اگرچہ شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت عراق میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش اور اس سے مربوط نیٹ ورک کے خلاف جنگ کے چیف کمانڈر کے طور پر جانی جاتی ہے لیکن ان کی جانب سے فلسطینی گروہوں اور لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کی حمایت اور مدد کیلئے انجام پانے والے اقدامات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اس حکمت عملی کے ذریعے شام اور عراق میں وسیع پیمانے پر بدامنی پھیلانے پر مبنی امریکہ کے ناپاک عزائم کو ناکام بنایا۔ دوسری طرف انہوں نے اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے جنوبی لبنان میں حزب اللہ کے خلاف 33 روزہ جنگ میں بھی انتہائی اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ شہید قاسم سلیمانی کی گراں قدر خدمات کے نتیجے میں خطے سے متعلق امریکی سازشیں خاص طور پر گریٹر مڈل ایسٹ منصوبہ شکست کا شکار ہوا۔
سب سے پہلے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت اور ان کے کردار پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان کا بنیادی ترین کردار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر قدس شریف کی آزادی کیلئے جدوجہد پر مشتمل ہے۔ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور انہیں مضبوط بنانے میں ہر موثر قوت کی بھرپور حمایت کرنے میں مشغول رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران ہم سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں شہید قاسم سلیمانی کے مقام اور اہمیت اور اپنے اہداف اور راستے پر ان کے بھرپور ایمان سے آگاہ تھے۔ ایران کے حکومتی ذمہ داران اس عقیدے کے حامل ہیں کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی ترین مسئلہ ہے۔ اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح کی نجف میں رہائش اور ایران میں انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی مسئلہ فلسطین ان کی پہلی ترجیح رہا ہے۔
یہیں سے واضح ہو جاتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف کیوں نبرد آزما رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دہشت گرد گروہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کی پیدائش بھی مسئلہ فلسطین سے ہی مربوط ہے۔ امریکہ خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کا بانی ہے اور ان گروہوں کی تشکیل سے اس کا مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف برسر پیکار مزاحمتی گروہوں کو آپس میں لڑا کر انہیں اپنے اصلی مقصد یعنی قدس شریف کی آزادی سے دور کرنا تھا۔ دہشت گرد گروہوں کی تشکیل سے امریکہ کا دوسرا مقصد اسلامی ممالک میں بدامنی اور انارکی پیدا کرنا تھا۔ لیکن امریکہ کی یہ سازشیں ناکامی کا شکار ہوئیں اور وہ اسلامی ممالک میں اپنی اور اسرائیل کے کٹھ پتلی حکمران برسر اقتدار نہ لا سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام اور عراق میں جنم لینے والی بدامنی اسی شیطانی منصوبے کا حصہ تھی جس کا مقصد اسلامی مزاحمتی قوتوں کو مکمل طور پر نابود کرنا تھا۔ خاص طور پر شام جو طویل عرصے سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف نبرد آزما اسلامی مزاحمتی گروہوں کا روایتی اور اصلی حامی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا داعش اور دیگر تکفیری دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف جنگ درحقیقت فلسطین کاز کی حفاظت اور قدس شریف کی آزادی کی خاطر انجام پائی ہے اور خطے میں داعش کے خلاف شہید قاسم سلیمانی کی جدوجہد اس تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ شہید قاسم سلیمانی انتہائی اعلی اخلاق کے مالک تھے کیونکہ وہ مکتب اسلام کے شاگرد تھے اور انہوں نے انقلاب اسلامی کے دامن میں پرورش پائی۔ وہ دفاع مقدس میں شریک ہو کر ایک عظیم کمانڈر بنے۔
ان میں موجود صلاحیتیں خداداد تھیں۔ ایک کامیاب کمانڈر وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر کر سکے اور اپنی ذمہ داریاں درست انداز میں انجام دے پائے۔ شہید قاسم سلیمانی شہرت طلبی، تکبر یا اپنی برتری کے درپے نہیں تھے اور انہوں نے خود کو ہر قسم کی فرقہ واریت، پارٹی بازی اور قوم پرستی سے آزاد کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطین کے کمانڈر، فلسطین کے شہید اور قدس کے شہید قرار پائے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنے وجود میں پائی جانے والی صلاحیتیں فلسطین کی آزادی اور فلسطین کاز کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ انہوں نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف 33 روزہ جنگ میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس جنگ کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے نام اپنا پیغام شہید قاسم سلیمانی کے ذریعے بھیجا۔
اس پیغام میں امام خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ فتح سے ہمکنار ہوں گے اور اس عظیم کامیابی کے بعد اسلامی مزاحمت خطے میں ایک اہم اور طاقتور کردار کی حامل ہو جائے گی اور اس کی طاقت لبنان کی سرحدوں سے عبور کر کے پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ بعد میں رونما ہونے والے حالات سے امام خامنہ ای کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ 1996ء میں شرم الشیخ میں امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کے مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی سے عاری مشرق وسطی کے قیام کا وعدہ دیا گیا۔ اس دہشت گردی سے ان کی مراد اسلامی مزاحمت تھی۔ لیکن 2006ء میں حزب اللہ کی فتح اور 2009ء، 2012ء اور 2014ء میں غزہ میں حماس کی کامیابیوں کے باعث جدید مشرق وسطی کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان عظیم کامیابیوں میں شہید قاسم سلیمانی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
سب سے پہلے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت اور ان کے کردار پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ ان کا بنیادی ترین کردار سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر قدس شریف کی آزادی کیلئے جدوجہد پر مشتمل ہے۔ شہید قاسم سلیمانی ہمیشہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں اور انہیں مضبوط بنانے میں ہر موثر قوت کی بھرپور حمایت کرنے میں مشغول رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صہیونی حکمران ہم سے کہیں زیادہ بہتر انداز میں شہید قاسم سلیمانی کے مقام اور اہمیت اور اپنے اہداف اور راستے پر ان کے بھرپور ایمان سے آگاہ تھے۔ ایران کے حکومتی ذمہ داران اس عقیدے کے حامل ہیں کہ مسئلہ فلسطین عالم اسلام کا سب سے پہلا اور بنیادی ترین مسئلہ ہے۔ اسلامی انقلاب کے بانی امام خمینی رح کی نجف میں رہائش اور ایران میں انقلابی تحریک کے آغاز سے ہی مسئلہ فلسطین ان کی پہلی ترجیح رہا ہے۔
یہیں سے واضح ہو جاتا ہے کہ شہید قاسم سلیمانی تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف کیوں نبرد آزما رہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دہشت گرد گروہ اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورکس کی پیدائش بھی مسئلہ فلسطین سے ہی مربوط ہے۔ امریکہ خطے میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کا بانی ہے اور ان گروہوں کی تشکیل سے اس کا مقصد اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے خلاف برسر پیکار مزاحمتی گروہوں کو آپس میں لڑا کر انہیں اپنے اصلی مقصد یعنی قدس شریف کی آزادی سے دور کرنا تھا۔ دہشت گرد گروہوں کی تشکیل سے امریکہ کا دوسرا مقصد اسلامی ممالک میں بدامنی اور انارکی پیدا کرنا تھا۔ لیکن امریکہ کی یہ سازشیں ناکامی کا شکار ہوئیں اور وہ اسلامی ممالک میں اپنی اور اسرائیل کے کٹھ پتلی حکمران برسر اقتدار نہ لا سکا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شام اور عراق میں جنم لینے والی بدامنی اسی شیطانی منصوبے کا حصہ تھی جس کا مقصد اسلامی مزاحمتی قوتوں کو مکمل طور پر نابود کرنا تھا۔ خاص طور پر شام جو طویل عرصے سے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف نبرد آزما اسلامی مزاحمتی گروہوں کا روایتی اور اصلی حامی تصور کیا جاتا ہے۔ لہذا داعش اور دیگر تکفیری دہشت گرد نیٹ ورکس کے خلاف جنگ درحقیقت فلسطین کاز کی حفاظت اور قدس شریف کی آزادی کی خاطر انجام پائی ہے اور خطے میں داعش کے خلاف شہید قاسم سلیمانی کی جدوجہد اس تناظر میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ شہید قاسم سلیمانی انتہائی اعلی اخلاق کے مالک تھے کیونکہ وہ مکتب اسلام کے شاگرد تھے اور انہوں نے انقلاب اسلامی کے دامن میں پرورش پائی۔ وہ دفاع مقدس میں شریک ہو کر ایک عظیم کمانڈر بنے۔
ان میں موجود صلاحیتیں خداداد تھیں۔ ایک کامیاب کمانڈر وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو متاثر کر سکے اور اپنی ذمہ داریاں درست انداز میں انجام دے پائے۔ شہید قاسم سلیمانی شہرت طلبی، تکبر یا اپنی برتری کے درپے نہیں تھے اور انہوں نے خود کو ہر قسم کی فرقہ واریت، پارٹی بازی اور قوم پرستی سے آزاد کر رکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فلسطین کے کمانڈر، فلسطین کے شہید اور قدس کے شہید قرار پائے۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنے وجود میں پائی جانے والی صلاحیتیں فلسطین کی آزادی اور فلسطین کاز کیلئے وقف کر رکھی تھیں۔ انہوں نے غاصب صہیونی رژیم کے خلاف 33 روزہ جنگ میں انتہائی بنیادی اور اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس جنگ کے دوران رہبر معظم انقلاب اسلامی امام خامنہ ای نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کے نام اپنا پیغام شہید قاسم سلیمانی کے ذریعے بھیجا۔
اس پیغام میں امام خامنہ ای نے سید حسن نصراللہ کو یقین دہانی کروائی تھی کہ آپ فتح سے ہمکنار ہوں گے اور اس عظیم کامیابی کے بعد اسلامی مزاحمت خطے میں ایک اہم اور طاقتور کردار کی حامل ہو جائے گی اور اس کی طاقت لبنان کی سرحدوں سے عبور کر کے پورے خطے میں پھیل جائے گی۔ بعد میں رونما ہونے والے حالات سے امام خامنہ ای کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی۔ 1996ء میں شرم الشیخ میں امریکی اور اسرائیلی حکمرانوں کے مشترکہ اجلاس میں دہشت گردی سے عاری مشرق وسطی کے قیام کا وعدہ دیا گیا۔ اس دہشت گردی سے ان کی مراد اسلامی مزاحمت تھی۔ لیکن 2006ء میں حزب اللہ کی فتح اور 2009ء، 2012ء اور 2014ء میں غزہ میں حماس کی کامیابیوں کے باعث جدید مشرق وسطی کا منصوبہ ناکام ہو گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان عظیم کامیابیوں میں شہید قاسم سلیمانی نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب