مواد

جنرل حاج قاسم سلیمانی کی زندگی کا جہادی پہلو


Jan 03 2021
جنرل حاج قاسم سلیمانی کی زندگی کا جہادی پہلو
جنرل قاسم سلیمانی ایک مجاہد اور انقلابی کمانڈر تھے جن کی زندگی کے تمام پہلوؤں (جہاد اکبر ، کبیر اور اصغر) میں جہاد کا جذبہ ٹھاٹھیں مارتا تھا، ایک انقلابی مجاہدین کی خصوصیات ان کے طرز عمل اور منصوبوں میں صاف دکھائی دیتی تھیں ، جہاد کے جذبے کا مالک ہونا اور اس کو برقرار رکھنا اس قدر اہم ہے کہ رہبر معثم نے شہید سلیمانی کی نماز جنازہ پڑھاتےہوئے جہاد کی نعمت عطا کرنے پر  خداوند متعال کا شکر ادا کیا اور فرمایا:’’اَلحمدُ للهِ الذی رزقنا الجَهاد فی سَبیلِ الاِسلام ‘‘۔
ان تمام نکات اور بیانات کے علاوہ جو جنرل قاسم سلیمانی کے کردار ، زندگی اور شہادت کے بارے میں بیان کیے گئے ہیں، اس عظیم شہید کے بارے میں رہبر معظم (حفظہ اللہ)کے نقطہ نظر سے کچھ اہم نکات جنہیں آپ نے”اچھے ، پیارے ، بہادر اور خوش قسمت” کے جیسے القاب سے یاد فرمایا ہے ، مندرجہ ذیل ہیں:شجاعت اور تدبیرکا مرقع؛ اگرچہ قاسم سلیمانی کے دشمن خوفزدہ ہیں اور انہوں نے دفاعی موقف اختیار کیا ہے لیکن وہ نڈر اور بہادر مجاہد تھے اور اچھی طرح سے سمجھ گئے تھے کہ جنگ میں جو دشمن سے ڈرتا ہے اس کا کام تمام  ہے، اور اگر آپ خدا کے دین کے لیے اٹھنا چاہتے ہیں تو آپ کو خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے لہذا وہ  بغیر کسی خوف  کے بہادری کے ساتھ اور شجاعانہ انداز میں خطرہ میں کود جاتے تھے’’یُجَاهِدُونَ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَلَا یَخَافُونَ لَوْمَهَ لَائِمٍ ‘‘ ۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسے میدان میں ڈٹے رہنے والے اور دشمن  کے سامنے آکر لڑنے والے مجاہد کی سزا بزدلانہ قتل اور پیٹھ کے پیچھے سے خنجر مارنا تھا؟
ہرمیدان میں تمام شجاعت اور بہادر سردار سلیمانی کی شخصیت کی نمایاں خصوصیت تھی جس کے بارے میں رہبر معظم فرماتے ہیں کہ حاج قاسم سو مرتبہ شہادت کی حد تک جا چکے تھے، یہ پہلا موقع نہیں تھا لیکن خدا کی راہ میں ، اپنا فرض ادا کرنے کے راستے میں ، جہاد فی سبیل اللہ کی راہ میں انھیں کوئی پرواہ نہیں تھی،کسی سے کوئی خوف نہیں تھا، نہ انھیں ادھر ادھر کی باتوں کی پرواہ تھی اور نہ ہی  کبھی محنت اور مشقت سے پیچھے ہٹتے تھے،دلوں میں بسنے والے سردار شجاعت کے علاوہ اپنے ہر کام میں صاحب تدبیر اور منطق تھے ۔
شہد سلیمانی کے تدبیر اور شجاعت کا مرقع ہونے  کے بارے میں رہبر معظم  کا نظریہ مندرجہ ذیل ہے: شہید سلیمانی بہادر بھی تھے اورتدبیر کے مالک بھی تھے، کچھ لوگوں کے پاس شجاعت ہوتی ہے لیکن اس کو استعمال کرنے کے لیے ان کے پاس عقل اور تدبیرنہیں ہوتی دوسری طرف  کچھ لوگ با تدبیر ہیں لیکن وہ اقدام اور عمل کے میدان میں آگے نہیں آتے، ان میں کام کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔
ہمارے  عزیز شہید نہایت ہی شجاع اور بہادر تھے، کبھی بھی خطرے کے  منھ میں گریزاں نہیں ہوئے نہ صرف آج کے ان حالات میں بلکہ یہ مقدس دفاع کے زمانے میں بھی ثار اللہ بٹالین کی کمانڈ کرتے ہوئے بھی ایسے ہی تھے، سوچتے تھے،منصوبہ بناتے تھے،اپنے کاموں کو عقل اور منطق کی روشنی میں انجام دیتے تھے ان سب سے بڑھ  ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ شجاعت اور تدبیر کے اپنے اس اسلحہ کو خدا کے لیے خرچ کرتے تھے، ان کے اندر دکھاوا اور ریاکاری نام کی کوئی چیز نہیں تھی، رہبر معظم  نے شہید سلیمانی کی جرات اور تدبیر کے حسین امتزاج کو میدان جنگ تک محدود نہیں سمجھا بلکہ اور انہیں ہر میدان میں بہادر اور ایک مدبر شخصیت کے طور پر متعارف کرایا اور ان کی شجات اور تدبیر کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے اثرات کو  بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ سیاست کے میدان میں بھی ان کی بات بااثر ، قائل کرنے والی اور اثر انداز تھی، اس تدبیر اور شجاعت کی ایک مثال یہ تھی کہ  وہ خطے کی اقوام کی مدد سے ، یا انھیں مدد فراہم کرکے مغربی ایشیاء کے خطے میں ریاستہائے متحدہ کے تمام ناجائز منصوبوں کو ناکام بنانے میں کامیاب رہےاورامریکی میڈیا کے اتنے بڑے پروپگنڈے،ا س ملک کی سفارتی طاقت ،امریکی حکام کے دنیا کے کمزور ممالک اور کمزور حکمرانوں پر جبر اور پیسہ خرچ کر کے جو منصوبے تیار کیے گئے تھے وہ ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے او رفلسطین،لبنان، عراق اور شام میں امریکی منصوبوں کو مٹی میں ملا دیا۔
امام خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے الفاظ میں  فلسطین ، لبنان ، عراق اور شام کے مزاحمتی میدان میں شہد سلیمانی کی تدبیر مندرجہ ذیل تھی:
فلسطین میں ان کی تدبیر: فلسطین کے لئے امریکی منصوبہ فلسطینیوں کو کمزوررکھنا تھا تاکہ وہ لڑنے کے لیے سوچنے کی بھی ہمت نہ کر سکیں، اس شخص نے فلسطینیوں کا ہاتھ پکڑا اور ان کو مقابلہ کرنے اور مزاحمت کے قابل بنا دیا، فلسطینی بھائیوں اور رہنماؤں نے اپنے کئی دوروں میں ہمارے پاس آکر گواہی دی کہ جنرل سلیمانی نے کچھ ایسا کیا کہ  “غزہ کی پٹی” جیسا ایک چھوٹا سا علاقہ صہیونی حکومت کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا اور یہ امریکیوں کے لئے ایسی تباہی لائے کہ انھوں نے 48 گھنٹوں کے بعد کہا کہ آؤ جنگ بندی کرتے ہیں۔
لبنان میں شہید کی تدبیر:
امریکی لبنان کو مزاحمتی قوت اور حزب اللہ جو لبنان کی آزادی کا سب سے اہم عنصر ہے ،سے محروم کرنا چاہتے تھے تاکہ ا لبنان اسرائیل کے مقابلے میں بے دفاع ہوجائے گا لیکن خدا کا شکر ہے کہ حزب اللہ روز بروز مضبوط تر ہوتی گئی ۔
عراق میں تدبیر:
امریکی عراق کو اسلامی انقلاب سے پہلے کے ایران یا آج کے سعودی عرب کی طرح دودھ دینے والی گائے کی طرح دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ یہ ملک تیل سے مالا مال ایک ایسی جگہ ہو جو ان کے قبضہ میں ہو لیکن عراقی بہادر اور وفادار عناصر اور نوجوان نیز عراقی مرجعیت  کی پشت پناہی میں ان مسائل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور حاج قاسم نے بطور ایک فعال مشیر اس رضاکارانہ محاذکی مدد کی ، وہ ان کے ایک عظیم حامی کی حیثیت سے وہاں پہنچے۔
شرعی حدود کے پابندی کرتے ہوئے عسکریت پسندی سپریم کمانڈر کی نظر میں: جنرل سلیمانی فوجی اور جنگ کے میدان میں ایک تجربہ کار فرد تھے اس کے باجود انھوں نے ہمیشہ شرعی حدود کی پابندی پر خصوصی توجہ دی، اس کے ریکارڈ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جو اسلام کے اصولوں سے متصادم ہو، وہ جنگ کے میدان میں ایک ماہر مجاہداور لائق کمانڈر تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ شرعی حدود کی سختی کے ساتھ رعایت کرتے تھے، بعض لوگ میدان جنگ میں شرعی حدود کو بھول جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابھی ان باتوں کا وقت نہیں ہےلیکن وہ ایسے نہیں تھے خیال رکھتے تھے، جہاں ہتھیاروں کا استعمال نہیں ہونا چاہئے تھا وہاں نہیں کرتے تھے، وہ خیال رکھتے تھے کہ کسی پر ظلم نہ ہونے پائے، وہ کچھ ایسے احتیاط کرتے تھے جنہیں میدان جنگ میں موجود بہت سارے افراد ضروری نہیں سمجھتے ہیں لیکن کرتے تھے، خود خطرے کے قلب میں کود جاتے تھے لیکن جہاں تک ہوسکتا تھا دوسروں کی جان بچانے کی کوشش کرتے تھے،اپنے دوستوں ، ساتھیوں، سپاہیوں اور اپنے ساتھ کام کرنے والے دوسری اقوام کے افراد کی جانوں کا خیال رکھتے تھے۔
پارٹیوں  سے پاک انقلابیت
رہبر معظم کے الفاظ میں شہید قاسم سلیمانی پارٹیوں سے مافوق تھے اورکسی پارٹی کےمیدان کے کھلاڑی نہیں تھے اوروہ واحد معیار اور اصول جس کو انہوں نے قبول کیا تھا وہ “انقلابیت” تھا  جس کے سلسلہ میں رہبر معظم نے کچھ متعصب لوگوں کی  جانب سے ہلکا دکھائے جانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ پارٹی کے ممبر نہیں تھے  لیکن وہ انقلاب میں گھل مل چکے تھے، انقلابیت ان کی سرخ لکیر تھی، وہ ان وادیوں میں مختلف پارٹیوں ، مختلف ناموں اور مختلف دھڑوں اور اس جیسی دوسری چیزوں میں تقسیم نہیں ہوئے تھےلیکن انقلابیت کے میدان میں وہ امام خمینی کےبابرکت اور روشن خیال راستے پر گامزن تھےاور سختی سے اس کی پابندی کرتے تھے، حاج قاسم سلیمانی  ایک خالص انقلابی شخصیت کی علامت کے طور پر  اپنی انقلابیت میں کچھ صفات کے حامل تھے جو اس سے قبل امام خمینی کی وفات کی 27 ویں برسی کے موقع پر رہبر معظم کے خطاب میں بیان ہوئی ہیں؛ یہ صفات اور خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
اسلام اور انقلاب کے اصولوں اور اقدار کی پاسداری
میں نے پچھلے سال اسی جلسہ میں امام کے اصولوں کے بارے میں بات کی تھی، وہی ہمارے بنیادی اصول ہیں،اگر ان کی پابندی کی جائے گی تو ہماری تحریک صراط مستقیم پر اور رواں دواں رہے گی اور تیز ہواؤں اور طوفانوں  سے یہ حرکت  کا رخ نہیں بدلے گا، اس پابندی کے مقابلے میں انتہا پسندی ہےیعنی ہر روزاور ہر حادثے میں  ایک طرف جانا ہے۔
۲۔ انقلاب کے نظریات کو اپنا مقصد بنانا اور ان کے حصول کیلئے بھرپور کوشش کرنا، کچھ افرادہمارے معاشرے اور نوجوانوں کو مایوس کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں،نہیں ہوسکتا، ہم وہاں تک نہیں پہنچ سکتے!۔۔۔ آئیے ہم ان بلند و بالا اہداف اور اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے سے کبھی دستبردار نہ ہوں ، دباؤ کا مقابلہ کریں اور اس کے سامنے نہ جھکیں۔
۳۔ملک کی آزادی پر کاربند رہنا؛ سیاسی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم سیاسی میدان میں دشمن کے دھوکہ میں نہ آئیں، ثقافتی آزادی جو سب سے اہم چیز ہے ،یہ ہے کہ ہم ایرانی اسلامی طرز زندگی کا انتخاب کریں، معاشی آزادی عالمی معاشرہ کی معیشت میں گم نہ ہونا ہے۔
۴۔ دشمن کی شناخت اور اس کے پیچھے نہ چلنا، دشمن کو پہچناناچاہئے ، اس کے منصوبے کو سمجھنا چاہئے اوردشمن کی اطاعت سے انکار کرنا چاہئے،اس پیروی نہ کرنے کو قرآن مجیدعظیم جہاد قرار دیتا ہے۔
۵۔دینی اور سیاسی تقویٰ یہ ہے کہ کہ اسلام نے ہم سے اسلامی نظریات پر قائم رہنے کو کہا ہے، یہ ایک مذہبی فریضہ ہے اور اس کی پابندی مذہبی تقویٰ ہے، سیاسی تقویٰ بھی اسی کے ساتھ ہے، سیاسی تقویٰ کا مطلب یہ ہے کہ انسان ان لغزشوں سے پرہیز کرے جو دشمن استعمال کرسکتاہے۔
خلوص اور ریا کاری سے پاک خدا محوری
رہبر معظم حفظہ اللہ حاج قاسم کی طرف لوگوں کی  اس قدر توجہ اور قدردانی  کو ان کے خلوص کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر اخلاص نہ ہو تو لوگوں کے دلوں کو اس طرح اپنی طرف کھینچا  نہیں کیا جاسکتا ہے، دل خدا کےہاتھوں میں ہیں،یہ جو دل اس قدر کھنچے چلے آتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص میں ایک بہت اخلاص تھا، وہ ایک عظیم انسان تھا،خدا ان شاء اللہ ان کے درجات کو بلند فرمائے گا۔
اس طرح کےعظیم کمانڈر اور جنرل نے کبھی بھی اپنے آپ کو اپنی آنکھوں کے سامنے نہیں کیا اور دکھاوا نہیں کیا، بعض اوقات جب ہم عہدیداروں سے ملاقات کرتے تو حاج قاسم کسی گوشے میں بیٹھ جاتے اور بالکل نظر نہیں آتے تھے ، انسان کو انھیں ڈھونڈنا پڑتا تھا۔
اخلاص بہت ضروری ہے اور ہم سب کو اپنے آپ میں اخلاص کی مشق کرنا چاہئے، جو شخص خدا اور غیر خدا کے درمیان فرق کو سمجھتا ہے وہ صرف خدا کے لئے کام کرتا ہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی تلاش میں رہتا ہے، سردار سلیمانی  اس مسئلے کو سمجھ چکے تھے، انھوں نے اپنی ساری زندگی کو خدا کے لیے وقف کردیا تھا اور ان کے ہر عمل میں اخلاص موجیں مارتا نظر آتاتھا۔
رہبر معظم نے سردار سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے موقع پراپنے تعزیتی پیغام  میں فرمایا کہ دنیا کے شیطانوں اور شرپسندوں سے لڑنے کے میدانوں میں سالوں کی مخلصانہ اور شجاعانہ  جدوجہد اور خدا کی راہ میں شہید ہونے کی ا ن کی برسوں کی خواہش نے آخر میں عزیز سلیمانی کو اس اعلی مقام پر پہنچادیا۔
عاقبت اندیشی اور غفلت سے پاک قیامت پر یقین
جو شخص دنیا اور آخرت کے فرق کو سمجھتا ہے تو پھر وہ  کوئی کام دنیا کے لئے نہیں کرتا کیونکہ دنیا فانی اور ختم ہوجانے والی ہے جو بھی ہے وہ آخرت اور باقی رہنے والے عالم کے لیے ہے،’’ ما عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ ما عِنْدَ اللَّهِ باقٍ ‘‘اس مسئلے کو سمجھنے کے بعد شہید سلیمانی دنیا اور دنیوی زندگی سے وابستہ نہیں تھے، وہ ہمیشہ جہادی تحریکوں میں اور شہادت کے میدان میں سب سے آگے رہتے تھےاور اپنی آخرت کی فکر میں تھے، انہوں نے اپنی تقاریر میں متعد بار سامعین سے معافی مانگی، اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی شہادت کے لئے دعا کریں ، جو اس بات کی علامت ہے کہ عظیم شہید اس فانی دنیا سے کیسے گذرنا چاہتے تھے،رہبر معظم اس  فانی دنیا سے  گذرنے کے طریقہ اور معیار کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر انسان زندگی کے اس مرحلے سے اور اس دنیا سے  گذرے گا ،میں ،آپ دوسرے افراد،سب کے سب چاہے جوان ہوں یا بوڑھے سب کو جانا ہے لیکن جو راہ خدا میں شہید ہو تا ہے،خلوص کے ساتھ خدا کے لیے عمل انجام دیتا ہے  وہ بہترین طریقے سے یہاں سے جاتا ہے،حاج قاسم قم کے اپنے آخری سفر میں ایک سبق آموز اور قابل غور اقدام کے تحت اپنے کفن کو ساتھ میں لے جاتے ہیں اور مراجع عظام اور علما سے اس پر دستخط کرواتے ہیں جوآخرت کے سفر اور موت  کے مسئلہ میں  ان کی توجہ کی علامت ہے کہ کہا جاسکتا ہے کہ موت اور قیامت کی یاد ہی  تربیت اورموت وشہادت کے لیے ان کی تیاری کا پتا دیتا ہے،سردار قاسم سلیمانی کا یہ اقدام امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث کا مصداق ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ (مَنْ کانَ مَعَهُ کَفَنُهُ فِی بَیْتِهِ لَمْ یُکْتَبْ مِنَ الْغافِلِینَ)۔جس انسان کا کفن اس کے گھر میں ہوتا ہے اس کا شمار غافلین میں نہیں ہوتا ہے۔
وہ شخص جو موت اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اور اس پر پورے دل سے یقین کرتا ہے وہ غفلت اور گناہوں سے بچنے اور سعادت تک پہنچنےکیلئے پوری کوشش کرتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺنے اس سلسلے میں ارشاد فرمایا :(أکْثِرُوا مِنْ ذِکْرِ الْمَوْتِ فَإِنَّهُ یُمَحِّصُ الذُّنُوبَ وَ یُزَهِّدُ فِی الدُّنْیَا)۔ موت کو یاد کرؤ کہ موت کا ذکر گناہوں کو ختم کرتا ہے اور دنیا میں تقوی کا سبب بنتا ہے۔
بلاشبہ جو لوگ  منافقت ، غبن ، بیت المال سے غداری اور اس طرح کے گناہوں کا شکار ہوتےہیں وہ قیامت اور موت سے بے خبر ہیں۔
آنسوؤں اور توبہ کے ساتھ شہادت کی دعا
جنرل قاسم سلیمانی کی دیرینہ امنگوں اور آرزوؤں میں سے ایک “شہادت” تھی جس  کا اظہار کئی بار انھوں نے اپنی تقریروں  میں کیاتھا، جب وہ اپنے ساتھیوں کے درمیان آنکھوں میں  آنسوؤں کے ساتھ دعا کرتے تھے اور خداوند عالم سے شہادت طلب کرتے تھےتو کہتے تھے کہ شہید اسی وقت شہید ہوتا ہے جب وہ شہادت سے پہلے شہید ہو چکا ہو یعنی شہادت سے پہلے شہداء کے ساتھ اور ان کی طرح زندگی گزارنا چاہئے اور شہدا اور شہادت کی امنگوں سے مانوس ہونا چاہیے،یہ بات ان کی ذاتی زندگی میں صاف طور پر محسوس ہوتی تھی،انھوں نے اپنی جوانی میں جب وہ ثاراللہ۴۱ بٹالین کے کمانڈر تھے اور حق وباطل کے درمیان جاری جنگ کے محاذ پر لڑ رہے تھے خدا وند عالم سے جو وعدہ کیا تھا آخری دم تک اس پر باقی رہے،ان کے شہادت طلبانہ جذبہ میں کسی بھی طرح کی کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی،جیسا کہ خدا وند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ ’’مِنَ الْمُؤْمِنِینَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِیلًا ‘‘۔
(مومنین میں ایسے بھی مردُ میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے)۔
شہید سلیمانی کی شہادت نے معاشرے میں ایک بار پھر شہادت کا جذبہ پیدا کیا اور اس دہشت گردی کے واقعے کے مظلوم شہدا کا پاک خون باشعور  معاشرے میں شہادت کے جذبے کو تقویت دینے کا باعث بنا۔
کل تک  مائیں اپنے بچوں کو امام حسین ؑ کے شیر خوار کی یاد میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کے لئے تیار کررہی تھیں لیکن آج وہ یہ نعرہ لگانے آئی ہیں کہ ہمارے بچے مذہب اور ولایت کے تقدس کا دفاع کرنے کے لئے قاسم سلیمانی بنیں گے، اور بلا شبہ یہ خون اسلامی انقلاب کی بقا اور اس کے جاری رہنےکی ضمانت دیتے ہیں، امام خمینی ؒ نے فرمایا:یہ انقلاب زندہ رہنا چاہئے ، اس تحریک کو زندہ رہنا چاہئے اور اس کی بقا انہی خونوں کے بہنے میں ہے ،جتنےہمارے خون بہاؤ گے  ہماری زندگیاں اتنی ہی آگے بڑھتی جائیں گی ، جتنا ہمیں مارو گے ، ہماری قوم اتنی ہی بیدار ہوتی جائے گی ۔
در حقیقت  حاج قاسم اور اس کے ساتھیوں کی شہادت ایک نقصان نہیں تھی بلکہ یہ شہادت خدائی نعمتوں کے نزول اور خداوندتعالیٰ کے فضل و کرم کا سبب بنی ہے جیسا کہ حضرت سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی شہادت معاشرے اور انسانیت کے لئے بہت سارے اثرات اور برکات لائی ہے اور لاتی رہےگی، اس وقت شہید سلیمانی اور اس کے ساتھیوں کے پاک لہو کی بدولت  ایران اور عراق کے تمام لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کو شجاعت اور شہادت کا جذبہ ملا ہے اور وہ اس شہید کے ساتھ محبت اور جذبے کے ساتھ اپنی شہادت کی دعائیں مانگتےہیں۔
معاشرے پر حاکم اسی نورانی فضا میں رہبر معظم بھی اس عظیم شہید کی نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے اس انداز میں خدا وند عالم کا شکرادا کرتے ہیں’’اَلحَمدُللهِ الذی أکرم المُستشهدینَ فی سَبیله. اَلحمدُ لله الذی رزقنا الشهاده فی سَبیله ‘‘ (تمام تعریفیں اس اللہ کی ہیں جس نے اپنی راہ میں شہید ہونے والوں کو عزت عطا کی،تمام تعریفیں اس خدا کی ہیں جس نے ہمیں اپنی راہ میں شہید ہونے کی توفیق عطا کی)۔
بصیرت کے ساتھ دشمن کی شناخت اور اس سے لڑنا
جنرل قاسم سلیمانی کی ایک نمایاں خصوصیات ان کی بصیرت اور دشمن کی پہچان تھی، وہ دشمن کو بخوبی پہچانتے تھے اور اصل دشمن دنیا کی سامراجی طاقتیں  اور ان میں   مجرم امریکہ کو سرفہرست سمجھتے تھے، وہ پوری طرح جانتے تھے کہ سامراجی  دشمن طاقتیں حق کے خلاف منصوبہ بندطریقے سے کام کررہی ہیں اور وہی دشمن میں مقابلے میں کھڑا ہوسکتا ہے اور اس سے اچھی طرح لڑ سکتا ہے جو  لڑائی سے پہلے اسے اچھی طرح سے جانتا ہے۔
شہید سلیمانی میں متعدد متضاد صفات جمع تھیں،انھیں آیۂ’’ أَشِدَّاءُ عَلَى الْکُفَّارِ رُحَماءُ بَیْنَهُم ‘‘(وہ کفار کے لئے سخت ترین اور آپس میں انتہائی رحم دل ہیں)کا حقیقی مصداق قرار دیا جاسکتا ہے، وہ ایسے شخص تھے جو دشمنوں کے ساتھ معمولی  سمجھوتہ کرنے کو بھی تیار نہیں تھے، اور وہ سخت اور خوفناک  کے میدان جنگ میں پہنچ جاتے تھے،جس محاذ یا فرنٹ لائن پر قاسم سلیمانی کا نام آتا تھا دشمنوں پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا، وہ اپنے آپ کو داعش اور دھوکہ کھائے ہوئے تکفیریوں کا اصل دشمن نہیں  سمجھتے تھے بلکہ اسرائیل اور امریکہ کو اصل دشمن سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ وہ اتنے برسوں میں داعش کے ہاتھوں شہید نہیں ہوئے بلکہ دنیا کے سب سے متکبر اور شقی ترین کے ہاتھوں ایک بزدلانہ حملہ میں جام شہادت نوش کیا،رہبر معظم  نے قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت کے موقع پر جاری کیے جانے والے اپنے پیغام میں فرمایا کہ:  کہ ان کا پاکیزہ خون عالم بشریت کے شقی ترین کے ہاتھوں بہایا گیا۔
دوسری طرف وہ لوگوں کے ساتھ نہایت ہی ہمدردی اور مروت سے پیش آتے تھے، وہ ان چند معزز شخصیات اور اعلی عہدہ داروں  میں سے تھے جنہوں نے اپنے اعلی مقام کے باوجود  کئی بار شہید کے والد کے ہاتھ کو بوسے دیے، شہید کی والدہ کے قدموں پر گر پڑے اور مظلوم اور یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرے۔
وہ اتنے سادہ مزاج اور ہنس مکھ تھے کہ اہلسنت اور عیسائی حضرات بھی ایک بھائی کی طرح ان کے ساتھ یادگار ی تصویریں کھنچواتے تھے،انھوں نےاپنے عوامی جذبے،نیک سیرت،انکساری اور سادہ مزاجی کی بنا پرسب کے دلوں میں گھر کر لیا تھایا یوں کہا جائے کہ وہ دین اور مذہب سے اوپر کی شخصیت کے مالک بن چکے تھے۔
مکمل اور ثابت قدم  ولایت کے حامی
کچھ لوگ اپنی زندگی میں خود محور،دوست محور،پیسہ محور یا پارٹی محور ہوتے ہیں لیکن شہید سلیمانی ولایت مداری کے مظہر تھے اور ولایت کے سامنے مکمل طور پر تسلیم تھے اور ولایت محوری کو چنا تھا۔
وہ ایسے کمانڈر تھے جو اپنی دلی عقیدت کی بنا پر اپنے آپ کو ولایت کا مکمل فرمانبردار اور ادنی سا سپاہی کہلاتے تھے،وہ ایسے سپاہی تھے جنہوں نے انقلاب کے زمانے میں اور اس کے بعد مقدس دفاع کے دوران ولایت کے ساتھ اپنی وفاداری کو کل کے امام کی رکاب میں اس جنگ کے بعد متعد ذمہ داریوں خاص طور پر قدس فورس کی کمانڈ کی شکل میں نیز حرم اہل بیت علیہم السلام کا دفاع کرتے ہوئے آج کے امام کے لیے ثابت کر دیا،وہ ’’ والسّابِقِینَ الی اِرَادَتِه ‘‘ کے مصداق تھے جو اس پورے عرصے میں’’ولایت کے حامی ہیں شہادت تک‘‘ کے نعرے کے ساتھ قدم بڑھاتے تھے اور آخر کار اپنے مقصد یعنی راہ خدا میں شہادت تک پہنچ گئے۔
قاسم سلیمانی نے  اپنے ماتحت جوانوں اور اپنے ساتھوں کو بھی ولایت کے پرچم تلے رہنے کا جذبہ  دیا تھا اس طرح سے کہ عظیم شہید ابو مہدی المہندس اپنے آپ کو پہلے مرحلہ میں  رہبر معظم کا سپاہی اور پھر قاسم سلیمانی کا سپاہی سمجھتے تھے۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب