ڈاکٹر محمد مرندی کا جنرل شہید سلیمانی کے کردار اور افغانستان کی موجودہ صورتحال پر اظہار خیال
تہران یونیورسٹی میں انگریزی ادب اور اورینٹل سٹڈیز ، کے پروفیسر ڈاکٹر مرندی کے المیادین میں نشرہونے والے کالم کا ایک حصہ
جب 2001 میں امریکہ کے زیر قیادت ہونے والے حملہ میں طالبان شکست کھا گئے اوران کی باقی افواج افغانستان سے بھاگ گئیں تو افغان حکومت میں ایرانی اتحادیوں نے اہم عہدے حاصل کیےجس کے بعد لگتا تھا کہ اس بظاہر ختم ہونے والی طاقت (طالبان) سے بات کرنے کی کوئی ضرورت یا جواز نہیں ہے،تاہم جنرل قاسم سلیمانی کا خیال تھا کہ طالبان کو اب بھی جنوبی افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں میں پشتون قبائل اور آبادیوں کے ایک اہم حصے میں مقبول حمایت حاصل ہے ،ان کا کہنا تھا کہ سب کے لیے پائیدار علاقائی استحکام کا واحد راستہ بات چیت ہی ہے۔
جنرل سلیمانی کا یہ بھی ماننا تھا کہ ایسے حالات میں ، امریکہ کی زیرقیادت قبضے (ایران کے اہم اسٹریٹجک اہداف میں سے ایک) کےمقابلے میں کھڑا ہونے کےلیے تیار واحد طاقت طالبان ہیں، وہ جانتے تھے کہ ایسی صورت حال میں عراق اور افغانستان پر قبضہ آہستہ آہستہ مغربی ممالک کے لیےبہت مشکل اور غیر مقبول ہو جائے گا اور آخر میں مغربی معیشت کو اتنی کاری ضرب لگائے گا اور انہیں مجبور کرے گا کہ وہ دونوں ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
قدس فورس کا ہدف باہمی افہام و تفہیم پیدا کرنا اور طالبان میں زیادہ اعتدال پسند دھڑوں کو (اس گروپ میں) بالا دستی حاصل کرنے کی ترغیب دلایا تھا، جنرل سلیمانی کا خیال تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہونا ہی ہے اوراس ملک کی آزادی کے بعد یہ ضروری ہوگا کہ افغانستان قابض افواج کی طرف سے ایک اور تباہ کن خانہ جنگی میں نہ پڑجائے۔
2011 میں تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا جس میں طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود کے تہران کے دورے شروع ہوئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات گہرے اور مزید ذاتی ہو گئے یہاں تک کہ جب جنرل سلیمانی ، ابو مہدی المہندیس اور ان کے وفد کو بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ٹرمپ حکومت نے شہید کیا تو طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے تہران کا سفر کیا اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔
اگرچہ افغان حکومتی افواج کے خلاف ایران کی جانب سےطالبان کی مدد کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں ، تاہم ایک اہم اور واضح معاملہ یہ تھا کہ طالبان نے ایران سے مدد مانگی۔ ایرانی انٹیلی جنس اور طالبان دونوں جانتے تھے کہ داعش جو تیزی سے ٹوٹ رہی ہے ،میں موجود امریکہ سے وابستہ دھڑے شام چھوڑ کر افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ طالبان نے القدس فورس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھے جانے والوں کو شکست دینے میں ان کی مدد کرے، ایران نے افغان حکومت کو مطلع کیا ، اگرچہ وہ اس طرح کے تعاون سے زیادہ زیادہ خوش نہیں تھے لیکن انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔
آخر میں طالبان نے القدس فورس سے چار وعدے کیے
۔ ایران کے ساتھ ملحقہ سرحد پر استحکام برقرار رکھیں گے ۔
غیر ملکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کو ترک نہیں کریں گے۔
۔ دوسرے قبائل یا فرقوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے ۔
۔ بھائی بھائی کو قتل نہیں کرے گا۔
اگرچہ طالبان کے اندر مختلف نظریات رکھنے والے مختلف دھڑے موجودہیں ،تاہم ایرانیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ موجودہ طالبان قیادت نے کئی سالوں سے اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔
ان تعلقات نے اسلامی جمہوریہ ایران کو حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ایک مؤثر ثالث کے طور پر کام کرنے میں مدد دی ہے ، اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قابض افواج کا انخلا خانہ جنگی کا باعث نہیں بنے گا اور نئی حکومت میں تمام افغان شامل ہوں گے، ایران کے پاس یہ یقین کرنے کی مضبوط وجوہات ہیں کہ مغربی افواج کا اچانک انخلا افغانستان میں عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کے لیے کیاگیا ہے،امریکہ کا خیال ہے کہ اگر وہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اسے ایران ، چین ، روس اور یہاں تک کہ بھارت کے لیے مسلسل مسائل پیدا کرنے کا مرکز ہونا چاہیے، دریں اثنا اس وقت سعودی عرب اور خطے کے دو دیگر ممالک کی جانب سے طالبان میں انتہا پسند تکفیری گروہوں کی مدد کے لیے کافی رقم بھیجی جا رہی ہے، ایران اتنا سادہ لوح نہیں ہے لیکن تباہی سے بچنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر ناکامی ہوئی تو قدس فورس شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی بھرپور حمایت کرے گی۔
ایران مسلسل کام کر رہا ہے اور افغانستان کے اندر مختلف فریقوں کے ساتھ ساتھ چین اور روس جیسےپڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ تاریک ماضی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرنے والوں کو روکا جا سکے، شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کو ملنے والی عنقریب رکنیت اس علاقے میں بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے کی ایران کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔
جنرل سلیمانی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ، لیکن ان کی میراث امریکہ کی بکھرتی ہوئی سلطنت پر وار کرتی رہتی ہے۔
تہران یونیورسٹی میں انگریزی ادب اور اورینٹل سٹڈیز ، کے پروفیسر ڈاکٹر مرندی کے المیادین میں نشرہونے والے کالم کا ایک حصہ
جب 2001 میں امریکہ کے زیر قیادت ہونے والے حملہ میں طالبان شکست کھا گئے اوران کی باقی افواج افغانستان سے بھاگ گئیں تو افغان حکومت میں ایرانی اتحادیوں نے اہم عہدے حاصل کیےجس کے بعد لگتا تھا کہ اس بظاہر ختم ہونے والی طاقت (طالبان) سے بات کرنے کی کوئی ضرورت یا جواز نہیں ہے،تاہم جنرل قاسم سلیمانی کا خیال تھا کہ طالبان کو اب بھی جنوبی افغانستان اور پاکستان کے کچھ حصوں میں پشتون قبائل اور آبادیوں کے ایک اہم حصے میں مقبول حمایت حاصل ہے ،ان کا کہنا تھا کہ سب کے لیے پائیدار علاقائی استحکام کا واحد راستہ بات چیت ہی ہے۔
جنرل سلیمانی کا یہ بھی ماننا تھا کہ ایسے حالات میں ، امریکہ کی زیرقیادت قبضے (ایران کے اہم اسٹریٹجک اہداف میں سے ایک) کےمقابلے میں کھڑا ہونے کےلیے تیار واحد طاقت طالبان ہیں، وہ جانتے تھے کہ ایسی صورت حال میں عراق اور افغانستان پر قبضہ آہستہ آہستہ مغربی ممالک کے لیےبہت مشکل اور غیر مقبول ہو جائے گا اور آخر میں مغربی معیشت کو اتنی کاری ضرب لگائے گا اور انہیں مجبور کرے گا کہ وہ دونوں ممالک سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔
قدس فورس کا ہدف باہمی افہام و تفہیم پیدا کرنا اور طالبان میں زیادہ اعتدال پسند دھڑوں کو (اس گروپ میں) بالا دستی حاصل کرنے کی ترغیب دلایا تھا، جنرل سلیمانی کا خیال تھا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا ہونا ہی ہے اوراس ملک کی آزادی کے بعد یہ ضروری ہوگا کہ افغانستان قابض افواج کی طرف سے ایک اور تباہ کن خانہ جنگی میں نہ پڑجائے۔
2011 میں تعلقات میں ایک اہم موڑ تھا جس میں طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود کے تہران کے دورے شروع ہوئے، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلقات گہرے اور مزید ذاتی ہو گئے یہاں تک کہ جب جنرل سلیمانی ، ابو مہدی المہندیس اور ان کے وفد کو بغداد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ٹرمپ حکومت نے شہید کیا تو طالبان کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے تہران کا سفر کیا اور ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی۔
اگرچہ افغان حکومتی افواج کے خلاف ایران کی جانب سےطالبان کی مدد کے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں ، تاہم ایک اہم اور واضح معاملہ یہ تھا کہ طالبان نے ایران سے مدد مانگی۔ ایرانی انٹیلی جنس اور طالبان دونوں جانتے تھے کہ داعش جو تیزی سے ٹوٹ رہی ہے ،میں موجود امریکہ سے وابستہ دھڑے شام چھوڑ کر افغانستان میں داخل ہو چکے ہیں۔ طالبان نے القدس فورس سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھے جانے والوں کو شکست دینے میں ان کی مدد کرے، ایران نے افغان حکومت کو مطلع کیا ، اگرچہ وہ اس طرح کے تعاون سے زیادہ زیادہ خوش نہیں تھے لیکن انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔
آخر میں طالبان نے القدس فورس سے چار وعدے کیے
۔ ایران کے ساتھ ملحقہ سرحد پر استحکام برقرار رکھیں گے ۔
غیر ملکی افواج کی موجودگی کی مخالفت کو ترک نہیں کریں گے۔
۔ دوسرے قبائل یا فرقوں کو نشانہ نہیں بنائیں گے ۔
۔ بھائی بھائی کو قتل نہیں کرے گا۔
اگرچہ طالبان کے اندر مختلف نظریات رکھنے والے مختلف دھڑے موجودہیں ،تاہم ایرانیوں نے اندازہ لگایا ہے کہ موجودہ طالبان قیادت نے کئی سالوں سے اپنے وعدے پورے کیے ہیں۔
ان تعلقات نے اسلامی جمہوریہ ایران کو حالیہ ہفتوں اور مہینوں میں ایک مؤثر ثالث کے طور پر کام کرنے میں مدد دی ہے ، اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ قابض افواج کا انخلا خانہ جنگی کا باعث نہیں بنے گا اور نئی حکومت میں تمام افغان شامل ہوں گے، ایران کے پاس یہ یقین کرنے کی مضبوط وجوہات ہیں کہ مغربی افواج کا اچانک انخلا افغانستان میں عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کے لیے کیاگیا ہے،امریکہ کا خیال ہے کہ اگر وہ افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے میں ناکام ہوجاتا ہے تو اسے ایران ، چین ، روس اور یہاں تک کہ بھارت کے لیے مسلسل مسائل پیدا کرنے کا مرکز ہونا چاہیے، دریں اثنا اس وقت سعودی عرب اور خطے کے دو دیگر ممالک کی جانب سے طالبان میں انتہا پسند تکفیری گروہوں کی مدد کے لیے کافی رقم بھیجی جا رہی ہے، ایران اتنا سادہ لوح نہیں ہے لیکن تباہی سے بچنے کے لیے جو کچھ بھی کر سکتا ہے وہ کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ اگر ناکامی ہوئی تو قدس فورس شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی بھرپور حمایت کرے گی۔
ایران مسلسل کام کر رہا ہے اور افغانستان کے اندر مختلف فریقوں کے ساتھ ساتھ چین اور روس جیسےپڑوسی ممالک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ تاریک ماضی کی طرف لوٹنے کی کوشش کرنے والوں کو روکا جا سکے، شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کو ملنے والی عنقریب رکنیت اس علاقے میں بین الاقوامی کوششوں کو مربوط کرنے کی ایران کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔
جنرل سلیمانی اب ہمارے درمیان نہیں ہیں ، لیکن ان کی میراث امریکہ کی بکھرتی ہوئی سلطنت پر وار کرتی رہتی ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب