غیر سیاسی تجزیہ
مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات، کشیدگی، امریکہ کی بڑھتی دہشت گردی، انتقام، ایران کی کیفیت و کمیّت، مسلم اور مشرقی ممالک کا لائحہ عمل آج کل زبان زد عام ہے۔ ایک طرف تعزیت و تسلیت کے پیغامات، دوسری طرف صبر و تحمل کی تلقین، ایسے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور صاحب کا بیان، عقلمندانہ تو ہوسکتا ہے لیکن جراتمندانہ نہیں۔ بقول داغ دھلوی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
آپ کا یہ بیان بہت پہلے ہی آجانا چاہیئے تھا، کیونکہ بقول خود موصوف، دشمن نے سوء استفادہ کیا، غلط شایعات کو پھیلایا، جس کی وجہ سے کلیئر سٹیٹمنٹ دینا پڑی، منطقی اعتبار سے ان سارے حالات کو ہر ملک کے اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ سب سے پہلے امریکہ کے اس خطے میں مفادات زیربحث لانا ہونگے۔ امریکہ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے، جس کے لئے اقتصادی و نظامی برتری کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کا اقتصادی و سیاسی ستون اسرائیل کے کندھوں پر ہے، اگر جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس ستون کے منہدم ہونے کے چانس بہت زیادہ ہونگے، جس کا نتیجہ امریکہ کی زمین بوسی ہوگا۔
دوسری طرف وہ اپنی نظامی قوت کا جبران، خطے میں موجود مختلف ممالک کے داخلی و خارجی مفادات و مسائل میں مداخلت سے حاصل کرتا ہے، جو اس کے لئے کارندے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کتنے ممالک میں اس نے اسی سیاست سے اپنے ہوائی اڈے بنا رکھے ہیں، کتنے ہی ممالک پر امریکہ نے مستقیماً حملے بھی کیے ہیں۔ صدام، طالبان، عربستان، داعش کے ساتھ ساتھ کتنے ہی جہادی گروہ امریکہ کے آلہ کار تھے یا پل کا کام دیتے تھے، تاکہ امریکہ ان ممالک میں وارد ہوسکے، امریکہ نے کتنے ہی معرکے و میدان سجائے، لیکن اس کو سوائے غارت گری کے کسی ایک میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ نہ صدام جنگ کا مطلوبہ نتیجہ دے سکا، نہ خود اسرائیل، داعش کا خاتمہ شاید خود امریکہ اتنی جلدی نہ کرسکتا، جتنی جلدی اس مرد مجاہد نے کر دکھایا۔ طالبان کا کیا بنا، سب پر عیان ہے۔ سعودیہ کو یمن کی لڑائی میں، یہ خبر خوش سنا کر اور سنہری خواب دیکھا کر دھکیلا گیا کہ ایک پہر میں حوثیوں کا قصہ تمام ہو جائے گا، لیکن ان کا حال بھی صدام والا ہوگا، آخرکار ان کو اس جنگ سے اپنا دامن چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔
اسرائیل بھی تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان سے اپنی ناگ کٹوا چکا ہے، امریکہ نے اس ساری لوٹ مار میں اپنی ترقی کی سڑھیاں چڑھیں، جو مشرق وسطیٰ سے ہتھیائی گئی، لیکن اپنے دشمنوں میں اضافہ کیا۔ سب سے مہم امریکہ کا مفاد اس خطے میں مادر امریکہ اسرائیل ہے، ورنہ خود امریکہ تو اس منطقے سے بہت دور ہے، جب چاہے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، اس نے اپنا تخت سمندر کی روان لہروں پر رکھا ہے اور کبھی بھی کشتیاں جلانے والا کام نہیں کیا، ضرب کاری ہمیشہ اس کے حامیوں کو اپنے سینے پر جھیلنی پڑی۔ اب بھی حال حسب سابق ہوگا، اس لئے تو پاکستان امریکہ کی پرائی جنگ سے گریزاں ہے۔ پہلا معرکہ بھی بہت سے گہرے گھاؤ چھوڑ گيا، جس سے آج بھی خون رستا اور درد و درمان جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے سلسلے میں ایران کا کیا مفاد ہے۔؟
اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کی کوشش تھی کہ ان کو اپنے زیر سلط قرار دے، لیکن چند کارروائیوں کے باوجود کچھ نہ بنا، پھر صدام کو مسلط کیا، کچھ نہ بنا، اس درمیان ایران بھی سمجھ گیا کہ ان سب کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے لبنان، شام، عراق اور یمن کو اپنے بلاک میں شامل کیا، امریکہ نے سعودیہ اور اس کے حوایوں کو اپنے بلاک میں شامل کیا۔ پاکستان کو اپنے بلاک میں شامل کرنے کی بھرپور کوششیں کی، لیکن پاکستان اپنے داخلی حالات کے پیش نظر کھل کر کسی کا ساتھ نہیں دے گا۔ سعودی اس معاملے میں خود امت مسلمہ پر روحانی و مذہبی اقتدار کے ساتھ ساتھ، مکمل اجازہ داری چاہتا ہے۔ اس کو اقتصادی مشکل تو نہیں، لیکن فوجی قوت سے محروم ہے، آج کل وہ اسلحہ کی خریداری میں کافی سرمایہ خرچ کر رہا ہے، شاید اسی لئے وہ غیر اسلامی سپر طاقتوں سے جڑا اور ایران کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کو ایران اور امریکہ کی جنگ میں سوچ سمجھ کر آنا چاہیئے، ایک تو یمن جیسی جنگجو قوم سے جنگ چل رہی ہے، جو اب کافی مضبوط بھی ہیں۔ مشکل وقت میں ایران نے ان کی مدد بھی کی، اب وہ بھی کھل کر ایران کاساتھ دیں گے۔ اس خطے میں ایران کے حامی بھی کافی ہیں اور امریکہ کے بھی، جو ایرانی قوم کا مزاج نہیں سمجھتے، وہ شاید اس جنگ کو ایرانی حماقت سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر امریکی پاور میں ہیں، لیکن نقطہ یہاں ہے کہ امریکہ چار روزہ جنگ کا کھلاڑی ہے اور ایران لمبی جنگ کا۔ امریکہ ٹونٹی ٹونٹی کا اچھا پلیئر ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ایٹمی پاور رکھتا ہے، لیکن ایران ٹیسٹ پلیئر ہے، اس لئے سب سے پہلے امریکہ کے تمام حامیوں کی سپلائی کاٹے گا۔ دوسری بات امریکہ کے مخالفین میں کچھ زخم دیدہ بڑی طاقتیں اور ایٹمی پاور رکھنے والے ہیں، جو ایران کا ساتھ ضرور دیں گے۔
تیسری عالمی جنگ کا پورا پورا خطرہ منڈلا رہا ہے، چین دنیا کی اقتصاد پر اپنی حکومت چاہتا ہے تو روس کو پھر راج نیتی و انتقام لینا ہے۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا میں ایٹمی پاور رکھتا ہے، گو آج کل اقتصادی مسائل سے دچار ہے۔ انڈیا بھی پاکستان کو کسی صورت پاور میں نہيں دیکھنا چاہتا۔ ترکی کی بھی بہت ساری خواہشات ہيں۔ ان سارے معاملات میں جنگ کا سہل انگاری سے نتیجہ دینے والے سلطان حرف اور پاور فوبیا کا شکار ہیں۔ وہ غزوہ بدر و خندق کی تاریخ کو بھی افسانے سے تعبیر کریں گے، وہ ابابیل کا لشکر بھی پردہ سکرین کا کمال جانیں گے۔ درحقیقت برندہ شمشیریں نہیں لڑتیں، جذبہ و ایمان لڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ریاستیں تاج طلائی کی ہوس چھوڑ کر، کچھ کلمے اور رسول خدا (ص) کا پاس رکھیں، یہود کسی صورت تمہارے دوست نہیں، وہ ہر اس اسلامی ریاست کے درپے ہیں، جس کو ان کی غلامی سے انکار ہے، جو تلوے چاٹے گا، بظاہر اس کی ہمدردی کا دم بھریں گے۔
مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے حالات، کشیدگی، امریکہ کی بڑھتی دہشت گردی، انتقام، ایران کی کیفیت و کمیّت، مسلم اور مشرقی ممالک کا لائحہ عمل آج کل زبان زد عام ہے۔ ایک طرف تعزیت و تسلیت کے پیغامات، دوسری طرف صبر و تحمل کی تلقین، ایسے میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور صاحب کا بیان، عقلمندانہ تو ہوسکتا ہے لیکن جراتمندانہ نہیں۔ بقول داغ دھلوی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
آپ کا یہ بیان بہت پہلے ہی آجانا چاہیئے تھا، کیونکہ بقول خود موصوف، دشمن نے سوء استفادہ کیا، غلط شایعات کو پھیلایا، جس کی وجہ سے کلیئر سٹیٹمنٹ دینا پڑی، منطقی اعتبار سے ان سارے حالات کو ہر ملک کے اپنے مفادات کے تناظر میں دیکھنا چاہیئے۔ سب سے پہلے امریکہ کے اس خطے میں مفادات زیربحث لانا ہونگے۔ امریکہ پوری دنیا پر اپنی اجارہ داری چاہتا ہے، جس کے لئے اقتصادی و نظامی برتری کے ساتھ ساتھ سیاسی بصیرت کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کا اقتصادی و سیاسی ستون اسرائیل کے کندھوں پر ہے، اگر جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو اس ستون کے منہدم ہونے کے چانس بہت زیادہ ہونگے، جس کا نتیجہ امریکہ کی زمین بوسی ہوگا۔
دوسری طرف وہ اپنی نظامی قوت کا جبران، خطے میں موجود مختلف ممالک کے داخلی و خارجی مفادات و مسائل میں مداخلت سے حاصل کرتا ہے، جو اس کے لئے کارندے کے طور پر کام کرتے ہیں۔ کتنے ممالک میں اس نے اسی سیاست سے اپنے ہوائی اڈے بنا رکھے ہیں، کتنے ہی ممالک پر امریکہ نے مستقیماً حملے بھی کیے ہیں۔ صدام، طالبان، عربستان، داعش کے ساتھ ساتھ کتنے ہی جہادی گروہ امریکہ کے آلہ کار تھے یا پل کا کام دیتے تھے، تاکہ امریکہ ان ممالک میں وارد ہوسکے، امریکہ نے کتنے ہی معرکے و میدان سجائے، لیکن اس کو سوائے غارت گری کے کسی ایک میں بھی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ نہ صدام جنگ کا مطلوبہ نتیجہ دے سکا، نہ خود اسرائیل، داعش کا خاتمہ شاید خود امریکہ اتنی جلدی نہ کرسکتا، جتنی جلدی اس مرد مجاہد نے کر دکھایا۔ طالبان کا کیا بنا، سب پر عیان ہے۔ سعودیہ کو یمن کی لڑائی میں، یہ خبر خوش سنا کر اور سنہری خواب دیکھا کر دھکیلا گیا کہ ایک پہر میں حوثیوں کا قصہ تمام ہو جائے گا، لیکن ان کا حال بھی صدام والا ہوگا، آخرکار ان کو اس جنگ سے اپنا دامن چھڑانا مشکل ہو جائے گا۔
اسرائیل بھی تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان سے اپنی ناگ کٹوا چکا ہے، امریکہ نے اس ساری لوٹ مار میں اپنی ترقی کی سڑھیاں چڑھیں، جو مشرق وسطیٰ سے ہتھیائی گئی، لیکن اپنے دشمنوں میں اضافہ کیا۔ سب سے مہم امریکہ کا مفاد اس خطے میں مادر امریکہ اسرائیل ہے، ورنہ خود امریکہ تو اس منطقے سے بہت دور ہے، جب چاہے راہ فرار اختیار کرسکتا ہے، اس نے اپنا تخت سمندر کی روان لہروں پر رکھا ہے اور کبھی بھی کشتیاں جلانے والا کام نہیں کیا، ضرب کاری ہمیشہ اس کے حامیوں کو اپنے سینے پر جھیلنی پڑی۔ اب بھی حال حسب سابق ہوگا، اس لئے تو پاکستان امریکہ کی پرائی جنگ سے گریزاں ہے۔ پہلا معرکہ بھی بہت سے گہرے گھاؤ چھوڑ گيا، جس سے آج بھی خون رستا اور درد و درمان جاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سارے سلسلے میں ایران کا کیا مفاد ہے۔؟
اسلامی انقلاب کے بعد امریکہ کی کوشش تھی کہ ان کو اپنے زیر سلط قرار دے، لیکن چند کارروائیوں کے باوجود کچھ نہ بنا، پھر صدام کو مسلط کیا، کچھ نہ بنا، اس درمیان ایران بھی سمجھ گیا کہ ان سب کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ ہے۔ انہوں نے لبنان، شام، عراق اور یمن کو اپنے بلاک میں شامل کیا، امریکہ نے سعودیہ اور اس کے حوایوں کو اپنے بلاک میں شامل کیا۔ پاکستان کو اپنے بلاک میں شامل کرنے کی بھرپور کوششیں کی، لیکن پاکستان اپنے داخلی حالات کے پیش نظر کھل کر کسی کا ساتھ نہیں دے گا۔ سعودی اس معاملے میں خود امت مسلمہ پر روحانی و مذہبی اقتدار کے ساتھ ساتھ، مکمل اجازہ داری چاہتا ہے۔ اس کو اقتصادی مشکل تو نہیں، لیکن فوجی قوت سے محروم ہے، آج کل وہ اسلحہ کی خریداری میں کافی سرمایہ خرچ کر رہا ہے، شاید اسی لئے وہ غیر اسلامی سپر طاقتوں سے جڑا اور ایران کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔
سعودی عرب کو ایران اور امریکہ کی جنگ میں سوچ سمجھ کر آنا چاہیئے، ایک تو یمن جیسی جنگجو قوم سے جنگ چل رہی ہے، جو اب کافی مضبوط بھی ہیں۔ مشکل وقت میں ایران نے ان کی مدد بھی کی، اب وہ بھی کھل کر ایران کاساتھ دیں گے۔ اس خطے میں ایران کے حامی بھی کافی ہیں اور امریکہ کے بھی، جو ایرانی قوم کا مزاج نہیں سمجھتے، وہ شاید اس جنگ کو ایرانی حماقت سمجھتے ہیں۔ ان کی نظر امریکی پاور میں ہیں، لیکن نقطہ یہاں ہے کہ امریکہ چار روزہ جنگ کا کھلاڑی ہے اور ایران لمبی جنگ کا۔ امریکہ ٹونٹی ٹونٹی کا اچھا پلیئر ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ایٹمی پاور رکھتا ہے، لیکن ایران ٹیسٹ پلیئر ہے، اس لئے سب سے پہلے امریکہ کے تمام حامیوں کی سپلائی کاٹے گا۔ دوسری بات امریکہ کے مخالفین میں کچھ زخم دیدہ بڑی طاقتیں اور ایٹمی پاور رکھنے والے ہیں، جو ایران کا ساتھ ضرور دیں گے۔
تیسری عالمی جنگ کا پورا پورا خطرہ منڈلا رہا ہے، چین دنیا کی اقتصاد پر اپنی حکومت چاہتا ہے تو روس کو پھر راج نیتی و انتقام لینا ہے۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا میں ایٹمی پاور رکھتا ہے، گو آج کل اقتصادی مسائل سے دچار ہے۔ انڈیا بھی پاکستان کو کسی صورت پاور میں نہيں دیکھنا چاہتا۔ ترکی کی بھی بہت ساری خواہشات ہيں۔ ان سارے معاملات میں جنگ کا سہل انگاری سے نتیجہ دینے والے سلطان حرف اور پاور فوبیا کا شکار ہیں۔ وہ غزوہ بدر و خندق کی تاریخ کو بھی افسانے سے تعبیر کریں گے، وہ ابابیل کا لشکر بھی پردہ سکرین کا کمال جانیں گے۔ درحقیقت برندہ شمشیریں نہیں لڑتیں، جذبہ و ایمان لڑتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ریاستیں تاج طلائی کی ہوس چھوڑ کر، کچھ کلمے اور رسول خدا (ص) کا پاس رکھیں، یہود کسی صورت تمہارے دوست نہیں، وہ ہر اس اسلامی ریاست کے درپے ہیں، جس کو ان کی غلامی سے انکار ہے، جو تلوے چاٹے گا، بظاہر اس کی ہمدردی کا دم بھریں گے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب