۱۳۹۳ھ،شمسی میں قدس فورس کےکمانڈر میجر جنرل سلیمانی ،صرف اپنے ۷۰ فوجیوں کے ساتھ اربیل کو داعش کے قبضے سے بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
۱۳۹۳ھ،شمسی میں قدس فورس کےکمانڈر میجر جنرل سلیمانی ،صرف اپنے ۷۰ فوجیوں کے ساتھ اربیل کو داعش کے قبضے سے بچانے میں کامیاب ہو گئے۔
تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق ۱۳۹۳ھ، شمسی میں ماہ خرداد میں داعش کی افواج ، عراق کے شمالی علاقوں کی طرف پیش قدمی کر کے موصل سمیت ملک کے شمال کے اہم علاقوں پر تیزی سے قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اور دوسری طرف سے داعش فورسز نے عراق کی مغربی سرحدوں سے صوبہ الانبار میں اپنی پیش قدمی کا آغاز کیا،اور اس صوبے کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے ، انہوں نے عراق کے دارالحکومت پر قبضہ کے لئے بغداد کی طرف اپنی تحریک کا آغاز کیا۔موصل پر قبضہ کرنے کے بعد شمالی عراق میں اپنی پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے داعش نے شہرِ اربیل کا محاصرہ کر لیا اور شہر پر قبضہ کرکے عراقی کردستان کے ایک اہم حصے پر عملی طور قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
۱۳۹۳ ھ، شمسی میں عراق اور شام میں داعش کی حکومت کی صورتحال
لیکن جب داعش اربیل پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے آخری اقدامات انجام دی رہی تھی تو ایک اہم واقعہ نے اس شہر کو یقینی قبضہ سے بچا لیا۔ سپاہِ پاسداران قدس کے کمانڈر میجر جنرل سلیمانی اپنے ۷۰ فوجیوں کے ساتھ اربیل جاتے ہیں اور وہ اپنی کمانڈ رنگ میں کاروائی کا حکم دیتے ہوئے اربیل کا محاصرہ توڑنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔اس کے کچھ عرصہ بعد اسی سال ماہ مہر میں سپاہ کی ایئر فورس کے کمانڈر حاجی زادہ نے اس بارے میں کہا: اگر ایران نہ ہوتا تو داعش عراقی کردستان پر قبضہ کر لیتی۔ جنرل سلیمانی نے اپنے ۷۰ فوجیوں کے ساتھ داعش کو پیش قدمی سے روک دیا اور اسے اربیل میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔
جنرل سلیمانی نے اربیل کو یقینی زوال سے کیسے بچایا؟
اسی دوران کرد میڈیا نے اعلان کیا کہ اربیل پر داعش کے حملہ سے چند روز قبل جنرل سلیمانی ، جو عراق میں داعش کی پیش قدمی کی یقینی معلومات حاصل کرنے کے لئے عراق تشریف لے گئے تھے، مسعود بارزانی کو عراقی کردستان میں جنگی محاذ کے علاقے کے دورہ کے دوران متنبہ کرتے ہیں کہ احتمالی طور پر “الکوایر” اور “مخمور” پر قبضہ کے بعد داعش کا اگلا نشانہ اربیل ہے لیکن بارزانی، جنرل سلیمانی کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
اسی طرح قدس فورس کے کمانڈرعراقی کرد عہدیداروں کو بھی متنبہ کرتے ہیں کہ عراقی کردستان فورسز داعش کے خلاف کسی طرح کی تیاری اور اس سے مقابلہ کے بارے میں آگاہ نہیں ہیں، لیکن پھر بھی بارزانی اور اس کے معاونین جنرل سلیمانی کے فوجی تجزئے پر توجہ نہیں کرتے۔
داعش کی جانب سے اربیل کا محاصرہ کئے جانے کے بعد ، واحد ملک جو بارزانی کی طرف سے مدد کی درخواست کا مثبت انداز میں جواب دیتا ہے وہ ایران ہے اور حتیٰ امریکی بھی بارزانی کی طرف سے مدد کی درخواست کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
عرب۔ افریقی امور کے اس وقت کے وزارت خارجہ کے معاون حسین امیر عبداللہیان اس بارے میں کہتے ہیں: جب داعش پوری طرح سے اربیل کا محاصرہ کرنے جا رہی تھی تو اربیل میں ایرانی قونصل جنرل نے مجھے فون کیا اور کہا کہ تمام افراد اور حتیٰ بارزانی کنبہ نے بھی اربیل چھوڑ دیا ہے۔ ان نازک حالات میں کردستان علاقے کے سربراہ مسعود بارزانی ۵ مرتبہ سے زیادہ امریکی افواج اور داعش مخالف اتحاد سے مدد کی درخواست کرتے ہیں لیکن بارزانی کی درخواستوں پر امریکی کوئی بھی جواب نہیں دیتے ہیں۔
حالات مزید نازک ہوجانے پر بارزانی اسلامی جمہوریہ ایران سے مدد کی درخواست کرتے ہیں۔ ایرانی حکام کی جانب سے بارزانی کی طرف سے مدد کا پیغام موصول ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے عراقی عوام اور حکومت کے دفاع کے مستقل فیصلے کے ساتھ بارزانی کی درخواست کا مثبت جواب دیا۔
اس سلسلہ میں سپاہ پاسداران کے کمانڈر، میجر جنرل قاسم سلیمانی، ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر اربیل ہوائی اڈّے پر پہنچتے ہیں تا کہ وہ اربیل کے محاصرے کو شکست دینے کے لئے کاروائی کی براہ راست ہدایت کریں۔ اس کاروائی کے دوران جنرل سلیمانی اپنے صرف ۷۰ فوجیوں کے ساتھ تکفیری دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور اربیل کا محاصرہ توڑنے کے بعد شہر کو یقینی نابودی و زوال سے بچا لیتے ہیں۔
آج مزاحمتی محاذ کی افواج کی پائداری و مقاومت اور متعدد شہداء کی قربانی کے نتیجہ میں ۶ سال کے بعد عراق اور شام میں داعش کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے اورمغربی ایشین خطے میں تبدیلیوں کے ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب