ہم مضبوط قدموں سے شہید سلیمانی کے عظیم راستے کو جاری رکھیں گےجنرل شہید حاج قاسم سلیمانی ایک مکمل اور انتھک مجاہد تھے، رہبر معظم انقلاب کے مطابق شہید حاج قاسم سلیمانی مکتبِ اسلام اورامام خمینیؒ کے خونی مکتب کے تربیت یافتہ تھے۔
شہید حاج قاسم سلیمانی ایک ماہر دشمن شناس تھے، انہوں نے زمانے کے پیچیدہ حالات میں ترجیحات کوبخوبی پہچانا اورانہوں نے وجود کی گہرائی سے یہ سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا سرچشمہ امریکہ اور صہیونی ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے جراثیم کے خلاف لڑنے کے لئے ہرممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے اپنی تیز نظر وں سے سمجھ لیا کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد عنصر مقاومت ہے۔مغرب کے ڈرپوک و بزدل اور ان کے اتحادی بین الاقوامی اور علاقائی پیشرفت میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ لوگ دشمنوں کو مسلسل مراعات دے رہے ہیں
لیکن شہید حاج قاسم سلیمانی نے مسلسل دشمن سے فائدہ اٹھایا اور اسے شکست دی۔ آج یمن، عراق، شام، پاکستان اور افغانستان میں مزاحمتی محاذ بہت منسجم ہو چکا ہے۔ آج مزاحمت کے تمام محاذدشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں اورعالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔ مزاحمتی محاذ کی یکجہتی اور ہم آہنگی شہید حاج قاسم سلیمانی کی کاوشوں کی مرہون منت ہے، وہ ولایت فقیہ کے مطیع تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گئےاور لوگ اپنے پورے وجود سے ان سے محبت کرتے تھے،ان کی عظمت نے دشمن کی نیندیں اڑا دی تھیں اور دشمنوں پر ان کا اچھا خاصا رعب و دبدبہ تھا۔
اس عظیم و عالمی شہید نے جدوجہد کی اورسب کو دکھا دیا کہ جنگ وجدوجہد کا کوئی وقت نہیں ہوتا، وہ اپنی انتھک کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شہید حاج قاسم سلیمانی رہبر معظم انقلاب کے الفاظ کے مطابق عالم اسلام کے ایک بین الاقوامی شہید تھے، تاکید کی کہ مغربی دنیانے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا صرف نعرہ لگایا لیکن ہمارے بہادر جنرل نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور انہوں نے دکھایا کہ نعرہ بازی اور عمل کے درمیان کتنی دوری ہے۔ وہ خدا کی راہ میں مجاہدوں اور تیار دلوں کے درمیان ایک بین الاقوامی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہمارا فرض ہے کہ ہم شہید حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور اس مشن کو بہترین انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں جو انہوں نے ہمارے کندھوں پر رکھا ہے۔
اس کینسر والے غدود کو ختم کرنے کے لئے آج ہمیں پہلے سےکہیں زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس عظیم شہید نے ہمیں سکھایا کہ دشمن جس زبان کو سمجھتا ہے وہ مزاحمت کی زبان ہے۔ دشمن کبھی بھی مذاکرات کی زبان سے پیچھے نہیں ہٹے گا، مذاکرات کا دم بھرنے والے لوگ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواز کیسے پیش کر یں گے؟ کچھ عہدیداروں نے مغرب سے گھنٹوں اور مہینوں تک مذاکرات جاری رکھے لیکن کیا ان مذاکرات کا نتیجہ حاج قاسم کی شہادت تھی؟ آج ہمیں حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہئے۔
شہید حاج قاسم سلیمانی ایک ماہر دشمن شناس تھے، انہوں نے زمانے کے پیچیدہ حالات میں ترجیحات کوبخوبی پہچانا اورانہوں نے وجود کی گہرائی سے یہ سمجھ لیا کہ تمام فسادات کا سرچشمہ امریکہ اور صہیونی ہیں۔ لہذا انہوں نے فساد کے جراثیم کے خلاف لڑنے کے لئے ہرممکن کوشش کی۔ شہید حاج قاسم سلیمانی نے اپنی تیز نظر وں سے سمجھ لیا کہ عالم اسلام کی نجات کا واحد عنصر مقاومت ہے۔مغرب کے ڈرپوک و بزدل اور ان کے اتحادی بین الاقوامی اور علاقائی پیشرفت میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ لوگ دشمنوں کو مسلسل مراعات دے رہے ہیں
لیکن شہید حاج قاسم سلیمانی نے مسلسل دشمن سے فائدہ اٹھایا اور اسے شکست دی۔ آج یمن، عراق، شام، پاکستان اور افغانستان میں مزاحمتی محاذ بہت منسجم ہو چکا ہے۔ آج مزاحمت کے تمام محاذدشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہیں اورعالمی استکبار کا مقابلہ کرنے کے لئے سرگرم ہیں ۔ مزاحمتی محاذ کی یکجہتی اور ہم آہنگی شہید حاج قاسم سلیمانی کی کاوشوں کی مرہون منت ہے، وہ ولایت فقیہ کے مطیع تھے اور ہمیشہ اپنے آپ کو ولایت کا سپاہی سمجھتے تھے اسی وجہ سے وہ دلوں کے امیر بن گئےاور لوگ اپنے پورے وجود سے ان سے محبت کرتے تھے،ان کی عظمت نے دشمن کی نیندیں اڑا دی تھیں اور دشمنوں پر ان کا اچھا خاصا رعب و دبدبہ تھا۔
اس عظیم و عالمی شہید نے جدوجہد کی اورسب کو دکھا دیا کہ جنگ وجدوجہد کا کوئی وقت نہیں ہوتا، وہ اپنی انتھک کوششوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شہید حاج قاسم سلیمانی رہبر معظم انقلاب کے الفاظ کے مطابق عالم اسلام کے ایک بین الاقوامی شہید تھے، تاکید کی کہ مغربی دنیانے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا صرف نعرہ لگایا لیکن ہمارے بہادر جنرل نے دہشت گردی کا مقابلہ کیا اور انہوں نے دکھایا کہ نعرہ بازی اور عمل کے درمیان کتنی دوری ہے۔ وہ خدا کی راہ میں مجاہدوں اور تیار دلوں کے درمیان ایک بین الاقوامی ہم آہنگی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے، ہمارا فرض ہے کہ ہم شہید حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو جاری رکھیں اور اس مشن کو بہترین انداز میں پایۂ تکمیل تک پہنچائیں جو انہوں نے ہمارے کندھوں پر رکھا ہے۔
اس کینسر والے غدود کو ختم کرنے کے لئے آج ہمیں پہلے سےکہیں زیادہ سخت محنت اور تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔اس عظیم شہید نے ہمیں سکھایا کہ دشمن جس زبان کو سمجھتا ہے وہ مزاحمت کی زبان ہے۔ دشمن کبھی بھی مذاکرات کی زبان سے پیچھے نہیں ہٹے گا، مذاکرات کا دم بھرنے والے لوگ حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کا جواز کیسے پیش کر یں گے؟ کچھ عہدیداروں نے مغرب سے گھنٹوں اور مہینوں تک مذاکرات جاری رکھے لیکن کیا ان مذاکرات کا نتیجہ حاج قاسم کی شہادت تھی؟ آج ہمیں حاج قاسم سلیمانی کے راستے کو زیادہ سنجیدگی سے جاری رکھنا چاہئے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب