رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ۱۷ جنوری ۲۰۲۰ء کو تہران میں نماز جمعہ کے خطبے دیتے ہوئے فرمایا:”جب ہم اپنےعزیز کمانڈر کو ، ایک فکر، ایک راستے، ایک سبق آموز مکتب کی نگاہ سے دیکھیں تو اس وقت اس مسئلے کے بارے میں واضح ہوجائے گا”
مذہبی اور انقلاب اسلامی سے لیئے گئے سیاسی ادب میں مکتب ۔ شہید مطہری کے بقول تین اجزاء پر مشتمل ہے: جہان بینی(وجود اور عدم وجود) نظریہ (انجام دینا یا نہ دینا)اور ان دونوں کے بارے میں ادراک، جو حقیقت میں ان دونوں کے مابین رابطے اور مضبوطی کا عنصرہے۔لیکن جب نظریئےکے ساتھ ساتھ کسی شخص کا نام لیا جاتا ہے، یا شہر یا فنکارانہ اور سوچنے کےانداز کے بارے میں بولا جاتا ہے، جیسے دینی مدارس کے افکار اور نظریئے کہ جو کبھی کبھی متعدد افکار کو افراد، خاص شہر ، جیسے مکتب نجف، مکتب سامرا، مکتب قم وغیرہ میں تقسیم کرتے ہیں، یا جیسے امام خمینی کےمکتب، علامہ کےمکتب، آخوند خراسانی کےمکتب وغیرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مکاتب اور دانشورانہ مباحثوں سے اس مکتب کی انفرادی خصوصیت ، انداز اور نظریات کے اختلافات اور مربوطات کو اجاگر کیا جائے، ورنہ وہ عظیم مکتب اور فکر جس پر مزاحمتی شہداء خاص طور پر حاج قاسم سلیمانی فخر کرتے تھے اور ملک اور خطے کے عظیم ہیرو بن گئے وہ پیارے اسلام کا مکتب ہے۔
لیکن وہ چیز جو جنرل سلیمانی کو نمایاں کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کی ذاتی خصوصیات کو ایک مکتب کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، وہ ان متعدد علاقوں میں ایک خاص معنوی نظام کا پیش کرنا ہے جن میں وہ داخل ہوئے۔
اسی لیئے جب حاج قاسم کے مکتب کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے، تو ان کے نئے انداز اور نئے طریقے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے جسے حاج قاسم سلیمانی نے اسلام کے عظیم مکتب اور امام خمینی اور مقام معظم رہبری کے کچھ افکار سے لیتے ہوئےدفاع، مزاحمت اور علاقائی سفارت کاری کو جنم دیا، اور ان پر عمل کرتے ہوئے ، اپنے نام سے ایک نیامکتب بنا لیا، جو کسی بھیدوسرے مکتب کی خصوصیات کی طرح ، پڑھانے اور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آج کی خواہشمند نسل کوپڑہایا سمجھا یاجاسکتا ہے، خاص طور پر چونکہ اس نے اپنا امتحان اچھی طرح سے پاس کیا اور اس طریقے نے کامیابی کے ساتھ کام کیا۔
قاسم سلیمانی کے مکتب کے تصور کے اس ابتدائی نظریہ کے ساتھ ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مکتب میں تین بنیادی عناصر ہیں: عقلا نیت، معنویت، اور ولایت پر مکمل ایمان۔اور ان کا مرکزی نقطہ توحیدی نگاہ ہے جو اس حرکت کا اصلی نقطہ ہے اور وہ حاج قاسم کی عقلانیت کو صرف دنیاوی عقلانیت کی طرف نہیں جانے دیتا، بلکہ یہ وہ عقلانیت ہے جو ہر قسم کے حوادث میں بلندی کی طرف حرکت کرتی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف خداوند متعال جو حقیقی عشق ہے اس سے ملاقات اور شہادت کو ہی اصلی انعام اور ثواب سمجھتی ہے۔
نتیجہ یہ کہ یہی وہ عناصر اور ستون ہیں جو حاج قاسم کے لیئے رول ماڈل بن جاتے ہیں کہ جن کی خصوصیات، ظلم اور استکبارسے نفرت، ہر رکاوٹ کو توڑنا، انقلابی ہونا، انقلاب اور اسلام کی جانب اکثر افراد کو لانا اور بہت کم افراد کو ان سے دور کرنا ہیں، اور اسی وجہ سے ان کے فراق میں سب لوگ روتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہجنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا انتقام امریکہ جیسی بڑی طاقت کو خطے سے نکال کر لیں گے، اس لیئے کہ جنرل سلیمانی اتنی عظیم شخصیت ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی بھی انتقام ان کے برابر نہیں ہوسکتا۔
مزاحمتی دوستوں کی زبان سے مزاحمت کا کمانڈر
ایک زندہ اسلامی اور عالمی نمونہ
ہم جنرل حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں جو کچھ بھی کہیں اور لکھیں ، پھر بھی جیسا ان کا حق ہے وہ حق ادا نہیں کیا جاسکتا، اس عظیم شہید کی زندگی کے مختلف قیمتی اور ممتاز پہلو کو زبان اور قلم سے بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی یہ سب کی ذمہ داری ہیکہ کچھ نا کچھ بیان کیا جائے، اس مضمون میں ، مزاحمت کے دوستوں اور ساتھیوں سے اس عظیم شہید کی شخصیت کی اہم جہتوں پر ایک مختصر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ، کہ حتیٰ جس کا خالص لہو بھی نیکی کا باعث ہے اور ملک ، خطے اور عالم اسلام کے لئے برکات کا باعث تھا اور رہے گا:
مکتب، راستہ اور سبق آموز اسکول
شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں بہترین ، انتہائی خوبصورت اور حقیقت پسندانہ تعابیر، مقام معظم رہبری کی ہیں، رہبر معظم انقلاب کہ جن کا قاسم سلیمانی کے ساتھ ایک خاص دوستانہ رابطہ بھی تھا، انہوں نے قم کی عوام کے ساتھ ملاقات کے دوران، قاسم سلیمانی کو اپنا” اچھا ، عزیز، بہادر اور خوش قسمت دوست” قرار دیا، رہبر معظم کی یہ تعبیر ، نہ صرف مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے عہدے سے ، بلکہ شہید سلیمانی کے بارے میں مزاحمتی محاذ کے ایک دوست اور ساتھی کے نقطہ نظر سے بھی یہ بے مثال تعبیر ہے اور اس عظیم شہید کی پوشیدہ اور بڑی جہتوں کو ظاہر کرتی ہے۔
مندرجہ ذیل عبارات جو رہبر معظم کے قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیتی پیغام، شہید کے اہل خانہ سے ملاقات ، قم کے عوام سے ملاقات اور نمازجمعہ کے خطبوں سی نکالی گئی ہیں، سب سے اہم عبارات ہیں:
مزاحمت کا بین الاقوامی چہرہ؛ اسلام اور امام خمینی اسکول (رہ) کے مکتب کے تربیت شدہ افراد کی ایک نمایاں مثال؛ دشمن اور لوگوں کی باتوں سے بالکل بے خوف، دکھ اور تکلیف برداشت کرنے والا؛ شہادت کا عاشق ، محب اور متنی؛ قائل کنندہ دلیری اور تدبیر؛ مخلص؛ فوجی میدان کا جنگجو کمانڈر؛ میدان جنگ میں بھی شرعی حدود کا سخت پابند؛ انتہائی انقلابی اور انقلاب میں
ڈھلا ہوا؛ مغربی ایشیاء میں امریکہ کے تمام غیر قانونی منصوبوں کو ناکام بنانے والا؛ ریا کاری نہ کرنے والا؛ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے مشہور اور مضبوط کمانڈر؛ نہ صرف ایک شخص بلکہ ایک سوچ ، ایک فکر، اور ایک سبق آموز اسکول۔
اسلام اور دنیا کا ایک زندہ نمونہ
رہبر معظم انقلاب کے بعد ، “سید حسن نصراللہ” کو شہید سلیمانی کا قریبی اور انتہائی گہرا دوست سمجھا جانا چاہئے ، جو ان سے نہ صرف تنظیمی اور کام کے تعلقات رکھتے تھے بلکہ اس عظیم شہید کے ساتھ ایک خصوصی جذباتی رشتہ بھی رکھتے تھے۔انہوں نے قاسم سلیمانی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے، خاص طور پر اس تقریر میں جو انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے کی، شہید سلیمانی کو صیہونی حکومت پر حزب اللہ کی فتح کی ایک سب سے اہم وجہ قرار دیا ۔ سید حسن نصراللہ کے مطابق ، شہید سلیمانی وہ تھے جنہوں نے ، اسلامی جمہوریہ کے قاصد کی حیثیت سے ، صہیونی حکومت کی نظر میں لبنان کو جو صہیونی حکومت کی نگاہ میں ایک کمزور ملک تھا اسےایک مضبوط ملک اور اس حکومت کے لئے ایک اسٹریٹجک خطرے والے ملک میں تبدیل کردیا۔سید حسن نصراللہ کے مطابق، جنرل قاسم سلیمانی نے جو بھی مدد ہمارے ساتھ کی تھی، اس کے لیئے کبھی بھی نہ ہی خفیہ اور نہ ہی علنی طور پر کوئی احسان جتلایا اور نہ ہی منت گزاری کی، اور یہی کہا کہ یہ کوششیں قیامت کے دن میرا سامان ہوں گی۔لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے مطابق عاجزی ، محبت اور اخوت اور ہر میدان میں حاج قاسم کی موجودگی، ایک زندہ اسلامی اور عالمی نمونہ ہے، اور ہمیں اس کردار اور شخصیت کو لوگوں کے سامنے متعارف کرانا چاہیئے۔
سید حسن نصراللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں یہ کہتے ہوئے کہ انہیں اس عاقبت بخیر اور اس عظیم شہادت پر رشک ہے، تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم وہ لوگ ہیں جنہیں سردار سلیمانی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے، اوران کے مقاصد کو حاصل کرنے اور ان کا پرچم اٹھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔
مجاہد اور آزاد کمانڈر
یمن کی اسلامی تنظیم انصاراللہ کے سکریٹری جنرل عبد الملک الحوثی نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے موقع پر ایک تقریر میں اس شہید کے اعزاز میں کہا: حالیہ حملے اور ایک مجرمانہ آپریشن میں مسلم امہ کے ایک کمانڈر بیٹے کو نشانہ بنایا گیا، ایک مسلمان ، ایک مجاہد ، ایک آزاد اور عظیم کمانڈر ، جس کا نام حاج قاسم سلیمانی ہے۔ یہ آدمی اسی امت کا ہے جس امت کے ہم مسلمان ہیں اور وہ اس امت کے بچوں میں سے ایک ہے ، کسی اور وابستگی سے پہلے ، وہ مسلمان ہے اور اس کا تعلق اسلام اور اس امت سے ہے۔
امریکی رعب کو کچلنے والا
حزب اللہ لبنان کے نائب سیکرٹری جنرل، شیخ نعیم قاسم کا شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کے بارے میں یہ ماننا ہیکہ : حاک قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کے دوران بہت سارے کارنامے انجام دیئے اور ان کے پروگرام کا ایک حصہ خطے سے امریکی فوجیوں کو نکالنا تھا، امریکیوں کو باہر نکالنے کا فیصلہ ہی ان کی شہادت کا بھی سبب بنا ، جو خود ہی اس خطے کے لئے دور رس فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔شہید سلیمانی کے قتل نے ، اس نے خطے میں ایک نئی صورتحال پیدا کردی جس نے امریکی خوف اور دبدبے کو ختم کرتے ہوئے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیااور خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار کردی۔
شہید قدس
فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت، حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ، شہید قاسم سلیمانی کو ایک ایسا کمانڈر سمجھتے ہیں جنہوں نے فلسطین اور مزاحمت کی راہ میں بہت سی قربانیاں دیں اور آج اس مقام تک پہونچے، اور وہ اس مزاحمت کی طاقت اور استحکام اور مثبت نتائج میں اضافے کا باعث بنے، کمانڈر شہید سلیمانی جنہوں نے اپنی ساری زندگی فلسطین کی حمایت میں صرف کی اور وہ قدس فورس کے اعلیٰ سربراہ تھے، میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ عظیم کمانڈر ، قدس کا شہید ، قدس کا شہید ، قدس کا شہید ہے۔
قدس کی آزادی کی نذر
تحریک فتح کے رہنماؤں میں سے ایک، عباس زکی، شہیدسلیمانی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: انہوں نے فلسطین ، مسجد اقصی ، القدس ، اور دنیا کے تمام مظلوم اور ستم دیدہ افراد کے لئے اپنی جان کو نذر کر رکھا تھا، قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی شیطانی گروہوں ، انتہا پسندی اور ظلم و ستم سے لڑنے کے لئے وقف کردی تھی اور اس کی اصل فکر ، قدس اور فلسطین تھے۔
قاسم سلیمانی کے قتل کا فیصلہ سے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اور ان کا دائرہ مشرق وسطی کی سرحدوں سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے، جس نے بھی جنرل سلیمانی کی طرح قدس کی مدد کی وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوگا، اور جس نے بھی دشمن کا ساتھ دیا وہ نْصان اٹھائے گا اور اس کا حشر، تاریخ کے صفحات میں ایک کوڑے دان کی طرح ہوجائے گا۔
داعش کے خلاف جنگ میں ایک اہم اور کلیدی کردار
عراق کی قومی حکمت تحریک کے سربراہ، سید عمار حکیم نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیتی پیغام جاری کرتے ہوئے انہیں ان کمانڈروں میں سے شمار کیا جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جہاد اور قربانیوں میں گزارا ، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے میدانوں اور داعش پر فتح حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مزاحمت کے محور کے لئے زندگی کو وقف کردیا
شام کے صدر، بشار اسد نے رہبر انقلاب کو ارسال کردہ تعزیتی پیغام میں شہیدسلیمانی کو ایک کردار کے طور پر بیان کیا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قومی کام ،ملک اور مزاحمتی محور کی خدمت،دہشت گردی اور اس کے حامیوں کے خلاف جنگ ، اور اقوام عالم کے حقوق کے دفاع کے لیئے گزار دی۔
مجھے جنرل سلیمانی پر فخر ہے
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم ، شہید سلیمانی اور شہیدابو مہدی المہندس کے اعلی مقام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ان دونوں عزیز اور باعظمت شہداء نے کبھی بھی امریکہ کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا، اور بدعنوانی کے خاتمے اور اسلامی معاشرے کےمحروم افراد کی مدد کی کوشش کرتے رہے، حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس، دو مومن شخص تھے جنہوں نےجہاد کے راستے میں قدم اٹھایا اور اسلام کی راہ میں جان دینے کا جذبہ رکھتے تھے، امریکہ کی کمزور پالیسی، نے اسلام کے لئے کام کرنے والے ان شہدا کو برداشت نہیں کرسکی۔
مذہبی اور انقلاب اسلامی سے لیئے گئے سیاسی ادب میں مکتب ۔ شہید مطہری کے بقول تین اجزاء پر مشتمل ہے: جہان بینی(وجود اور عدم وجود) نظریہ (انجام دینا یا نہ دینا)اور ان دونوں کے بارے میں ادراک، جو حقیقت میں ان دونوں کے مابین رابطے اور مضبوطی کا عنصرہے۔لیکن جب نظریئےکے ساتھ ساتھ کسی شخص کا نام لیا جاتا ہے، یا شہر یا فنکارانہ اور سوچنے کےانداز کے بارے میں بولا جاتا ہے، جیسے دینی مدارس کے افکار اور نظریئے کہ جو کبھی کبھی متعدد افکار کو افراد، خاص شہر ، جیسے مکتب نجف، مکتب سامرا، مکتب قم وغیرہ میں تقسیم کرتے ہیں، یا جیسے امام خمینی کےمکتب، علامہ کےمکتب، آخوند خراسانی کےمکتب وغیرہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دوسرے مکاتب اور دانشورانہ مباحثوں سے اس مکتب کی انفرادی خصوصیت ، انداز اور نظریات کے اختلافات اور مربوطات کو اجاگر کیا جائے، ورنہ وہ عظیم مکتب اور فکر جس پر مزاحمتی شہداء خاص طور پر حاج قاسم سلیمانی فخر کرتے تھے اور ملک اور خطے کے عظیم ہیرو بن گئے وہ پیارے اسلام کا مکتب ہے۔
لیکن وہ چیز جو جنرل سلیمانی کو نمایاں کرتی ہے جس کی وجہ سے ان کی ذاتی خصوصیات کو ایک مکتب کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے، وہ ان متعدد علاقوں میں ایک خاص معنوی نظام کا پیش کرنا ہے جن میں وہ داخل ہوئے۔
اسی لیئے جب حاج قاسم کے مکتب کے بارے میں گفتگو کی جاتی ہے، تو ان کے نئے انداز اور نئے طریقے کے بارے میں گفتگو ہوتی ہے جسے حاج قاسم سلیمانی نے اسلام کے عظیم مکتب اور امام خمینی اور مقام معظم رہبری کے کچھ افکار سے لیتے ہوئےدفاع، مزاحمت اور علاقائی سفارت کاری کو جنم دیا، اور ان پر عمل کرتے ہوئے ، اپنے نام سے ایک نیامکتب بنا لیا، جو کسی بھیدوسرے مکتب کی خصوصیات کی طرح ، پڑھانے اور سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور آج کی خواہشمند نسل کوپڑہایا سمجھا یاجاسکتا ہے، خاص طور پر چونکہ اس نے اپنا امتحان اچھی طرح سے پاس کیا اور اس طریقے نے کامیابی کے ساتھ کام کیا۔
قاسم سلیمانی کے مکتب کے تصور کے اس ابتدائی نظریہ کے ساتھ ، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس مکتب میں تین بنیادی عناصر ہیں: عقلا نیت، معنویت، اور ولایت پر مکمل ایمان۔اور ان کا مرکزی نقطہ توحیدی نگاہ ہے جو اس حرکت کا اصلی نقطہ ہے اور وہ حاج قاسم کی عقلانیت کو صرف دنیاوی عقلانیت کی طرف نہیں جانے دیتا، بلکہ یہ وہ عقلانیت ہے جو ہر قسم کے حوادث میں بلندی کی طرف حرکت کرتی ہے اور اس کا مقصد صرف اور صرف خداوند متعال جو حقیقی عشق ہے اس سے ملاقات اور شہادت کو ہی اصلی انعام اور ثواب سمجھتی ہے۔
نتیجہ یہ کہ یہی وہ عناصر اور ستون ہیں جو حاج قاسم کے لیئے رول ماڈل بن جاتے ہیں کہ جن کی خصوصیات، ظلم اور استکبارسے نفرت، ہر رکاوٹ کو توڑنا، انقلابی ہونا، انقلاب اور اسلام کی جانب اکثر افراد کو لانا اور بہت کم افراد کو ان سے دور کرنا ہیں، اور اسی وجہ سے ان کے فراق میں سب لوگ روتے ہیں اور قسم کھاتے ہیں کہجنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کا انتقام امریکہ جیسی بڑی طاقت کو خطے سے نکال کر لیں گے، اس لیئے کہ جنرل سلیمانی اتنی عظیم شخصیت ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی بھی انتقام ان کے برابر نہیں ہوسکتا۔
مزاحمتی دوستوں کی زبان سے مزاحمت کا کمانڈر
ایک زندہ اسلامی اور عالمی نمونہ
ہم جنرل حاج قاسم سلیمانی کے بارے میں جو کچھ بھی کہیں اور لکھیں ، پھر بھی جیسا ان کا حق ہے وہ حق ادا نہیں کیا جاسکتا، اس عظیم شہید کی زندگی کے مختلف قیمتی اور ممتاز پہلو کو زبان اور قلم سے بیان نہیں کیا جا سکتا، لیکن پھر بھی یہ سب کی ذمہ داری ہیکہ کچھ نا کچھ بیان کیا جائے، اس مضمون میں ، مزاحمت کے دوستوں اور ساتھیوں سے اس عظیم شہید کی شخصیت کی اہم جہتوں پر ایک مختصر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے ، کہ حتیٰ جس کا خالص لہو بھی نیکی کا باعث ہے اور ملک ، خطے اور عالم اسلام کے لئے برکات کا باعث تھا اور رہے گا:
مکتب، راستہ اور سبق آموز اسکول
شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں بہترین ، انتہائی خوبصورت اور حقیقت پسندانہ تعابیر، مقام معظم رہبری کی ہیں، رہبر معظم انقلاب کہ جن کا قاسم سلیمانی کے ساتھ ایک خاص دوستانہ رابطہ بھی تھا، انہوں نے قم کی عوام کے ساتھ ملاقات کے دوران، قاسم سلیمانی کو اپنا” اچھا ، عزیز، بہادر اور خوش قسمت دوست” قرار دیا، رہبر معظم کی یہ تعبیر ، نہ صرف مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کے عہدے سے ، بلکہ شہید سلیمانی کے بارے میں مزاحمتی محاذ کے ایک دوست اور ساتھی کے نقطہ نظر سے بھی یہ بے مثال تعبیر ہے اور اس عظیم شہید کی پوشیدہ اور بڑی جہتوں کو ظاہر کرتی ہے۔
مندرجہ ذیل عبارات جو رہبر معظم کے قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیتی پیغام، شہید کے اہل خانہ سے ملاقات ، قم کے عوام سے ملاقات اور نمازجمعہ کے خطبوں سی نکالی گئی ہیں، سب سے اہم عبارات ہیں:
مزاحمت کا بین الاقوامی چہرہ؛ اسلام اور امام خمینی اسکول (رہ) کے مکتب کے تربیت شدہ افراد کی ایک نمایاں مثال؛ دشمن اور لوگوں کی باتوں سے بالکل بے خوف، دکھ اور تکلیف برداشت کرنے والا؛ شہادت کا عاشق ، محب اور متنی؛ قائل کنندہ دلیری اور تدبیر؛ مخلص؛ فوجی میدان کا جنگجو کمانڈر؛ میدان جنگ میں بھی شرعی حدود کا سخت پابند؛ انتہائی انقلابی اور انقلاب میں
ڈھلا ہوا؛ مغربی ایشیاء میں امریکہ کے تمام غیر قانونی منصوبوں کو ناکام بنانے والا؛ ریا کاری نہ کرنے والا؛ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے مشہور اور مضبوط کمانڈر؛ نہ صرف ایک شخص بلکہ ایک سوچ ، ایک فکر، اور ایک سبق آموز اسکول۔
اسلام اور دنیا کا ایک زندہ نمونہ
رہبر معظم انقلاب کے بعد ، “سید حسن نصراللہ” کو شہید سلیمانی کا قریبی اور انتہائی گہرا دوست سمجھا جانا چاہئے ، جو ان سے نہ صرف تنظیمی اور کام کے تعلقات رکھتے تھے بلکہ اس عظیم شہید کے ساتھ ایک خصوصی جذباتی رشتہ بھی رکھتے تھے۔انہوں نے قاسم سلیمانی کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے، خاص طور پر اس تقریر میں جو انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شہادت کی مناسبت سے کی، شہید سلیمانی کو صیہونی حکومت پر حزب اللہ کی فتح کی ایک سب سے اہم وجہ قرار دیا ۔ سید حسن نصراللہ کے مطابق ، شہید سلیمانی وہ تھے جنہوں نے ، اسلامی جمہوریہ کے قاصد کی حیثیت سے ، صہیونی حکومت کی نظر میں لبنان کو جو صہیونی حکومت کی نگاہ میں ایک کمزور ملک تھا اسےایک مضبوط ملک اور اس حکومت کے لئے ایک اسٹریٹجک خطرے والے ملک میں تبدیل کردیا۔سید حسن نصراللہ کے مطابق، جنرل قاسم سلیمانی نے جو بھی مدد ہمارے ساتھ کی تھی، اس کے لیئے کبھی بھی نہ ہی خفیہ اور نہ ہی علنی طور پر کوئی احسان جتلایا اور نہ ہی منت گزاری کی، اور یہی کہا کہ یہ کوششیں قیامت کے دن میرا سامان ہوں گی۔لبنان میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل کے مطابق عاجزی ، محبت اور اخوت اور ہر میدان میں حاج قاسم کی موجودگی، ایک زندہ اسلامی اور عالمی نمونہ ہے، اور ہمیں اس کردار اور شخصیت کو لوگوں کے سامنے متعارف کرانا چاہیئے۔
سید حسن نصراللہ نے جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کی خبر کے ردعمل میں یہ کہتے ہوئے کہ انہیں اس عاقبت بخیر اور اس عظیم شہادت پر رشک ہے، تاکید کرتے ہوئے کہتے ہیں: ہم وہ لوگ ہیں جنہیں سردار سلیمانی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے، اوران کے مقاصد کو حاصل کرنے اور ان کا پرچم اٹھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہیئے۔
مجاہد اور آزاد کمانڈر
یمن کی اسلامی تنظیم انصاراللہ کے سکریٹری جنرل عبد الملک الحوثی نے جنرل سلیمانی کی شہادت کے موقع پر ایک تقریر میں اس شہید کے اعزاز میں کہا: حالیہ حملے اور ایک مجرمانہ آپریشن میں مسلم امہ کے ایک کمانڈر بیٹے کو نشانہ بنایا گیا، ایک مسلمان ، ایک مجاہد ، ایک آزاد اور عظیم کمانڈر ، جس کا نام حاج قاسم سلیمانی ہے۔ یہ آدمی اسی امت کا ہے جس امت کے ہم مسلمان ہیں اور وہ اس امت کے بچوں میں سے ایک ہے ، کسی اور وابستگی سے پہلے ، وہ مسلمان ہے اور اس کا تعلق اسلام اور اس امت سے ہے۔
امریکی رعب کو کچلنے والا
حزب اللہ لبنان کے نائب سیکرٹری جنرل، شیخ نعیم قاسم کا شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کے بارے میں یہ ماننا ہیکہ : حاک قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی کے دوران بہت سارے کارنامے انجام دیئے اور ان کے پروگرام کا ایک حصہ خطے سے امریکی فوجیوں کو نکالنا تھا، امریکیوں کو باہر نکالنے کا فیصلہ ہی ان کی شہادت کا بھی سبب بنا ، جو خود ہی اس خطے کے لئے دور رس فوائد کا باعث بن سکتا ہے۔شہید سلیمانی کے قتل نے ، اس نے خطے میں ایک نئی صورتحال پیدا کردی جس نے امریکی خوف اور دبدبے کو ختم کرتے ہوئے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیااور خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار کردی۔
شہید قدس
فلسطین کی اسلامی تحریک مزاحمت، حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ہنیہ، شہید قاسم سلیمانی کو ایک ایسا کمانڈر سمجھتے ہیں جنہوں نے فلسطین اور مزاحمت کی راہ میں بہت سی قربانیاں دیں اور آج اس مقام تک پہونچے، اور وہ اس مزاحمت کی طاقت اور استحکام اور مثبت نتائج میں اضافے کا باعث بنے، کمانڈر شہید سلیمانی جنہوں نے اپنی ساری زندگی فلسطین کی حمایت میں صرف کی اور وہ قدس فورس کے اعلیٰ سربراہ تھے، میں اعلان کرتا ہوں کہ وہ عظیم کمانڈر ، قدس کا شہید ، قدس کا شہید ، قدس کا شہید ہے۔
قدس کی آزادی کی نذر
تحریک فتح کے رہنماؤں میں سے ایک، عباس زکی، شہیدسلیمانی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: انہوں نے فلسطین ، مسجد اقصی ، القدس ، اور دنیا کے تمام مظلوم اور ستم دیدہ افراد کے لئے اپنی جان کو نذر کر رکھا تھا، قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی شیطانی گروہوں ، انتہا پسندی اور ظلم و ستم سے لڑنے کے لئے وقف کردی تھی اور اس کی اصل فکر ، قدس اور فلسطین تھے۔
قاسم سلیمانی کے قتل کا فیصلہ سے سنگین نتائج سامنے آئیں گے، اور ان کا دائرہ مشرق وسطی کی سرحدوں سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے، جس نے بھی جنرل سلیمانی کی طرح قدس کی مدد کی وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو ہوگا، اور جس نے بھی دشمن کا ساتھ دیا وہ نْصان اٹھائے گا اور اس کا حشر، تاریخ کے صفحات میں ایک کوڑے دان کی طرح ہوجائے گا۔
داعش کے خلاف جنگ میں ایک اہم اور کلیدی کردار
عراق کی قومی حکمت تحریک کے سربراہ، سید عمار حکیم نے بھی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت پر تعزیتی پیغام جاری کرتے ہوئے انہیں ان کمانڈروں میں سے شمار کیا جنہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جہاد اور قربانیوں میں گزارا ، اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے میدانوں اور داعش پر فتح حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
مزاحمت کے محور کے لئے زندگی کو وقف کردیا
شام کے صدر، بشار اسد نے رہبر انقلاب کو ارسال کردہ تعزیتی پیغام میں شہیدسلیمانی کو ایک کردار کے طور پر بیان کیا جنہوں نے اپنی پوری زندگی قومی کام ،ملک اور مزاحمتی محور کی خدمت،دہشت گردی اور اس کے حامیوں کے خلاف جنگ ، اور اقوام عالم کے حقوق کے دفاع کے لیئے گزار دی۔
مجھے جنرل سلیمانی پر فخر ہے
آیت اللہ شیخ عیسی قاسم ، شہید سلیمانی اور شہیدابو مہدی المہندس کے اعلی مقام کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں: ان دونوں عزیز اور باعظمت شہداء نے کبھی بھی امریکہ کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا، اور بدعنوانی کے خاتمے اور اسلامی معاشرے کےمحروم افراد کی مدد کی کوشش کرتے رہے، حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس، دو مومن شخص تھے جنہوں نےجہاد کے راستے میں قدم اٹھایا اور اسلام کی راہ میں جان دینے کا جذبہ رکھتے تھے، امریکہ کی کمزور پالیسی، نے اسلام کے لئے کام کرنے والے ان شہدا کو برداشت نہیں کرسکی۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب