ایرانی جنرل دنیا کی اکثریت پر نگرانی رکھے ہوئے ہے
محمد حسین جعفریان کے نزدیک بھی قاسم سلیمانی ایک خدائی انسان ہیں۔ جعفریان ایران اور عراق کے جنگی علاقوں میں خبروں اور میڈیا کی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں اور انہوں نے فوجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپریشنل علاقوں میں بھی کئی سالوں سے قاسم سلیمانی کی زندگی پر غور کیا ہے اور ان کی جنرل سے قریبی دوستی بھی ہے۔ جعفریان کا کہنا ہے: قاسم سلیمانی خالی ہاتھوں سے برائی کے خلاف بھلائی کی جدوجہد کر رہے ہیں! جعفریان کے لئے قاسم سلیمانی خطے میں اس انقلابی نظریہ کی بقا کی علامت اور دستاویز ہیں۔ جعفریان اپنے آپ کو اسلامی انقلاب ایران کے معاشرتی انصاف اور ایران کی حدود سے باہر اس انقلاب کی برآمد کے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلامی جمہوریہ اپنے 38ویں سال میں ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے انقلابی کردار سے دور ہورہی ہے۔ ٹیکنوکریٹس نے حسن روحانی کی اعتدال پسند حکومت میں مرکزی کردار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ 19 مئی 2017 ء کو حسن روحانی کی صدارت کا دوسرا دور اقتدار سنبھالنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ (یہ رپورٹ ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات سے دو ہفتہ قبل کی ہے۔
ایران-عراق جنگ کے سابق کمانڈر ز، اسٹاف ، بزنس مین اور سیاستدانوں ۔ جیسے باقر قالیباف صدارتی انتخاب میں روحانی کے حریف ۔میں تبدیلی آ چکی ہے ، لیکن ایرانی جنرل سلیمانی اسی طرح صبح اٹھ کر پوری دنیا پر نگاہ ڈالتا ہیں اور ایسی نگاہ جو ایرانی سرحدوں سے باہر ہے۔
اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ (قاسم سلیمانی) جنگ لڑ رہے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح آرام دہ اور پرسکون زندگی نہیں گزاری ہے۔ ان جیسے لوگ بستر پر آسانی سے مرنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ شہید ہو نا چاہتے ہیں۔
سلیمانی 2009ء میں عراقی سرحد پر کیمرے کے سامنے اپنی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں: میدان جنگ انسانیت کی کھوئی ہوئی جنت ہے۔ ایسی جنت جہاں انسانوں کا تقویٰ اور عمل اعلی مقام پر قرار پاتا ہے۔ آج قاسم سلیمانی ایک پر سکون آواز کے ساتھ ایک طاقتور اور خود ساختہ آدمی ہیں گویا وہ جبرئیل گارسیا مارکیز کا ناول پڑھ رہے ہیں۔
اصل میں سلیمانی جنوبی ایران کے شہرکرمان میں ایک کسان کا بیٹے ہیں جو بہت غریب تھا۔ وہ 13 سال کی عمر میں تعمیراتی کارکنوں کے لئے 5 سال کے لازمی اسکول کے بعد ، صوبے کے مرکز میں چلے جاتے ہیں، اور یہ وہ وقت تھا جب 1979 ء میں اسلامی انقلاب برپا ہوا ۔ 22 سال کی عمر میں ، اس چھوٹے ، خوبصورت ، ثقافت سے محبت کرنے والے ، اور پرہیزگار نوجوان نے بیگی پتلون اور کالر والی قمیض پہننے کے بجائے نوزائیدہ فوج کی وردی پہن لی اوروہ سپاہ ِپاسداران انقلاب میں شامل ہوگیا۔
انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی تا کہ وہ سرسخت انقلابی ، علماء اور قوم پرستوں نیز جن لوگوں کو چھان بین کے بغیر حکومت نے بھرتی کیا تھا ، کے ساتھ شامل ہو کر فروری 1979 ء میں شاہ کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں فوجی طاقت کے خلا کو پُر کر سکیں۔
آج جس چیز کی وہ خلوص نیت سے پرورش کر رہے ہیں اور اسے زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عراق کے ساتھ جنگ کے ہیرووں اور آس پاس کی مساجد کے رضاکار نوجوانوں میں پرانے جنگجوؤں کی یاد ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اگر سلیمانی نے اپنے لئے ایک مضبوط شہرت بنا رکھی ہے تو اس کی وجہ کمانڈو آپریشن میں ان کی کمانڈ اور محاذ جنگ میں دشمن کے ٹھکانوں کی شناسائی ہے۔
صدام حسین کے دور اقتدار میں ایران -عراق جنگ میں عراقی ریڈیو نے انہیں ایک افسانہ کہتے ہوئے ایک دشمن بھی کہا تھا جسے نابود ہونا چاہئے۔ سلیمانی نے عراق میں شہدا سے محبت کرنا سیکھی۔
مغربی دنیا پر ان کاعدم اعتماد اوربدگمانی کی وجہ ایران-عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی مغربی حمایت ہے اور خاص طور پر جب سابق عراقی ڈیکٹیٹر نے ایران کے خلاف میدان جنگ میں عام شہریوں کے خلاف کیمیائی گیس کے بموں کا استعمال کیا اور مغرب نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔
ایران۔ عراق جنگ ختم ہونے کے بعد سلیمانی نے اپنے آبائی شہر (کرمان) میں پاسداران انقلاب کی کمان سنبھالی اور اس کے بعد انہیں پڑوسی صوبہ سیستان اور بلوچیستان بھیج دیا گیا تاکہ سنی اقلیتی باغیوں اور منشیات کے اسمگلروں کا افغان سرحد پرمقابلہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد انہیں 1998 ء میں کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے ٹھیک ایک یا دو سال بعد قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا جو اس وقت ایران کے لئے ایک ناکامی تصور کی جا رہی تھی۔
روحانی کی حکومت کے طرفدار اصلاح پسند صحافی فرشاد قربانپور کہتے ہیں: ہم نے اس کا نام اس کے فوراً بعد سنا جب جولائی 1999 ء میں تہران میں طلباء کی جانب سے ایک بڑے مظاہرے کا آغاز ہوا۔ سپاہ پاسداران کے متعدد کمانڈروں کی جانب سے دستخط شدہ ایک خط منتشر ہوا جس میں اصلاح پسند صدر محمد خاتمی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بدامنی بند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ وہ اس میں خود مداخلت کریں گے۔
البتہ اس زمانے تک سلیمانی حقیقت میں مشہور نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت وہ فوجی مشینری میں ایک ماہر شخص تھے، کمانڈروں میں سے ایک ماہر کمانڈر جو ایران کی نوجوان سول سوسائٹی پر مغرب کے اثر و رسوخ کے بارے میں کافی فکر مندتھے۔ ان کمانڈروں کو مغربی ثقافت کے نفوذ کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا ، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
جبکہ اس زمانے میں سلیمانی ایرانی طاقت کے مرکز میں زیادہ معروف شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ لیکن ان کی ایک خصوصیت یہ تھی وہ بہت جلد اپنے آپ کو ایک ماہر( مدبّر) فوجی کی حیثیت سے (عمل میں ) عملی میدان میں بھی ممتاز بنا لیتے تھے ۔
11 ستمبر 2001 ء کو خودکش بم دھماکوں کے فورا بعد ہی امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے اور قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایران کو اپنی سرحدوں پر امریکی فوجیوں کی موجودگی پر گہری تشویش تھی۔ تاہم سلیمانی نے تہران میں ایک خطرناک تحریک چلانے کی ہمت کی۔ جو امریکیوں سے نفرت اور ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا ایک سرخ لکیر شمار ہوتی تھی۔
سوئٹزرلینڈ کے جنیوا کے ایک ہوٹل میں ایرانی سفارتکاروں نے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر سفارت کار ریان کروکر سے خفیہ ملاقات کی جس میں سلیمانی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں کروکر نے دی نیویارک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ اس ملاقات کے دوران انہوں نے ایرانیوں سے طالبان کی فوجی پوزیشن ، منصوبوں اور آپریشنل منصوبوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں جنہیں انہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
محمد حسین جعفریان کے نزدیک بھی قاسم سلیمانی ایک خدائی انسان ہیں۔ جعفریان ایران اور عراق کے جنگی علاقوں میں خبروں اور میڈیا کی سرگرمیوں میں مصروف رہے ہیں اور انہوں نے فوجی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ آپریشنل علاقوں میں بھی کئی سالوں سے قاسم سلیمانی کی زندگی پر غور کیا ہے اور ان کی جنرل سے قریبی دوستی بھی ہے۔ جعفریان کا کہنا ہے: قاسم سلیمانی خالی ہاتھوں سے برائی کے خلاف بھلائی کی جدوجہد کر رہے ہیں! جعفریان کے لئے قاسم سلیمانی خطے میں اس انقلابی نظریہ کی بقا کی علامت اور دستاویز ہیں۔ جعفریان اپنے آپ کو اسلامی انقلاب ایران کے معاشرتی انصاف اور ایران کی حدود سے باہر اس انقلاب کی برآمد کے نظریہ کے قائل ہیں۔
اسلامی جمہوریہ اپنے 38ویں سال میں ہے اور آہستہ آہستہ وہ اپنے انقلابی کردار سے دور ہورہی ہے۔ ٹیکنوکریٹس نے حسن روحانی کی اعتدال پسند حکومت میں مرکزی کردار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور وہ 19 مئی 2017 ء کو حسن روحانی کی صدارت کا دوسرا دور اقتدار سنبھالنے کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ (یہ رپورٹ ایران میں حالیہ صدارتی انتخابات سے دو ہفتہ قبل کی ہے۔
ایران-عراق جنگ کے سابق کمانڈر ز، اسٹاف ، بزنس مین اور سیاستدانوں ۔ جیسے باقر قالیباف صدارتی انتخاب میں روحانی کے حریف ۔میں تبدیلی آ چکی ہے ، لیکن ایرانی جنرل سلیمانی اسی طرح صبح اٹھ کر پوری دنیا پر نگاہ ڈالتا ہیں اور ایسی نگاہ جو ایرانی سرحدوں سے باہر ہے۔
اسلامی انقلاب کے آغاز سے ہی وہ (قاسم سلیمانی) جنگ لڑ رہے ہیں اور انہوں نے ہماری طرح آرام دہ اور پرسکون زندگی نہیں گزاری ہے۔ ان جیسے لوگ بستر پر آسانی سے مرنے سے ڈرتے ہیں۔ وہ شہید ہو نا چاہتے ہیں۔
سلیمانی 2009ء میں عراقی سرحد پر کیمرے کے سامنے اپنی خواہش کا یوں اظہار کرتے ہیں: میدان جنگ انسانیت کی کھوئی ہوئی جنت ہے۔ ایسی جنت جہاں انسانوں کا تقویٰ اور عمل اعلی مقام پر قرار پاتا ہے۔ آج قاسم سلیمانی ایک پر سکون آواز کے ساتھ ایک طاقتور اور خود ساختہ آدمی ہیں گویا وہ جبرئیل گارسیا مارکیز کا ناول پڑھ رہے ہیں۔
اصل میں سلیمانی جنوبی ایران کے شہرکرمان میں ایک کسان کا بیٹے ہیں جو بہت غریب تھا۔ وہ 13 سال کی عمر میں تعمیراتی کارکنوں کے لئے 5 سال کے لازمی اسکول کے بعد ، صوبے کے مرکز میں چلے جاتے ہیں، اور یہ وہ وقت تھا جب 1979 ء میں اسلامی انقلاب برپا ہوا ۔ 22 سال کی عمر میں ، اس چھوٹے ، خوبصورت ، ثقافت سے محبت کرنے والے ، اور پرہیزگار نوجوان نے بیگی پتلون اور کالر والی قمیض پہننے کے بجائے نوزائیدہ فوج کی وردی پہن لی اوروہ سپاہ ِپاسداران انقلاب میں شامل ہوگیا۔
انہوں نے سپاہ پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی تا کہ وہ سرسخت انقلابی ، علماء اور قوم پرستوں نیز جن لوگوں کو چھان بین کے بغیر حکومت نے بھرتی کیا تھا ، کے ساتھ شامل ہو کر فروری 1979 ء میں شاہ کی حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں فوجی طاقت کے خلا کو پُر کر سکیں۔
آج جس چیز کی وہ خلوص نیت سے پرورش کر رہے ہیں اور اسے زندہ رکھنے کی کوشش کررہے ہیں وہ عراق کے ساتھ جنگ کے ہیرووں اور آس پاس کی مساجد کے رضاکار نوجوانوں میں پرانے جنگجوؤں کی یاد ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ اگر سلیمانی نے اپنے لئے ایک مضبوط شہرت بنا رکھی ہے تو اس کی وجہ کمانڈو آپریشن میں ان کی کمانڈ اور محاذ جنگ میں دشمن کے ٹھکانوں کی شناسائی ہے۔
صدام حسین کے دور اقتدار میں ایران -عراق جنگ میں عراقی ریڈیو نے انہیں ایک افسانہ کہتے ہوئے ایک دشمن بھی کہا تھا جسے نابود ہونا چاہئے۔ سلیمانی نے عراق میں شہدا سے محبت کرنا سیکھی۔
مغربی دنیا پر ان کاعدم اعتماد اوربدگمانی کی وجہ ایران-عراق جنگ کے دوران صدام حسین کی مغربی حمایت ہے اور خاص طور پر جب سابق عراقی ڈیکٹیٹر نے ایران کے خلاف میدان جنگ میں عام شہریوں کے خلاف کیمیائی گیس کے بموں کا استعمال کیا اور مغرب نے اس کی مذمت تک نہیں کی۔
ایران۔ عراق جنگ ختم ہونے کے بعد سلیمانی نے اپنے آبائی شہر (کرمان) میں پاسداران انقلاب کی کمان سنبھالی اور اس کے بعد انہیں پڑوسی صوبہ سیستان اور بلوچیستان بھیج دیا گیا تاکہ سنی اقلیتی باغیوں اور منشیات کے اسمگلروں کا افغان سرحد پرمقابلہ کیا جاسکے۔ اس کے بعد انہیں 1998 ء میں کابل میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے ٹھیک ایک یا دو سال بعد قدس فورس کا کمانڈر مقرر کیا گیا جو اس وقت ایران کے لئے ایک ناکامی تصور کی جا رہی تھی۔
روحانی کی حکومت کے طرفدار اصلاح پسند صحافی فرشاد قربانپور کہتے ہیں: ہم نے اس کا نام اس کے فوراً بعد سنا جب جولائی 1999 ء میں تہران میں طلباء کی جانب سے ایک بڑے مظاہرے کا آغاز ہوا۔ سپاہ پاسداران کے متعدد کمانڈروں کی جانب سے دستخط شدہ ایک خط منتشر ہوا جس میں اصلاح پسند صدر محمد خاتمی سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ بدامنی بند کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ورنہ وہ اس میں خود مداخلت کریں گے۔
البتہ اس زمانے تک سلیمانی حقیقت میں مشہور نہیں ہوئے تھے۔ اس وقت وہ فوجی مشینری میں ایک ماہر شخص تھے، کمانڈروں میں سے ایک ماہر کمانڈر جو ایران کی نوجوان سول سوسائٹی پر مغرب کے اثر و رسوخ کے بارے میں کافی فکر مندتھے۔ ان کمانڈروں کو مغربی ثقافت کے نفوذ کا خطرہ محسوس ہو رہا تھا ، جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ اسلامی انقلاب کے لئے بہت بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔
جبکہ اس زمانے میں سلیمانی ایرانی طاقت کے مرکز میں زیادہ معروف شخصیت کے حامل نہیں تھے۔ لیکن ان کی ایک خصوصیت یہ تھی وہ بہت جلد اپنے آپ کو ایک ماہر( مدبّر) فوجی کی حیثیت سے (عمل میں ) عملی میدان میں بھی ممتاز بنا لیتے تھے ۔
11 ستمبر 2001 ء کو خودکش بم دھماکوں کے فورا بعد ہی امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے اور قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ ایران کو اپنی سرحدوں پر امریکی فوجیوں کی موجودگی پر گہری تشویش تھی۔ تاہم سلیمانی نے تہران میں ایک خطرناک تحریک چلانے کی ہمت کی۔ جو امریکیوں سے نفرت اور ان کے ساتھ تعاون نہ کرنا ایک سرخ لکیر شمار ہوتی تھی۔
سوئٹزرلینڈ کے جنیوا کے ایک ہوٹل میں ایرانی سفارتکاروں نے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر سفارت کار ریان کروکر سے خفیہ ملاقات کی جس میں سلیمانی نے مرکزی کردار ادا کیا۔ بعد میں کروکر نے دی نیویارک کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ اس ملاقات کے دوران انہوں نے ایرانیوں سے طالبان کی فوجی پوزیشن ، منصوبوں اور آپریشنل منصوبوں کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں جنہیں انہوں نے خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب