مواد

سردار قاسم سلیمانی کے بارے میں


Jan 03 2021
سردار قاسم سلیمانی کے بارے میں
سردار قاسم سلیمانی کے بارے میں
مومنین میں ایسے بھی مردِمیدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے(سورہ احزاب،آیت۲۳)
اسلام کےعظیم اور مایۂ ناز کمانڈر3جنوری2020ء کوآسمانی ہوگئے، گذشتہ رات شہداء کی پاکیزہ روحوں نے قاسم سلیمانی کی روح کو گلے لگایا،دنیا کے شیطانوں اور شرارت کے مرکزوں کے خلاف میدان جنگ میں سالوں کی مخلصانہ اور بہادری کے ساتھ جدوجہد نیز خدا کی راہ میں شہادت کی ان کی دیرنہ آرزو نے آخر کار سلیمانی عزیز کو اس اعلی درجہ تک پہنچادیا اور ان کا پاکیزہ لہو دنیا کے انتہائی بے رحم اورشقی ترین انسانوں نے زمین پر بہایا،اس عظیم شہادت کے موقع پر میں حضرت بقیہ اللہ ارواحنا لہ الفدا کی بارگاہ میں اور خود اس شہید کی پاک روح کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ایرانی قوم کو تعزیت عرض کرتا ہوں، وہ اسلام کے تعلیم یافتہ اور امام خمینی کے مکتب فکر میں پروان چڑھنے والوں کی نمایاں مثال تھے، انھوں نے اپنی ساری زندگی خدا کی راہ میں جہاد میں صرف کی، شہادت کئی سالوں کی ان کی انتھک کوششوں کا صلہ تھا ، ان کے چلے جانے سے خدا وندعالم کی مدد سے ان کا راستہ رکے گا نہ بند ہوگا لیکن ان مجرموں  کے انتظار میں سخت انتقام ہے جنہوں نے کل رات کے ان کے اور دوسرے شہدا کے خون سے اپنے گندے ہاتھ رنگین کیے، شہید سلیمانی مزاحمت کا بین الاقوامی چہرہ  ہیںاور مزاحمت میں دلچسپی رکھنے والے تمام افراد ان کے خونخواہ ہیں، تمام دوست اور تمام دشمن یہ جان لیں کہ مزاحمی جہاد کا سلسلہ دہرے حوصلہ  کے ساتھ جاری رہے گا اور یقینی فتح اس مبارک راستہ کے مجاہدین کے انتظار میں ہے،اپنے جانثار اور پیارے کمانڈر کا کھو جانا تلخ ہے  لیکن جدوجہد جاری رکھنا اور حتمی فتح حاصل کرنا قاتلوں اور مجرموں کے لیے زیادہ تلخ ہوجائےگا۔
یہ جملے رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے تعزیتی پیغام کا ایک حصہ ہیں  جو انھوں نے سردار قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد دیا تھا۔
رہبرمعظم کے پیغام کا پورا متن پڑھئیے
رہبر معظم3 جنوری کی شام کو شہید کے اہل خانہ سے ملنے کے لیے سردار شہید کے گھر بھی گئے اور اس مخلص اور اعلی درجے کے مجاہد کی شہادت کی مبارکباد اور تعزیت دی، رہبر معظم نے دنیا کے بدترین لوگوں یعنی امریکیوں کے ہاتھوں سردار سلیمانی کی شہادت کو  اور اس جرم پر ان کے فخر کو اس بہادر مجاہد کی خاص خصوصیت قرار دیتے  ہوئے فرمایا: ان کا جہاد ایک بہت بڑا جہاد تھا  اور خدا نے ان کی شہادت کو ایک عظیم شہادت بنا دیا، حاج قاسم اس عظیم نعمت کے مستحق تھے،انھیں یہ مبارک ہو، حاج قاسم کو اسی طرح شہید ہونا چاہئے تھا۔
بغداد میں شہادت
3جنوری2020ءکو جمعہ کی صبح ، بغداد ہوائی اڈے پر دو گاڑیوں پر امریکی ہیلی کاپٹروں کے میزائل حملے میں ، قدس فورس کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی اور عراقی عوامی فورس (الحشداد الشعبی) کے نائب کمانڈر ابو مہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہید ہوئے، یہ حملہ امریکہ کے صدر کی براہ راست نگرانی اور حکم کے تحت کیا گیا تھا۔
امریکی سرکاری عہدیداروں اور محکمہ دفاع کے مطابق  ٹرمپ نے ابتدائی طور پر 28 دسمبر کو قاتلانہ حملے کو مسترد کردیا تھا اور اس کے بجائے ایرانی حمایت یافتہ گروہوں پر حملوں کی اجازت دی تھی لیکن اس کے کچھ دن بعد جب وہ ٹیلی ویژن کی رپورٹس دیکھ رہا تھا  جن میں بغداد میں امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا تو اس نے ممکنہ طور پر جمعرات کی شام کو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی توہین پر ناراضگی کی وجہ سے سب سے مشکل آپشن کی طرف توجہ کی جس سے پینٹاگون کے عہدہ دار بھی چونک گئے۔
عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے دوران سردار قاسم سلیمانی کا زندگی نامہ اور سرگرمیاں
قاسم سلیمانی صوبہ کرمان کے ایک قصبےرابر میں مارچ1957ء میں پیدا ہوئے، قاسم نے اپنا بچپن اور نوجوانی اپنے والد کے ساتھ مستری کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے گزاری اور جوانی کے دوران وہ کرمان کی واٹر آرگنائزیشن میں ٹھیکیدار بن گئے،اس کے بعد اسلامی انقلاب کی فتح اور سپاہ پاسدران کے قیام کے بعدوہ  اس تنظیم میں شامل ہوئے، مسلط کردہ جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی ، قاسم سلیمانی  کرمان کے فوجیوں کی متعدد بٹالینوں کو تربیت دیتے ہیں اورانھیں جنوبی محاذوں کو بھیجتے ہیں، اس کے فورا بعد ہی انھیں خود ایک کمپنی کا کماندر بنا کرسوسنگرد بھیجا گیا تاکہ بعثی حکومت کو مالکی محاذ پر آگے بڑھنے سے روکیں، سلیمانی 2198میںسپاہ پاسدران  کے اس وقت کے کمانڈر محسن رضائی کے حکم سےثاراللہ 41  ڈویژن کےکمانڈر مقرر ہوئے، اس شہید کمانڈر نے بہت ساری کارروائیوں میں حصہ لیا ،اسی طرح شہید سلیمانی والفجر 8 ، کربلا 4 اور کربلا 5 کے آپریشن کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، 9198 ء میں جنگ کے خاتمے کے بعدثاراللہ 41  ڈویژن سردار سلیمانی کی سربراہی میں کرمان واپس آئی اور ملک کی مشرقی سرحدوں سے بھیجے جانے والے شرپسندوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوگئی، سردار سلیمانی نے مسلح افواج کے کمانڈر انچیف آیت اللہ خامنہ ای کے ہاتھوں فروری 2011 میں میجر جنرل (ایران کا سب سےاعلی فوجی رینک) کا درجہ حاصل کیا۔
سردار سلیمانی اور قدس فورس کی کمانڈ
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای نے2001ء میں سردار قاسم سلیمانی کو قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا، اطلاعات کے مطابق قدس فورس ایران کی بیرون ملک سرگرمیوں کو بڑھانے کے لئے تشکیل دی گئی تھی  اور سلیمانی احمد وحیدی کے بعد ایران کی قدس فورس کے دوسرے کمانڈر بنے، شہید قاسم سلیمانی نے مشرق وسطی میں خاص طور پر اس خطے میں خاص طور پر اسلامی بیداری (عربی بہار) کے نام سے جانی جانے والی بدامنی کو پھیلنے سے روکنے میں کلیدی ادا کیا، قدیم فورس کے کمانڈر مقرر ہونے سے پہلے شہد سلیمانی ایران-افغانستان بارڈر پر منشیات فروشی کے گروہوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔
کچھ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ القدس فورس کے کمانڈر کے طور پر سردار سلیمانی کی تقرری اس وقت جب طالبان کے اقتدار میں آئے تھےمحض ایک اتفاق نہیں تھابلکہ انھیں اس لئے منتخب کیا گیا تھا کہ وہ کرمان کے رابُر نامی ایک پہاڑی علاقے کا رہنے والے تھےاور قبائلی برادریوں کے سیاسی نظام سے، خاص طور پر افغان معاشرے سے قریب سے واقف تھے، شہید سلیمانی کو چونکہ کردستان میں خانہ جنگی کا تجربہ تھا اس لیے ان کا انتخاب ایک اچھا آپشن تھا کیوں کہ طالبان کے دور کے افغانستان میں مداخلت کرنا تھا ، جو اس ملک میں خانہ جنگی کا دور تھا۔
قابل ذکر ہے کہ شہد سلیمانی نے قدس فورس کے کمانڈ ر کی حیثیت سے اپنی تقرری سے قبل عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کے آٹھ سالوں نیز ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں منشیات کے گروہوں کے خلاف لڑنےکے دوران بے مثال تجربے حاصل کیے تھے، اس سلسلے میں موساد کے سابق سربراہ میر ڈگن نے سردار سلیمانی کے بارے میں کہا تھا کہ : وہ نظام کے ہر گوشے سے مربوط ہے، وہ وہی شخش ہے جس کو میں سیاسی طور پر ذہین کہتا ہوں۔
داعش کے منظرعام پر آنے کے بعد شہید سلیمانی کی سرگرمیاں
عراق اور شام میں داعش کے منظرعام پر آنے کے بعد ، شہید سلیمانی  قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے  ان علاقوں میں پہنچے اور عوامی قوتوں کو منظم کیا  اور اس گروہ کے خلاف جنگ لڑی، یہ کہنا پڑے گا کہ سلیمانی کی سربراہی میں قدس فورس نے عراق جنگ میں ایک بااثر کردار ادا کیا ہےتبھی تو عراقی قومی سلامتی کے سابق وزیر موفق الربیعی نے الشرق الاوسط اخبار کو دیے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا: بلاشبہ سلیمانی  عراق کے سب سے طاقتور شخص  ہیں۔
11 جنوری 2007 کو امریکیوں نے براہ راست عراق میں قاسم سلیمانی کے بااثر کردار کا اعتراف کیا، اس سلسلہ میں امریکی جنرل اسٹینلے میک کرسٹل نے کہا :ہمیں معلوم ہوا ہے کہ قاسم سلیمانی متعدد گاڑیوں میں ایران-عراق سرحد پر سفر کررہے ہیں، عراق میں ، امریکی ان کا پیچھا کر رہے تھے ،گاڑیوں کا یہ قافلہ عراقی کردستان کے شہر اربیل میں ایک نامعلوم عمارت میں داخل ہوگیا جس پر صرف “قونصل خانہ” لکھا ہوا تھا  جس سے یہ ظاہر ہوتا تھاکہ عمارت کے اندر موجود افراد سفارتی لباس میں کارروائی کر رہے ہیں، امریکی فوج نے عمارت میں گھس کر پانچ ایرانیوں کو گرفتار کیا جن کے پاس سفارتی پاسپورٹ تھے  لیکن محمد علی جعفری اور قاسم سلیمانی کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، میک کرسٹل کے مطابق  پانچوں افراد قدس فورس کے ممبر تھے ،اس واقعے کے نو دن بعد  شیعہ عسکریت پسند گروہ عصائب اہل الحق کی سربراہی میں 9 سے 12 عسکریت پسندوں نے عراقی پولیس ہیڈ کوارٹرز کے درمیان میں واقع کربلا میں امریکی فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملہ کیا ، جس میں متعدد فوجی گاڑیوں میں سوار افرادنےکئی چیک پوسٹوں سے گزرکرامریکی سکیورٹی فورسز کی مرکزی کمانڈ کی عمارت پر دھاوا بولا  جس میں اس وقت 30 امریکی موجود تھے ،انھوں نے ان میں سے چار امریکی فوجیوں کو پکڑ لیا اور اس علاقے سے فرار ہوگئے اور دریائے فرات کی طرف روانہ ہوگئےجس کے بعدآخر کار ، عسکریت پسند امریکی ہیلی کاپٹر کے تعاقب کی وجہ سے فرار ہوگئے لیکن اس کاروائی میں مجموعی طور پر پانچ امریکی فوجی ہلاک ہوگئے، اس کارروائی کو عراق میں جنگ کے چار سالوں کے دوران سب سے اہم اور پیچیدہ آپریشن قرار دیا گیا اور امریکی افسران اور عراقی عہدے داروں نے دعوی کیا تھا کہ  اس کاروائی میں ایران کا ہاتھ ہے اور اس نے اربیل میں پانچ ایرانیوں کی گرفتاری کے ردعمل میں ایسا کیاہے۔
شام میں خانہ جنگی اور شہیدقاسم سلیمانی کی وہاں بااثر موجودگی
سردار سلیمانی نے دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف دفاع میں شام کے بے گناہ عوام کا ساتھ دینے میں کلیدی کردار ادا کیا، وہ  اور ان کے ساتھی ، جنھیں حرم کے محافظ کہا جاتا ہے ، نے بیشتر کارروائیوں میں حصہ لیا اور مقدس روضوں نیز بے گناہ شامی عوام کا ہر ممکن طریقے سے دفاع کیا،اس طرح کہ عالمی میڈیا نے دمشق میں ایک بڑے دھماکے کے بعد جس میں متعدد شامی عہدہ داروں کے ہلاک اور زخمی ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے دعوی کیا  کہ ہلاک ہونے والوں میں قاسم سلیمانی بھی شامل تھے ، جس کے بعد شام میں ایرانی مداخلت اور حزب اختلاف کو دبانے میں بشار الاسد کی مدد کی افواہیں اور تیز ہوگئیں لیکن اس دعوے کے کچھ دن بعد ، قاسم سلیمانی نے تہران میں ایرانی عہدیداروں کی رہبر کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں شرکت کی۔
سابق سی آئی اے آفیسر جان مگویئر نے کہا کہ 2013 میں القصیر کی لڑائی جس کی وجہ سے شام کی فوج نے اسٹریٹجک شہر القصیر پر قبضہ کر لیا  اور اسی کے ساتھ جنگ میں ایک اہم موڑ آگیا تھا ، سلیمانی کی نگرانی اور کمانڈ میں ہوئی اور اس نے اس ایک عظیم فتح قرار دیا ان کی بڑی کامیابی قرار دیا۔
عراق میں آرمی کمانڈ کی مدد کرنا
سنہ 2014 میں داعش  دہشت گرد گروہ کی مکمل تشکیل اور عراق اور شام کے کچھ حصوں پر اس کے حملے کی وجہ سےسردار سلیمانی اور ان کے ساتھیوں نےاپنا چین اور سکون چھوڑ برسوں ان علاقوں کے مظلوم لوگوں کا دفاع کرنے اور داعش دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کرنے میں صرف کر دیے، ادھر  برطانوی سنڈے ٹائمز ،امریکی وال اسٹریٹ جرنل اور نیویارک ٹائمز نے دعوی کیا  کہ ایران نے دہشت گرد گروہ کا مقابلہ کرنے کے لئے عراق کی بکھری ہوئی فوج کی کمان سنبھالی  لی ہےاور ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی عراقی دارالحکومت بغداد کا داعش دہشت گردوں کے حملوں سے دفاع کے لئے کی جانے والی کارروائیوں کی کمانڈ کر رہے ہیں، دریں اثنا ایک عراقی ذرائع نے دعوی کیا  کہ جنرل سلیمانی  اپنے 67 سینئر مشیروں کے ہمراہ عراق پہنچے ہیں اور عراقی افواج کی تعیناتی اور منصوبہ بندی کی کارروائیوں کی نگرانی کرتے ہوئے آپریشنوں کی کمان سنبھالی۔
(چارٹ)جنرل قاسم سلیمانی کے اہم اقدام
داعش کا مقابلہ اور اس گروہ کی تباہی
دہشتگردی کا مقابلہ
ایران کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشان ذلفقار حاصل کرنا
اسلامی مزاحمتی محاذ کو مضبوط کرنا
ایران کی اسٹراٹیجک سرحدوں کی گہری توسیع
1956 ءمیں کرمان میں ولادت
1982ء میں ثاراللہ ڈویژن کی کمانڈ
1997ءقدس فورس کی کمانڈ
2013ءداعش کے ساتھ جنگ
2017ءداعش کے خاتمہ کا اعلان
2019ءبغداد میں شہادت
امریکی عہدیداروں کے ذریعہ قتل اور پابندیوں کی متعدد اور مسلسل دھمکیاں
امریکی عہدہ داروں اور صیہونی حکومت کے ذریعہ سردار سلیمانی کو مسلسل قتل کی دھمکیاں دی گئیں،گذشتہ سال  بھی امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیداروں نے سردار سلیمانی پر شام میں مظاہروں کے دوران شامی سکیورٹی فورسز کے ساتھ تعاون اور بشار الاسد کے مخالفین کو دبانے کا الزام عائد کیا جس کے بعد امریکی محکمہ خزانہ نے شہید کمانڈر پر پابندی عائد کی تھی، عالمی میڈیا میں قاسم سلیمانی کے نام کے بار بار دہرائے جانے کے بعد فرانسیسی نیوز ایجنسی نے ایک ایسی خبر شائع کی  جس میں امریکی حکومت کے ذریعہ ان کے قتل کا امکان ظاہر کیا گیا تھا، اس خبر کے مطابق ، امریکی فوج کے سابق کمانڈر جیک کین  جو امریکی کانگریس کی سماعتی نشست میں موجود تھے ، نے ایرانی عہدیداروں  خاص طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے پاسداران انقلاب کے اعلی عہدیداروں کے قتل کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا:ہم  انہیں قتل کیوں نہ کر دیں؟، انہوں نے ایک ہزار کے قریب امریکیوں کو ہلاک کیا ہے ، تو پھر کیوں نہ انہیں جان بوجھ کر قتل کیا جائے؟ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ہمیں فوجی کارروائی کرنی چاہئے ، میرا مشورہ ہے کہ ہم خفیہ کاروائیاں کریں، ہمیں ان پر بہت  زیادہ دباؤ ڈالنا چاہیے،اسی طرح  انسٹی ٹیوٹ برائے دفاع جمہوریت کے ماہر  رائے مارک گریچ نے کہا: ان کے پاس اتنی منطق نہیں ہے جتنی ہمارے پاس ہے، مجھے نہیں لگتا کہ آپ ان میں سے کسی کو مارے بغیر انہیں ڈرا سکتے ہیں، قاسم سلیمانی بہت سفر کرتے ہیں، جا کر انھیں گرفتار کرو یا مار ڈالو! ۔
اے ایف پی کے مطابق ، اس بیان کے تسلسل میں ، کچھ امریکی نمائندوں نے بتایا کہ ہم ایران کے بارے میں کسی بھی اقدام کو اپنے ذہنوں سے دور نہیں سمجھتے ہیں ، لیکن انہوں نے جیک کین کے بیانات سے اتفاق کرنے سے انکار کردیا۔
شہادت سردار قاسم سلیمانی کا زاد راہ
آخر کار ، یہ کینہ توز دشمن سردار قاسم سلیمانی کی بہادری اور طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکےاور3 جنوری2020ء کو جمعہ کی صبح قدس فورس کے کمانڈر سردار قاسم سلیمانی اور عراقی عوامی تنظیم الحشد الشعبی کے نائب سربراہ  ابو مہدی المہندس کو لے جانے والی دو گاڑیوں پر امریکی ہیلی کاپٹروں نے میزائل حملہ کیا اوربغداد ایئرپورٹ کے نواحی علاقہ میں الحشد الشعبی کےکچھ اراکین سمیت انھیں شہید کردیا۔
سردار سلیمانی نے امریکی عہدہ داروں کے ذریعہ  دی جانے والی قتل کی دھمکیوں کے جواب میں ہمیشہ کہا: یہ کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ ایک شوق کی مدد ہے، وہ کہتے تھے: ان جو لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں دھمکیوں سے ڈرا لیں گے  میں ان کے جواب میں کہتا ہوں: خدایا! مجھے اپنے دین کے دشمنوں کے ہاتھوں اپنے راستے میں شہادت عطا فرما۔
سپاہ پاسدران  نے ایک اعلامیہ جاری کرکے قدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سےمتعلق خبروں کے کی تصدیق کی، سپاہ پاسداران کے بیان میں آیا ہے: اسلام کے سپہ سالار کمانڈر حاج قاسم سلیمانی  زندگی بھر کی جدوجہد کے بعد آج صبح امریکی ہیلی کاپٹروں کے حملے میں شہید ہوگئے۔
عالمی رد عمل
امریکہ کے ہاتھوں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کا قتل نہ صرف یہ کہ  بین الاقوامی قانون کے تمام فریم ورک کے خلاف تھا  بلکہ جیسا کہ ایران کے وزیرخارجہ جواد ظریف نے زور دے کر کہا :یہ ریاستی دہشت گردی کی ایک مثال تھی، ٹرمپ کے اس اقدام پر، جو امریکی کانگریس سے مشورہ کیے بغیر ہوا ، امریکہ کے اندر وسیع پیمانے پر رد عمل سامنےآیا اور ٹرمپ کے سیاسی مخالفین نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا، ان کے دو ڈیموکریٹک حریفوں برنی سینڈرز اور جوبیڈن نے علیحدہ طور پر امریکی صدر کے اس اقدام کے نتائج کے بارے میں حقیقت پسندانہ نظریہ اپنایا، سینڈرز نے ایک ٹویٹ میں لکھا  کہ اگر ایران نے اس پر رد عمل ظاہر کیا اور ایک اور جنگ کا آغاز ہوگا اور اس (ممکنہ) جنگ میں بڑی تعداد میں امریکی شہریوں کی جانیں ضائع ہوں گی اور اربوں ڈالر مزید لاگت آئے گی۔
جو بائیڈن نے بھی کہا کہ ٹرمپ کے دعوے کے برخلاف ، اس کارروائی سے ایرانیوں کی روک تھام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ اس کا الٹا اثر  پڑے گا۔
ایران میں رد عمل
سردار سلیمانی کی شہادت کی خبر کی تصدیق کے فورا بعد  ایران کے عہدیداروں سیاسی ، سماجی اور ثقافتی شخصیات نے سرکاری پیغامات کے ذریعہ یا سوشل میڈیا میں اس جرم پر ردعمل ظاہر کیا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کےصدر حسن روحانی نے حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد تعزیتی پیغام میں کہا: بلاشبہ آزاد اقوام اس خوفناک جرم کا بدلہ لیں گی۔
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر  علی لاریجانی نے بھی کہا: یہ قوم اپنے ہیرو کا خون کبھی معاف نہیں کرے گی۔
عدلیہ کے سربراہ ، حجت الاسلام سید ابراہیم رئیسی نے بھی اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا:امریکہ نے  اس ظالمانہ فعل سے ، خطے میں اپنی شرپسندانہ زندگی کا خاتمہ کردیا ہے، سیاسی شخصیات کے علاوہ متعدد ممتاز ثقافتی اور فنکار شخصیات نے بھی سردار سلیمانی کے قتل پر رد عمل کا اظہار کیا۔
دونوں شہداء کی تشییع جنازہ کاظمین میں امام موسی کاظم علیہ السلام اور امام علی نقی علیہ السلام کے روضوں کے قریب شروع ہوئی اور پھر بغداد میں عراقی عبوری حکومت کے وزیر اعظم  عادل عبد المہدی ، حکمت تحریک کے سربراہ سید عمارحکیم ،الحشداد الشعبی کے نئے کمانڈر ہادی العامری سمیت عراقی پارٹیوں اور گروپوں کے متعدد عہدیدار وں سمیت متعدد اعلی عراقی عہدیداروں کی موجودگی دونوں شہیدوں کی تشییع جنازہ  ہوئی۔
سلیمانی شہادت کے اس سفر میں تنہا نہیں تھے ، ایران کے قریب ترین افراد میں سے ایک  ابو مہدی المہندس  بھی ان کے ساتھ شہید ہوئے، ابو مہدی  جو عراق کی بعث حکومت کے ساتھ ہونے والی  جنگ ​​کےزمانے سے ایران کا ساتھ دے رہے تھے،  حالیہ برسوں میں داعش کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کے شانہ بشانہ رہے، انہیں ان کی وصیت کے مطابق تہران میں دفن کیا گیا۔
عراق میں دونوں شہیدوں کی شاندار تشییع جنازہ کے بعد ان عظیم شہدا کے جنازوں کو ایران لایا گیا  جہاں پہلے اہواز کے لوگوں نے ان دونوں شہدا کے ساتھ خدا حافظی کی اور پھر انھیں امام رضا علیہ السلام کے روضہ کا طواف کرانے کے لیے مشہد مقدس لے جایا گیا اس کے بعد تہران میں رہبر معظم  کے ذریعہ ان کی نماز جنازہ ادا کیے جانے بعد شہید سلیمانی کو کرمان کے رابرقصبہ میں سپرد خاک کیا گیا۔
 
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب