حاج فارسی میں زوار، مسافر اور خصوصاً بیت اللہ شریف کے زوار اور مسافر کو کہتے ہیں۔ جسے ہم اردو میں حاجی کہتے ہیں، یعنی جس نے بیت اللہ شریف کا حج کر رکھا ہو۔ فارسی ثقافت میں بزرگوں کے احترام کے لیے مرد کو حاجی اور عورت کو حاجیہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ بہت زیادہ احترام دے کر پکارنے کے لیے معمولاً لفظ “حاج” استعمال کیا جاتا ہے۔ مکتب مخصوص جہان بینی اور آئیڈیالوجی کے مجموعے کو کہا جاتا ہے۔ معروف مسلمان فیلسوف اور دینی دانشور شہید مرتضیٰ مطہری (رہ) مکتب کی اصطلاح کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: مکتب ایک ایسی مجموعی تھیوری اور جامع، ہم آہنگ اور منسجم منصوبے کا نام ہے، جس کا اصل ہدف انسان کا کمال اور اجتماعی سعادت کا حصول ہے۔ شہید مطہری کے بقول ایک انسانی مکتب میں زندگی بسر کرنے کا راستہ اور طریقہ، اچھائی اور برائی، ہدف اور وسیلہ، ضروریات، مشکلات اور ان کا حل اور حقوق و فرائض معین ہوتے ہیں۔ شہید کے بقول ایک مکتب تمام افراد کے وظائف اور فرائض کے تعین کا منبع ہوتا ہے۔(مقدمہ ای بر جھان بینی)
رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر فرمایا: “شہید قاسم سلیمانی کو ایک فرد کی نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ انہیں ایک مکتب، ایک راستے اور ایک تربیتی مدرسے کی نگاہ سے دیکھیں۔”(۱۷ جنوری ۲۰۲۰ء) شہید قاسم سلیمانی اپنے سینے پر متعدد اعزازات سجائے اور عظیم کارنامے تاریخ کے اوراق کے سپرد کرکے رتبہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔ ان تمام اعزازات، کارناموں اور ان کی شخصیت کی اجتماعی اور انفرادی خصوصیات کو ایک جگہ جمع کریں تو شہید قاسم سلیمانی ایک عظیم مکتب نظر آتے ہیں۔ ایک ایسا مکتب جو امام خمینی (رہ) کے مکتب کے سائے میں پروان چڑھا اور جو مکتب اسلام کی حقیقی تعبیر و تشریح کے لیے خود میں ایک مکمل تفسیر ہے۔
شہید قاسم سلیمانی (رہ) کے فکری مکتب کو تفصیل سے جاننے اور سمجھنے کے لیے شہید کی عملی زندگی کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کی ولایت، انقلاب، دفاع، شہادت، مدافعینِ حرم، ثقافت اور ہنر کے حوالے سے تقاریر کے مختصر مگر مفید کتابی مجموعے “برادر قاسم” کے مطالعہ کی بھی تاکید کروں گا۔ ابوذر مھروان فر کی کوشش سے تدوین شدہ اس کتاب کو تہران سے الفہرست نامی پبلشر نے فارسی زبان میں شائع کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ 22 سال کے دوران یعنی شہید قاسم سلیمانی کے سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کی سربراہی کے دوران، ملاقاتوں یا پیغامات میں اس عظیم شہید کے بارے جو ارشادات بیان فرمائے ہیں، رہبر انقلاب کے دفتر کی وب سائٹ نے ان تمام ارشادات کو جمع کرکے سرخیوں کی صورت میں شائع کیا ہے۔ اردو زبان قاری کی سہولت کی خاطر ان ارشادات کو بغیر کسی ذاتی تشریح کے سرخیوں کی صورت میں اردو میں پیش کرتے اور ان عناوین کی تفسیر و تشریح شہید کے چاہنے والے اردو زبان محققین اور دانشوروں کے قلم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کی صفات:
زندہ شہید۔
شہید کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے، جنہیں (اللہ رب العزت کی جانب سے) شفاعت کی اجازت ہے۔
شہید ایسی شخصیت تھے، جن کی شہادت پر دنیا کے خبیث ترین افراد نے خوشیاں منائیں۔
شہید قاسم سلیمانی مقاومت کا بین الاقوامی چہرہ ہیں۔
عظیم مجاہدت کے بدلے عظیم شہادت ان کا مقدر بنی۔
وہ اسلام اور مکتبِ امام خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ فرزند تھے۔
وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مضبوط ترین اور مشہور ترین کمانڈر تھے۔
ریاکاری اور خودنمائی سے دور مخلص ترین انسان جنہوں نے اپنی شجاعت اور تدبیر کو خدا کے لیے صرف کیا۔
داخلی پارٹی بازی اور دھڑے بندی سے اجتناب کے باوجود انقلابی گری۔ انقلاب اور انقلابی گری ان کی ریڈ لائن تھی۔
شہید قاسم سلیمانی کی ذاتی خصوصیات:
جہادِ اکبر (جہاد بالنفس) کے حقیقی فاتح۔
پوری سرویس کے دوران مسلسل اور بلا توقف جدوجہد۔
دفاع مقدس (عراق کے ساتھ دفاعی جنگ) میں حاصل ہونے والے تقویٰ اور روحانیت کی تمام عمر حفاظت۔
مختلف عسکری شعبوں میں مہارت۔
دشمن اور ادھر ادھر کی باتوں کی پروا نہ کرنا۔
بااثر اور قانع کنندہ گفتگو۔
سیاسی اور عسکری میدان میں شجاعت اور تدبیر۔
شرعی حدود کی مراقبت، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہ ہو، جہاں اسلحہ اٹھانا ضروری نہ ہوتا، وہاں اسلحہ نہیں اٹھاتے تھے، خود خطرات کے منہ میں چلے جاتے، لیکن اپنے دوستوں اور سپاہیوں کی جان کی حفاظت کو ترجیح دیتے۔
شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کا عظیم کارنامہ، امریکی منصوبوں کو ناکام بنانا:
فلسطین:
دشمن کا منصوبہ؛
فلسطینیوں کو کمزور رکھنا اور مسئلہ فلسطین کو فراموشی کے سپرد کر دیا جانا۔
شہید کا کارنامہ:
مزاحمت کے لیے ضروری ساز و سامان سے فلسطینیوں کو لیس کرنا۔
نتیجہ:
غزہ پر حملے کے جواب میں فلسطینی مقاومت کے بعد غاصب اسرائیل کی جانب سے سیز فائر کی درخواست یعنی فلسطینی مقاومت کے سامنے شکست تسلیم کر لینا۔
عراق:
دشمن کا منصوبہ:
عراق کو سعودی یا پہلوی بادشاہت طرز کا ملک بنانا۔
شہید کا کارنامہ:
عراق کی مرجعیت اور عراق کے مومن عناصر کو ایکٹو اور بھرپور ایڈوائزری فراہم کرنا
نتیجہ:
امریکہ کے مقابلے میں ملتِ عراق کی مقاومت۔
لبنان:
دشمن کا منصوبہ:
لبنانی مقاومت اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرکے لبنانی قوم کو اسرائیل کے مقابلے میں نہتہ کرنا۔
شہید کا کارنامہ:
حزب اللہ کی تقویت اور حفاظت میں انتہائی نمایاں کردار
نتیجہ:
حزب اللہ کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت اور حزب اللہ کا لبنان کی آنکھ اور ہاتھ کی حیثیت اختیار کر جانا۔
مغربی ایشیاء:
دشمن کا منصوبہ:
داعش کی ایجاد اور مدد سے داخلی جنگوں کا آغاز، صیہونیت مخالف مقاومت کا خاتمہ اور خود مختار ممالک کی تضعیف۔
شہید کا کارنامہ:
علاقائی طاقتوں کے مجاہد برادران کے ساتھ ملکر فداکارانہ جدوجہد۔
نتیجہ:
داعش کی نابودی
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی برکات:
ان کی شہادت نے ثابت کیا کہ انقلابِ اسلامی زندہ ہے۔
ان کی شہادت نے بعض آنکھوں میں پڑی دھول کو دھو ڈالا۔
دشمن ملتِ ایران کی عظمت کے سامنے احساس خضوع کرنے لگا۔
ملت نے اس دشمن کے منہ پر تھپڑ رسید کیا، جس نے انہیں دہشت گرد کہا تھا۔
شہید کے پیکرِ اطہر کے زیر سایہ وحدتِ ملت کو ہر چشمِ بینا نے دیکھا۔
لوگوں کی انقلابی سمت و سو نظر آنے لگی۔
امریکہ کا سیاہ چہرہ دنیا پر منکشف ہونے لگا۔
نام نہاد سپر پاور کی حیثیت پر شدید ضرب لگائی گئی۔
رہبرِ انقلابِ اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کے موقع پر فرمایا: “شہید قاسم سلیمانی کو ایک فرد کی نگاہ سے نہ دیکھیں بلکہ انہیں ایک مکتب، ایک راستے اور ایک تربیتی مدرسے کی نگاہ سے دیکھیں۔”(۱۷ جنوری ۲۰۲۰ء) شہید قاسم سلیمانی اپنے سینے پر متعدد اعزازات سجائے اور عظیم کارنامے تاریخ کے اوراق کے سپرد کرکے رتبہ شہادت پر فائز ہوئے ہیں۔ ان تمام اعزازات، کارناموں اور ان کی شخصیت کی اجتماعی اور انفرادی خصوصیات کو ایک جگہ جمع کریں تو شہید قاسم سلیمانی ایک عظیم مکتب نظر آتے ہیں۔ ایک ایسا مکتب جو امام خمینی (رہ) کے مکتب کے سائے میں پروان چڑھا اور جو مکتب اسلام کی حقیقی تعبیر و تشریح کے لیے خود میں ایک مکمل تفسیر ہے۔
شہید قاسم سلیمانی (رہ) کے فکری مکتب کو تفصیل سے جاننے اور سمجھنے کے لیے شہید کی عملی زندگی کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ ان کی ولایت، انقلاب، دفاع، شہادت، مدافعینِ حرم، ثقافت اور ہنر کے حوالے سے تقاریر کے مختصر مگر مفید کتابی مجموعے “برادر قاسم” کے مطالعہ کی بھی تاکید کروں گا۔ ابوذر مھروان فر کی کوشش سے تدوین شدہ اس کتاب کو تہران سے الفہرست نامی پبلشر نے فارسی زبان میں شائع کیا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے گزشتہ 22 سال کے دوران یعنی شہید قاسم سلیمانی کے سپاہ پاسدارانِ انقلاب اسلامی کی قدس بریگیڈ کی سربراہی کے دوران، ملاقاتوں یا پیغامات میں اس عظیم شہید کے بارے جو ارشادات بیان فرمائے ہیں، رہبر انقلاب کے دفتر کی وب سائٹ نے ان تمام ارشادات کو جمع کرکے سرخیوں کی صورت میں شائع کیا ہے۔ اردو زبان قاری کی سہولت کی خاطر ان ارشادات کو بغیر کسی ذاتی تشریح کے سرخیوں کی صورت میں اردو میں پیش کرتے اور ان عناوین کی تفسیر و تشریح شہید کے چاہنے والے اردو زبان محققین اور دانشوروں کے قلم کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
شہید قاسم سلیمانی کی صفات:
زندہ شہید۔
شہید کا شمار ان افراد میں ہوتا ہے، جنہیں (اللہ رب العزت کی جانب سے) شفاعت کی اجازت ہے۔
شہید ایسی شخصیت تھے، جن کی شہادت پر دنیا کے خبیث ترین افراد نے خوشیاں منائیں۔
شہید قاسم سلیمانی مقاومت کا بین الاقوامی چہرہ ہیں۔
عظیم مجاہدت کے بدلے عظیم شہادت ان کا مقدر بنی۔
وہ اسلام اور مکتبِ امام خمینی (رہ) کے تربیت یافتہ فرزند تھے۔
وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے مضبوط ترین اور مشہور ترین کمانڈر تھے۔
ریاکاری اور خودنمائی سے دور مخلص ترین انسان جنہوں نے اپنی شجاعت اور تدبیر کو خدا کے لیے صرف کیا۔
داخلی پارٹی بازی اور دھڑے بندی سے اجتناب کے باوجود انقلابی گری۔ انقلاب اور انقلابی گری ان کی ریڈ لائن تھی۔
شہید قاسم سلیمانی کی ذاتی خصوصیات:
جہادِ اکبر (جہاد بالنفس) کے حقیقی فاتح۔
پوری سرویس کے دوران مسلسل اور بلا توقف جدوجہد۔
دفاع مقدس (عراق کے ساتھ دفاعی جنگ) میں حاصل ہونے والے تقویٰ اور روحانیت کی تمام عمر حفاظت۔
مختلف عسکری شعبوں میں مہارت۔
دشمن اور ادھر ادھر کی باتوں کی پروا نہ کرنا۔
بااثر اور قانع کنندہ گفتگو۔
سیاسی اور عسکری میدان میں شجاعت اور تدبیر۔
شرعی حدود کی مراقبت، ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے کہ کسی کے ساتھ ظلم اور زیادتی نہ ہو، جہاں اسلحہ اٹھانا ضروری نہ ہوتا، وہاں اسلحہ نہیں اٹھاتے تھے، خود خطرات کے منہ میں چلے جاتے، لیکن اپنے دوستوں اور سپاہیوں کی جان کی حفاظت کو ترجیح دیتے۔
شہید قاسم سلیمانی کی زندگی کا عظیم کارنامہ، امریکی منصوبوں کو ناکام بنانا:
فلسطین:
دشمن کا منصوبہ؛
فلسطینیوں کو کمزور رکھنا اور مسئلہ فلسطین کو فراموشی کے سپرد کر دیا جانا۔
شہید کا کارنامہ:
مزاحمت کے لیے ضروری ساز و سامان سے فلسطینیوں کو لیس کرنا۔
نتیجہ:
غزہ پر حملے کے جواب میں فلسطینی مقاومت کے بعد غاصب اسرائیل کی جانب سے سیز فائر کی درخواست یعنی فلسطینی مقاومت کے سامنے شکست تسلیم کر لینا۔
عراق:
دشمن کا منصوبہ:
عراق کو سعودی یا پہلوی بادشاہت طرز کا ملک بنانا۔
شہید کا کارنامہ:
عراق کی مرجعیت اور عراق کے مومن عناصر کو ایکٹو اور بھرپور ایڈوائزری فراہم کرنا
نتیجہ:
امریکہ کے مقابلے میں ملتِ عراق کی مقاومت۔
لبنان:
دشمن کا منصوبہ:
لبنانی مقاومت اور حزب اللہ کو غیر مسلح کرکے لبنانی قوم کو اسرائیل کے مقابلے میں نہتہ کرنا۔
شہید کا کارنامہ:
حزب اللہ کی تقویت اور حفاظت میں انتہائی نمایاں کردار
نتیجہ:
حزب اللہ کی روز بروز بڑھتی ہوئی طاقت اور حزب اللہ کا لبنان کی آنکھ اور ہاتھ کی حیثیت اختیار کر جانا۔
مغربی ایشیاء:
دشمن کا منصوبہ:
داعش کی ایجاد اور مدد سے داخلی جنگوں کا آغاز، صیہونیت مخالف مقاومت کا خاتمہ اور خود مختار ممالک کی تضعیف۔
شہید کا کارنامہ:
علاقائی طاقتوں کے مجاہد برادران کے ساتھ ملکر فداکارانہ جدوجہد۔
نتیجہ:
داعش کی نابودی
شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی برکات:
ان کی شہادت نے ثابت کیا کہ انقلابِ اسلامی زندہ ہے۔
ان کی شہادت نے بعض آنکھوں میں پڑی دھول کو دھو ڈالا۔
دشمن ملتِ ایران کی عظمت کے سامنے احساس خضوع کرنے لگا۔
ملت نے اس دشمن کے منہ پر تھپڑ رسید کیا، جس نے انہیں دہشت گرد کہا تھا۔
شہید کے پیکرِ اطہر کے زیر سایہ وحدتِ ملت کو ہر چشمِ بینا نے دیکھا۔
لوگوں کی انقلابی سمت و سو نظر آنے لگی۔
امریکہ کا سیاہ چہرہ دنیا پر منکشف ہونے لگا۔
نام نہاد سپر پاور کی حیثیت پر شدید ضرب لگائی گئی۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب