مواد

تیسری جنگ عظیم


Jan 18 2021
تیسری جنگ عظیم
جنرل سلیمانی و ابو مہدی کی شہادت اور تیسری جنگ عظیم
امریکی ڈرونز نے بغداد ائیرپورٹ پر مقاومت و استقامت کے دو عظیم کمانڈروں کو شہید کرکے ایک ایسی جنگ کا آغاز کیا ہے، جو زمان و مکان کی تہہ سے نکلتی نظر آتی ہے۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے مشرق وسطٰی کے انتہائی حساس حالات میں جو احمقانہ اقدام انجام دیا، اُس کے خطے اور عالمی سطح پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ امریکہ مشرق وسطٰی کے تیل اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار کی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ امریکی و سامراجی محاذ نے اپنے مفادات اور اپنی سپرمیسی کو قائم رکھنے کے لئے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ امریکی تھنک ٹینک بالخصوص نئوکان یا قدامت پسندوں کا جنگ پسند ٹولہ خطے کو ایک ایسی آگ میں دھکیل چکا ہے، جس کی تپش اور شعلے امریکی حکمرانوں کے ساتھ خطے میں موجود امریکی مفادات کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔
 
آج دنیا بھر کے تجزیہ نگار ایران کی طرف سے کسی انتقامی اقدام کو تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس بات کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیئے کہ امریکہ نے گیارہ ستمبر کے مشکوک واقعہ کے بعد تیسری عالمی جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ کیا امریکہ نے ایک چھوٹے سے ملک افغانستان پر نیٹو سمیت اپنے کئی اتحادیوں کیساتھ مل کر حملہ نہیں کیا تھا۔؟ کیا عراق میں امریکہ اکیلا آیا ہے۔؟ کیا اُس نے دنیا کے کئی ممالک کو دہشت گردوں کے خلاف نام نہاد جنگ کے نام پر اپنے تمام عربی و مغربی اور عبری اتحادیوں کو ساتھ ملا کر شام میں بشار الاسد کی قانونی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔؟ آج تیسری عالمی جنگ کے خطرات کا انتباہ دینے والوں کو چاہیئے کہ واشنگٹن کو متنبہ کریں کہ اُس نے دنیا کے مختلف خطوں میں جو فوجی اڈے بنا رکھے ہیں، انہیں ختم کر دے، تاکہ تیسری عالمی جنگ کے مواقع ختم ہو جائیں۔
 
امریکہ کے یہ فوجی اڈے کس لئے ہیں۔؟ کیا مختلف علاقوں میں موجود ممالک پر اپنا تسلط قائم کرنے کے لئے، اپنی مرضی کی حکومتیں قائم کرنے کے لئے یا اپنے مخالفین کو ڈرون طیاروں سے نشانہ بنانے کے لئے۔ دنیا کو عالمی جنگ اور کسی قسم کی اسکیلیشن (Escalation) سے بچنے کے لئے کم سے کم مسلمان خطوں سے امریکی افواج کا انخلاء ضروری ہوگیا ہے۔ آج اگر عراق و شام سے امریکی افواج واپس چلی جائیں تو ممکن ہے کہ استقامتی و مزاحمتی بلاک کا غم و غصہ کچھ سرد ہو جائے، نہیں تو دوسری صورت میں مزاحمتی بلاک کے پاس امریکہ کیخلاف کسی بھی قسم کے اقدام کا حق محفوظ ہے، وہ امریکہ کے اندر بھی ہوسکتا ہے اور باہر بھی۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب