قاسم سلیمانی نے کہا پہلے میری باری ہے پھر آپ کی، تو میں نے کہا کہ جناب اسلام کو آپ کی ضرورت ہے، قاسم سلیمانی نے جواب دیا کہ اسلام کو نہ ہی میری ضرورت ہے نہ ہی آپ کی۔
حاجی کو جب آخری بار دیکھا وہ اپنے آفس میں تھے، مجھ سے ایک کام مانگا اور کچھ وضاحت دی، ہمیشہ تاکید کرتے تھے: بیٹا، اس میں غلطی نہیں کرنا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے، مجھے یہ چاہیئے۔ میں نے کہا حاجی میں جانتا ہوں، کہا کہ نہیں، پہلے کہتے ہو کہ جانتے ہو پھر جب کچھ مانگتا ہوں تو کوئی دوسری چیز لے آتے ہو اور بعد میں معذرت خواہی کرتے ہو، ۔۔۔۔۔ مزاحیہ انداز میں کہتے تھے،
ایک بار جب وہ تہران میں ہمارے کام کے آفس کے نماز ہال میں تشریف لائے ، نماز کے بعد ، سب لوگ ان کے آس پاس جمع ہوجاتے تھے، سب کے ساتھ ہنسی مذاق میں بات کرتے تھے، میں بھی آگے گیا اور حاج قاسم کے ساتھ مصافحہ کیا، اور کہا کہ حاجی دعا کریں کہ شہید ہوجاوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ اب میری داڑھی سیفد ہوچکی ہے مجھے شہید ہونا چاہیئے، پہلے میری باری ہے پھر آپ کی، تو میں نے کہا کہ حاجی اسلام کو آپ کی ضرورت ہے، حاجی نے جواب دیا کہ اسلام کو نہ ہی میری ضرورت ہے نہ ہی آپ کی۔
حاج قاسم ایک بہت ہی دلچسپ شخصیت تھی، ایک بار میری ان سے گفتگو ہوئی جو میرے لئے بہت دلچسپ تھی، ایک اہم ذمہ داری کے وقت ہم سینٹر میں تھے۔ بچوں نے ایک مقام پر آپریشن کیا ، آپریشن بہت مشکل تھا اور وہ اسے مزید برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حاجی نے سینٹرمیں خبر دی، میں نے وائرلس پر تھا اور جواب دیا، میں نے ان کی آواز کو پہچان لیا، میں نے کہا ، حاجی ، حاضر خدمت ہیں بتائیں۔”انہوں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: فلانی ہوں، آپ کا نوکر ہوں، بہت ہی سخت لہجے میں کہا کہ خدا کے نوکر بنو، فلاں شخص سے کہو کہ کچھ دیر برداشت کریں، ان سے کہو کچھ منٹ صبر کریں، بیک اپ فوج آرہی ہے، میرے لیئَے یہ بہت دلچسپ تھا کہ ان سخت حالات میں بھی مجھے یہ کہا کہ خدا کے نوکر بنو۔
حاجی کو جب آخری بار دیکھا وہ اپنے آفس میں تھے، مجھ سے ایک کام مانگا اور کچھ وضاحت دی، ہمیشہ تاکید کرتے تھے: بیٹا، اس میں غلطی نہیں کرنا، میں جو کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے، مجھے یہ چاہیئے۔ میں نے کہا حاجی میں جانتا ہوں، کہا کہ نہیں، پہلے کہتے ہو کہ جانتے ہو پھر جب کچھ مانگتا ہوں تو کوئی دوسری چیز لے آتے ہو اور بعد میں معذرت خواہی کرتے ہو، ۔۔۔۔۔ مزاحیہ انداز میں کہتے تھے،
ایک بار جب وہ تہران میں ہمارے کام کے آفس کے نماز ہال میں تشریف لائے ، نماز کے بعد ، سب لوگ ان کے آس پاس جمع ہوجاتے تھے، سب کے ساتھ ہنسی مذاق میں بات کرتے تھے، میں بھی آگے گیا اور حاج قاسم کے ساتھ مصافحہ کیا، اور کہا کہ حاجی دعا کریں کہ شہید ہوجاوں، تو انہوں نے جواب دیا کہ اب میری داڑھی سیفد ہوچکی ہے مجھے شہید ہونا چاہیئے، پہلے میری باری ہے پھر آپ کی، تو میں نے کہا کہ حاجی اسلام کو آپ کی ضرورت ہے، حاجی نے جواب دیا کہ اسلام کو نہ ہی میری ضرورت ہے نہ ہی آپ کی۔
حاج قاسم ایک بہت ہی دلچسپ شخصیت تھی، ایک بار میری ان سے گفتگو ہوئی جو میرے لئے بہت دلچسپ تھی، ایک اہم ذمہ داری کے وقت ہم سینٹر میں تھے۔ بچوں نے ایک مقام پر آپریشن کیا ، آپریشن بہت مشکل تھا اور وہ اسے مزید برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ حاجی نے سینٹرمیں خبر دی، میں نے وائرلس پر تھا اور جواب دیا، میں نے ان کی آواز کو پہچان لیا، میں نے کہا ، حاجی ، حاضر خدمت ہیں بتائیں۔”انہوں نے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے کہا: فلانی ہوں، آپ کا نوکر ہوں، بہت ہی سخت لہجے میں کہا کہ خدا کے نوکر بنو، فلاں شخص سے کہو کہ کچھ دیر برداشت کریں، ان سے کہو کچھ منٹ صبر کریں، بیک اپ فوج آرہی ہے، میرے لیئَے یہ بہت دلچسپ تھا کہ ان سخت حالات میں بھی مجھے یہ کہا کہ خدا کے نوکر بنو۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب