وہ انقلاب کے فرزند تھے۔ وہ امام خمینی کے فرزند تھے۔ آخری نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات کو ختم کروں، وہ نکتہ واضح ہے اور واضح ہوجائے گا۔ وہ کس چیز کے لئے تڑپتے تھے؟ کس چیز کے لئے کوشش کرتے تھے؟ اُن کی فکر کیا تھی؟ حاج قاسم نے اپنے وصیت نامہ میں لکھا: “خداوند! میرا تیرا شکر گزار ہوں کہ تو نے مجھے اپنے صالح بندہ عزیز از جان خمینی کے بعد، اپنے ایک اور صالح بندہ کی راہ پر گامزن رکھا کہ جس کی مظلومیت بہت زیادہ ہے، ایسا انسان جو آج اسلام، تشیع، ایران اور اسلام کی سیاسی دنیا کا حکیم و دانا ہے، ہر دل عزیز خامنہ ای، کہ میری جان اُن پر قربان ہوجائے۔ میرے محترم ایرانی بہن بھائیوں! میری اور مجھ جیسی ہزاروں جانیں آپ پر قربان ہوجائیں؛ جیسا کہ آپ نے اسلام اور ایران پر سینکڑوں جانیں نچھاور کیں۔ اصول کا دفاع اور حفاظت کریں۔ اصول یعنی ولی فقیہ، خاص طور پر اس مظلوم دانا شخص کو جو دین، فقہ، عرفان و معرفت پر تسلط رکھتا ہے، خامنہ ای عزیز کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھیں۔ سیاسی مسائل میں جہاں پر اسلام، جمہوری اسلامی، مقدسات اور ولایت فقیہ کی بحث پیش کی جاتی ہے، یہ خدائی رنگ ہیں۔ خدا کے ہر رنگ کو ہر دوسرے رنگ پر ترجیح دیں۔ ولی کی نصیحت کو سنیں، صحیح راستہ یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو مدنظر رکھے بغیر انقلاب، جمہوری اسلامی اور ولی فقیہ کی حمایت کریں۔ جمہوری اسلامی، اقدار اور ولایت فقیہ امام خمینی کی میراث ہیں اور سنجیدگی کے ساتھ ان کی حمایت ہونی چاہیے۔” سردار سلیمانی کی نگاہ یہ تھی۔ ولایت سے عشق کرتے تھے، عوام سے عشق کرتے تھے، اسلام اور جمہوری اسلامی سے عشق کرتے تھے اور انھوں نے اپنی جان اسلام، انقلاب اور ایرانی عوام پر نچھاور کردی۔”
اُس نے اپنی جان انقلاب، اسلام اور ایرانی عوام پر نثار کردی
Jun 10 2021
رائے
ارسال نظر برای این مطلب