مواد

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہیدسلیمانی کی جدوجہد کا جائزه


Jan 09 2021
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہیدسلیمانی کی جدوجہد کا جائزه
خطہ کے استحکام کے لئے سب سے اہم خطرہ ،  داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کی ذمہ داری بلاشبہ شہید سلیمانی کے کندھوں پر تھی۔
خبر 24کی رپورٹ کے مطابق  شہید سردار قاسم سلیمانی سپاہ پاسدران کے اہم کمانڈر تھےجن کی شہادت کی خبر 4 نومبر بروز جمعہ کی صبح میڈیا میں شائع ہوئی۔
امریکیوں کے مطابق ، دہشت گردی کی اس کارروائی کا حکم براہ راست ٹرمپ نے دیا تھا، ان کی شہادت کی خبر وسیع پیمانے پر پھیلنے کے بعد ، سیاسی نظریات سے قطع نظر پورا ایران اچانک دنگ رہ گیا کیونکہ وہ ایک قومی شخصیت تھے جو سیاسی دائرے میں نہیں سماتے تھے۔
شہید سلیمانی کے کردار کی تعریف کا مشترکہ باب دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی انتھک کوششیں تھیں اور سبھی انھیں اس جنگ کا علمبردار سمجھتے تھے، ایک ایسا مسئلہ تھا جس نے ان کے ریکارڈ کو اچھی طرح سے دکھایا کہ وہ کس طرح  اس جنگ سےنمٹنے میں کامیاب رہے۔
شام میں داعش کے عروج کے ساتھ ہی اس ملک کے شہر اور دیہات ، سوائے  اس کےدارالحکومت دمشق ،لاذقیه و طرطوس کے متعدد علاقے ایک کے بعد ایک داعش کے کنٹرول میں آتےگئے،ایک وقت ایسابھی آیا جب شام کا نصف سے زیادہ حصہ داعش کے زیر کنٹرول تھا۔
ادھرداعش نے اپنے علاقے کو وسعت دینے کے خواب دیکھتے ہوئے شام کی سرحد عبور کی اور عراق میں داخل  ہوگئی، تھوڑی ہی عرصے میں  موصل پر قبضہ ہو گیا اور داعش عراق کے قلب ، فلوجہ ، تکریت ، سامرا یہاں تک کہ ایران کی سرحدوں تک پہنچ گئی، دمشق کے علاوہ  اربیل اور بغداد میں بھی داعش کےہاتھوں ظالمانہ اور مسلسل حملے اور ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، یہاں پر شہید سردار قاسم سلیمانی  کی سربراہی میں القدس فورس نے خطے کی مزاحمتی قوتوں کے ساتھ مل کرمشاورتی اور فیلڈ اقدامات کے ذریعے دنیا کے بدترین دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں شام اور عراق کے مکمل خاتمے کو روکا، عراق اور کردستان کے عہدیداروں کے ساتھ ساتھ شامی عہدیداروں نے بھی متعدد بار اربیل ، بغداد اور دمشق کے خاتمہ کی روک تھام میں ایران اور جنرل سلیمانی کے کردار کا اعتراف کیا ہے، شہید سلیمانی نے ایران سےسپاہ پاسداران،لبنان سےحزب اللہ،افغانستان سے فاطمیون ،پاکستان سے زینبیون، عراق سے حیدریون اور آخر میں الحشد الشعبی کی شکل مزاحمتی محاذ کوتشکیل دینے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔
خطہ کے استحکام کے لئے سب سے اہم خطرہ ،  داعش کے خلاف جنگ کی سربراہی کی ذمہ داری بلاشبہ شہید سلیمانی کے کندھوں پر تھی۔
جنرل سلیمانی نے لبنان میں حزب اللہ کی مدد کرنے ، اسرائیل کو جنوبی لبنان سے پیچھے ڈھکیلنے ، افغانستان کی جنگ ، صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کے سیاسی منظر نامے کی تشکیل ، شام کی خانہ جنگی کی راہ کو تبدیل کرنے  اور عراق میں داعش کا مقابلہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
4نومبر  2017 کو  سردار سلیمانی نے خود کو “ولایت کا ادنی ساسپاہی” قرار دیتے ہوئے رہبر معظم  کو لکھے گئے ایک خط میں باضابطہ طور پر داعش کے خاتمے کا اعلان کیا،انھوں نے خط میں لکھا کہ داعش کے آخری مضبوط گڑھ ابو کمال کو آزاد کرنے کے لئےکیے جانے والے آپریشن کی تکمیل کے بعد  میں اس امریکی صہیونی گروپ کا جھنڈا اتار کر اس کی جگہ شام کا جھنڈا لہراتا ہوں اور اس طرح اس ملعون بددیانت شجرہ کے خاتمے کا اعلان کرتا ہوں اور اس میدان کے تمام گمنام کمانڈروں ، مجاہدین اور ان ہزاروں ایرانی ، عراقی ، شامی ، لبنانی ، افغانستانی اور پاکستانی شہداء اور جانبازو ں کی طرف سے جنہوں نے مسلمانوں کی جان و عزت کے تقدس کے دفاع کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،اس عظیم اورغیر معمولی فتح کے موقع پر جنابعالی،اسلامی ایران کی بزرگ قوم، عراق و شام کی مظلوم اقوام اور دنیا کے دیگر مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور ہم اس عظیم فتح کے نصیب ہونے  کے لئے اللہ تعالٰی کے حضور شکر ادا کرتے ہیں۔
ذیل میں  آپ کو داعش کے خلاف جنگ کے سلسلے میں شہید سردار سلیمانی کی تقریر کی ایک ویڈیو دیکھنے کو ملے گی  جس میں داعش کے خلاف جنگ کے بارے میں شہید سلیمانی کے خصوصی نظریہ کو بیان کیا گیا ہے۔
حاج قاسم کے دہشتگردی کے مخالف کردار کا اعتراف
داعش کو ختم کرنے میں سردار کا کردار ایسی چیز نہیں تھی جس کا دشمن انکار کرسکے، داعش کے ظاہر ہونے سے قبل طویل عرصے سے سردار سلیمانی اور ان کا کردار امریکی اور مغربی میڈیا کے تجزیوں کا موضوع تھا لیکن داعش کو ختم کرنے میں حاج قاسم کا کلیدی کردار بین الاقوامی میڈیا ، مغربی اور امریکی عہدیداروں میں زیادہ نمایاں تھا، ایک موقع پر اس ایرانی سردار کی تصویر امریکی میگزین نیوز ویک کی جلد پر تھی “لازوال دشمن” کی سرخی کے ساتھ جس کی وضاحت میں لکھا تھا کہ پہلے امریکہ کا مقابلہ کیا  اور اب داعش کو تباہ کر رہا ہے، عراق میں امریکی خصوصی کارروائیوں کے سابق کمانڈر میک کرسٹل ، جنرل سلیمانی کے کردار کے بارے میں کہتے ہیں داعشی نامی ایک شیطانی ٹولہ سامنے آیا تھا لیکن اب سلیمانی اس کا مقابلہ کرنے لیے سفید گھوڑے کا کردار ادا کر رہے ہیں، میک کرسٹل مزید کہتے ہیں  کہ میرے خیال میں  سلیمانی اسد حکومت کو بچانے میں بہت اہم تھے،تقریبا غیر ممکن تھا کہ کچھ جگہوں پر بشار اسد ٹک سکتے اوراس اٹھنے والے طوفان کا دو یا تین سال سے زیادہ مقابلہ کر سکتے،واقعا شامی حکومت گر رہی تھی۔
عراق اور مشرق وسطی میں سابق امریکی سفیر رایان کراکر بھی داعش کے خلاف جنگ میں جنرل سلیمانی کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: بشار الاسد کی حکومت بعض اوقات واقعی شکست کھا رہی تھی  لیکن قدس فورس اور کچھ ایرانی فوجوں نے ان کی مدد کی۔
امریکی تجزیہ کار اور امریکی فوج کے سابق ماہر نفسیاتی افسر اسکاٹ بینیٹ نے ایک انٹرویو میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایرانی قدس فورس کے کمانڈر کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا: سلیمانی نے داعش کی خونی جارحیت اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے اپنے خصوصی فوجی آپریشن میں پر سکون انداز میں کام کیا اور اس نے دنیا کو دکھادیا کہ ایران تمام میدانوں میں اخلاقی طور پر داعش کا مخالف ہے اور دنیا کو آہستہ آہستہ یہ احساس ہوگیا کہ ایران نہ صرف داعش کا حامی  نہیں ہے بلکہ داعش کو روکنے کا اصل حل بھی  اسی کےپاس ہے۔
سی آئی اے کے ایک سابق افسر جان مک ویر نے شام میں القصیر کی لڑائی ، جس کی وجہ سے شام کی فوج نے اسٹریٹجک شہر القصیر پر دوبارہ قبضہ کیا تھا، کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: یہ سردار سلیمانی ہی تھے جنھوں نے براہ راست آپریشن کی کمانڈ سنبھالی  جس میں زبردست فتح حاصل ہوئی۔
داعش کون ہے؟
دولت اسلامیہ عراق اور شام (داعش) ایک انتہا پسند گروہ ہے جو وہابی عقیدہ کی پیروی کرتا ہے، یہ  ​​ابو بکر البغدادی کی سربراہی میں تشکیل پانے والا سلفی دہشتگردوں کا ایک گروہ ہے جو القاعدہ سے الگ ہوا ہے اور شام کےدیگر باغی گروہوں کے ساتھ مل کر عراق اور شام کی حکومت کے خلاف جنگ کےلیے کھڑا ہو اہے، داعش مشرق وسطی میں ایک انتہا پسند گروہ تھا، اس نے عراق اور شام کے علاوہ ، لیبیا اور نائیجیریا کے کچھ حصوں پر بھی قبضہ کرلیا، داعش سے منسلک گروہ دنیا کے دوسرے حصوں مثلا افغانستان اور جنوب مشرقی ایشیاء میں بھی سرگرم ہیں، داعش کی جڑیں توحید اور جہاد گروپ کے ساتھ ملتی ہیں جو 1999 میں ابو مصعب الزرقاوی کی سربراہی میں قائم ہواتھا اور 2004 میں القاعدہ نیٹ ورک میں شامل ہوا جو بعد میں وہ عراق میں القاعدہ کے نام سے مشہور ہوا، یہ گروپ عراقی حکومت اور عراق میں تعینات امریکی افواج کے ساتھ جنگ ​​میں داخل ہوا تھا،اس نے 2006 میں اس نے متعدد دیگر اسلامی گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا اور مجاہدین کونسل تشکیل دی جو عراق کے سب سے بڑے صوبے انبار میں ایک اہم طاقت شمار کی جاتی تھی، اسی سال 13 اکتوبر میں مجاہدین کونسل نے کئی دیگر باغی گروپوں کے ساتھ مل کر “دولت اسلامیہ” کا قیام عمل میں لایا، ابو ایوب المصری اور ابو عمر البغدادی دولت اسلامیہ عراق کے دو اہم رہنما تھے جو 18 اپریل2010 کو امریکی فوج کے ایک آپریشن میں مارے گئے تھےاور ان کی جگہ ابوبکر البغدادی کی جگہ لی، شام کی خانہ جنگی کے آغاز کے ساتھ ہی  دولت اسلامیہ کی افواج بھی شام میں داخل ہوگئیں اور 8 اپریل  2013 کو اس نے اپنا نام “عراق و شام کی اسلامی حکومت” رکھا، اور تب سے  وہ مخفف نام داعش سے جانا جانے لگا، انہوں نے تیزی کے ساتھ شمال مشرقی شام کے کچھ حصوں پر قبضہ کرلیا اور رقہ شہر کو اپنا دارالحکومت منتخب کیا، اس کے بعد انہوں نے شام میں فوجی کارروائی کے بیک وقت عراق پر حملہ کیا اور عراق کے صوبہ الانبار کے اہم ترین شہر رمادی اور فلوجہ کو اپنی حکومت میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئے، جون 2014 میں ، داعش نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کرکے اپنی سب سے نمایاں کامیابی حاصل کی، اس گروپ نے اگلے مہینوں میں بھی  زبردست پیشرفت بھی کی اورمئی 2015 تک شام اور شمال مغربی عراق کے نصف حصے پر قبضہ کرلیا۔
داعش نے اس عرصے کے دوران  اپنی حکومت کے کچھ علاقے کھو بھی دیے جیسے مارچ 2015 میں تکریت جیسے اہم شہر کوعراقی فوج اور نیم فوجی ملیشیا  الحشد الشعبی جو اسی گروہ سے لڑنے کے لیے تشکیل دی گئی تھی ،کے حوالے کردیا ۔
سن 2014 سے 2017 کے درمیان ایک کے بعد ایک علاقے داعش کے قبضے سے نکلتے چلے گئے سن 2015 میں اس نے سنجار اور رمادی شہروں کا کنٹرول کھو دیا، جولائی 2017 میں موصل آزاد ہوگیااور اسی سال دسمبر میں بغداد حکومت نے داعش کے خلاف فتح کا اعلان کیا۔
اکتوبر 2017 میں  شامی ڈیموکریٹک فورسز نے داعش کو راقہ سے نکال باہر کیا۔
اس گروپ نے اپنے قبضے سے زیادہ تر علاقے نکل جانے  کے بعد29 جون ، 2014 کو  اعلان کیا کہ آج کے بعد اسے “اسلامک اسٹیٹ” کے نام سے جانا جائے گا اور اس نے ابو بکر البغدادی کو اپنا قائد منتخب کرتے ہوئے ایک عالمی خلافت تشکیل دینے کا اعلان کیا اور اپنی حکومتی سرگرمیوں کو بڑھایا۔
اگرچہ داعش کی جڑیں القاعدہ نیٹ ورک سے وابستہ گروہوں سےملتی ہیں لیکن وہ  شام میں القاعدہ کی باضابطہ شاخ  نصرہ فرنٹ  سے بھی لڑنے لگی نیز اور القاعدہ نے متعد بار داعش کی اس کے ساتھ وابستگی کی تردید کی ہے۔
القاعدہ اور داعش کے مابین 2013 میں اختلاف ہوا جب الظواہری نے شام سے شہریوں اور حریف باغیوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا الزام عائد ہونے کے بعد اس گروپ سے اپنی سرگرمیاں واضح کرنے کا مطالبہ کیا۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب