مواد

 جنرل سلیمانی مغرب کی نگاہ میں


Jan 05 2021
 جنرل سلیمانی مغرب کی نگاہ میں
امریکی پالیسی سازی میں بنیادی اور کلیدی کردار کے حامل ادارے امریکن انٹرپرائزز جس کو امریکہ میں تھنک ٹینک کا رتبہ بھی حاصل ہے، نے وژن برائے مشرق وسطی کے عنوان سے چھپنے والے مقالات کے تیسرے ایڈیشن میں جنرل سلیمانی کی تعریف کی ہے۔ کتاب کے اس حصے میں اس مقالے سے چند اقتباسات پیش کئے جائیں گے۔
امریکی صدر نے 1390 شمسی میں ایران کے اعلی کمانڈر قاسم سلیمانی پر پابندی عائد کرتے ہوئے ان کا نام بھی پابندی کا شکار ہونے والے  افراد کی فہرست میں ڈال دیا۔ جنرل سلیمانی اور قدس فورس کی کاروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکی منصوبہ سازوں کو پہلے اس کمانڈر کے جرائت مندانہ اقدامات اور کامیابیوں کی وجوہات کو سمجھنا ہوگا۔ جنرل سلیمانی کے بارے میں موجود اطلاعات سے ایسے مرد میدان کا تصور سامنے آتا ہے جو مروجہ فوجی ٹریننگ حاصل کئے بغیر کامیاب کمانڈر بن گیا ہے۔ ان کی سرگرمیاں دنیا میں مشہور ہونے کے باوجود ان کی شخصیت کے بارے میں ہمارے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں اسی لئے وہ اب بھی ہمارے لئے معمہ ہے۔ اس وژن کا مقصد بھی اسی راز سے پردہ ہٹانا ہے۔ ہم فارسی ذرائع سے استفادہ کرتے ہوئے اس جنگی کمانڈر کی قیادت، عسکری زندگی اور انقلاب کے بارے میں ان کے نظریات پر تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
قاسم سلیمانی جنگی پہلوان اور حقیقی معنوں میں اپنے ملک کے وفادار ہیں جو انقلاب کے بعد سپاہ پاسداران میں شامل ہوگئے۔ ان دنوں ایک طرف کردستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی اور دوسری طرف عراقی حملے کے بعد سرحدوں پر عراقی فوج کے ساتھ پنجہ  آزمائی ہورہی تھی۔ جنرل سلیمانی جنگ کے دوران دشمن کی نگرانی کرتے وقت اپنے ماتحت جوانوں کی جان پچانے کے لئے ہمیشہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے تھے۔ معتبر ذرائع کے مطابق 1361 شمسی میں دشمن کے ساتھ ہونے والے تصادم میں قاسم سلیمانی عراقی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ اس رپورٹ میں جنرل سلیمانی کی احتیاطی تدابیر اور فداکاری انجام دیتے ہوئے مشکلات کے سامنے خود کو پیش کرنے کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ذرائع کی جانب سے جنرل سلیمانی کی زندگی کے سیاسی پہلو پر بھی تبصرے کے بجائے انہیں فقط ایک جنگجو کمانڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔قاسم سلیمانی  جس وقت کرمان میں عام مزدور کی حیثیت سے معماری کا کام کرتے تھے، انہوں نے ورزش کے ساتھ ساتھ مردانہ اخلاق کو پرورش دینے پر بھی توجہ دی۔ ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ نے جنرل سلیمانی کے نظریات اور افکار کو تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر پوشیدہ مردانہ صلاحیتوں  کو آشکار کرنے کا بھی  موقع فراہم کیا۔ ان دنوں درپیش جنگی ماحول  نےان کے اندر ایک کرشماتی لیڈر کی خصوصیات پیدا کرنے اور انہیں پروان چڑھانے میں موثر کردار ادا کیا۔ جنرل سلیمانی جنگی کاروائیوں سے پہلے اور بعد کی تقریروں میں شہداء سے معافی مانگتے ہوئے اور شہادت نصیب نہ ہونے پر گریہ کرتے ہوئے اپنے ماتحت سپاہیوں کو شدید متاثر کرتے تھے۔ حملوں سے پہلے ہر سپاہی سے بغلگیر ہوتے اور گریہ کرتے ہوئے ان کو فارغ کرتے تھے۔
جنرل سلیمانی عملی اقدامات پر یقین رکھتے تھے۔ مشکلات کا سامنا کرنے میں انہوں نے اپنی انفرادی صلاحیت  کو بخوبی ثابت کیا۔ ذرائع ان کو ایسے کمانڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے اپنے تجربات کی روشنی میں دوسروں کو جنگی مہارت سکھائی۔ ظاہرا یہ تجربات ان کے لئے اعلی افسران کے دستورات سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ جنرل سلیمانی احتیاطی تدابیر کے زیادہ قائل نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں: دشمن پر حملہ کرنا ہی بہترین دفاع ہے۔ 1366 شمسی میں عراقی فوج نے ان کے لشکر 41 ثاراللہ کو مکمل محاصرے میں لے لیا تھا۔ اس وقت جنرل سلیمانی نے دشمن کے مسلسل دباو اور پیش قدمی کے باوجود جوابی  حملے کا پلان بنایا  لیکن  اعلی افسران نے قبول نہیں کیا جس  سے اس تصادم میں ایران کو شکست ہوئی۔ اگر جنرل سلیمانی کے منصوبے پر عمل کیا جاتا تو اس شکست سے محفوظ رہ سکتا تھا۔
جنرل سلیمانی اپنے اخلاق اور کردار کی وجہ سے لشکر کے سپاہیوں کے درمیان محبوب کمانڈر بن گئے۔ 1365 شمسی میں انہوں نے اپنے آبائی شہر کرمان میں ہسپتال کے عملے کو محاذ جنگ سے زخمی ہوکر آنے والوں کے علاج و معالجے میں کوتاہی برتنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شہداء اور شہادت کے ساتھ گہری عقیدت کے باوجودانہوں نے  کبھی بھی اپنے سپاہیوں کی جان کو بلا وجہ خطرے میں نہیں ڈالا۔ اگر کسی کاروائی یا آپریشن میں بغیر کسی ضرورت کے جوانوں کی جان کے لئے خطرہ محسوس کرتے تو فورا اس منصوبے کی مخالفت کرتے تھے۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب