62سالہ میجر جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ 30 دن تک جاری رہنے والی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور ان کے فوجی ایرانی مفادات کے لیے خطے کے تمام معاملات میں پیش پیش تھے۔ وہ اکثر عراق، لبنان اور شام سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ امریکی اور اسرائیلیوں کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔جنرل قاسم سلیمانی جنگوں میں ’بے معنی قتل و غارت‘ کے خلاف تھے، بعض اوقات وہ اپنے جنگجوؤں کے گلے لگ کر رویا کرتے تھے۔
جنرل قاسم خود عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم تنظیموں کی رہنمائی کرکے خطے میں شہرت پائی۔ امریکی حکام کے مطابق انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو عراق میں امریکی مداخلت کے بعد امریکی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پر نصب کرنے والے بم بنانے سکھائے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔ ایرانیوں کی بڑی تعداد میں جنرل قاسم سلیمانی پرخلوص ہیرو کی طرح مقبول تھے جو ملک سے باہر ان کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔
نیویارک ٹائمز کے رپورٹر مائیکل گورڈن اور ایک ریٹائرڈ فوجی عہدیدار نے بتایا تھا کہ عراق میں قاسم سلیمانی کے سنجیدہ کردار کے حوالے سے دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق عراق پر امریکی حملے کے بعد سے وہ عراق میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھانے کے ذمہ دار تھے۔ وہ آہستہ آہستہ عراق کے بارے میں ایرانی پالیسی کے ذمہ دار رہے۔
عراق میں اس وقت کے امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی جانب سے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو لکھے گئے خط میں عراق میں قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 2010 میں ایک تقریر میں جنرل پیٹریاس نے قاسم سلیمانی کی جانب سے ملنے والے ایک پیغام کے حوالے سے بتایا: ’جنرل پیٹریاس، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ عراق، لبنان، غزہ اور افغانستان میں ایران کی پالیسی پر میرا کنٹرول ہے۔‘
اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک فرانسیسی میگزین نے قاسم سلیمانی کا دفاعی اور سیاست کی سرفہرست پانچ شخصیات اور مفکرین کے طور پر ذکر کیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’قاسم سلیمانی 20 سال سے زیادہ عرصے سے ایران کے فوجی آپریشن کے مرکزی رہنما رہے ہیں۔ لیکن اس سارے وقت میں، ان کی حیثیت اتنی نمایاں نہیں تھی جتنی آج ہے۔۔۔ اس ایرانی کمانڈر کی موجودگی کے نشانات ان ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ایران کا اثر و رسوخ ہے۔ یمن اور عراق سے شام تک یہ موجودگی ہے۔
قاسم سلیمانی نے متعدد مواقعوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے مشہور ترین ریمارکس میں انہوں نے امریکی صدر سے کہا: ’مسٹر ٹرمپ، میں آپ کو کہتا ہوں ہم آپ کے سوچنے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ کوئی رات ایسی نہیں ہے جب ہم آپ کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔‘
جنرل قاسم خود عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم تنظیموں کی رہنمائی کرکے خطے میں شہرت پائی۔ امریکی حکام کے مطابق انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو عراق میں امریکی مداخلت کے بعد امریکی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پر نصب کرنے والے بم بنانے سکھائے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔ ایرانیوں کی بڑی تعداد میں جنرل قاسم سلیمانی پرخلوص ہیرو کی طرح مقبول تھے جو ملک سے باہر ان کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔
نیویارک ٹائمز کے رپورٹر مائیکل گورڈن اور ایک ریٹائرڈ فوجی عہدیدار نے بتایا تھا کہ عراق میں قاسم سلیمانی کے سنجیدہ کردار کے حوالے سے دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق عراق پر امریکی حملے کے بعد سے وہ عراق میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھانے کے ذمہ دار تھے۔ وہ آہستہ آہستہ عراق کے بارے میں ایرانی پالیسی کے ذمہ دار رہے۔
عراق میں اس وقت کے امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی جانب سے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو لکھے گئے خط میں عراق میں قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 2010 میں ایک تقریر میں جنرل پیٹریاس نے قاسم سلیمانی کی جانب سے ملنے والے ایک پیغام کے حوالے سے بتایا: ’جنرل پیٹریاس، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ عراق، لبنان، غزہ اور افغانستان میں ایران کی پالیسی پر میرا کنٹرول ہے۔‘
اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک فرانسیسی میگزین نے قاسم سلیمانی کا دفاعی اور سیاست کی سرفہرست پانچ شخصیات اور مفکرین کے طور پر ذکر کیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’قاسم سلیمانی 20 سال سے زیادہ عرصے سے ایران کے فوجی آپریشن کے مرکزی رہنما رہے ہیں۔ لیکن اس سارے وقت میں، ان کی حیثیت اتنی نمایاں نہیں تھی جتنی آج ہے۔۔۔ اس ایرانی کمانڈر کی موجودگی کے نشانات ان ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ایران کا اثر و رسوخ ہے۔ یمن اور عراق سے شام تک یہ موجودگی ہے۔
قاسم سلیمانی نے متعدد مواقعوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے مشہور ترین ریمارکس میں انہوں نے امریکی صدر سے کہا: ’مسٹر ٹرمپ، میں آپ کو کہتا ہوں ہم آپ کے سوچنے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ کوئی رات ایسی نہیں ہے جب ہم آپ کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔‘
رائے
ارسال نظر برای این مطلب