مواد

حاج قاسم سلیمانی کی نو خصوصیات


Jan 03 2021
حاج قاسم سلیمانی کی نو خصوصیات
حجت الاسلام والمسلمین عبد اللہ حاجی صادقی کہتے ہیں: حاج قاسم سلیمانی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان تھے لیکن انھوں میں کچھ خصوصیات پائی جاتی تھیں جن کی وجہ سے وہ حاج قاسم بن گئے، پہلے مرحلے میں  حاج قاسم آخری خواہش شہادت اور اپنی دعا کی قبولیت تھی،شہید قاسم  سلیمانی کے لیے شہادت اپنی منزل کو پہنچنا تھا،ان کے نزدیک شہادت عظیم کامیابی اور حیات طیبہ تک پہنچنا تھا، جو خود حج قاسم سے متعلق تھا لائق  مبارکباد ہے، حضرت آغا (رہبرمعظم)کے مطابق ، یہ ان کا آسمانی ہوجانا اور ان دوستوں سے ملنا تھا جن کی جدائی میں وہ جل رہے تھے،جس کے ایک دو کونے لوگوں نے دیکھے کہ حاج قاسم نے احمد کاظمی کی شہادت کا جو داغ برداشت کیا اور شہید تہرانی مقدم کی شہادت کی جس سختی کو تحمل کیا، ان دونوں نے حاج قاسم کو بہت توڑ دیا ، حسینیہ سار اللہ میں شہید تہرانی  مقدم کی تشییع جنازہ میں جب حضرت آغا شہید کی نماز جنازہ پڑھانےآئے میں نے ایک لمحے کے لئے یہ محسوس کیا کہ حاج قاسم  جان دینا چاہتے ہیں، میں نے ایک کمانڈر اور ساتھی سے کہا کہ وہ حاج قاسم کا خیال رکھیں کہیں وہ شہید تہرانی کے جسد خاکی کے قریب جان نہ دے دیں، حاج قاسم کی شہادت  ان کااپنے دوستوں کے پاس پہنچنا تھا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کوئی حاج قاسم تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟شہادت کی کیفیت بھی اہم ہے، شہادت کے لیے تیار رہنا، ان کی شہادت سے پہلے ، جب شہید کا بچہ پوچھتا ہے کہ کہاں جارہے ہیں ؟ تو کہتے ہیں اپنی قتلگاہ میں جارہا ہوں، آخری لمحات میں ان نے خدا سے دعا کی تھی کہ خدایا ، مجھے پاکیزہ قبول فرما، یہ کہ ٹکرے ٹکڑے ہوکر جائیں اور ان کا خون بھی خادم بن جائے۔
حاج قاسم کی شہادت نے حاج قاسم کے مکتب کو دوام بخشا
سچی بات یہ ہے کہ عظیم کام کرنے والے عظیم لوگوں کو اپنے کاموں کو دوام بخشنے کے لئے کہیں اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑتا ہے، حاج قاسم کی شہادت نے حاج قاسم کے مکتب کو دوام بخشا۔
حاج قاسم کی شہادت کا سب سے اہم اثر یہ ہوا کہ حاج قاسم کے چار دہائیوں کے عظیم کام جن میں انھوں نے متعدد ممالک کو بچایا جس کا مجھے یقین ہے کہ یہ جو ہم کہتے ہیں کہ انھوں کئی ممالک کو بچایا ، یہ ان کا چھوٹا کام ہے، حاج قاسم کا بڑا کام  مزاحمتی محاذ کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنے کے لئے متعدد ممالک میں لوگوں کو تربیت دینا تھا یعنی  شام اور عراق  میں لوگوں کی تربیت اور اراضی آزاد کروانا  قاسم کا ایک بہت بڑا کام تھا لیکن ان کاسب سے بڑا کام لوگوں کو آزاد کرنا تھا، حج قاسم کی شہادت سے ان کا مکتب لافانی ہوگیا، ان کی شہادت سے  انقلابی محاذ کی تحریک تیز ہوگئی اور اس کے دشمن مزید متزلزل ہوگئے، حاج قاسم کی شہادت سے پہلے  ہمارے کچھ ہمسایہ ممالک میں امریکی  بندوق بردار فخر کے ساتھ چلتے تھے لیکن اب انہیں بھاگنے کے لیے چوہے کے بل تلاش کرنا پڑتے ہیں۔
حاج قاسم اپنی شہادت سے نہ صرف  یہ کہ خود زندہ ہوگئے بلکہ زندہ کرنے والے بھی بن گئے، ہم شہید کے بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ اگر کوئی خدا کے قریب آتا ہے تو اسے خدا کی صفت مل جاتی ہے،خدا زندہ کرنے والا ہے، حاج قاسم نے کتنے انسانوں کی روحوں اور تحریکوں کو زندہ کیا۔
حج قاسم حاج قاسم کیسے بنے؟کس چیز نے حاج قاسم کو حاج قاسم بنایا؟
خدا نے انھیں فطری طور پر مختلف پیدا نہیں کیا بلکہ حاج قاسم کی حاصل کردہ صفات نے انھیں حاج قاسم بنا دیا، حاج قاسم کو مختلف نوعیت سے پیدا نہیں کیا گیا تھا اور انھوں نے الگ طریقہ سے پرورش نہیں پائی تھی، حاج قاسم آپ ، میری دوسرے تمام انسان طرح کے انسان  تھے، حاج قاسم نے یہ صفات حاصل کیں۔
شہید حاج قاسم کے مکتب کی اہم خصوصیات
حاج قاسم کے سلسلے میں 9 خصوصیات  مجھے معلوم ہوئی ہیں جن کی میں ایک فہرست پیش کر رہا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس سلسلہ میں ابھی بہت کام کرنا باقی ہے۔
۱۔خلوص: گمنامی کے لئے جدوجہد، پہلی خصوصیت جو بہت اہم تھی وہ تھا ان کا خلوص، جو شخص اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتا ہے اور خدا کو دکھانا چاہتا ہے ، خدا اس کو اوپر لے جانے اور اس کو ایک مثالی بنانےکا ذمہ دار ہے۔
چونتیس پینتیس سال سے زیادہ کی ان کے ساتھ جان پہچان جس میں میں کبھی ان کے بہت قریب رہا ہون ، میں گواہی دیتا ہوں کہ حاج قاسم گمنامی کے لئے جدوجہد کرتے تھے نہ صرف یہ کہ  اپنے آپ کو ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ وہ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی جدوجہد کر تے تھے، حاج قاسم کے خلوص کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کی حرکات وسکنات اور مناظر میں خود کو بالکل نہیں دیکھا  جو ایک بہت مشکل کام ہے، انھوں نے اپنا تعارف بالکل کروانا نہیں چاہا ، وہ ہمیشہ خدا کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
ولایت کے سپاہی: حاج قاسم روایتی طور پر نہیں بلکہ عقیدے کے ساتھ ولایت کے سپاہی تھی،رہبر معظم کے مؤقف کو سمجھنے میں بھی جس کا میں سہارہ لے رہا ہوں،ولایت محوری کے دو عظیم پہلو ہیں؛ایک ولایت کو صحیح طرح سے سمجھنا یعنی یقین رکھنا کہ ولایت جو کہتی ہے وہ خدا کا حکم ہے،دوسرے ولایت کی اطاعت ہے۔
حاج قاسم ان لوگوں میں سے ایک تھے جو حضرت آغا کے اشاروں کو سمجھتے تھے ،وہ  نہ صرف رہبرمعظم کے اقدامات بلکہ آپ کے دل کی بات کو بھی سمجھتے تھے، عملی طور پر بھی  جہاں انھیں رہبر معظم کا نظریہ معلوم ہوتا تھا وہاں سب کو چھوڑ دیتے تھے،ولایت کی یہ اطاعت عقلی ہے،کچھ لوگ یہ نہ سوچیں کہ حاج قاسم ولایت کی اندھی تقلید کرتے تھے،جو عقل خدا کی اطاعت کرنے کو کہتی ہے وہی ولی خدا کی اطاعت کرنے کو بھی کہتی ہے،حاج قاسم کی یہ ولایت مداری بہت کام کی تھی،انھوں نے اس ولایت مداری کے ذریعہ بہت بڑے بڑے کام کیے ہیں۔
۳۔ جامع جہتیں: حج قاسم کی تربیت ایسے مکتب میں ہوئی تھی جو ایک جہتی انسانوں کو کامل نہیں سمجھتا ہے، وہ کہتا ہے کہ اکیلا عالم، صرف عابد اور فقط سیاستدان ہونا کافی نہیں ہے، حاج قاسم ایسے  انسان کا مجسمہ تھے کہ نہ ان کی روحانیت نے انھیں سیاست سے روکا تھا اور نہ ہی ان کی سیاست نے انہیں اخلاقیات اور تقویٰ سے دور کیا تھا۔
شائد ایک سال پہلے کی بات ہے جب میں اس کے ساتھ ایک میٹنگ میں بیٹھا تھا ، میں نے دیکھا کہ وہ بہت پریشان دکھائی دے رہے ہیں، میں نے کہا: حاج قاسم کیا ہوا ہے؟، انہوں نے کہا ، “مجھے حیرت ہے کہ ہم سیاست میں اخلاقیات کو کیوں بھول جاتے ہیں، یہ تقویٰ اور اخلاق کہاں کے لیےہے؟ جب ہم سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو ہم تقوی اختیار کرنا کیوں بھول جاتے ہیں؟اور جب ہم تقویٰ میں داخل ہوتے ہیں تو سیاست کو کیوں بھول جاتے ہیں؟حاج قاسم میدان جنگ میں بے مثال مجاہد تھے اور گریہ وزاری کے میدان میں جنہوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایک بے مثال عابد اور خدا وند عالم کے حضور گریہ کرنے والے تھے،ان کا نماز شب پڑھنا،گریہ کرنا،ان کی زیارتیں کرنا اور ان کی ملائم روح،حاج قاسم نیتن یاہو اور ٹرمپ سے کہتے ہیں کہ میں تمہارے لیے کافی ہوں لیکن یتیم او رشہید کے بچوں کے سامنے کیسے ہیں؟ انھیں اپنے کندھوں رپ بیٹھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
۴۔حریت اور آزادی: حاج قاسم کی ایک اور قابل ذکر خصوصیت ان کی دنیاوی حرص سے آزادی تھی،حاج قاسم اس حد تک پہنچ چکے تھے کہ دنیا کو اپنا نوکر بنائیں نہ کہ خود اس کے نوکر بن جائیں،حاج قاسم کی دنیا آباد تھی لیکن ایک کھیتی کی حد تک،حاج قاسم آزادی کی حقیقت تک پہنچ چکےتھے یعنی دنیا سے آزادی،جو لوگ آزادی کی بات کرتے ہیں ان کے لیے بہترہے کہ جان لیں کہ حاج قاسم کے نزدیک دین اسلام میں آزادی کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کا کوئی بھی کام انھیں محدود نہ کرسکے۔
۵۔تدبیر اور درست منطق کی طاقت: ایک فوجی آپریشنل کمانڈر جس یونیورسٹی آف پولیٹیکل سائنس میں بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے لیکن وہ صدور اور عظیم شخصیات کو راضی کرلیتا ہے، کون روس کو  اور پوتین کو جس کی اس طرح کی سوچ ہے اور اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور ٹرمپ کو انسان بھی نہیں سمجھتا ہے اس بات پر راضی کرتا ہے کہ وہ شام آئے اور اس طرح کا کردار ادا کرے؟ کون کس استدلال اور منطق سے یہ کام کرتا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ  ایوان صدر کی عظیم شخصیات حاج قاسم سے ملنے کی تمنا کرتی ہیں؟ امریکی کہتے ہیں کہ ہم حاج قاسم کے دشمن ہیں  لیکن ان کی منطق کے سامنے عاجز ہیں۔۔
۶۔لوگوں کا خیال رکھنا اور ان سے محبت: حاج قاسم نے مکتب اسلام سے ایک چیز سیکھی تھی جو ہم سب کو سیکھنا چاہئے،وہ آپ نے خدا اور لوگوں کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے نہیں دیکھتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ سب سے نمایاں عبادت جو انسان کو خدا کے قریب کرتی ہے وہ لوگوں کی خدمت ہے، حاج قاسم نعرے بازیوں اور روایتی انداز سے نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں لوگوں کے لیے فکرمند تھے، وہ لوگوں کے لیے پریشان رہتے تھے اور ان سے محبت کرتے تھے، حاج قاسم  نےخدا کے بندوں کی خدمت کو خدا سے نزدیک ہونے کا ایک مضبوط ترین ذریعہ سمجھا اور اپنی زندگی اسی میں  گزاری،وہ لوگوں کی پریشانیوں کو دیکھ کر بہت پریشان ہوتے تھے  خاص کر جب انھیں یقین ہوتا تھا کہ ان پریشانیوں کو حل کیا جاسکتا ہے،انھیں دکھ ہوتا تھا کہ کیوں کچھ ذمہ دار اور عہدیدارحضرات یا تو ان مسائل کو حل کرنانہیں چاہتے ہیں یا نہیں کرسکتے ہیں، ان سے جتنا ہو سکتا تھا کرتے تھے، میں نے ایک بار ان سے کہا : حاج قاسم  آپ کچھ ذمہ دار افراد کے ساتھ اتنی انکساری سے کیوں پیش آتے ہیں ؟، یہ مناسب نہیں ہے، انہوں نے کہا :میں لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے سب کے ہاتھ چومتا ہوں، حاج قاسم کا ایک تکیۂ کلام تھا ،وہ کہتے  تھے :’’ میں آپ کے ہاتھ  چومتا ہوں‘‘،میں نے اس سے کہا:کچھ لوگ اس لائق نہیں ہیں کہ ان سے یہ کہیں، انہوں نے کہا :میں لوگوں کے لیے سب کے ہاتھ چومتا ہوں، وہ کہتے تھے کہ اگر میرے ہاتھ چومنے سے حکام  لوگوں کی خدمت کا سبب بن جاتے ہیں تو  مجھے اس میں کوئی عار نہیں ہے۔
۷۔ ذمہ داری:حاج قاسم کی ایک اور اہم خصوصیت ذمہ داری کو سمجھنا تھا،حاج قاسم  ہمیشہ کوشش کرتے تھے کہ ہر وقت، ہر گھڑی اور ہر جگہ پر خدا ان سے کیا چاہتا ہے اور اس نے اس جگہ اور اس وقت پر ان کی ذمہ داری رکھی ہے؟ یعنی ذمہ داری کو سمجھنے والے انسان تھے،حاج قاسم اپنی ذمہ داری کو انجام دینے میں ذرا برابر بھی خوف نہیں کھاتے تھے چاہے اس کا نتیجہ جو بھی ہو، ان کا ماننا تھا کہ جب کوئی فرد ذمہ داری ادا کرنے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تو خدا بہتر نتائج دیتا ہے ، ایسا نہیں تھا کہ حاج قاسم نتیجہ پر توجہ نہیں دیتے تھے بلکہ کہا کرتے تھے کہ ذمہ داری ادا کرنا میرا کام ہے، نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور خدا نے بھی انھیں سب سے زیادہ عظیم نتیجہ دیا ،ذمہ داری حاصل کرنے کا راستہ ولایت ہے، حج قاسم  عملی طور پر تقویٰ کی حقیقت کو ایک مذہبی فریضہ اور تمام جہتوں کے طور پر دیکھتے تھے۔
۸۔فکری اور عملی استقامت: آپ کو حاج قاسم کی زندگی میں ماضی کے بارے میں کبھی بھی بارے میں کوئی ندامت یا شبہہ نہیں ملے،حاج قاسم کبھی بھی شک و شبہہ کا شکار نہیں ہوئے۔
۹۔تصور کائنات: حاج قاسم کی ایک اور خصوصیت ان کا عالمی نظریہ اور وسیع نظریہ تھا، میں گواہی دیتا ہوں کہ حاج قاسم صرف مسلمانوں کے بارے میں نہیں سوچتے تھے بلکہ وہ انسانیت کی نجات کے بارے میں سوچتے تھے،یہاں تک کہ حاج  قاسم دشمن کے فوجیوں کو بھی مارنا نہیں چاہتےتھے،انھیں سامراج کے ہاتھوں دھوکہ کھائے ہوئے داعشیوں کو مارنے پر بھی دکھ ہوتا تھا، کہتے تھے  دشمن تم مسلمانوں میں سے خوارج بنانے میں کیوں کامیاب ہو گیا ہے،جہاں پر بھی کسی پر ظلم ہوتا تھا اس کی مدد کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھےاور جہاں بھی ظالم ہوتا تھا وہ محسوس کرتے تھے کہ مجھے وہاں ہونا چاہیے۔
حاج قاسم کی نظر نے انھیں ایران کے جغرافیہ میں محدود  نہیں رہنے دیا اور انھیں ایسی شخصیت بنا دیا کہ شام، لبنان اور یمن میں بلکہ جہاں بھی کوئی آزاد انسان  چاہے وہ مسلمان  نہ بھی ہو حاج قاسم اس کے  تئیں اپنی عقیدت کا اظہار کریں،حاج قاسم قرآن مجید کی بہت ساری آیات کی مثال تھے،اگر کبھی ہم حاج قاسم کا تعارف کروانا چاہیں تو میرے خیال میں ہمیں ان کو قرآن مجید کی آیات میں تلاش کرنا ہوگا جیسے’’ أشِدَّاء عَلَی‌الکُفّار
‘‘
 
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب