لوئس امبرٹ نے “گارڈین آف ایران” کے عنوان سے فرانسیسی اخبار لی مونڈے میں سردار سلیمانی کے بارے میں ایک دلچسپ مضمون لکھا ہے جسے ایرانی سفارتکاری نے شائع کیا جس کا مکمل متن آپ ذیل میں پڑھ سکتے ہیں۔
جنرل لمبے لمبے قدموں کے ساتھ قلعۂ حلب کے نیچے والی سڑک پر دھند اور سردی کے موسم میں ٹہلتے ہیں۔ 2016 ء میں ماہ دسمبر میں شائع ہونے والی اس تصویر میں ، شام کے باغی گروپ کے خاتمے کے ایک دن بعد ، ان کا چہرہ سنگین اور سخت ہے۔ معمول کے مطابق وہ سویلین کپڑوں میں میدان جنگ میں نمودار ہوئے ، انہوں نے اپنے ماتھے پر سبز رومال باندھا ہوا تھا۔ قاسم سلیمانی کھنڈرات کا غورسے جائزہ لیتے ہیں اور اپنی کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سترہ ماہ قبل جولائی 2015ء میں امریکہ اور مشرق وسطی کے ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ ایران کے سینئر کمانڈر ماسکو گئے ہیں تا کہ وہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ شام کے منصوبوں کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ انہوں نے شام میں روس کی ہمراہی میں جنگ میں جانے کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا۔ بلاشبہ ، بشار الاسد اپنی زندگی کی بقاء میں ان کا مقروض ہے۔
اس سے قبل 2012 ء کو سلیمانی نے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ایرانی افواج کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو دبائیں اوربشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح باغیوں کو نیست و نابود کر یں نیز وہ مسلح حزب اختلاف کے حملوں سے اسد حکومت کی محافظت کریں جو تہران کی مستقل اتحادی تھی اور ہے ۔
اس طرح سے مشرق وسطی کے سب سے طاقتور شخص قاسم سلیمانی نے 37 سالوں سے جنگ میں زندگی بسر کی ہے۔انہوں نے جنگ میں پہلا قدم 1980ء میں رکھا جب انہوں نے اپنے آپ سے ایران کے نوجوان انقلابی نظام کا دفاع کرنے کا عہد کیا ، جسے عراقی حاکم صدام حسین نے دھمکایا اور اس پر قبضہ جمانے کی ٹھان لی لے رکھی تھی۔
قاسم سلیمانی نے 2000 ء میں عراق کا رخ کیا، لیکن اس بار ایک فوجی ٹرینر اور مشیر کی حیثیت سے۔ اس دور میں وہ عراق میں شیعہ جماعتوں اور بغداد حکومت کے درمیان ثالثی اور تنازعہ حل کرنے کے کردار سے گئے تھے۔
2014 ء کے موسم گرما میں انہوں نے داعش (آئی ایس آئی ایس ) سے لڑنے کے لئے عراقی شیعہ ملیشیاکی مالی اعانت ، تربیت ، اور تنظیم شروع کی اور اس سے پہلےبھی ان کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا۔
ایک صابر و حوصلہ مند آدمی ، یہ دو اسٹار جنرل ، جنہیں پاسداران انقلاب (ایران کی اہم فوجی قوت) کے اعلی درجہ کا کمانڈر سمجھا جاتا ہے ، نیز وہ قدس (عربی میں یروشلم کا نام) نامی ایک خاص اور منتخب فورس کے کمانڈر بھی ہیں جو مشرق وسطی اور قریب مشرق میں ایران کے مطلوبہ نظام کے لئےصورتحال کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
قاسم سلیمانی نے ایران کے سرکاری ادب میں “مزاحمت کا محور” کہلانے والی چیز کو تقویت بخشی ہے۔ مزاحمت کا یہ محور تہران کو بحیرہ روم سے عراق ، شام اور لبنان سے آگے جوڑتا ہے۔ سلیمانی کی کمانڈ میں مزاحمت کا یہ محور فلسطینی حماس کی حمایت کرتا ہے اور ساتھ ہی خلیج فارس میں بادشاہی نظام پر مبنی عربی ممالک میں مسلح احتجاجی تحریکوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ اس نے ترکی کو دستبرداری پر مجبور کیا اور سعودی عرب کو بھی مایوس کیا۔ قاسم سلیمانی ایران کی طاقت سے پورے خطے کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ اسلامی جمہوریہ کا ایک نیا چہرہ ہیں۔ وہ ایسے ملک کے ایک متواضع محافظ ہیں جو جہادیوں کی بربریت کو پسپا کرتا ہے اور اپنے ملک کے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ یہ بھول جائیں کہ جنگ ہر جگہ اور تمام سرحدوں پر ہے۔
جنرل لمبے لمبے قدموں کے ساتھ قلعۂ حلب کے نیچے والی سڑک پر دھند اور سردی کے موسم میں ٹہلتے ہیں۔ 2016 ء میں ماہ دسمبر میں شائع ہونے والی اس تصویر میں ، شام کے باغی گروپ کے خاتمے کے ایک دن بعد ، ان کا چہرہ سنگین اور سخت ہے۔ معمول کے مطابق وہ سویلین کپڑوں میں میدان جنگ میں نمودار ہوئے ، انہوں نے اپنے ماتھے پر سبز رومال باندھا ہوا تھا۔ قاسم سلیمانی کھنڈرات کا غورسے جائزہ لیتے ہیں اور اپنی کامیابی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
سترہ ماہ قبل جولائی 2015ء میں امریکہ اور مشرق وسطی کے ذرائع نے اطلاع دی تھی کہ ایران کے سینئر کمانڈر ماسکو گئے ہیں تا کہ وہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ شام کے منصوبوں کے بارے میں تبادلہ خیال کریں۔ انہوں نے شام میں روس کی ہمراہی میں جنگ میں جانے کے لئے خود کو تیار کرلیا تھا۔ بلاشبہ ، بشار الاسد اپنی زندگی کی بقاء میں ان کا مقروض ہے۔
اس سے قبل 2012 ء کو سلیمانی نے یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ ایرانی افواج کے ساتھ مل کر شامی حکومت کے خلاف حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو دبائیں اوربشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح باغیوں کو نیست و نابود کر یں نیز وہ مسلح حزب اختلاف کے حملوں سے اسد حکومت کی محافظت کریں جو تہران کی مستقل اتحادی تھی اور ہے ۔
اس طرح سے مشرق وسطی کے سب سے طاقتور شخص قاسم سلیمانی نے 37 سالوں سے جنگ میں زندگی بسر کی ہے۔انہوں نے جنگ میں پہلا قدم 1980ء میں رکھا جب انہوں نے اپنے آپ سے ایران کے نوجوان انقلابی نظام کا دفاع کرنے کا عہد کیا ، جسے عراقی حاکم صدام حسین نے دھمکایا اور اس پر قبضہ جمانے کی ٹھان لی لے رکھی تھی۔
قاسم سلیمانی نے 2000 ء میں عراق کا رخ کیا، لیکن اس بار ایک فوجی ٹرینر اور مشیر کی حیثیت سے۔ اس دور میں وہ عراق میں شیعہ جماعتوں اور بغداد حکومت کے درمیان ثالثی اور تنازعہ حل کرنے کے کردار سے گئے تھے۔
2014 ء کے موسم گرما میں انہوں نے داعش (آئی ایس آئی ایس ) سے لڑنے کے لئے عراقی شیعہ ملیشیاکی مالی اعانت ، تربیت ، اور تنظیم شروع کی اور اس سے پہلےبھی ان کا بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا۔
ایک صابر و حوصلہ مند آدمی ، یہ دو اسٹار جنرل ، جنہیں پاسداران انقلاب (ایران کی اہم فوجی قوت) کے اعلی درجہ کا کمانڈر سمجھا جاتا ہے ، نیز وہ قدس (عربی میں یروشلم کا نام) نامی ایک خاص اور منتخب فورس کے کمانڈر بھی ہیں جو مشرق وسطی اور قریب مشرق میں ایران کے مطلوبہ نظام کے لئےصورتحال کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
قاسم سلیمانی نے ایران کے سرکاری ادب میں “مزاحمت کا محور” کہلانے والی چیز کو تقویت بخشی ہے۔ مزاحمت کا یہ محور تہران کو بحیرہ روم سے عراق ، شام اور لبنان سے آگے جوڑتا ہے۔ سلیمانی کی کمانڈ میں مزاحمت کا یہ محور فلسطینی حماس کی حمایت کرتا ہے اور ساتھ ہی خلیج فارس میں بادشاہی نظام پر مبنی عربی ممالک میں مسلح احتجاجی تحریکوں کی بھی حمایت کرتا ہے۔ اس نے ترکی کو دستبرداری پر مجبور کیا اور سعودی عرب کو بھی مایوس کیا۔ قاسم سلیمانی ایران کی طاقت سے پورے خطے کو متاثر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ اسلامی جمہوریہ کا ایک نیا چہرہ ہیں۔ وہ ایسے ملک کے ایک متواضع محافظ ہیں جو جہادیوں کی بربریت کو پسپا کرتا ہے اور اپنے ملک کے عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ یہ بھول جائیں کہ جنگ ہر جگہ اور تمام سرحدوں پر ہے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب