شہید شہادت سے پہلے فقط ایک فرد اور محض ایک شخص ہوتا ہے۔ لیکن شہادت کے بعد وہ ایک مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ تبدیلی کیسے ہوتی ہے؟ شہید ایک شخص سے مکتب میں خود بخود تبدیل نہیں ہو جاتا بلکہ شہید کے شخص سے مکتب میں تبدیل ہونے کیلئے شہید کے ورثاء، شہید کی قوم، شہید کے پیروکاروں اور شہید کے محبّوں کو کچھ اقدامات کرنے پڑتے ہیں، جن کے بعد شہید ایک شخص سے مکتب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
ان اقدامات میں سے پانچ اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ شہید کے ذکر کو زندہ رکھتے ہوئے اس کے افکار، سوچ، نظریات، اقوال اور میدان عمل میں حضور کی نشر و اشاعت اور اسے مختلف طریقوں سے آئندہ نسلوں تک پہنچانا۔
۲۔ پہلے اقدام میں بیان شدہ نکات کی نشرو اشاعت اور انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانے کیلئے منظم، مضبوط، پختہ اور عمدہ پلاننگ کرنا۔
۳۔ اس عمدہ، منظم، مضبوط اور پختہ پلاننگ کیلئے افرادی قوت کو جذب کرنا، ان افراد کی مربوطہ تربیت کرنا، ان کیلئے ایسے تعلیمی کورسز کا اہتمام کرنا کہ وہ عمدہ پلاننگ کے اہل ہو جائیں۔
۴۔ پلاننگ کرنے والے افراد کی تعلیم و تربیت کیلئے ایسے ادارے بنانا، جو ان منظور نظر افراد کی تربیت کرسکیں، چونکہ حوزہ علمیہ فقیہ تو بنا سکتا ہے، ایسی شخصیات بنا کر معاشرے کے سپرد نہیں کرسکتا۔ یونیورسٹی بھی پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان وغیرہ تو بنا سکتی ہے، لیکن ایسی شخصیات بنانے سے عاجز ہے۔ لہذا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے علاوہ ایسے ادارے بنانا بھی ضروری ہیں، جن سے تعلیم و تربیت پانے والے شہید عارف حسینی، شہید سلیمانی، شہید عباس موسوی، شہید شیخ احمد یاسین اور شہید نمر بن کر نکلیں۔
۵۔ اپنے ادارے، اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو شخصی ادارے یا مخصوص لوگوں کی پارٹی کے رنگ میں رنگنے کی بجائے اسے قومی، ملی و عمومی ادارے اور تنظیم میں تبدیل کرنا۔
ان اقدامات میں سے پانچ اقدامات بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔
۱۔ شہید کے ذکر کو زندہ رکھتے ہوئے اس کے افکار، سوچ، نظریات، اقوال اور میدان عمل میں حضور کی نشر و اشاعت اور اسے مختلف طریقوں سے آئندہ نسلوں تک پہنچانا۔
۲۔ پہلے اقدام میں بیان شدہ نکات کی نشرو اشاعت اور انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچانے کیلئے منظم، مضبوط، پختہ اور عمدہ پلاننگ کرنا۔
۳۔ اس عمدہ، منظم، مضبوط اور پختہ پلاننگ کیلئے افرادی قوت کو جذب کرنا، ان افراد کی مربوطہ تربیت کرنا، ان کیلئے ایسے تعلیمی کورسز کا اہتمام کرنا کہ وہ عمدہ پلاننگ کے اہل ہو جائیں۔
۴۔ پلاننگ کرنے والے افراد کی تعلیم و تربیت کیلئے ایسے ادارے بنانا، جو ان منظور نظر افراد کی تربیت کرسکیں، چونکہ حوزہ علمیہ فقیہ تو بنا سکتا ہے، ایسی شخصیات بنا کر معاشرے کے سپرد نہیں کرسکتا۔ یونیورسٹی بھی پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان وغیرہ تو بنا سکتی ہے، لیکن ایسی شخصیات بنانے سے عاجز ہے۔ لہذا حوزہ علمیہ اور یونیورسٹی کے علاوہ ایسے ادارے بنانا بھی ضروری ہیں، جن سے تعلیم و تربیت پانے والے شہید عارف حسینی، شہید سلیمانی، شہید عباس موسوی، شہید شیخ احمد یاسین اور شہید نمر بن کر نکلیں۔
۵۔ اپنے ادارے، اپنی تنظیم اور اپنی پارٹی کو شخصی ادارے یا مخصوص لوگوں کی پارٹی کے رنگ میں رنگنے کی بجائے اسے قومی، ملی و عمومی ادارے اور تنظیم میں تبدیل کرنا۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب