شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن انکی جدوجہد، فکر اور رہنمائی امت کے مختلف طبقات کی ہم آہنگی اور بین المسالک محبت اور دوستی کو مزید فروغ دیکر انہیں یکجا کرنے میں کردار ادا کرتی رہیگی۔ ہم تمام علماء، دانشور، مشائخ، مفتیانِ عظام، پیرانِ طریقت اور اہلِ قلم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی امریکی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ مخالف اسلامی بلاک کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے پاکستان کی بائیس کروڑ عوام کی ترجمانی کرے اور کسی قیمت پر پاکستانی سرزمین کو امریکی مذموم اور پلید مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون طیاروں کے دہشتگردانہ حملوں میں جامِ شہادت نوش کرنے والے عالمِ اسلام کے عظیم فرزندان جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے باوفا ساتھیوں کی المناک شہادت کے موقع پر امتِ واحدہ پاکستان کے زیرِاہتمام ایک ہنگامی اجلاس ہوا، جس کی صدارت علامہ محمد امین شہیدی نے کی۔ اس اجلاس میں وطنِ عزیز پاکستان کے مختلف فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے 120 علمائے کرام، مشائخِ عظام، مفتیانِ دین اور اہلِ علم و دانش کی جانب سے ایک بیانیہ جاری کیا گیا، جو درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ ٱللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُۥ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُواْ تَبْدِيلًا “مومنین میں ایسے بھی مردِ میدان ہیں، جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے، ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔” (الاحزاب:۲۳) اناللہ واناالیہ راجعون۔ معاصرِ تاریخ میں مزاحمت، مقاومت، جہاد و مجاہدت کی اعلیٰ ترین مثال اور طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں کوہِ استقامت جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے جانثار ساتھیوں خصوصاً ابو مہدی المہندس کی شہادت کی خبر نے تمام عالمِ اسلام کو بالعموم اور اُن کے چاہنے والوں کو بالخصوص نہایت غمزدہ، سوگوار اور دُکھی کر دیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کی چالیس سے زیادہ بہاریں اسلامی دنیا کی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نجات، طاغوتی طاقتوں کے جدید و قدیم ہتھکنڈوں سے مقابلے اور داعش جیسے مغربی دنیا کے پیدا کردہ ناسور کے خاتمے پر صرف کرکے اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام ظالم قوتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
دوسری طرف افغانستان، عراق، شام، یمن اور لبنان تک مظلوم اور ستم دیدہ کلمہ گو مسلمانوں کی زندگی میں امید اور روشن مستقبل کا چراغ جلا کر فرقہ پرستانہ مذہبی تعصب سے انہیں نکالا، فلسطین و الاقصیٰ کی حمایت اور دنیا میں اللہ کی عادلانہ حکومت کے قیام کی جدوجہد کے لئے افغانی، پاکستانی، عراقی، ایرانی، شامی، یمنی اور لبنانی مسلمانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں جوڑ دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی ہوں یا ابو مہدی المہندس، ان شہداء نے اپنی زندگی اور موت دونوں کے ذریعے ظالم اور مستکبر طاقتوں کے مکروہ چہروں کو بےنقاب کیا اور اپنے سرخ خون سے عصرِ حاضر میں کربلائے حسین (ع) کو دوبارہ زندہ کرکے دنیا کو بتایا کہ قرآن کریم کا پیغام كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن الله (اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں۔ البقرہ:۲۴۹)
آج بھی زندہ اور موثر ہے اور الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے، ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے۔ العنکبوت: ۶۹) کے تحت آج بھی جو لوگ فضائے بدر پیدا کرتے ہیں۔
اللہ ان کی نصرت کے لئے گردوں سے قطار اندر قطار فرشتے اب بھی اُتارتا ہے۔ حزب اللہ کی اسرائیل سے 33 روزہ جنگ ہو یا حماس کی صیہونیوں سے 36 روزہ جنگ، جنرل قاسم سلیمانی مجاہدین کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ فرنٹ لائن پر نظر آتے تھے۔ شام ہو یا عراق کی سرزمین، امریکیوں اور آلِ سعود کی تخلیق، داعش کے خاتمے میں ان دونوں عظیم شہداء کے مجاہدانہ کردار سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے۔ عراق پر امریکی قبضے کے خلاف عراقی فورسز کے شانہ بشانہ میدانِ جنگ میں شہید سلیمانی کا کردار ہر عراقی شہری کو یاد ہے۔ دولت الاسلامیہ فی العراق والشام کی خطے کے مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، وحشت، بربریت اور درندگی کے مقابلے میں ان کے خاتمے، خطے کے مظلوم انسانوں کی نجات اور امریکی سازشوں کے خاتمے کے لیے ان کی خدمات اور قربانیاں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔
عراقی حکومت کی دعوت پر بغداد پہنچنے والے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کا سرکاری استقبال کرنے والے میزبان کمانڈر ابو مہدی المہندس کے قافلے کو بغداد ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے ڈرون طیاروں کے ذریعے حملہ کرکے شہید کرنے کا یہ امریکی اقدام اقوامِ عالم کے تمام قوانین کے منافی اور کھلی سفاکیت، درندگی اور دہشت گردی ہے، جس کی مذمت اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کو کرنی چاہیئے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس ہولناک جرم کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کی مکمل ہم آہنگی اور تعاون شامل رہا ہے۔ یہ شہداء اپنے خون سے سن ۲۰۲۰ میں بھی لکھ گئے کہ جو اللہ کی مظلوم مخلوق کی حمایت اور دست گیری کے لئے شب و روز میدانِ عمل میں گزارتے ہیں، انہیں اللہ اب بھی يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگارکی طرف پلٹ آ، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ الفجر: ۲۷) کا رفیع مقام عطا فرماتا ہے۔
یہ دونوں عظیم شہداء ایران اور عراق یا عرب و عجم کے نمائندے نہیں تھے بلکہ محمدی اسلام کے وہ عملی نمونے تھے، جن کی زندگی بھی اعلائے کلمہ حق کے لئے صرف ہوئی اور ان کی سرخ شہادت بھی مسلمانوں اور عرب و عجم کے ”عَلَمِ محمدی“ کے سائے میں اتحاد و یکجہتی کا پیغام بن گئی۔ شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کا خون اب بھی مسلمانوں کی یکجہتی، اتحاد اور دین کے دفاع کے لئے کفر و شرک کے مقابلے میں یکسوئی کا پیامبر ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم عوام ان عظیم شہداء اور ظالم قوتوں کے مقابلے میں بہادری اور قربانی کی نمونہ شخصیات کو کبھی نہیں بھولیں گے بلکہ ان کا پاکیزہ لہو پورے خطے کے اندر امریکی سامراج کی جڑوں کو کاٹنے اور ان کے ناپاک وجود سے مسلمان سرزمینوں کو پاک کرنے کی نوید بنے گا۔ اب فلسطین پر قابض ظالم صیہونی طاقتیں ہوں کہ دیگر مسلمان سرزمینوں کو لوٹنے والا مغربی استعمار، سب کی نیندیں اُڑ جائیں گی اور پورے خطے میں بیداری اور مزاحمت کی تحریک کو ایک نئی جان ملے گی۔ یہ پاکیزہ لہو فلسطین پر صیہونیوں کے ناجائز اور غیر قانونی تسلط اور قبضے کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی ضمانت بنے گا۔
شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کی جدوجہد، فکر اور رہنمائی امت کے مختلف طبقات کی ہم آہنگی اور بین المسالک محبت اور دوستی کو مزید فروغ دے کر انہیں یکجا کرنے میں کردار ادا کرتی رہے گی۔ ہم تمام علماء، دانشور، مشائخ، مفتیانِ عظام، پیرانِ طریقت اور اہلِ قلم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی امریکی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ مخالف اسلامی بلاک کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے پاکستان کی بائیس کروڑ عوام کی ترجمانی کرے اور کسی قیمت پر پاکستانی سرزمین کو امریکی مذموم اور پلید مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
پاکستان کے اہلِ علم و دانش، مفکرین، مفتیانِ عظام، علمائے کرام، مشائخ اور اہلِ قلم پہلے بھی امت کی یکجہتی کے لئے ایک تھے اور مستقبل میں بھی تمام تر استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود باہم متحد رہیں گے اور امتِ اسلامیہ کے عظیم بازو اسلامی جمہوریہ ایران کے مجاہد عوام کی حمایت جاری اور شہداء کے مقدس خون کے پیغام کو زندہ رکھیں گے۔
اس اعلامیہ کی مندرجہ ذیل علمائے کرام نے تائید و توثیق کی:
علامہ محمد امین شہیدی، پیر غلام رسول اویسی، پیر سید معصوم شاہ نقوی، پیر منور نقشبندی، پیر سید راحت کاظمی، پیر اعجاز حیدر شاہ، مفتی احمد عزیزی، محیی الدین کوریجہ، خواجہ محمد انور، مفتی عزیز الدین، شیخ الحدیث چراغ الدین شاہ، مفتی جمیل الدین، پیر سید مدثر شاہ، پیر سید ابرار شاہ بخاری، علامہ محمد اصغر عسکری، مولانا نعیم الحسن شاہ، پیر شفقات شاہ، پیر علی رضا شاہ، مفتی شہزاد قادری، ڈاکٹر کوثر نسیم، ڈاکٹر امتیاز علی، ڈاکٹر نجم آفندی، ڈاکٹر کاظم سلیم، ریحان طاہر قادری، سردار زاہد منان، مفتی ضیاء اللہ، مفتی زر ولی خان، مولانا صادق تقوی، مولانا محمد عباس وزیری، مولانا محمد اقبال، مولانا ابوذر مہدوی، مولانا اکبر حسین، ڈاکٹر جہاں زیب خان، ڈاکٹر حمید اللہ، پیر عقیل حیدر شاہ، پیر اشرف رضوی، پیر آصف رضا گیلانی، مفتی شعیب احمد، مفتی عابد مبارک، مفتی عبدالقیوم، مفتی قوی خان، مفتی عبد الشکور حقانی، مفتی ارشد القادری، مفتی آصف نعمانی، مفتی محمد شاہد، مفتی محمد سعید، مفتی محمد ریاض، علامہ حیدر علوی، مفتی نعمان نعیم، مفتی تنویر احمد، مفتی صدیق علی چشتی، مولانا احسان جعفری، مولانا نعیم جعفری، مولان عبد القدوس، مولانا سید ابوالحسن، مولانا انیس الحسن، مولانا اصغر شہیدی، مفتی عظمت سعید، پیر ایوب جان سرہندی، پیر محمد سعید نقشبندی، پیر ناصر الدین ہاشمی، پیر نوید گیلانی، پرویز اکبر ساقی و دیگر۔
بغداد ایئرپورٹ پر امریکی ڈرون طیاروں کے دہشتگردانہ حملوں میں جامِ شہادت نوش کرنے والے عالمِ اسلام کے عظیم فرزندان جنرل قاسم سلیمانی، ابو مہدی المہندس اور ان کے باوفا ساتھیوں کی المناک شہادت کے موقع پر امتِ واحدہ پاکستان کے زیرِاہتمام ایک ہنگامی اجلاس ہوا، جس کی صدارت علامہ محمد امین شہیدی نے کی۔ اس اجلاس میں وطنِ عزیز پاکستان کے مختلف فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے 120 علمائے کرام، مشائخِ عظام، مفتیانِ دین اور اہلِ علم و دانش کی جانب سے ایک بیانیہ جاری کیا گیا، جو درج ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُواْ مَا عَٰهَدُواْ ٱللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُۥ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُواْ تَبْدِيلًا “مومنین میں ایسے بھی مردِ میدان ہیں، جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے، ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی۔” (الاحزاب:۲۳) اناللہ واناالیہ راجعون۔ معاصرِ تاریخ میں مزاحمت، مقاومت، جہاد و مجاہدت کی اعلیٰ ترین مثال اور طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں کوہِ استقامت جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے جانثار ساتھیوں خصوصاً ابو مہدی المہندس کی شہادت کی خبر نے تمام عالمِ اسلام کو بالعموم اور اُن کے چاہنے والوں کو بالخصوص نہایت غمزدہ، سوگوار اور دُکھی کر دیا۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کی چالیس سے زیادہ بہاریں اسلامی دنیا کی استکباری طاقتوں کے چنگل سے نجات، طاغوتی طاقتوں کے جدید و قدیم ہتھکنڈوں سے مقابلے اور داعش جیسے مغربی دنیا کے پیدا کردہ ناسور کے خاتمے پر صرف کرکے اسرائیل اور امریکہ سمیت تمام ظالم قوتوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔
دوسری طرف افغانستان، عراق، شام، یمن اور لبنان تک مظلوم اور ستم دیدہ کلمہ گو مسلمانوں کی زندگی میں امید اور روشن مستقبل کا چراغ جلا کر فرقہ پرستانہ مذہبی تعصب سے انہیں نکالا، فلسطین و الاقصیٰ کی حمایت اور دنیا میں اللہ کی عادلانہ حکومت کے قیام کی جدوجہد کے لئے افغانی، پاکستانی، عراقی، ایرانی، شامی، یمنی اور لبنانی مسلمانوں کو تسبیح کے دانوں کی طرح آپس میں جوڑ دیا تھا۔ شہید قاسم سلیمانی ہوں یا ابو مہدی المہندس، ان شہداء نے اپنی زندگی اور موت دونوں کے ذریعے ظالم اور مستکبر طاقتوں کے مکروہ چہروں کو بےنقاب کیا اور اپنے سرخ خون سے عصرِ حاضر میں کربلائے حسین (ع) کو دوبارہ زندہ کرکے دنیا کو بتایا کہ قرآن کریم کا پیغام كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة بإذن الله (اکثر چھوٹے چھوٹے گروہ بڑی بڑی جماعتوں پر حکم خدا سے غالب آجاتے ہیں۔ البقرہ:۲۴۹)
آج بھی زندہ اور موثر ہے اور الذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا (جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے، ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے۔ العنکبوت: ۶۹) کے تحت آج بھی جو لوگ فضائے بدر پیدا کرتے ہیں۔
اللہ ان کی نصرت کے لئے گردوں سے قطار اندر قطار فرشتے اب بھی اُتارتا ہے۔ حزب اللہ کی اسرائیل سے 33 روزہ جنگ ہو یا حماس کی صیہونیوں سے 36 روزہ جنگ، جنرل قاسم سلیمانی مجاہدین کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ فرنٹ لائن پر نظر آتے تھے۔ شام ہو یا عراق کی سرزمین، امریکیوں اور آلِ سعود کی تخلیق، داعش کے خاتمے میں ان دونوں عظیم شہداء کے مجاہدانہ کردار سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے۔ عراق پر امریکی قبضے کے خلاف عراقی فورسز کے شانہ بشانہ میدانِ جنگ میں شہید سلیمانی کا کردار ہر عراقی شہری کو یاد ہے۔ دولت الاسلامیہ فی العراق والشام کی خطے کے مظلوم عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم، وحشت، بربریت اور درندگی کے مقابلے میں ان کے خاتمے، خطے کے مظلوم انسانوں کی نجات اور امریکی سازشوں کے خاتمے کے لیے ان کی خدمات اور قربانیاں تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔
عراقی حکومت کی دعوت پر بغداد پہنچنے والے جنرل قاسم سلیمانی اور ان کا سرکاری استقبال کرنے والے میزبان کمانڈر ابو مہدی المہندس کے قافلے کو بغداد ایئرپورٹ سے نکلتے ہوئے ڈرون طیاروں کے ذریعے حملہ کرکے شہید کرنے کا یہ امریکی اقدام اقوامِ عالم کے تمام قوانین کے منافی اور کھلی سفاکیت، درندگی اور دہشت گردی ہے، جس کی مذمت اقوامِ متحدہ سمیت دنیا کے تمام ممالک کو کرنی چاہیئے۔ یہ بات واضح ہے کہ اس ہولناک جرم کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کی مکمل ہم آہنگی اور تعاون شامل رہا ہے۔ یہ شہداء اپنے خون سے سن ۲۰۲۰ میں بھی لکھ گئے کہ جو اللہ کی مظلوم مخلوق کی حمایت اور دست گیری کے لئے شب و روز میدانِ عمل میں گزارتے ہیں، انہیں اللہ اب بھی يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً (اے نفس مطمئنہ! اپنے پروردگارکی طرف پلٹ آ، اس حالت میں کہ تو اس سے راضی ہے اور وہ تجھ سے راضی ہے۔ الفجر: ۲۷) کا رفیع مقام عطا فرماتا ہے۔
یہ دونوں عظیم شہداء ایران اور عراق یا عرب و عجم کے نمائندے نہیں تھے بلکہ محمدی اسلام کے وہ عملی نمونے تھے، جن کی زندگی بھی اعلائے کلمہ حق کے لئے صرف ہوئی اور ان کی سرخ شہادت بھی مسلمانوں اور عرب و عجم کے ”عَلَمِ محمدی“ کے سائے میں اتحاد و یکجہتی کا پیغام بن گئی۔ شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کا خون اب بھی مسلمانوں کی یکجہتی، اتحاد اور دین کے دفاع کے لئے کفر و شرک کے مقابلے میں یکسوئی کا پیامبر ہے۔ دنیا بھر کے مظلوم عوام ان عظیم شہداء اور ظالم قوتوں کے مقابلے میں بہادری اور قربانی کی نمونہ شخصیات کو کبھی نہیں بھولیں گے بلکہ ان کا پاکیزہ لہو پورے خطے کے اندر امریکی سامراج کی جڑوں کو کاٹنے اور ان کے ناپاک وجود سے مسلمان سرزمینوں کو پاک کرنے کی نوید بنے گا۔ اب فلسطین پر قابض ظالم صیہونی طاقتیں ہوں کہ دیگر مسلمان سرزمینوں کو لوٹنے والا مغربی استعمار، سب کی نیندیں اُڑ جائیں گی اور پورے خطے میں بیداری اور مزاحمت کی تحریک کو ایک نئی جان ملے گی۔ یہ پاکیزہ لہو فلسطین پر صیہونیوں کے ناجائز اور غیر قانونی تسلط اور قبضے کے خلاف مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کی ضمانت بنے گا۔
شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کی جدوجہد، فکر اور رہنمائی امت کے مختلف طبقات کی ہم آہنگی اور بین المسالک محبت اور دوستی کو مزید فروغ دے کر انہیں یکجا کرنے میں کردار ادا کرتی رہے گی۔ ہم تمام علماء، دانشور، مشائخ، مفتیانِ عظام، پیرانِ طریقت اور اہلِ قلم حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس خطے کو جنگ کی آگ میں جھونکنے کی امریکی سازش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرے اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت کی حیثیت سے امریکہ مخالف اسلامی بلاک کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے پاکستان کی بائیس کروڑ عوام کی ترجمانی کرے اور کسی قیمت پر پاکستانی سرزمین کو امریکی مذموم اور پلید مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
پاکستان کے اہلِ علم و دانش، مفکرین، مفتیانِ عظام، علمائے کرام، مشائخ اور اہلِ قلم پہلے بھی امت کی یکجہتی کے لئے ایک تھے اور مستقبل میں بھی تمام تر استعماری ہتھکنڈوں کے باوجود باہم متحد رہیں گے اور امتِ اسلامیہ کے عظیم بازو اسلامی جمہوریہ ایران کے مجاہد عوام کی حمایت جاری اور شہداء کے مقدس خون کے پیغام کو زندہ رکھیں گے۔
اس اعلامیہ کی مندرجہ ذیل علمائے کرام نے تائید و توثیق کی:
علامہ محمد امین شہیدی، پیر غلام رسول اویسی، پیر سید معصوم شاہ نقوی، پیر منور نقشبندی، پیر سید راحت کاظمی، پیر اعجاز حیدر شاہ، مفتی احمد عزیزی، محیی الدین کوریجہ، خواجہ محمد انور، مفتی عزیز الدین، شیخ الحدیث چراغ الدین شاہ، مفتی جمیل الدین، پیر سید مدثر شاہ، پیر سید ابرار شاہ بخاری، علامہ محمد اصغر عسکری، مولانا نعیم الحسن شاہ، پیر شفقات شاہ، پیر علی رضا شاہ، مفتی شہزاد قادری، ڈاکٹر کوثر نسیم، ڈاکٹر امتیاز علی، ڈاکٹر نجم آفندی، ڈاکٹر کاظم سلیم، ریحان طاہر قادری، سردار زاہد منان، مفتی ضیاء اللہ، مفتی زر ولی خان، مولانا صادق تقوی، مولانا محمد عباس وزیری، مولانا محمد اقبال، مولانا ابوذر مہدوی، مولانا اکبر حسین، ڈاکٹر جہاں زیب خان، ڈاکٹر حمید اللہ، پیر عقیل حیدر شاہ، پیر اشرف رضوی، پیر آصف رضا گیلانی، مفتی شعیب احمد، مفتی عابد مبارک، مفتی عبدالقیوم، مفتی قوی خان، مفتی عبد الشکور حقانی، مفتی ارشد القادری، مفتی آصف نعمانی، مفتی محمد شاہد، مفتی محمد سعید، مفتی محمد ریاض، علامہ حیدر علوی، مفتی نعمان نعیم، مفتی تنویر احمد، مفتی صدیق علی چشتی، مولانا احسان جعفری، مولانا نعیم جعفری، مولان عبد القدوس، مولانا سید ابوالحسن، مولانا انیس الحسن، مولانا اصغر شہیدی، مفتی عظمت سعید، پیر ایوب جان سرہندی، پیر محمد سعید نقشبندی، پیر ناصر الدین ہاشمی، پیر نوید گیلانی، پرویز اکبر ساقی و دیگر۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب