مواد

سفر عشق


Jan 18 2021
سفر عشق
ہاتھوں اور پلکوں پر عجیب سفر عشق رواں دواں، اک جنازہ ہے کہ گویا محو پرواز ہے، جس کے پیچھے لاکھوں پروانے سینہ زن، چشم نم، دندان پہ دندان جمائے، بے اختیار آنسوؤں اور بے اختیار قدموں سے، سیل انتقام کو ان سوگوار آنکھوں میں لئے، اذن جہاد کربلا و نجف و کاظمین سے اپنے کفن پہ لکھوا کر، ہر آزاد فکر انسان سے گویا بیعت رضوان کا طالب ہے، مائیں اپنے اصغر لئے کوچہ و بازاروں میں لبیک کی صدائیں زینبی لہجے میں ایسے بلند کئے ہیں کہ گویا ظلم و ستم کے تخت و تاج کی پھر خیر نہیں، قلعہ خیبر کے در و دیوار پھر لرزہ اندام ہیں، جوانوں کے دل مضطر، گویا ھل من کا شعار سننے لگے، حبیب و قین نے پھر سے صف باندھی ہے۔
 
ایسے میں پھر حظوں آرہے ہیں، کچھ سواری اور تلوار بھیجنے کے لئے آمادہ ہیں، کچھ پر یزید وقت کا ایسا خوف طاری ہے کہ زبان تالو سے چپکی، لفظ گلے میں اٹکے، اپنا مظلوم کی حمایت والا نعرہ، ملتوں کے ہجوم میں ماری بڑھکیں، سب بھول گئے، گویا چند درھم و دینار کے عوض عزت و غیرت کو گروی دے بیٹھے ہیں۔ گویا ہمارا ہی خیال خام تھا، سخنوار ہے بولے گا، امت مسلمہ کا لیڈر بنے گا، جہان جانا تھا، آپ جا نہ سکے، جہان بولنا تھا، آپ بول نہ سکے۔ کھودا پہاڑ نکلا چوہا، ہزاروں خواہشوں میں اک خواہش کا اضافہ ہوا، ہم خاتمہ کرپشن کا حسین نعرہ سن کر آئے تھے، ملت مظلوم کی حمایت، مسیحائی کا دم محسوس کرکے آئے تھے، لیکن یہاں الہیٰ قانون میں، فطرت انسانی کے عظیم سرمایے میں کرپشن کی جا رہی ہے۔
 
بیت المال میں کرپشن کا حل نان خشک سے بھی ہوسکتا ہے، لیکن جو کرپشن آپ فرما رہے ہیں، اس کے لئے پاک و پاکیزہ، طیب و طاہر نسل کا خون لگتا ہے۔ آپ وہ نہیں دے سکیں گے، سوچ لیں، بنا مظلوم کی حمایت کے، اسلام کا کوئی وجود نہیں، اسلام دنیا میں واحد مظلوموں کا حامی ہے، باقی سب دم بھرنے والوں کے مفاد و کاروبار ہیں۔ آپ نے تو سکھوں کی حمایت کی جھلک دکھائی تھی، غیر مسلموں کی حمایت کا بولا تھا، اب کیا ہوا؟ کلمہ گوں کی حمایت میں لفظوں کا ذخیرہ بھی لٹا بیٹھے، جادوگروں نے، ستارہ شناسوں نے فرعون کو بھی پیشگوئیاں کی تھیں، لیکن ویسا کچھ نہیں ہوا، جو ان کی چاہت تھی، سب خواہشیں نیل میں ڈوب گئیں، یہ پیشگوئیاں کرنے والے پیر، کرسی کے گرد بیٹھنا چاہتے ہیں بس اور حقیقت میں ایک عصا پار لے گيا۔
 
لیکن آپ جس ٹائیٹینک پر سوار ہو رہے ہیں، اس کا ظاہر بہت خوبصورت ہے، نتیجہ گہرے سمندر میں غرقابی، چالیس لاکھ کی بے روزی گاری اور قرضوں کے مطالبے کی دھمکی کام کر گئی اور جو آپ خدمت کر رہے تھے، وہ سود تھی کیا؟ چلو کرپٹ سہی، مجرم و ملزم سہی، راہ راست سے بھٹکے سہی، اپنے کلمہ گوں سے شیر کی چنگھاڑ اور کفر و شرک، شیطان کے مرید، فتنہ و فساد کو سلگانے والوں کے سامنے اس سکوت محض کو قرآن نے کچھ اور نام دیا ہے، ہم آزادی رائے کے ساتھ ملک کی ترقی و پیشرفت چاہتے ہیں، غلامی والا دل نشین پنجرہ نہیں۔ سب سے پہلے اسلام اور پھر اس کے نام پر بنایا پاکستان، پاکستان زندہ باد۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب