،مجلس وحدت مسلمین ضلع راولپنڈی و اسلام آباد کے زیر اہتمام شہدائے جہاں بالخصوس شہدائے پاکستان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے تکریم شہدائے کانفرنس کا انعقاد امام بارگاہ جامعۃ الصادق میں ہوا جس میں مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام، فرزندان شہدائے ملت، بزرگوں ، نوجوانوں، بچوں، خواتین اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نے کثیر تعداد میں شرکت کی ۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے شہید قاسم سلمانی، شہید ابو مہدی مہندس ان کے رفقا و دیگر شہدائے ملک و ملت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہر سال عشرہ تکریم شہدا منانے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعدعالمی استکباری قوتوں نے ایک نیا مشرق وسطی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کا مقصد مسلم ممالک کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا تھا۔سویت یونین کی تقسیم کے بعد امریکہ سپر پاور کے طور پر نمودار ہوا۔نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لیے امریکہ نے اس خطے میں جنگیں شروع کیں۔ ہماری خوش بختی تھی کہ ایران میں ایک ایسی الہی طاقت نے انقلاب برپا کیا جو انبیا کے راستوں پر چلتے ہوئے عالمی استعماری قوتوں سے ٹکرانا جانتی تھی۔عالمی استکبار کے خلاف ڈٹنے کاحوصلہ صرف اس قیادت کو حاصل ہوتا ہے جس کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو۔انقلاب ایران کے قائد امام خمینی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مظلومین کو قوت عطا کی۔ان کی تربیت میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور شہید قاسم سلمانی جیس شخصیات نے پرورش پائی ۔ حاج شہید قاسم سلمانی پوری دنیا کے مظلومین کے لیے دٹے رہے۔وہ کربلائی فکر کے پیرو تھے۔ان کی شخصیت نے نظام ولایت فقیہ میں جنم لیا۔وہ اولیا کی صفات رکھتے تھے۔ دنیا بھر کے
جرنیلوں کے لیے وہ رول ماڈل ہیں
انہوں نے عالم اسلام کے خلاف امریکہ کے مذموم عزائم اور ورلڈ آرڈر کو ناکام بنایا۔ امریکہ کی شکست دراصل عالم اسلام کی فتح کا شادیانہ تھی۔سپر پاور کے زعم میں مبتلا امریکہ کو اگر لگام نہ ڈالی جاتی تو وہ مسلمان ریاستوں کو ٹکرے ٹکرے کردیتا۔غلیل اور پتھروں سے دشمن کا مقابلہ کرنے والے فلسطینوں کو شہید قاسم سلمانی نے انہیں ڈرون و مزائیلوں کی جدید ٹیکنالوجی سکھائی ۔انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔وہ پاکستان کے دشمنوں کی ناکامی چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سب کو شہید قاسم سلمانی سے عشق ہے۔
مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا شہید قاسم سلمانی کے نام سے دشمنان اسلام سخت خوفزدہ ہیں۔سوشل میڈیا اور ویب پر فلٹرز لگائے گئے ہیں تاکہ ایک عظیم شہید کے نام کو نشر نہ ہونے دیا جائے۔مسلمانوں کے تمام مقامات مقدسہ مسلمانوں کے لیے واجب الاحترام ہیں۔ قاسم سلمانی کا امت مسلمہ پر احسان ہے کہ اس نے کربلا معلی اور شام کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کی۔شہید قاسم سلمانی کی جرات و استقامت کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا خواب دیکھنے والی ریاست اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔داعش کو اگر شام میں بدترین شکست نہ دی گی ہوتی تو ان کا اگلا ہدف پاکستان کی سرزمین ہوتا۔ ہر باشعور پاکستانی قاسم سلمانی کی جرات مندانہ کوششوں کا احسان مند ہے۔مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد نقوی نے کانفرنس کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج اس شہید کی یاد منائی جا رہی ہے جس کا قبیلہ انسانیت تھا۔ شہید قاسم سلمانی مظلوموں کی آس تھے ۔
انہوں نے مظلومین کو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر سکھایا۔ایم دبلیو ایم کے مرکزی رہنما نثار فیضی نے شہدائے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید جن عظیم مقاصد کی تکمیل میں اپنی زندگی گزارتا ہے اس کی شہادت سے ان مقاصد کو مزید نکھار ملتا ہے۔مقاومتی تحریکوں کے باعث امت مسلمہ کے وقار اور طاغوت و استعمار پر دبدبے میں اضافہ ہوا ہے۔ہم اپنے شہدا کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو آخری دم تک جاری رکھا جائے گا۔ علامہ احمد اقبال بہشتی نے کہا کہ شہدا کو یاد رکھنے والی قومیں ہی زندہ رہتی ہیں۔جن شہدا کی یاد میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی وہ کمال کی راہوں پر تھے۔انہوں نے خون دے کر بہترین معاشرے کی آبیاری کی۔شہید عارف حسینی، شہید قاسم سلمانی اور دیگر گراں قدر شہدا ایک عطر کی شیشی کی مانند ہیں جن کی خوشبو ٹوٹنے کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلی ہے۔
علامہ سید محمد علی نقوی نے کہا کہ شہدا کا اللہ تعالی کے ہاں عظیم مقام ہے ۔ وہ زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق بھی پاتے ہیں۔ شہادت کا رتبہ مقدر والوں کے حصے میں آتا ہے۔شہید مکمل ادارک اور احساس کے ساتھ بلند اہداف کے حصول کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔دین کے لیے جان قربان کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔علامہ سید یاسر سبزواری نے کہا کہ شہدا کو یاد کرنے سے جذبہ شہادت کو تقویت ملتی ہے۔شہیدقاسم سلمانی نے اپنی زندگی کو شہادت کے لیے اس طرح پیش کیا جس طرح کربلا میں شہزادہ قاسم علیہ السلام نےخود کو پیش کیا تھا۔ قاسم سلمانی نے کربلا کی پیروی کا عملی اظہار کیا۔علامہ شریف نفیس نے کہا کہ ہم حسین علیہ السلام کی ملت ہیں۔ہم ملتِ شہادت ہیں۔ہمارے زندگی کا مقصد عہد شہادت کو پورا کرنا ہے۔سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے ماننے والے زندگی جیسی قیمتی ترین چیز کا سودا شہادت کے سوا کسی دوسری بے قیمت چیز کے عوض کبھی نہیں کرتے۔
ایم ڈبلیو ایم ضلع اسلام آباد کے سیکرٹری جنرل ظہیر نقوی نے خطاب کرتے ہوئے شرکائے کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلمانی کی جدائی وہ زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ ہمارا تعلق ان شہداسے ہےجن کوموجودگی دشمنان اسلام کو خائف رکھتی تھی۔کانفرنس کے دوران شاعر اہلبیت ع پروفیسر تنویر حیدر،اعزاز حیدر نقوی،زوار حسین بسمل نے اپنے اپنے انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔تقریب کے اختتام پر مولانا علی اکبر کاظمی نے شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی ، وطن عزیز کی خوشحالی، امت مسلمہ کے اتحاد اور اسلام دشمن استکباری و طاغوتی قوتوں کی نابودی کے لیے دعا بھی کی گئی
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے شہید قاسم سلمانی، شہید ابو مہدی مہندس ان کے رفقا و دیگر شہدائے ملک و ملت کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ہر سال عشرہ تکریم شہدا منانے کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعدعالمی استکباری قوتوں نے ایک نیا مشرق وسطی بنانے کا منصوبہ بنایا گیا جس کا مقصد مسلم ممالک کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کرنا تھا۔سویت یونین کی تقسیم کے بعد امریکہ سپر پاور کے طور پر نمودار ہوا۔نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کے لیے امریکہ نے اس خطے میں جنگیں شروع کیں۔ ہماری خوش بختی تھی کہ ایران میں ایک ایسی الہی طاقت نے انقلاب برپا کیا جو انبیا کے راستوں پر چلتے ہوئے عالمی استعماری قوتوں سے ٹکرانا جانتی تھی۔عالمی استکبار کے خلاف ڈٹنے کاحوصلہ صرف اس قیادت کو حاصل ہوتا ہے جس کے دل میں خدا کے سوا کسی کا خوف نہ ہو۔انقلاب ایران کے قائد امام خمینی وہ شخصیت تھے جنہوں نے مظلومین کو قوت عطا کی۔ان کی تربیت میں رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای اور شہید قاسم سلمانی جیس شخصیات نے پرورش پائی ۔ حاج شہید قاسم سلمانی پوری دنیا کے مظلومین کے لیے دٹے رہے۔وہ کربلائی فکر کے پیرو تھے۔ان کی شخصیت نے نظام ولایت فقیہ میں جنم لیا۔وہ اولیا کی صفات رکھتے تھے۔ دنیا بھر کے
جرنیلوں کے لیے وہ رول ماڈل ہیں
انہوں نے عالم اسلام کے خلاف امریکہ کے مذموم عزائم اور ورلڈ آرڈر کو ناکام بنایا۔ امریکہ کی شکست دراصل عالم اسلام کی فتح کا شادیانہ تھی۔سپر پاور کے زعم میں مبتلا امریکہ کو اگر لگام نہ ڈالی جاتی تو وہ مسلمان ریاستوں کو ٹکرے ٹکرے کردیتا۔غلیل اور پتھروں سے دشمن کا مقابلہ کرنے والے فلسطینوں کو شہید قاسم سلمانی نے انہیں ڈرون و مزائیلوں کی جدید ٹیکنالوجی سکھائی ۔انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ اگر کسی نے پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے بلکہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔وہ پاکستان کے دشمنوں کی ناکامی چاہتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ ہم سب کو شہید قاسم سلمانی سے عشق ہے۔
مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر شیرازی نے کہا شہید قاسم سلمانی کے نام سے دشمنان اسلام سخت خوفزدہ ہیں۔سوشل میڈیا اور ویب پر فلٹرز لگائے گئے ہیں تاکہ ایک عظیم شہید کے نام کو نشر نہ ہونے دیا جائے۔مسلمانوں کے تمام مقامات مقدسہ مسلمانوں کے لیے واجب الاحترام ہیں۔ قاسم سلمانی کا امت مسلمہ پر احسان ہے کہ اس نے کربلا معلی اور شام کے مقامات مقدسہ کی حفاظت کی۔شہید قاسم سلمانی کی جرات و استقامت کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا خواب دیکھنے والی ریاست اپنی بقا کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔داعش کو اگر شام میں بدترین شکست نہ دی گی ہوتی تو ان کا اگلا ہدف پاکستان کی سرزمین ہوتا۔ ہر باشعور پاکستانی قاسم سلمانی کی جرات مندانہ کوششوں کا احسان مند ہے۔مرکزی سیکرٹری سیاسیات سید اسد نقوی نے کانفرنس کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج اس شہید کی یاد منائی جا رہی ہے جس کا قبیلہ انسانیت تھا۔ شہید قاسم سلمانی مظلوموں کی آس تھے ۔
انہوں نے مظلومین کو ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کا ہنر سکھایا۔ایم دبلیو ایم کے مرکزی رہنما نثار فیضی نے شہدائے کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید جن عظیم مقاصد کی تکمیل میں اپنی زندگی گزارتا ہے اس کی شہادت سے ان مقاصد کو مزید نکھار ملتا ہے۔مقاومتی تحریکوں کے باعث امت مسلمہ کے وقار اور طاغوت و استعمار پر دبدبے میں اضافہ ہوا ہے۔ہم اپنے شہدا کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں کہ ان کے مشن کو آخری دم تک جاری رکھا جائے گا۔ علامہ احمد اقبال بہشتی نے کہا کہ شہدا کو یاد رکھنے والی قومیں ہی زندہ رہتی ہیں۔جن شہدا کی یاد میں یہ کانفرنس منعقد کی گئی وہ کمال کی راہوں پر تھے۔انہوں نے خون دے کر بہترین معاشرے کی آبیاری کی۔شہید عارف حسینی، شہید قاسم سلمانی اور دیگر گراں قدر شہدا ایک عطر کی شیشی کی مانند ہیں جن کی خوشبو ٹوٹنے کے بعد زیادہ تیزی سے پھیلی ہے۔
علامہ سید محمد علی نقوی نے کہا کہ شہدا کا اللہ تعالی کے ہاں عظیم مقام ہے ۔ وہ زندہ ہیں اور خدا کے ہاں رزق بھی پاتے ہیں۔ شہادت کا رتبہ مقدر والوں کے حصے میں آتا ہے۔شہید مکمل ادارک اور احساس کے ساتھ بلند اہداف کے حصول کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔دین کے لیے جان قربان کرنے سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں۔علامہ سید یاسر سبزواری نے کہا کہ شہدا کو یاد کرنے سے جذبہ شہادت کو تقویت ملتی ہے۔شہیدقاسم سلمانی نے اپنی زندگی کو شہادت کے لیے اس طرح پیش کیا جس طرح کربلا میں شہزادہ قاسم علیہ السلام نےخود کو پیش کیا تھا۔ قاسم سلمانی نے کربلا کی پیروی کا عملی اظہار کیا۔علامہ شریف نفیس نے کہا کہ ہم حسین علیہ السلام کی ملت ہیں۔ہم ملتِ شہادت ہیں۔ہمارے زندگی کا مقصد عہد شہادت کو پورا کرنا ہے۔سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کے ماننے والے زندگی جیسی قیمتی ترین چیز کا سودا شہادت کے سوا کسی دوسری بے قیمت چیز کے عوض کبھی نہیں کرتے۔
ایم ڈبلیو ایم ضلع اسلام آباد کے سیکرٹری جنرل ظہیر نقوی نے خطاب کرتے ہوئے شرکائے کا شکریہ ادا کیا ۔انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلمانی کی جدائی وہ زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے لیے یہ امر باعث فخر ہے کہ ہمارا تعلق ان شہداسے ہےجن کوموجودگی دشمنان اسلام کو خائف رکھتی تھی۔کانفرنس کے دوران شاعر اہلبیت ع پروفیسر تنویر حیدر،اعزاز حیدر نقوی،زوار حسین بسمل نے اپنے اپنے انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔تقریب کے اختتام پر مولانا علی اکبر کاظمی نے شہدائے اسلام کے درجات کی بلندی ، وطن عزیز کی خوشحالی، امت مسلمہ کے اتحاد اور اسلام دشمن استکباری و طاغوتی قوتوں کی نابودی کے لیے دعا بھی کی گئی
رائے
ارسال نظر برای این مطلب