مواد

حزب اللہ سب سے آگے ہے


Jan 18 2021
حزب اللہ سب سے آگے ہے
سردار قاسم سلیمانی نے اپنے کمانڈنگ کے دور میں مزاحمتی گروپوں کے اتار چڑھاو میں ناقابل تلافی کردار ادا کیا ہے۔ ان کے دور میں  مزاحمتی قوتیں اسرائیل میں صہیونی حکومت  کے مقابلے میں کامیاب رہی ہیں۔
1980 – حزب اللہ کی تشکیل
لبنانی حزب اللہ کی بنیاد 1980 کی دہائی کے اوائل میں لبنان میں رکھی گئی تھی  آج ، لبنان کی حزب اللہ خطے کی ایک بااثر مزاحمتی قوت ہے ، جو اسرائیل کے خلاف مضبوط رکاوٹیں کھڑی کرنے میں کامیاب رہی ہے۔
1982 ء – اسرائیل کے ساتھ پہلا محاذ آرائی
1982 کی جنگ حزب اللہ کا اسرائیل کے خلاف پہلا امتحان تھا اس جنگ کو سیاسی حلقوں میں لبنان کی پہلی جنگ کے طور پر جانا جاتا ہے۔اسرائیل شدید بمباری اور زمینی پیشرفت کی وجہ سے بیروت تک آگیا تھا تاہم ، شیعہ گروہوں کے اتحاد کی وجہ سے وہ 3 سال تک بھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا جس کے بعد حزب اللہ کے ساتھ طویل مدتی تنازعہ میں داخل ہوا ، جو تقریبا 15 سال تک جاری رہا۔
1992 ء – سید عباس موسوی کی شہادت
سید عباس موسوی ، صبحی طفیلی کے بعد حزب اللہ کے دوسرے سیکرٹری جنرل تھے اور وہ ایک سال حزب اللہ  کے جنرل سکریٹری رہے تھے انہیں 1992 میں اسرائیلی ہیلی کاپٹروں نے بیٹے اور اہلیہ سمیت شہید کر دیا تھا ان کی شہادت کے بعد سید حسن نصراللہ کونیا جنرل سکریٹری بنایا گیا حزب اللہ کو سنبھالنے کی نصر اللہ کی صلاحیت ایسی تھی کہ اسرائیلی میڈیا نے بار بار سید عباس موسوی کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا۔
2000 ء – اسرائیل کو لبنان سے بے دخل کردیا گیا، اسرائیل کو سن 2000 میں حزب اللہ نے لبنان سے نکال دیا تھا سن 2016 میں اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق چیئرمین ، میجر جنرل گیوارا ایلن ، جو سن 2000 میں حکومت کے اہم مشیروں میں شامل تھے  نے اعتراف کیا مئی 2000 میں  حزب اللہ ہی تھا جس نے انخلا کا وقت اور طریقہ کار ہم پر مسلط کیا تھا۔
2006 – 33 دن کی جنگ
اس جنگ کو لبنان کی دوسری جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے ، جو 33 دن تک جاری رہی سردار قاسم سلیمانی اس جنگ کے دوران زیادہ تر حزب اللہ کے جوانوں کے ساتھ علاقہ میں موجود تھےاور سید حسن نصراللہ کے مطابق عماد مغنیہ کے ساتھ  انہوں نے اسرائیل کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا جنگ اسرائیلی فوج کی شکست کے ساتھ ختم ہوئی۔
2009-2008 – غزہ میں 22 روزہ جنگ
حماس کے کچھ عہدیداروں نے بار بار غزہ میں سردار سلیمانی کی موجودگی کی بات کی ہے۔ لیکن ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ 2008-2009 میں 22 روزہ جنگ کے دوران وہاں تھے یا نہیں جنگ کے اوائل میں  اسرائیل نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا جس میں متعدد شہری ہلاک ہوئے حماس جلد ہی اسرائیل کو ایک زبردست دھچکا دینے میں کامیاب ہوگیا اور اسرائیل حماس کو تباہ کرنے کی ہمت ہار چکا اور بالآخر مجبور ہو کر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
2008-عماد مغنیہ کی شہادت
سید حسن نصراللہ کے مطابق عماد مغنیہ سردار سلیمانی کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے 33 دن تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران انہوں نے زیادہ تر سردار سلیمانی اور سید حسن نصراللہ کے ہمراہ حزب اللہ کے جوانوں کی رہنمائی کی حزب اللہ کے حفاظتی ڈھانچے میں ان کا کردار ناقابل تلافی ہے وہ 12 فروری 2008 کو دمشق کے علاقے کفر سوسیس میں کار بم دھماکے میں شہید ہوئے تھے اس علاقے میں ان کی موجودگی کی وجہ سردار سلیمانی سے ملاقات تھی۔
2015 سمیر قنطار کی شہادت
سمیر قنطار مزاحمت گروہ کا ایک اہم  قیدی تھا جسے اسرائیل کی جیل میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں 2008 میں حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ 2009 میں  انہوں نے عبدلکریم عبید اور مصطفیٰ دزانی کے ساتھ ایران کا سفر کیا اور ایرانی رہنما سے ملاقات کی۔ وہ 20 دسمبر 2015 کو شام کی دمشق کے قریب اسرائیلی میزائل حملے میں 53 سال کی عمر میں شہید ہوگیا تھا۔
2016  شام کی جنگ اور سید مصطفی بدرالدین کی شہادت
جیسے ہی دمشق کے زوال کے آثار نظر آنے لگے تو شام کی سرکاری حکومت کی درخواست پر اور سردار سلیمانی کی سربراہی میں ، حزب اللہ کی آپریشن ٹیمیں فوری طور پر شام میں داخل ہوئیں اور داعش کے خلاف کارروائیوں کا آغاز کیا۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے داعش کا دہشت گرد گروہ دمشق کے آس پاس کے مقبوضہ علاقوں کو آہستہ آہستہ کھو بیٹھا اور میدان چھوڑ کر بھاگ گئے۔
انھیں جھڑپوں کے دوران حزب اللہ کے ایک رہنما مصطفی بدرالدین شہید ہوگئے۔ اگرچہ ابتدا میں اسرائیل کو ان کی شہادت کا ذمہ ٹہرایا جا رہا تھا لیکن سید حسن نصراللہ نے ان کی شہادر کے بعد کہا تمام شواہد یہ معلوم ہوتا کہ تکفریریوں نے اس جرم کو انجام دیا ہے۔
لبنان کے سیاسی معاملات میں حزب اللہ کی موجودگی
لبنان کی تعمیر نو اور مختلف شعبوں میں لوگوں کی خدمات میں اہم کردار ادا کرنے کی وجہ سے آج لبنان میں ہونے والی پیشرفت میں حزب اللہ کا بہت اثر و رسوخ اور کردار ہے سید حسن نصراللہ کی مقبولیت نے انہیں نہ صرف شیعوں بلکہ سنیوں ، عیسائیوں اور لبنانی نسلی گروہوں میں بھی ایک قومی شخصیت بنا دیا ہے۔
 
 
 
 
 
 
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب