جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی کمانڈ کے سالوں میں مزاحمتی گروپوں کے اتار چڑھاو میں ناقابل تلافی کردار ادا کیا۔ان کی کمانڈ کے دور میں مزاحمتی گروہ، اسرائیل کے سامنے شکست کھانے کے بجائے جارحانہ طاقت میں تبدیل ہوگئے۔
سنہ1980 – حزب اللہ کی تشکیل
لبنانی تنظیم حزب اللہ کی بنیاد 1980 کی دہائی کے اوائل میں لبنان میں رکھی گئی تھی، آج ، حزب اللہ لبنان، خطے کی ایک بااثر مزاحمتی قوت ہے ، جو اسرائیل کے خلاف مضبوط رکاوٹیں کھڑا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
سنہ1982 ء – اسرائیل کے ساتھ پہلی محاذ آرائی
1982 کی جنگ حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف پہلا امتحان تھا، اس جنگ کو سیاسی حلقوں میں لبنان کی پہلی جنگ کے طور پر جانا جاتا ہے، اسرائیل بھاری ہوائی اور زمینی بمباری سے بیروت کی طرف بہت تیزی سے آگے بڑھا ، لیکن شیعہ گروہوں کے اتحاد سے ، 3 سال کے بعد بھی اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کرپایا اور حزب اللہ کے ساتھ طویل مدتی تنازعہ میں داخل ہوا ، جو تقریبا 15 سال تک جاری رہا۔
سنہ1992 ء سید عباس موسوی کی شہادت
سید عباس موسوی ، صبحی طفیلی کے بعد حزب اللہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل تھے، سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کا دور،قریب ایک سال تھا، وہ 1992 میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اپنے بیٹے اور اہلیہ سمیت شہید ہوگئے، ان کی شہادت کے بعد ، سید حسن نصراللہ کو نیا سیکرٹری جنرل متعارف کرایا گیا، حزب اللہ کو سنبھالنے کی نصر اللہ کی صلاحیت ایسی تھی کہ اسرائیلی میڈیا نے بار بار سید عباس موسوی کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔
سنہ2000 ء – اسرائیل کو لبنان سے نکال دیا گیا
اسرائیل کو سنہ 2000 میں حزب اللہ کے ذریعے لبنانی سرزمین سے نکال باہر پھینک دیا گیا، سنہ 2016 میں ، اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ ، ریزرو میجر جنرل یورا الان ، جو سنہ 2000 میں حکومت کے اہم مشیروں میں سے تھے ، انہوں نے اعتراف کیا کہ مئی 2000 میں حزب اللہ ہی نے ہمارےانخلا کے وقت اور طریقے کو ہم پر مسلط کیا تھا۔
سنہ2006 – جنگ 33 روزه
اس جنگ کو لبنان کی دوسری جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو 33 دن تک جاری رہی، جنرل قاسم سلیمانی حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر بیشتر اوقات، جنگی آپریشن والے علاقوں میں موجود تھے ، اور سید حسن نصراللہ کے مطابق عماد مغنیہ کے ساتھ ، انہوں نے اسرائیل کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا، یہ جنگ اسرائیلی فوج کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔
سنہ2009-2008 – غزہ میں 22 روزہ جنگ
حماس کے کچھ عہدیداروں نے بار بار غزہ میں جنرل سلیمانی کی موجودگی کی بات کی ہے، ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ کیا یہ موجودگی 2008-2009 کی 22 روزہ جنگ کے دوران تھی یا نہیں؟ جنگ کے آغاز میں ، اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جس میں متعدد شہری شہید ہوگئے، حماس جلد ہی اسرائیل کو ایک زبردست ضرب لگانے میں کامیاب ہوگیا ، اس حد تک کہ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کی صلاحیت کھو دی اور بالآخر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
سنہ 2008 عماد مغنیہ کی شہادت
سید حسن نصراللہ کے مطابق، عماد مغنیہ جنرل سلیمانی کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے، 33 روزہ جنگ کے دوران ، انہوں نے زیادہ تر جنرل سلیمانی اور سید حسن نصراللہ کے ہمراہ حزب اللہ جنگجوؤں کو کمانڈ کیا۔ حزب اللہ کے حفاظتی ڈھانچے میں ان کا کردار ناقابل تلافی ہے، وہ 12 فروری 2008 کو دمشق کے علاقے ، کفرسوسہ میں کار بم دھماکے میں شہید ہوگئے، اس علاقے میں ان کی موجودگی کی وجہ جنرل سلیمانی سے ملاقات تھی۔
سنہ2015 سمیر قنطار کی شہادت
سمیر قنطار مزاحمت کا ایک افسانوی قیدی ہے جسے اسرائیل میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، انہیں 2008 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیا گیا تھا، 2009 میں ، انہوں نے عبدالکریم عبید اور مصطفیٰ دیزانی کے ساتھ ایران کا سفر کیا اور ایرانی رہنما سے ملاقات کی، وہ 20 دسمبر 2015 کو دمشق کے قریب اسرائیلی میزائل حملے میں 53 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔
سنہ 2016 کی شام کی جنگ اور سید مصطفی بدرالدین کی شہادت
جیسے ہی دمشق کے زوال کے آثار واضح ہوگئے ، شام کی سرکاری حکومت کی درخواست پر اور جنرل سلیمانی کی سربراہی میں ، حزب اللہ آپریشنل ٹیمیں فوری طور پر شام میں داخل ہوئیں اور داعش کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا، ان کی موجودگی کی وجہ سے داعش دہشت گرد گروہ وں نےدمشق کے آس پاس کے مقبوضہ علاقوں کو بتدریج کھودیا اور اس علاقے کوواپس کرنے پر مجبور ہوگئے، ان جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کے ایک رہنما مصطفی بدرالدین شہید ہوگئے، اگرچہ پہلے تو اسرائیل پر شک کیا جارہا تھا، لیکن سید حسن نصراللہ نے ان کی شہادت کے بعد کہا: تمام نشانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ تکفیری گروہوں نے یہ جرم کیا ہے۔
لبنانی سیاسی مساوات میں حزب اللہ کی موجودگی
لبنان کی تعمیر نو اور مختلف شعبوں میں لوگوں کو خدمات فراہم کرنے میں اپنے کردار کی وجہ سے آج لبنان میں ہونے والی پیشرفت کے دوران حزب اللہ کا بہت اثر و رسوخ اور کردار ہے، سید حسن نصراللہ کی مقبولیت نے انہیں نہ صرف شیعوں بلکہ سنیوں ، عیسائیوں اور لبنان کی دوسری قوموں کے درمیان میں بھی ایک قومی شخصیت بنا دیا ہے۔
سنہ1980 – حزب اللہ کی تشکیل
لبنانی تنظیم حزب اللہ کی بنیاد 1980 کی دہائی کے اوائل میں لبنان میں رکھی گئی تھی، آج ، حزب اللہ لبنان، خطے کی ایک بااثر مزاحمتی قوت ہے ، جو اسرائیل کے خلاف مضبوط رکاوٹیں کھڑا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
سنہ1982 ء – اسرائیل کے ساتھ پہلی محاذ آرائی
1982 کی جنگ حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف پہلا امتحان تھا، اس جنگ کو سیاسی حلقوں میں لبنان کی پہلی جنگ کے طور پر جانا جاتا ہے، اسرائیل بھاری ہوائی اور زمینی بمباری سے بیروت کی طرف بہت تیزی سے آگے بڑھا ، لیکن شیعہ گروہوں کے اتحاد سے ، 3 سال کے بعد بھی اپنے مقاصد کو حاصل نہیں کرپایا اور حزب اللہ کے ساتھ طویل مدتی تنازعہ میں داخل ہوا ، جو تقریبا 15 سال تک جاری رہا۔
سنہ1992 ء سید عباس موسوی کی شہادت
سید عباس موسوی ، صبحی طفیلی کے بعد حزب اللہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل تھے، سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے ان کا دور،قریب ایک سال تھا، وہ 1992 میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے اپنے بیٹے اور اہلیہ سمیت شہید ہوگئے، ان کی شہادت کے بعد ، سید حسن نصراللہ کو نیا سیکرٹری جنرل متعارف کرایا گیا، حزب اللہ کو سنبھالنے کی نصر اللہ کی صلاحیت ایسی تھی کہ اسرائیلی میڈیا نے بار بار سید عباس موسوی کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔
سنہ2000 ء – اسرائیل کو لبنان سے نکال دیا گیا
اسرائیل کو سنہ 2000 میں حزب اللہ کے ذریعے لبنانی سرزمین سے نکال باہر پھینک دیا گیا، سنہ 2016 میں ، اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ ، ریزرو میجر جنرل یورا الان ، جو سنہ 2000 میں حکومت کے اہم مشیروں میں سے تھے ، انہوں نے اعتراف کیا کہ مئی 2000 میں حزب اللہ ہی نے ہمارےانخلا کے وقت اور طریقے کو ہم پر مسلط کیا تھا۔
سنہ2006 – جنگ 33 روزه
اس جنگ کو لبنان کی دوسری جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو 33 دن تک جاری رہی، جنرل قاسم سلیمانی حزب اللہ کے جنگجوؤں کے ساتھ مل کر بیشتر اوقات، جنگی آپریشن والے علاقوں میں موجود تھے ، اور سید حسن نصراللہ کے مطابق عماد مغنیہ کے ساتھ ، انہوں نے اسرائیل کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا، یہ جنگ اسرائیلی فوج کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔
سنہ2009-2008 – غزہ میں 22 روزہ جنگ
حماس کے کچھ عہدیداروں نے بار بار غزہ میں جنرل سلیمانی کی موجودگی کی بات کی ہے، ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ کیا یہ موجودگی 2008-2009 کی 22 روزہ جنگ کے دوران تھی یا نہیں؟ جنگ کے آغاز میں ، اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جس میں متعدد شہری شہید ہوگئے، حماس جلد ہی اسرائیل کو ایک زبردست ضرب لگانے میں کامیاب ہوگیا ، اس حد تک کہ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کی صلاحیت کھو دی اور بالآخر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
سنہ 2008 عماد مغنیہ کی شہادت
سید حسن نصراللہ کے مطابق، عماد مغنیہ جنرل سلیمانی کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے، 33 روزہ جنگ کے دوران ، انہوں نے زیادہ تر جنرل سلیمانی اور سید حسن نصراللہ کے ہمراہ حزب اللہ جنگجوؤں کو کمانڈ کیا۔ حزب اللہ کے حفاظتی ڈھانچے میں ان کا کردار ناقابل تلافی ہے، وہ 12 فروری 2008 کو دمشق کے علاقے ، کفرسوسہ میں کار بم دھماکے میں شہید ہوگئے، اس علاقے میں ان کی موجودگی کی وجہ جنرل سلیمانی سے ملاقات تھی۔
سنہ2015 سمیر قنطار کی شہادت
سمیر قنطار مزاحمت کا ایک افسانوی قیدی ہے جسے اسرائیل میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، انہیں 2008 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیا گیا تھا، 2009 میں ، انہوں نے عبدالکریم عبید اور مصطفیٰ دیزانی کے ساتھ ایران کا سفر کیا اور ایرانی رہنما سے ملاقات کی، وہ 20 دسمبر 2015 کو دمشق کے قریب اسرائیلی میزائل حملے میں 53 سال کی عمر میں شہید ہوگئے۔
سنہ 2016 کی شام کی جنگ اور سید مصطفی بدرالدین کی شہادت
جیسے ہی دمشق کے زوال کے آثار واضح ہوگئے ، شام کی سرکاری حکومت کی درخواست پر اور جنرل سلیمانی کی سربراہی میں ، حزب اللہ آپریشنل ٹیمیں فوری طور پر شام میں داخل ہوئیں اور داعش کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا، ان کی موجودگی کی وجہ سے داعش دہشت گرد گروہ وں نےدمشق کے آس پاس کے مقبوضہ علاقوں کو بتدریج کھودیا اور اس علاقے کوواپس کرنے پر مجبور ہوگئے، ان جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کے ایک رہنما مصطفی بدرالدین شہید ہوگئے، اگرچہ پہلے تو اسرائیل پر شک کیا جارہا تھا، لیکن سید حسن نصراللہ نے ان کی شہادت کے بعد کہا: تمام نشانیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ تکفیری گروہوں نے یہ جرم کیا ہے۔
لبنانی سیاسی مساوات میں حزب اللہ کی موجودگی
لبنان کی تعمیر نو اور مختلف شعبوں میں لوگوں کو خدمات فراہم کرنے میں اپنے کردار کی وجہ سے آج لبنان میں ہونے والی پیشرفت کے دوران حزب اللہ کا بہت اثر و رسوخ اور کردار ہے، سید حسن نصراللہ کی مقبولیت نے انہیں نہ صرف شیعوں بلکہ سنیوں ، عیسائیوں اور لبنان کی دوسری قوموں کے درمیان میں بھی ایک قومی شخصیت بنا دیا ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب