مصطفی الکاظمی کے عراقی وزیر اعظم کی حیثیت سے انتخاب کے بعد اس ملک کے مختلف گروہ اور جماعتیں غیر ملکی افواج خاص طور پر امریکہ کے انخلاء کے سلسلے میں اختلاف کا شکار ہو گئے۔
اگرچہ عراقی پارلیمنٹ نے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا بل منظور کیا اور ملکی عوام بھی انہیں قابض اور ملک کی خودمختاری کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں لیکن کچھ عراقی سیاسی گروہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے مخالف تھے۔
اس بل کی منظوری کے بعد عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی اور ان کے ہمراہ وفد نے تہران کے پہلے دورے کے دوران ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ انہوں نے الکاظمی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ” امریکیوں نے آپ کے مہمان جنرل سلیمانی کو آپ کے گھر میں مار ڈالا اور اس جرم کا واضح طور پر اعتراف کیا لہذا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
یہ باتیں ایک خاص موقف کی بیانگر ہیں جو عراق کی خودمختاری اور اس کی قومی سلامتی پر امریکہ کے ذریعہ جنرل سلیمانی کے قتل کے منفی نتائج پر زور دیتی ہیں۔ کیونکہ ان کی یہ باتیں ایک ایسے وقت میں بیان کی گئی ہیں جب نہ صرف عراقی عہدیدار بلکہ عراقی عوام بھی بخوبی واقف ہیں کہ جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس، داعش، القاعدہ اور النصرۃ جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے تھے۔
حقیقت میں آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے موقف سے امریکی جارحیت اوراس کی حقیقت کو عراقی کے سامنے بے نقاب کر تے ہوئے واشنگٹن کے عہدیداروں کو ذلیل کیا ہے۔کیونکہ وہ عراق کی حمایت کو اس ملک میں فوجی موجودگی کا جواز سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے وہ داعش کے پہلے نمبر کے دشمن جنرل سلیمانی کو قتل کرتے ہیں۔ اور اسے عراقی عوام کے قسم خوردہ دشمن کے لئے مفت کی کامیابی قرار دیتے ہیں جبکہ امریکی حکام نے اس سے پہلے بھی تسلیم کیا ہے کہ داعش ایک ایسی تنظیم ہے جسے امریکہ نے تشکیل دیاہے۔
اگرچہ عراقی پارلیمنٹ نے غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کا بل منظور کیا اور ملکی عوام بھی انہیں قابض اور ملک کی خودمختاری کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں لیکن کچھ عراقی سیاسی گروہ امریکی فوجیوں کے انخلاء کے مخالف تھے۔
اس بل کی منظوری کے بعد عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی اور ان کے ہمراہ وفد نے تہران کے پہلے دورے کے دوران ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ خامنہ ای سے ملاقات کی۔ انہوں نے الکاظمی کو مخاطب قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ ” امریکیوں نے آپ کے مہمان جنرل سلیمانی کو آپ کے گھر میں مار ڈالا اور اس جرم کا واضح طور پر اعتراف کیا لہذا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔
یہ باتیں ایک خاص موقف کی بیانگر ہیں جو عراق کی خودمختاری اور اس کی قومی سلامتی پر امریکہ کے ذریعہ جنرل سلیمانی کے قتل کے منفی نتائج پر زور دیتی ہیں۔ کیونکہ ان کی یہ باتیں ایک ایسے وقت میں بیان کی گئی ہیں جب نہ صرف عراقی عہدیدار بلکہ عراقی عوام بھی بخوبی واقف ہیں کہ جنرل سلیمانی اور ابو مہدی المہندس، داعش، القاعدہ اور النصرۃ جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف جنگ میں سب سے آگے تھے۔
حقیقت میں آیت اللہ خامنہ ای نے اپنے موقف سے امریکی جارحیت اوراس کی حقیقت کو عراقی کے سامنے بے نقاب کر تے ہوئے واشنگٹن کے عہدیداروں کو ذلیل کیا ہے۔کیونکہ وہ عراق کی حمایت کو اس ملک میں فوجی موجودگی کا جواز سمجھتے ہیں اور دوسری طرف سے وہ داعش کے پہلے نمبر کے دشمن جنرل سلیمانی کو قتل کرتے ہیں۔ اور اسے عراقی عوام کے قسم خوردہ دشمن کے لئے مفت کی کامیابی قرار دیتے ہیں جبکہ امریکی حکام نے اس سے پہلے بھی تسلیم کیا ہے کہ داعش ایک ایسی تنظیم ہے جسے امریکہ نے تشکیل دیاہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب