، میں حسین پور جعفری کا نام لیے بغیر نہیں رہ سکتا جنہوں نے خیر خواہانہ اور برادارنہ ایک بچے کی طرح مدد کی،میں انہیں اپنے بھائیوں کی طرح چاہتا تھا،ان کے اہل خانہ اور تمام مجاہد بھائی جنہیں میں نے بہت تکلیف دی ہے معافی چاہتا ہوں، البتہ قدس فورس کے سب بھائیوں نے بھائیوں کی طرح میرے ساتھ محبت کی اور میری مدد کی نیزمیرے عزیر دوست جنرل قاآنی جنہوں نے صبر اور حوصلہ کے ساتھ مجھے برداشت کیا۔
والسلام
رائے
ارسال نظر برای این مطلب