امریکی عہدیداروں کی حماقت پر بین الاقوامی سیاستدانوں کا ردعمل:
چک شومر، امریکی سینیٹ کی ڈموکریٹ پارٹی کے رہنما: ٹرمپ نے گانگریس کے سینئر ممبروں سے قاسم سلیمانی کے قتل (شہادت) کے بارے میں مشاورت نہیں کی تھی۔ٹرمپ کو فوجی طاقت اور ممکنہ طویل مدتی دشمنی کو بڑھانے کے لئے کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہے۔یہ اقدام امریکہ کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے قریب لے جائے گا۔یقیناً نہ ختم ہونے والی ایسی جنگ جس کا صدر نے وعدہ دیا تھا کہ وہ ہمیں اس کی جانب نہیں لے جائیں گے۔
انیس نقاش، خطے کے اسٹریٹریٹجک امور کے تجزیہ کار: واشنگٹن خطے میں اپنی تمام پالیسیوں میں ناکام ہو چکا ہے، اور یہ ایسے شرائط میں واقع ہوا ہے جب مزاحمتی محور نے حالیہ برسوں میں اس مرحلہ میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔شہید سلیمانی اور ابومہدی المہندس کے قتل پر ردعمل یقینی طور منصوبہ بندی کے تحت ہو گا اور یہ چیز مزاحمتی قوتوں کو اپنے عظیم مقاصد تک پہنچنے کا سبب بنے گی۔
نیویارک یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر: اب تک ایرانی عوام امریکی حکومت کو مصدق کے خلاف بغاوت کرنےوالی حکومت کے طور پر جانتے تھے۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے ساتھ ہی ایرانی عوام اس کے بعد امریکہ کو ایک دہشت گرد حکومت کے طور پر پہچانیں گے۔
امریکی سینیٹر کرس مرفی: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی حکومت کے پاس اس بھیانک اقدام کے ممکنہ نتائج کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟ یہ قدم ایرانیوں کے ذریعہ امریکی وزیر دفاع کے قتل کے مترادف ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اقدام ذاتی طور پر دفاعی تھا یا اعلان جنگ شمار ہوتا ہے۔اگر کوئی بیرونی ملک ہمارے وزیر دفاع کو قتل کرے تو ہم اسے جنگی جرائم سمجھیں گے اور مناسب کاروائی کا مطالبہ کریں گے۔سلیمانی بحیثیت شہید امریکہ کے لئے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔آج ہم نے اپنے آپ سے جو سوال پوچھنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قاسم سلیمانی جب زندہ تھے امریکہ کے لئے زیادہ خطرناک تھے یا اب ایک شہید کی حیثیت سے؟
۳۔اس کو ملک گیر انقلاب قرار دیا اور انہوں نے اس وقت کی ایک نہایت بے رحم حکومت کا تختہ الٹ دیا اور امریکہ کو ایران سے باہر نکال دیا اورنئی اسلامی جمہوریہ کو اس کی جگہ قرار دیا۔اسلامی انقلابی کی کامیابی کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ اندرونی اور بیرونی خطرناک سازشوں کا شکارہوگئی کہ جس سے اس جدید نظام کے قیام کو بڑے پیمانے پر خطرہ تھا، اس مرتبہ بھی ایک عظیم شہادت نے جمہوری اسلامی کو اپنی زندگی کے ایک نئے مرحلہ پر پہنچا دیا۔اسلامی انقلاب کے سپرمین اور مظلوم شخص، شہید بہشتی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے ملک میں ایک ایسی لہر دوڑا دی کہ اسلامی جمہوریہ ان تمام چالوں اور سازشوں کے خلاف مزید مضبوط اور مستحکم ہو گئی۔
لیکن انقلاب اپنی زندگی کے ایک نئے دور میں ہے، ایک ایسی زندگی جو انقلاب کے دوسرے مرحلہ کے شایانِ شان ہے جو دنیا کو ایک عالمی خورشید کے لئے تیار کرے۔ حاج قاسم کا خون وہی طاقت ہے جو اس لہر کو چلائے گا اور اپنی منزل تک پہنچائے گا۔اب ایران اور اس خطے کے دیگر حصوں میں لوگوں کے جوش و جذبے پر نظر ڈالیں کہ وہ کس طرح حاج قاسم کے ” انتقام” کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور “سخت انتقام”لینے کے لئے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔پچھلے ہفتہ رہبر معظم انقلاب نے”قومی مفادات کی پاسداری” کے بارے میں واضح طور پر بات کی اور فرمایا: ہم اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات اور مصالح کے لئے پر عزم ہیں۔ہم اپنے قومی وقار کے سختی سے پابند ہیں اور ہم ایرانی قوم کی ترقی اور عظمت کے لئے پرعزم ہیں۔ جو بھی انہیں دھمکائے گا ، ہم کسی غور و فکر کے بغیر اس کا مقابلہ کریں گے اور اس پر ضربت لگائیں گے۔۱۱۔۱۰۔۱۳۹۸ھ،ش۔ حاج قاسم کی شہادت کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے اس جرم کے مرتکبین کے خلاف”سخت انتقام”کے عنوان سے گفتگو کی:ان کے جانے سے خدا کی طاقت اور مدد سے ان کا راستہ اور ان کا کام ہرگز نہیں رکے گا اور بند نہیں ہو گا۔لیکن ایک شدید انتقام ان مجرموں کا منتظر ہے جنہوں نے گزشتہ رات کے واقعہ میں ان کے اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خون میں اپنے پلید ہاتھوں کو آلودہ کیا۔مجرموں سے بدلہ لینے کے لئے الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔آج سے ہی مجرموں کو موت کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔اسلامی جمہوریہ نے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ عقلی طور پر فیصلہ کرے گی۔ امریکی عہدیداروں کی طرح حماقت اور جلد بازی میں نہیں۔لیکن وہ اپنے اوپر جارحیت کو برداشت نہیں کرے گی اور یقیناً اس کے مرتکبین کو سخت جواب دے گی۔شہداء اپنی زندگی میں اپنے جسموں کے ذریعہ دفاع کرتے ہیں اور جانے کے بعد اپنی روحوں کے ذریعہ: وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بهِمِ منِ خَلفهِمِ الَّا خَوفٌ علَیَهمِ و لا هُم یحَزنَون” دیکھو یہ بشارت، جانے کے بعد کے بارے میں ہے، وہ جب تک زندہ ہیں ان کی جانیں اور جسم اور ان کی مادی تحریک، اسلام کی خدمت اور اسلامی معاشرہ کی خدمت میں ہے۔جب وہ جاتے ہیں تو پھر ان کی معنویت اور ان کی آوازبلند ہونا شروع ہوتی ہے۔۱۴۔۸۔۱۳۹۷ھ،ش۔ آج سے امریکی عہدیداروں کو زیادہ خطرہ محسوس کرنا چاہئے، جیسا کہ امریکی سینیٹر کرس مرفی نے اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے: سلیمانی بحیثیت شہید امریکہ کے لئے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ہاں حاج قاسم نے ابھی شروعات کی ہے۔
چک شومر، امریکی سینیٹ کی ڈموکریٹ پارٹی کے رہنما: ٹرمپ نے گانگریس کے سینئر ممبروں سے قاسم سلیمانی کے قتل (شہادت) کے بارے میں مشاورت نہیں کی تھی۔ٹرمپ کو فوجی طاقت اور ممکنہ طویل مدتی دشمنی کو بڑھانے کے لئے کانگریس کی منظوری کی ضرورت ہے۔یہ اقدام امریکہ کو ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے قریب لے جائے گا۔یقیناً نہ ختم ہونے والی ایسی جنگ جس کا صدر نے وعدہ دیا تھا کہ وہ ہمیں اس کی جانب نہیں لے جائیں گے۔
انیس نقاش، خطے کے اسٹریٹریٹجک امور کے تجزیہ کار: واشنگٹن خطے میں اپنی تمام پالیسیوں میں ناکام ہو چکا ہے، اور یہ ایسے شرائط میں واقع ہوا ہے جب مزاحمتی محور نے حالیہ برسوں میں اس مرحلہ میں نمایاں پیشرفت کی ہے۔شہید سلیمانی اور ابومہدی المہندس کے قتل پر ردعمل یقینی طور منصوبہ بندی کے تحت ہو گا اور یہ چیز مزاحمتی قوتوں کو اپنے عظیم مقاصد تک پہنچنے کا سبب بنے گی۔
نیویارک یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر: اب تک ایرانی عوام امریکی حکومت کو مصدق کے خلاف بغاوت کرنےوالی حکومت کے طور پر جانتے تھے۔ قاسم سلیمانی کے قتل کے ساتھ ہی ایرانی عوام اس کے بعد امریکہ کو ایک دہشت گرد حکومت کے طور پر پہچانیں گے۔
امریکی سینیٹر کرس مرفی: سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی حکومت کے پاس اس بھیانک اقدام کے ممکنہ نتائج کے لئے کوئی منصوبہ ہے؟ یہ قدم ایرانیوں کے ذریعہ امریکی وزیر دفاع کے قتل کے مترادف ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ یہ اقدام ذاتی طور پر دفاعی تھا یا اعلان جنگ شمار ہوتا ہے۔اگر کوئی بیرونی ملک ہمارے وزیر دفاع کو قتل کرے تو ہم اسے جنگی جرائم سمجھیں گے اور مناسب کاروائی کا مطالبہ کریں گے۔سلیمانی بحیثیت شہید امریکہ کے لئے کہیں زیادہ خطرناک ہو سکتے ہیں۔آج ہم نے اپنے آپ سے جو سوال پوچھنا ہے وہ یہ ہے کہ کیا قاسم سلیمانی جب زندہ تھے امریکہ کے لئے زیادہ خطرناک تھے یا اب ایک شہید کی حیثیت سے؟
۳۔اس کو ملک گیر انقلاب قرار دیا اور انہوں نے اس وقت کی ایک نہایت بے رحم حکومت کا تختہ الٹ دیا اور امریکہ کو ایران سے باہر نکال دیا اورنئی اسلامی جمہوریہ کو اس کی جگہ قرار دیا۔اسلامی انقلابی کی کامیابی کے ساتھ ہی اسلامی جمہوریہ اندرونی اور بیرونی خطرناک سازشوں کا شکارہوگئی کہ جس سے اس جدید نظام کے قیام کو بڑے پیمانے پر خطرہ تھا، اس مرتبہ بھی ایک عظیم شہادت نے جمہوری اسلامی کو اپنی زندگی کے ایک نئے مرحلہ پر پہنچا دیا۔اسلامی انقلاب کے سپرمین اور مظلوم شخص، شہید بہشتی اور ان کے ساتھیوں کی شہادت نے ملک میں ایک ایسی لہر دوڑا دی کہ اسلامی جمہوریہ ان تمام چالوں اور سازشوں کے خلاف مزید مضبوط اور مستحکم ہو گئی۔
لیکن انقلاب اپنی زندگی کے ایک نئے دور میں ہے، ایک ایسی زندگی جو انقلاب کے دوسرے مرحلہ کے شایانِ شان ہے جو دنیا کو ایک عالمی خورشید کے لئے تیار کرے۔ حاج قاسم کا خون وہی طاقت ہے جو اس لہر کو چلائے گا اور اپنی منزل تک پہنچائے گا۔اب ایران اور اس خطے کے دیگر حصوں میں لوگوں کے جوش و جذبے پر نظر ڈالیں کہ وہ کس طرح حاج قاسم کے ” انتقام” کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور “سخت انتقام”لینے کے لئے وقت کا انتظار کر رہے ہیں۔پچھلے ہفتہ رہبر معظم انقلاب نے”قومی مفادات کی پاسداری” کے بارے میں واضح طور پر بات کی اور فرمایا: ہم اپنے ملک اور اپنی قوم کے مفادات اور مصالح کے لئے پر عزم ہیں۔ہم اپنے قومی وقار کے سختی سے پابند ہیں اور ہم ایرانی قوم کی ترقی اور عظمت کے لئے پرعزم ہیں۔ جو بھی انہیں دھمکائے گا ، ہم کسی غور و فکر کے بغیر اس کا مقابلہ کریں گے اور اس پر ضربت لگائیں گے۔۱۱۔۱۰۔۱۳۹۸ھ،ش۔ حاج قاسم کی شہادت کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے اس جرم کے مرتکبین کے خلاف”سخت انتقام”کے عنوان سے گفتگو کی:ان کے جانے سے خدا کی طاقت اور مدد سے ان کا راستہ اور ان کا کام ہرگز نہیں رکے گا اور بند نہیں ہو گا۔لیکن ایک شدید انتقام ان مجرموں کا منتظر ہے جنہوں نے گزشتہ رات کے واقعہ میں ان کے اور ان کے دیگر ساتھیوں کے خون میں اپنے پلید ہاتھوں کو آلودہ کیا۔مجرموں سے بدلہ لینے کے لئے الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔آج سے ہی مجرموں کو موت کے لئے خود کو تیار رکھنا چاہئے۔اسلامی جمہوریہ نے بھی یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ عقلی طور پر فیصلہ کرے گی۔ امریکی عہدیداروں کی طرح حماقت اور جلد بازی میں نہیں۔لیکن وہ اپنے اوپر جارحیت کو برداشت نہیں کرے گی اور یقیناً اس کے مرتکبین کو سخت جواب دے گی۔شہداء اپنی زندگی میں اپنے جسموں کے ذریعہ دفاع کرتے ہیں اور جانے کے بعد اپنی روحوں کے ذریعہ: وَ یَستَبشِرونَ بِالَّذینَ لَم یَلحَقوا بهِمِ منِ خَلفهِمِ الَّا خَوفٌ علَیَهمِ و لا هُم یحَزنَون” دیکھو یہ بشارت، جانے کے بعد کے بارے میں ہے، وہ جب تک زندہ ہیں ان کی جانیں اور جسم اور ان کی مادی تحریک، اسلام کی خدمت اور اسلامی معاشرہ کی خدمت میں ہے۔جب وہ جاتے ہیں تو پھر ان کی معنویت اور ان کی آوازبلند ہونا شروع ہوتی ہے۔۱۴۔۸۔۱۳۹۷ھ،ش۔ آج سے امریکی عہدیداروں کو زیادہ خطرہ محسوس کرنا چاہئے، جیسا کہ امریکی سینیٹر کرس مرفی نے اس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے: سلیمانی بحیثیت شہید امریکہ کے لئے کہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ہاں حاج قاسم نے ابھی شروعات کی ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب