مواد

جنرل سلیمانی عملی اقدامات پر یقین رکھتے تھے


Jan 19 2021
جنرل سلیمانی عملی اقدامات پر یقین رکھتے تھے
انتظامی صلاحیتوں کی ابتدائی علامات
جنرل سلیمانی عملی اقدامات پر یقین رکھتے تھے۔ مشکلات کا سامنا کرنے میں انہوں نے اپنی انفرادی صلاحیت  کو بخوبی ثابت کیا۔ ذرائع ان کو ایسے کمانڈر کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے  اپنے تجربات کی روشنی میں زیادہ جنگی مہارتیں حاصل کیں۔ ظاہرا یہ تجربات ان کے لئے اعلی افسران کے دستورات سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ 26 تیر 1366 کو جب جنگ کی کمان محسن رضائی کے ہاتھ میں تھی، جنرل سلیمانی نے ہائی کمان کی طرف سے دریائے اروند اور شط العرب کے مغرب میں واقع دو جزیروں پر فوج بھیجنے کے منصوبے کی مخالفت کی۔ انہوں نے اس دلیل کی بنیاد پر مخالفت کی تھی کہ ان دونوں جزیروں پر قبضہ شاید آسان ہو لیکن اس کو برقرار رکھنا مشکل ہوگا علاوہ ازین واپسی پر بڑی تعداد میں سپاہی تعیینات کرنا ہوگا۔ کئی دیگر کمانڈروں نے بھی اس منصوبے کی مخالفت کی لیکن بالاخر پیچھے ہٹ گئے جبکہ قاسم سلیمانی اپنی بات پر آخر تک ڈٹے رہے اس طرح یہ منصوبہ منسوخ ہوا۔  ان واقعات نے ان کی فنی زندگی پر کافی اثر ڈالا اور دوسروں کی طرف توجہ کئے بغیر اپنا نظریہ بیان کرنے کی ان صلاحیت مزید بڑھ گئی۔ جنرل سلیمانی قدامت پسند اور احتیاطی تدابیر کے زیادہ قائل نہیں تھے۔ وہ کہتے ہیں: دشمن پر حملہ کرنا ہی بہترین دفاع ہے۔ 1366 شمسی میں عراقی فوج نے ان کے لشکر 41 ثاراللہ کو مکمل محاصرے میں لے لیا تھا۔ اس وقت جنرل سلیمانی نے دشمن کے مسلسل دباو اور پیش قدمی کے باوجود جوابی  حملے کا پلان بنایا  لیکن  اعلی افسران نے قبول نہیں کیا جس  سے اس تصادم میں ایران کو شکست ہوئی۔ اگر جنرل سلیمانی کے منصوبے پر عمل کیا جاتا تو اس شکست سے بچنا ممکن تھا۔
31 خرداد 1366 کو عراقی فوج کے قبضے سے چند اسٹریٹیجک اور اہم مقامات کو آزاد کرانے کے لئے نصر 5 نامی آپریشن کیا گیا جس میں جنرل سلیمانی نے بھی شرکت۔ اس آپریشن کے دوران جنرل سلیمانی نے اپنی عادت کے برخلاف نجف کیمپ کی پیروی کی۔ جب لشکر حمزہ نامی یونٹ مخصوص مقام کو آزاد کرانے میں ناکام ہوا اور مشکلات پیش آئیں تو جنرل سلیمانی نے فوج کی اعلی  کمان کی مرضی کے برعکس اپنا پلان شروع کیا۔ اپنے لشکر ثاراللہ 41 کو تیزی سے حرکت کرنے کا حکم دیا اور بہترین انداز میں قیادت کرتے ہوئے دشمن سے علاقہ چھین لیا۔ جنرل سلیمانی کے یونٹ کے سپاہیوں اور دیگر فوجیوں پر عراقی فورسز نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا  اور 110 افراد زخمی ہوگئے۔
جنرل سلیمانی دشمن کو چکمہ دینے کے گر جانتے ہیں اور انہیں استعمال کرنے کے طریقوں سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ مثال کے طور پر 13 مہر 1366 کو شلمچہ کی جنگ کی پلاننگ بنائی جارہی تھی۔ جنرل سلیمانی نے تاکید کی کہ پہلے ایک علامتی جنگ شروع کرنی ہوگی جس کے بغیر دشمن کو فریب دینا ممکن نہیں۔ 6 آبان 1366 کو دوبارہ انہوں نے دشمن کو جنگ میں فریب دینے پر تاکید کی اور کہا کہ اس علاقے میں حملہ آور دستوں کو تربیت دینے سے ہمارا منصوبہ فاش ہوجائے گا۔ دشمن کو اپنی سرگرمیوں اور جنگی منصوبوں سے لاعلم رکھنے کے لئے دوسرے علاقوں میں موجود افواج کو بھی ان کام پر مامور کیا جائے۔
بیہودہ موت سے نفرت
جنرل سلیمانی اپنے اخلاق اور کردار کی وجہ سے لشکر کے سپاہیوں کے درمیان محبوب کمانڈر بن گئے۔ 11 مرداد 1365 کو  انہوں نے اپنے آبائی شہر کرمان میں ہسپتال کا اچانک دورہ کیا اور ہسپتال  کے عملے کو جنگی زخمیوں  کے علاج و معالجے میں کوتاہی برتنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شہداء اور شہادت کے ساتھ گہری عقیدت کے باوجودانہوں نے  کبھی بھی اپنے سپاہیوں کی جان کو بلا وجہ خطرے میں نہیں ڈالا۔ اگر کسی کاروائی یا آپریشن میں بغیر کسی ضرورت کے جوانوں کی جان کے لئے خطرہ محسوس کرتے تو فورا اس منصوبے کی مخالفت کرتے تھے۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب