لغوی اعتبار سے بصیرت ، دین میں پائداری ، استدلال، علم ، ہوشیاری اور گواہ کے معنی میں ہے۔ [1] اور اصطلاح میں ایک خاص روشنی اور نور ہے جو وحی اور امام ؑ کے چراغ کی روشنی کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے جو انسان کے وجود کی گہرائی میں چراغ بصیرت ہے۔ [2] بصیرت کے فاقد انسانوں میں انسانی زندگی کا فقدان ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کے خیالات اندھیرے میں ہیں اور وہ حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے اور اسی وجہ سے وہ ترقی اور سعادت کے راستے کو بھی پہچان نہیں پاتے ۔ انسان کی قدر و قیمت اس کی بصیرت کی قسم سے وابستہ ہے۔[3] جنرل قاسم سلیمانی نے ذوالفقارنامی میڈل حاصل کیا جو ان کی حکمت عملی اور جنگی کاروائیوں کی منصوبہ بندی کی وجہ سے تھا اور اس کے نتیجہ میں مطلوبہ نتائج ملے اور انہوں نے اپنی بصیرت کو عملی میدان میں بھی ثابت کیا۔ اہل بصیرت کی ایک نشانی تقویٰ اور خدا کی یاد ہے۔ یہ ایسی خصوصیت تھی کہ ہمیشہ جنرل قاسم سلیمانی میں رہی ہے۔ دینی احکامات پر تاکید اور دینی احکامات کی پابندی پر محتاطانہ نظر ان کی زندگی کے بہت سے مراحل میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ اسی طرح انہیں ہمیشہ ذکر خدا میں دیکھا جا تا تھا، اور وہ ہر حال میں دینی احکامات کی پابندی کی کوشش کرتے تھے، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اے خدا کے بندو جان لو کہ تقویٰ ایک مضبوط اور ناقابل شکست قلعہ ہے۔[4]
[1] علی اکبر دهخدا، لغتنامه، ج 1، ص124۔
[2] محمد محمدی ری شهری، مبانی شناخت، ص417-409۔
[3] پرتال جامع علوم انسانی، بصیرت در کلام امام علی، فاطمه مظفری۔
[4] نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی،خطبه157، ص292۔
[1] علی اکبر دهخدا، لغتنامه، ج 1، ص124۔
[2] محمد محمدی ری شهری، مبانی شناخت، ص417-409۔
[3] پرتال جامع علوم انسانی، بصیرت در کلام امام علی، فاطمه مظفری۔
[4] نہج البلاغہ، ترجمہ محمد دشتی،خطبه157، ص292۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب