سختی اور کمزوری کے اعتبارسے شجاعت کے بہت سے مرتبے ہیں اور ہر مرتبہ اپنی جگہ سختی اور کمزوری کے مرتبوں کا حامل ہو تا ہے۔ شجاعت کا پہلا مرتبہ ، میدان جنگ میں دشمن پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ خداوندمتعال نے اس مرتبہ کی جانب یوں اشارہ کیا ہے: بے شک خدا نے اسے تم پر منتخب کیا ہے اور اس کے علم اور قابلیت میں اضافہ کیا ہے۔ جنرل قاسم سلیمانی بھی ان کےتمام جنگی ساتھیوں کے مطابق دفاع مقدس، عراق اور شام میں داعش اور افغانستان میں طالبان کے خلاف کاروائیوں میں فاتح رہے ہیں اسی وجہ سے ان کے چاہنے والوں نے انہیں “اینٹی ٹیروریسٹ “لقب دیا ہے۔
شجاعت کا دوسرا مرتبہ نفس امّارہ اور نفسانی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: اشجع النّاس ِمَن غلبَ علی ھواہ” لوگوں میں سب سے شجاع وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات پر غالب ہو۔ اس رتبہ میں بھی جناب قاسم سلیمانی نے عملی طور پر دکھایا کہ وہ لوگوں میں سے سب سے شجاع ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی فوجی وردی کبھی نہیں اتاری اور ٹیبل لگا کر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کے بجائے انہوں نے محاذ جنگ میں فوجی چھاؤنی میں بیٹھنا انتخاب کیا۔ انہوں نے مقام و منصب اور دنیا سے لگاؤ سے منہ موڑ لیا۔ حتی ایسے مواقع پر بھی انہوں نے اپنی تنخواہ نہیں لی جب انہیں اپنی زندگی میں اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا۔
شجاعت کا دوسرا مرتبہ نفس امّارہ اور نفسانی خواہشات پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: اشجع النّاس ِمَن غلبَ علی ھواہ” لوگوں میں سب سے شجاع وہ ہے جو اپنی نفسانی خواہشات پر غالب ہو۔ اس رتبہ میں بھی جناب قاسم سلیمانی نے عملی طور پر دکھایا کہ وہ لوگوں میں سے سب سے شجاع ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنی فوجی وردی کبھی نہیں اتاری اور ٹیبل لگا کر اس کے سامنے کرسی پر بیٹھنے کے بجائے انہوں نے محاذ جنگ میں فوجی چھاؤنی میں بیٹھنا انتخاب کیا۔ انہوں نے مقام و منصب اور دنیا سے لگاؤ سے منہ موڑ لیا۔ حتی ایسے مواقع پر بھی انہوں نے اپنی تنخواہ نہیں لی جب انہیں اپنی زندگی میں اقتصادی مشکلات کا سامنا تھا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب