مواد

جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مزاحمتی تحریکوں کو مہمیز کیا ہے


Aug 26 2021
جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مزاحمتی تحریکوں کو مہمیز کیا ہے
دنیا میں وہ قومیں سربلند ہوتی ہیں، جن کے سپوت اپنے سماج، اپنی ملت اور اپنے ملک کے وقار کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ جنرل سلیمانی دنیا کے ان چند افراد میں سے ایک ہیں، جن کے چاہنے والے بھی بے پناہ ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔ جنرل سلیمانی کا قصور اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کہ وہ ایرانی ہیں، وہ ایسے شخص تھے، جنھوں نے لبنان، عراق اور شام میں امریکی مفادات اور دہشت گردوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔ یہ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے، جنھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو عالمی دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف حکمت عملی بنا کر دی اور پھر روس کی فضائیہ اور شامی فورسز نے جنرل قاسم کی حکمت عملی کے تحت دہشت گرد گروہ داعش کو شام میں شکست سے دوچار کیا۔ جنرل قاسم سلیمانی اصل میں ایرانی وزارتِ خارجہ کا عملی پرزہ تھے، یا ایسے کہہ لیتے ہیں کہ قاسم سلیمانی خطے میں ایران کی خارجہ پالیسی کو عملی نافذ کرنے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔
بالخصوص شام، یمن، عراق اور لبنان میں جنرل قاسم نے ایسی ملیشیاء فورسز کی بھرپور مدد کی، جو اسلامی مقاومت اور مزاحمت کے لیے بر سرِ پیکار ہیں۔ اگرچہ اس پر ایک طویل مقالے کی ضرورت ہے کہ عراق، یمن، شام، لبنان میں ایران کے ایسے کون سے مفادات ہیں، جن کے تحٖفظ کے لیے اور صہیونی طاقتوں کے ایسے کون سے مفادات ہیں، جن کو ٹارگٹ کرنے کے لیے جنرل قاسم سلیمانی ایک دیو مالائی کردار بن کر ابھرے۔ تاریخ اپنے دامن میں یہ سب سمیٹ رہی ہے۔ داعش، القاعدہ، النصرہ، الشباب، الغرض وہ ساری دہشت گرد تنظیمیں، جنھیں صہیونیوں کی مالی اور ایک خاص اسلامی ملک کی فکری سپورٹ حاصل رہی، جنرل قاسم ان ساری دہشت گرد تنظیموں کے لیے موت کا سایہ بنے ہوئے تھے۔ گذشتہ چند ماہ سے عراق کی صورتحال پھر سے خراب ہو رہی ہے، عراقی عوام اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں اور امریکہ و اسرائیل ان مظاہروں کو “ایران مخالف تحریک” میں بدلنے کے لیے اپنی حکمت عملیوں کا نفٖاذ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ امریکیوں کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ وہ عام مظاہروں کو بھی پرتشدد مظاہروں میں تبدیل کرکے انسانی حقوق کا رونا روتے ہیں اور اسی آڑ میں اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی خاطر اپنی ہمنوا حکومتیں تشکیل دیتے ہیں۔
اب بھی عراق میں امریکہ ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ موجود ہے۔ دراصل شام میں داعش کی شکست سے امریکہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اپنی ہزیمت اور دکھ کو مٹانے کے لیے وہ کئی حربے آزمانے کا سوچ رہا ہے اور آخرکار اس نے ایسی خطرناک چال چل دی ہے، جو مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی اور تباہ کن جنگ کا پیش خیمہ ہوگی۔ یاد رہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی شہید ہوگئے ہیں۔ عراقی ٹیلی ویژن کے مطابق بغداد بین الاقوامی ایئرپورٹ کے قریب حشد الشعبی کے ایک قافلے پر امریکی ہیلی کاپٹرز کے حملے میں سپاہ قدس ایران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور حشد الشعبی عراق کے نائب کمانڈر ابو مھدی المھندس کو شہید کر دیا گیا ہے۔ پنٹاگون سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ قاسم سلیمانی عراق اور مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کو نشانہ بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں متحرک تھے۔
جبکہ برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر کی ہدایات پر امریکی فوج نے قاسم سلیمانی کو قتل کرکے بیرونِ ملک موجود امریکیوں کو محفوظ رکھنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ اس حملے کا مقصد مستقبل میں ایرانی حملوں کی منصوبہ بندی کو روکنا تھا اور امریکا اپنے شہریوں اور دنیا بھر میں اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے ناگزیر اقدامات کرتا رہے گا۔” دریں اثنا ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامہ ای نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ شہادت جنرل قاسم سلیمانی کی انتھک اور نہ رکنے والی کوششوں کے جواب میں ان کا حق تھا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے شہید ہو جانے کی وجہ سے ان کا کام نہیں رکے گا اور نہ ہی ان کا رستہ مسدود ہوگا بلکہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے متعدد ساتھیوں کے خون میں ہاتھ رنگنے والے مجرموں سے سخت انتقام لیا جائیگا۔
عراق کے اندر امریکہ نے جس انداز میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک مقبول جرنیل کو نشانہ بنایا اور جس طرح کا ردعمل ایران کی طرف سے سامنے آیا، اس سے آئندہ کا منظر نامہ قدرے واضح ہوتا ہے۔ عراق میں امریکہ کے پانچ ہزار فوجی ایران یا ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاء کے نشانے پر ہیں۔ ایسا کسی بھی وقت ہوسکتا ہے کہ ایران، عراق یا خطے کے اندر امریکی مفادات کو سخت نقصان پہنچائے۔ عالمی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ایران امریکہ جنگ چھڑتی ہے تو یہ جنگ امریکہ کے لیے بالکل مختلف ہوگی، کیونکہ ایرانی سائبر حملوں سمیت، خلیج کے پانیوں میں بھی امریکی مفادات کو سخت نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جبکہ اسرائیل ایرانی میزائلوں کے نشانے پر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کہ اس وقت امریکی صدر ہیں، ان سے کسی بھی حماقت کی توقع کی جا سکتی ہے۔ فی الحال تو امریکہ کے اندر سے ہی امریکی صدر کے اس اقدام کی مخالفت کی جا رہی ہے اور پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اس حملے کی اجازت امریکی صدر نے کانگریس سے لی تھی۔؟
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے مزاحمتی تحریکوں کو مہمیز کیا ہے۔ اب وہ امریکہ و اسرائیل کی حکمت عملیوں کو ناکام بنانے کے لیے نئے ولولے اور جذبے کے ساتھ سینہ سپر ہوں گے۔ یہ امر بڑا تکلیف دہ ہے کہ امریکی حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی جنگ اور کروڑوں انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ چکی ہیں۔ چین سمیت پاکستان نے ایران و امریکہ کو اگرچہ صبر کی تلقین کرتے ہوئے عالمی قوانین کا پابند رہنے کو کہا ہے، لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی عالمی قوانین کو خاطر میں نہیں لاتا، بلکہ ہمیشہ طاقت کے زعم میں دوسرے ممالک کی خود مختاری کو چیلنج کرتا ہے۔ امریکی اقدامات سے آئے روز دنیا بھر میں امریکیوں سے نفرت بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے عدل پسندوں کو عالم انسانیت کو جنگ سے بچانے کے لیے امریکی جنگی پالیسوں پر شدید ردعمل دینے کی ضرورت ہے۔ ٹرمپ جس قدر اپنے ملک میں بے قدر ہو رہا ہے، وہ اپنی طبیعت سے مجبور ہو کر امریکیوں کی توجہ کسی اور جانب موڑنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔ عین ممکن ہے کہ ہم آئندہ مشرقِ وسطیٰ میں آتش و آہن کی بارش ہوتی دیکھیں، لیکن اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب