مواد

اقدار، عقائد اور کرشماتی لیڈر


Jan 19 2021
اقدار، عقائد اور کرشماتی لیڈر
ذاتی محرکات
جنرل سلیمانی ایک جنگی پہلوان اور حقیقی وطن پرست شخص ہے جس نے انقلاب کے بعد مشکل حالات میں سپاہ پاسداران انقلاب میں شمولیت اختیار کی جب ایک طرف کردستان میں داخلی جنگ اور عراقی جارحیت پسندوں کے ساتھ مختلف محاذوں پر گھمسان کی جنگ جاری تھی۔ جنگ کے دوران سپاہیوں کی جان بچانے کے لئے وہ خود کو خطرے میں ڈالتے تھے۔ معتبر ذرائع کے مطابق 11 تیر 1361 کو جنرل سلیمانی عراقی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتے ہوتے بچ گئے۔ ان خبروں میں جنرل سلیمانی کی احتیاطی تدابیر اور جانثاری کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔
اقدار، عقائد اور کرشماتی لیڈر
قاسم سلیمانی جنگی پہلوان اور حقیقی معنوں میں اپنے ملک کے وفادار ہیں جو انقلاب کے بعد سپاہ پاسداران میں شامل ہوگئے۔ ان دنوں ایک طرف کردستان میں خانہ جنگی کی کیفیت تھی اور دوسری طرف عراقی حملے کے بعد سرحدوں پر عراقی فوج کے ساتھ پنجہ  آزمائی ہورہی تھی۔ جنرل سلیمانی جنگ کے دوران دشمن کی نگرانی کرتے وقت اپنے ماتحت جوانوں کی جان پچانے کے لئے ہمیشہ اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے تھے۔ معتبر ذرائع کے مطابق 1361  میں دشمن کے ساتھ ہونے والے تصادم میں قاسم سلیمانی عراقی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہونے سے بال بال بچ گئے۔ اس رپورٹ میں جنرل سلیمانی کی احتیاطی تدابیر اور فداکاری انجام دیتے ہوئے مشکلات کے سامنے خود کو پیش کرنے کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ ذرائع کی جانب سے جنرل سلیمانی کی زندگی کے سیاسی پہلو پر بھی تبصرے کے بجائے انہیں فقط ایک جنگجو کمانڈر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔قاسم سلیمانی  جس وقت کرمان میں عام مزدور کی حیثیت سے معماری کا کام کرتے تھے، انہوں نے ورزش کے ساتھ ساتھ مردانہ اخلاق کو پرورش دینے پر بھی توجہ دی۔ ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ نے جنرل سلیمانی کے نظریات اور افکار کو تشکیل دینے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر پوشیدہ مردانہ صلاحیتوں  کو آشکار کرنے کا بھی  موقع فراہم کیا۔ ان دنوں درپیش جنگی ماحول  نےان کے اندر ایک کرشماتی لیڈر کی خصوصیات پیدا کرنے اور انہیں پروان چڑھانے میں موثر کردار ادا کیا۔ جنرل سلیمانی جنگی کاروائیوں سے پہلے اور بعد کی تقریروں میں شہداء سے معافی مانگتے ہوئے اور شہادت نصیب نہ ہونے پر گریہ کرتے ہوئے اپنے ماتحت سپاہیوں کو شدید متاثر کرتے تھے۔ حملوں سے پہلے ہر سپاہی سے بغلگیر ہوتے اور گریہ کرتے ہوئے ان کو فارغ کرتے تھے۔ وہ اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی اور انہیں نفسیاتی طور پر مضبوط بنانے کے ان احساسات اور جذبات کو ابھارتے تھے۔ ان سے بغلگیر ہوکر جنگ میں جانے والے بیشتر سپاہی شہید ہوگئےجس نے شہید سلیمانی کی شخصیت پر انمٹ نقوش چھوڑے۔ جنگ کے خاتمے سے آج تک  انہوں نے تقریبا ہر خطاب اور گفتگو میں شہداء کا تذکرہ کیا ہے۔ حالیہ خطابات میں انہوں نے اعتقادی مسائل مثلا اتحاد بین المسلمین، اتحاد بین المومنین اور آزادی فلسطین جیسے موضوعات پر خصوصی توجہ دی ہے ۔ اس طرح انہوں نے ثابت کیا کہ عراقی جارحیت کے سامنے ایران کا دفاع کرتے ہوئے وطن پرست جنرل کا لقب ان کی شخصیت کی صحیح عکاسی نہیں کرتا۔ انہوں نے کئی تعجب انگیز دعوے بھی کئے کہ ایران اور عراق کے درمیان ہونے والی جنگ  آسان اور سستی تھی۔ اسی طرح انہوں نے اسرائیل ایران کے میزائلوں کی زد میں ہونے کا دعوی بھی کیا ہے۔ جنرل سلیمانی کے بارے میں معلومات کا ذخیرہ کم ہونے کی وجہ سے ان شخصیت کے اندر رونما ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں اندازہ کرنا مشکل ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان کے یہ نظریات شروع سے ہوں لیکن کسی مجبوری کی وجہ سے اب تک انہیں بیان کرنے سے قاصر تھے یا بیان کرنے کے باوجود کسی نے توجہ نہیں دی۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب