سردار سلیمانی اور بین الاقوامی میڈیا
ان دنوں مغربی میڈیا ایران کی قدس فورس کے کمانڈر کے قصوں اور تصاویر سے بھرا ہوا ہے،کیا ہوا ہے کہ وہ حاج قاسم کے بارے میں اتنی باتیں کررہے ہیں؟
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
ایران کی سرحدوں کے باہر کہانی کچھ مختلف ہے، ایران کی جغرافیائی سرحدوں سے باہر ان کے بارے میں بہت سارے افسانے زبانوں پر ہیں، وہ افسانے جن کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق کبھی بھی کسی عہدیدار نے نہیں کی ، کبھی ریاستہائے متحدہ کے 4 اسٹار جنرل کو دیے جانے والے ان کے میسج کی بات ہوتی ہے تو کبھی اس خط کی جس کے بارے میں جو انھوں نے دعوی کیا کہ ان کے لوگوں نے امریکی وزیر دفاع کے ڈیسک پر رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا : ’’مجھے پہچان لو ، میں قاسم سلیمانی ہوں‘‘کہا جاتا ہے کہ جب عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پیٹریاس کو فون دیا گیا تو انھیں یہ پیغام موصول ہوا،ٹھیک اس وقت جب وہ 2008 میں عسکریت پسند گروپوں اور امریکی فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی کی گہماگہمی میں عراق گئے تھےیا جب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا عراق میں تھے تو انھیں اپنی میز پر ایک خط ملا جس کو دیکھ کر انھیں سخت حیرت ہوئی، اس خط پر نہ پینٹاگون کی مہر تھی اور نہ سیل اور اس میں صرف ایک جملہ لکھا گیا تھا: ’’اگر ضرورت پڑی تو ہم اور بھی قریب ہوجائیں گے؛ ایرانی قدس فورس کا کمانڈرقاسم سلیمانی ‘‘۔
اس طرح کی بہت ساری داستانیں ہیں
ان سب کہانیوں میں ایک ایرانی جنرل کو اس کے تمام تر چین وسکون کے ساتھ ، ایک طاقتور کمانڈر کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ایسا چہرہ جو امریکیوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ افسانے سچے یا جھوٹے ہونے سے ہٹ کر ایک موضوع کو بیان کر رہے ہیں کہ کہ ایرانی سپاہ کا پر سکون مرد آج کل بری طرح ان کی نفسیات کے ساتھ کھیل رہا ہے،یہ افسانے سرائیاں صرف ایک ہی مسئلہ کا پتا دیتی ہیں اور وہ ہے ’’خوف اور ڈر‘‘۔
اس رپورٹ میں آپ سردار قاسم سلیمانی کے بارے میں وہ اقتباسات دیکھ سکتے ہیں جو حالیہ مہینوں میں غیر ملکی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں، واضح رہے کہ ان رپورٹس کی اشاعت کا مطلب ان کی توثیق نہیں ہے، ترجمہ میں ہم نے اصل رپورٹ کا لحاظ رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی ہےالبتہ جن حصوں سے سکیورٹی نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے انھیں متن سے ہٹا دیا گیا ہے۔
New Yorker
ایک آدمی جو زیادہ سنتا ہے
شاید غیر ملکی مطبوعات میں قاسم سلیمانی کی اب تک کی سب سے مکمل تصویر ڈاکٹر فلِکنز نے کھینچی ہے، اس پلوٹزر ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی نے سردار سلیمانی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے۔
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
(30 ستمبر ، 2013) کو نیویارکرمیں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں فلکنز نے امریکی ، مغربی اور عراقی عہدیداروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے ساتھ متعدد انٹرویوز کے ذریعے جنرل سلیمانی کی شخصیت اور خطے میں پیش آنے والے واقعات میں ان کے کردار کا جائزہ لیا ہے، اس دوران وہ وہ اپنی رپورٹ کے اصلی دروازے کی تصویر میں لکھتے ہیں: گذشتہ سال فروری میں ایران کی کچھ بااثر سیاسی شخصیات شمالی تہران کی امیر المومنین مسجد میں سپاہ پاسدران کے افسران کی ایک کانفرنس میں اکٹھی ہوئیں، وہ ایک شہید کمانڈرکو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے، حسن شاطری سپاہ پاسداران کی طاقتور اور ایلیٹ قدس فورس کے سینئر کمانڈروں میں سے ایک تھے، شاطری نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ ایران سے باہر گزارا تھا، شاطری کے جنازے میں کچھ سوگوار رو رہےتھےاور کچھ شیعوں کی رسم کے مطابق ماتم کر رہے تھے، شاطری کا تابوت ایرانی پرچم میں لپیٹا ہوا تھا اور اسے سپاہ پاسدران کی یونیفارم پہنے ہوئے کمانڈروں نے گھیر رکھا تھا ، لیکن اس شخص کے بیچ میں چھوٹے قد اور سرمئی رنگ کے چھوٹے چھوٹے بالوں والا مسجد کی دوسری لائن میں بیٹھا ہوا 56 سالہ شخص قدس فورس کا کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی تھا، شاطری کے ساتھ ان کی دوستی اور بھائی چارہ مقدس دفاع کے دوران قائم ہوا تھا، مقدس دفاع ایران عراق جنگ کو دیا جانے والا نام ہے،وہ جنگ جو آٹھ سال جاری رہی اور اس میں قریب دس لاکھ مارےگئے۔
سلیمانی نے 15 سال قبل قدس فورس کی کمان سنبھالی تھی اور اسی وقت سے اس نے ایک فوجی قوت اور ایک طاقتور شخصیت کی حیثیت سے اس نے مشرق وسطی کو ایران کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی، عراق میں سی آئی اے کے سابق افسر جان ماگور کہتے ہیں :سلیمانی آج مشرق وسطی کے ایک مضبوط ترین عہدیدار ہیں لیکن کسی نے ان کے بارے میں اب تک کچھ نہیں سنا ہے،سلیمانی جب مجمعے میں جاتے ہیں–عام طور پر وہ جانبازوں کے درمیان تقریر کرتے ہیں یا ایرانی رہبر سے ملنے جاتے ہیں – تو زیادہ تر وہ لوگوں کے سامنے میں نہیں آتے ہیں اور شاذ و نادر ہی بلند آواز میں بات کرتے ہیں، وہ عام طور پر اس انداز میں برتاؤ کرتے ہیں جس کو عرب ” خلب ” کہتے ہیں ،اس کا مطلب پوشیدہ کرشمہ ہے۔
ایک سینئر عراقی عہدیدار کہتے ہیں :وہ نسبتا چھوٹے قد کے ہیں لیکن یہ کہانی کی ظاہری شکل ہے، جب کمرے میں 10 افراد ہوتے ہیں اور سلیمانی داخل ہوتے ہیں تو ، وہ آگے کر آپ کے پاس نہیں بیٹھتے ہیں بلکہ کمرے کے دوسری طرف خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، وہ بات نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تبصرہ کرتے ہیں، وہ تنہا بیٹھتے ہیں اور سنتے ہیں لیکن یقینا اس وقت ہر کوئی انہیں کے بارے میں سوچتا ہے ۔
شاطری کی سلیمانی نے تدفین میں کالی قمیض اور کوٹ پہنا ہوا تھا ، بغیر ٹائی کے جیسے ایرانی پہنتے ہیں، ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے،سلیمانی شاطری کی تدفین ایک روز قبل ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے ان کے گھر گئے تھے،شہید فوجیوں سے اس کو زبردست لگاؤ ہے اور وہ عام طور پر ان کے اہل خانہ سے ملتے رہتے ہیں، سلیمانی نے ایک ایرانی میڈیا کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا: جب میں شہداء کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو میں ان کی خوشبو لے کر وجد میں آجاتا ہوں۔
دلاور آہستہ سے اٹھتا ہے
سلیمانی کو ایران سے باہردرپیش تمام تر مشکلات، اپنی ساری سنجیدگی اورسختی کے باوجود ایرانی معاشرے میں انھیں وفاداری کے نام سےجانا جاتا ہے، ایک ایسا چہرہ ہےجس نے انھیں لوگوں کی نظروں میں ناقابل تسخیر ہیرو بنا دیا ہے، ایران اور عراق جنگ کے بعد سے ہی لوگوں کو اس سردار پر اعتماد ہے ، اتنی بڑی طاقت کے باجود وہ اب بھی اپنے آپ کو لوگوں کا ایک چھوٹا سپاہی سمجھتے ہیں، سلیمانی کو ایران میں ایک اور لقب سے بھی جانا جاتا ہے’’ زندہ شہید ‘‘یہ لقب انہیں رہبر ایران نے دیا ہے۔
سلیمانی کا گھر تہران میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ وہاں راحت اور سکون کے ساتھ بغیر کسی محافظ کےرہتے ہیں۔
ایک عراقی سیاستدان جو انھیں بہت قریب سے جانتے ہیں ،کہتے ہیں: سلیمانی روزانہ صبح 4 بجے اٹھتے ہیں اور رات 9:30 بجے سوجاتے ہیں، ان کی زندگی کا اپنا قانون ہے، سلیمانی کے لیے ان کے مقصد سے زیادہ کوئی بھی چیز اہم نہیں ہے، وہ اپنی اہلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور اپنا سارا خالی وقت ان کے ساتھ سفر کرنے میں گذارتے ہیں، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، وہ بہت مطالعہ کرتے ہیں، اگرچہ ان کے پاس اعلی تعلیم نہیں ہے ، لیکن وہ ایک زبردست اسٹریٹجسٹ ہیں،وہ انسان کے تصور سے کہیں زیادہ ہوشیارہیں!۔
Business Insider
اتنی طاقت کہاں سے آئی ہے؟
مشرق وسطی میں قاسم سلیمانی طاقتور کیوں ہے؟
پچھلے سال ، Business Insider نے اپنے مختصر مضمون کا آغاز اسی عنوان سے کیا تھا، جیفری انگرسول نے قاسم سلیمانی کو مشرق وسطی کی ایک طاقتور شخصیت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ جب جہاں کا ارادہ کریں پہنچ جاتے ہیں ،وہ پانچ بچوں کے باپ اور اپنے خاندان سے پیار کرنےوالے انسان ہیں، اسے اپنی اہلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ بہت زیادہ سفر پر لے جاتے ہیں۔
اپنے خاندان سے پیار کرنے والا لیکن اپنے وقت کی مشرق وسطی کی سب سے طاقتور آپریشنل فوج ہے، اس حد تک کہ آج کل انھیں ’’ڈارک نائٹ‘‘ (بیٹ مین فلم کا حوالہ دیتے ہوئے) کا لقب دیا گیا ہے، قاسم سلیمانی اس وقت قدس فورس کی سربراہی کر رہے ہیں، وہ ہر جگہ ہوتے ہیں،سلیمانی جو بھی ہوں بس اتنا ہے کہ وہ ایک محنتی فوجی اور ایک باصلاحیت تجربہ کار انسان ہیں، وہ غربت میں پلے بڑھے ہیں، انہوں نے 13 سال کی عمر سے ہی کام کیا اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹوں میں بہت تکلیفیں برداشت کی لیکن 70 کی دہائی میں اسلامی انقلاب کے آتے ہی انھیں اپنا راستہ مل گیا۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
ایران عراق جنگ کے بعد ان کے لیے راستہ اس طرح ہموار ہوا کہ آج وہ آج وہ ایک سب سے طاقتور فوجی کمانڈر بن چکے ہیں، ان کی کہانی اسپارٹاکس سے ملتی جلتی ہے، ان کی طاقت بھی ان کے الفاظ سے معلوم ہوتی ہے، انہوں نے ایران عراق جنگ میں گمشدہ افراد کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے پروگرا م میں مفصل گفتگو کی،ایسا لگتا تھا کہ وہ جنگ کے کسی مشرقی فلسفے کی بات کر رہے ہوں: میدان جنگ انسانوں کی کھوئی ہوئی جنت کا نام ہے، ایک جنت جو انسانوں کی شہادت اور رہنمائی کے ساتھ تعمیر ہوتی ہے، آپ نے دیکھا کہ ان کی نظر میں یہ جنت کی ایک قسم پانی سے بھری ہوئی نہریں ہیں اور دوسری قسم میدان جنگ ہے! ۔
ایک سال کے بعد اس سال گرمی کے موسم میںBusiness Insider قاسم سلیمانی کے بارے میں کچھ اور باتیں کررہا تھا؛یہ کہ وہ ہمیشہ غائب رہتا ہے، Insiderنے فرانسیسی نیوز ایجنسی کے حوالے سے لکھا کہ مشرق وسطی میں غائب شخص ہر جگہ ہےاور کہیں بھی نہیں ہے، یہ سلیمانی کی نئی حکمت عملی نہیں ہے ، 57 سالہ ایرانی کمانڈر شاذ و نادر ہی عوام میں نظر آتا ہے، سلیمانی عوام میں بہت کم ہی تقریر کرتے ہیں لیکن جب بھی وہ تقریر کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد ایک طرح کا واضح ذوق اور گرم جوشی پیدا ہوتی ہے جو ان کی شخصیت کی روحانی جذبہ کو مزید بڑھادیتی ہے، ن کے چہرے کی تصاویربہت کم شائع ہوئی ہیں لیکن انہیں تصاویر میں ان کی بھاری گھورتی ہوئی ، بھوری رنگ داڑھی اور بالوں کو کیمرے کے بند فریم میں دیکھا جاسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سلیمانی شام کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جانتے ہیں اور انھیں عراق کے بارے میں بھی اچھی معلومات ہیں، قدس فورس کے ممبران ان کا مکمل احترام کرتے ہیں اور ان کے ماتحت ہیں، کوئی بھی ان کے اور ان کے افراد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے، وہ ہر جگہ ہیں اور کہیں بھی نہیں ہیں!
Weekly standard
ہرفن مولا صاحب
ہرفن مولا صاحب؛ کوئی ایسا کام ہے جو سلیمانی انجام نہ دے سکیں؟
دو تین ماہ قبل Weekly standardاس عجیب عنوان کے ساتھ ایران کی قدس فورس کے پہلے شخص کی طرف گیا اور ان کی شخصیت کے بارے میں لکھا، مضمون نگار لی اسمتھ نے سلیمانی کے بارے میں لکھا :ان دنوں دنیا کی سب سے دلچسپ شخصیت قاسم سلیمانی ہے۔
اس سلسلہ میں اندازہ لگانے کے لئےکافی ہے کہ صرف مغربی میڈیا کو دیکھ لیں تاکہ ان کی پروفائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو سکیں، نیویارکر ، بی بی سی اور گارڈین نے اس کمانڈر کے بارے میں خاص مطالب لکھے ہیں، ایران کی قدس فورس کا کمانڈر رومیل کے بعد سےا ب تک کا دنیا کا سب سے اہم فوجی اسٹریٹجسٹ ہے(جرمنی کی افواج کے کمانڈر ارون جوہانس یوجین رومل المشہور “صحرا کی لومڑی” اور سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کے مارشل کے علاوہ رومیل 88 کے نام سے بھی مشہور ہے۔
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران شمالی افریقہ اور فرانس میں بڑی فتوحات حاصل کیں، رومیل اپنے ماتحت ، جنگی قیدیوں اور دشمنوں کے ساتھ اپنی بڑائی اور اچھے سلوک کی وجہ سے تاریخ کے سب سے بڑے مارشلوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، مارشل کورس اب بھی دنیا کے تمام فوجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں )۔
وہ ان میں سب صفات کے علاوہ صورتحال کو استحکام بخشنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے،حاج قاسم (و ہ نام سے جس سے ان کے دوست انھیں پکارتے ہیں) مشرق وسطی میں ہر جگہ موجود ہے، اس کی مثال اس وقت ملی تھی جب انھوں نے 2007 میں پیٹریاس کو وہ متنازعہ پیغام دیا تھا، مسئلہ یہ ہے کہ اگر سلیمانی کبھی عراق میں ہوتے تھے تو اب وہ ہر جگہ موجود ہیں لبنان ، غزہ ، یمن ، افغانستان میں ۔
سلیمانی ایک اہم شخص ہے،یہ بات ڈیموکریٹک ڈیفنس فاؤنڈیشن کے ایک ایرانی ماہر علی الفونی نے کہی:سلیمانی ایک سنجیدہ آدمی ہے،پورے ایران میں وہ ایک ہیرو کی طرح ہے کیونکہ اس نے ایران عراق جنگ کے دوران اپنے ملک کے دفاع کے لئےبہت سارے اہم کام کیے تھے،اس نے افغانستان سے آنے والے منشیات فروشوں کے گروہوں کو روک دیا اور اب شیعوں کے حقوق کے دفاع کے لئے داعش کی افواج کے خلاف برسرپیکار ہے، حاج قاسم جو بھی ہے اور جو بھی اس کے بارے میں کہاجاتا ہے ، اصل کہانی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو بہت سی چیزوں کو جانتا ہے اور جس جگہ کے بارے میں بھی اس کو معلوم ہوتا ہے ، وہ ضرور وہاں جاتا ہے، ان دنوں حاج قاسم ہر جگہ موجود ہے ۔
The National
اس کے بارے میں سوال نہ پوچھو
متحدہ عرب امارات کا ’’صبح‘‘ اخبار بھی ان دنوں جب رومال اور خاکی وردی میں حاج قاسم سلیمانی کی تصویر داعشیوں کوبے دخل کرتے وقت عراق میں شائع ہوئی تھی،اس پر خاموش نہیں رہ سکا ، مشہور اماراتی اخبار نے مائیکل تھیوڈولو کا لکھا ہوامضمون شائع کیا جس میں انھوں نے لکھا : بھورے رنگ کے بالوں والا ،مہربان مسکراہٹ اور ایک باوقار آدمی کوئی اور نہیں بلکہ قاسم سلیمانی ہے، وہ شخص جو مشرق وسطی کے ایک ہوشیار کمانڈر سے زیادہ بینک منیجر یا اسکول ٹیچر کی طرح نظر آتا ہے۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
سلیمانی اس وقت ایک ایسی فوج کا کمانڈر ہے جس کی طاقت مغرب سے لے کر مشرق تک پھیلی ہوئی ہےلیکن سلیمانی کی کامیابی سیاسی حکمت عملی تلاش کرنا اور خصوصی کاروائیاں انجام دینا ہے۔
عراقی قومی سلامتی کے وزیر موفق الربیعی نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا کہ خطے میں سلیمانی کی طاقت کے بارے میں کچھ نہ پوچھو،انھیں کوئی بھی چیز نہیں روک سکتی۔
Bloomberg
سلیمانی کیمرے کے سامنے کیوں آئے
بلومبرگ نےقاسم سلیمانی کے بارے میں ایک بڑے سوال کے ذیل میں اپنے مطلب کو بیان کیا ہے؛یہ کہ کیوں سلیمانی نے اچانک اپنے آپ کو ظاہر کیا، اس مشہور سائٹ نے ان دنوں قاسم سلیمانی کے میڈیا میں آنے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: گذشتہ ہفتے ایرانی ٹیلی ویژن نے قدس فورس کے کمانڈر کی تصویر دکھائی جس میں انھیں عراق میں کرد پیشمرگہ کے ساتھ دکھایا۔
دلاور آہستہ سے اٹھتا ہے
سلیمانی کی تصویر اچانک پوری دنیا میں پھیل گئی، سلیمانی ایک زمانے میں ایک بڑا غائب تھا اور اب وہ دنیا کے میڈیا کا پہلا چہرہ ہے، اس مسئلے کا کیا پیغام ہے؟ کہانی واضح ہے، جب ہمیشہ سائے میں چھپا ہوا آدمی اچانک ہیرو بن کر سامنے آجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے دنیا کو ایک واضح پیغام دیاہے: کہ اگر آپ داعش کو شکست دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے!، بین الاقوامی اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مرکز کے ماہر انتھونی کرزمین نے کہا :سلیمانی نے اپنے آپ کو ظاہر کرکے امریکیوں کو پیغام دیا ہے، ایران کے اثر و رسوخ اور طاقت کی حد کا پیغام ۔
امریکہ سے زیادہ کامیاب آدمی
جب حاج قاسم کی تصویر عراق میں منظر عام پر آئی تو اسپیگل رسالہ بھی مشرق وسطی کے پہلے شخص کو دیکھنے کے جوش و خروش کے سامنے نہیں ٹک سکا،ہفت روزہ ڈیر اسپیگل نے اس سلسلہ میں لکھا کہ سردار قاسم سلیمانی شخص نہیں ہے جو اپنی فوج کو لڑنے کے لیے بھیجے اور خود گھر پر رہے،یہ 57 سالہ کمانڈر آسانی سے محاذ کے پیچھے رہ سکتا ہے لیکن وہ میدان جنگ میں موجود رہناپسند کرتا ہے، وہ ایک ایسا ایلیٹ جنرل ہے جو تمام امریکی فیصلوں کو ناکام بنادیتا ہے، قاسم سلیمانی کو حال ہی میں شمالی عراقی شہر آمرلی کے وسط میں دیکھا گیا ہے، شمالی عراق میں واقع ترکمن نشین یہ شہر دو ماہ سے داعشی دہشت گردوں کے محاصرے میں تھا۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
اس شہر کی آزادی ایک قابل ذکر کارنامہ تھا
قاسم سلیمانی ایک بہادر ، نڈر اور انتہائی بےباک ، بلند سوچ کا مالک ، ہوشیار اور نہایت ہی دلکش کرشمہ کے طور پر جانا جاتا ہے، سلیمانی کی کاروائیاں زیادہ تر خفیہ رہتی ہیں لیکن داعش کے بارے میں کہانی ذرا مختلف ہے، عراق میں امریکہ اور جنرل قاسم سلیمانی ایک ہی دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن مختلف نظریات اورالگ طریقوں سے، اس درمیان یہ سلیمانی ہے جو ہمیشہ امریکہ کے فیصلوں کے خلاف کام کرتا ہے اور یقینا وہ زیادہ کامیاب ہے!
ان دنوں مغربی میڈیا ایران کی قدس فورس کے کمانڈر کے قصوں اور تصاویر سے بھرا ہوا ہے،کیا ہوا ہے کہ وہ حاج قاسم کے بارے میں اتنی باتیں کررہے ہیں؟
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
ایران کی سرحدوں کے باہر کہانی کچھ مختلف ہے، ایران کی جغرافیائی سرحدوں سے باہر ان کے بارے میں بہت سارے افسانے زبانوں پر ہیں، وہ افسانے جن کے صحیح یا غلط ہونے کی تصدیق کبھی بھی کسی عہدیدار نے نہیں کی ، کبھی ریاستہائے متحدہ کے 4 اسٹار جنرل کو دیے جانے والے ان کے میسج کی بات ہوتی ہے تو کبھی اس خط کی جس کے بارے میں جو انھوں نے دعوی کیا کہ ان کے لوگوں نے امریکی وزیر دفاع کے ڈیسک پر رکھا تھا جس میں لکھا ہوا تھا : ’’مجھے پہچان لو ، میں قاسم سلیمانی ہوں‘‘کہا جاتا ہے کہ جب عراق میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل پیٹریاس کو فون دیا گیا تو انھیں یہ پیغام موصول ہوا،ٹھیک اس وقت جب وہ 2008 میں عسکریت پسند گروپوں اور امریکی فوج کے درمیان ہونے والی لڑائی کی گہماگہمی میں عراق گئے تھےیا جب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا عراق میں تھے تو انھیں اپنی میز پر ایک خط ملا جس کو دیکھ کر انھیں سخت حیرت ہوئی، اس خط پر نہ پینٹاگون کی مہر تھی اور نہ سیل اور اس میں صرف ایک جملہ لکھا گیا تھا: ’’اگر ضرورت پڑی تو ہم اور بھی قریب ہوجائیں گے؛ ایرانی قدس فورس کا کمانڈرقاسم سلیمانی ‘‘۔
اس طرح کی بہت ساری داستانیں ہیں
ان سب کہانیوں میں ایک ایرانی جنرل کو اس کے تمام تر چین وسکون کے ساتھ ، ایک طاقتور کمانڈر کے طور پر بیان کیا گیا ہے، ایسا چہرہ جو امریکیوں کے مفادات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ یہ افسانے سچے یا جھوٹے ہونے سے ہٹ کر ایک موضوع کو بیان کر رہے ہیں کہ کہ ایرانی سپاہ کا پر سکون مرد آج کل بری طرح ان کی نفسیات کے ساتھ کھیل رہا ہے،یہ افسانے سرائیاں صرف ایک ہی مسئلہ کا پتا دیتی ہیں اور وہ ہے ’’خوف اور ڈر‘‘۔
اس رپورٹ میں آپ سردار قاسم سلیمانی کے بارے میں وہ اقتباسات دیکھ سکتے ہیں جو حالیہ مہینوں میں غیر ملکی میڈیا میں شائع ہوئے ہیں، واضح رہے کہ ان رپورٹس کی اشاعت کا مطلب ان کی توثیق نہیں ہے، ترجمہ میں ہم نے اصل رپورٹ کا لحاظ رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی ہےالبتہ جن حصوں سے سکیورٹی نتائج حاصل کیے جاسکتے تھے انھیں متن سے ہٹا دیا گیا ہے۔
New Yorker
ایک آدمی جو زیادہ سنتا ہے
شاید غیر ملکی مطبوعات میں قاسم سلیمانی کی اب تک کی سب سے مکمل تصویر ڈاکٹر فلِکنز نے کھینچی ہے، اس پلوٹزر ایوارڈ یافتہ امریکی صحافی نے سردار سلیمانی کے بارے میں ایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے۔
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
(30 ستمبر ، 2013) کو نیویارکرمیں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں فلکنز نے امریکی ، مغربی اور عراقی عہدیداروں اور انٹیلی جنس اہلکاروں کے ساتھ متعدد انٹرویوز کے ذریعے جنرل سلیمانی کی شخصیت اور خطے میں پیش آنے والے واقعات میں ان کے کردار کا جائزہ لیا ہے، اس دوران وہ وہ اپنی رپورٹ کے اصلی دروازے کی تصویر میں لکھتے ہیں: گذشتہ سال فروری میں ایران کی کچھ بااثر سیاسی شخصیات شمالی تہران کی امیر المومنین مسجد میں سپاہ پاسدران کے افسران کی ایک کانفرنس میں اکٹھی ہوئیں، وہ ایک شہید کمانڈرکو خراج عقیدت پیش کرنے آئے تھے، حسن شاطری سپاہ پاسداران کی طاقتور اور ایلیٹ قدس فورس کے سینئر کمانڈروں میں سے ایک تھے، شاطری نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ ایران سے باہر گزارا تھا، شاطری کے جنازے میں کچھ سوگوار رو رہےتھےاور کچھ شیعوں کی رسم کے مطابق ماتم کر رہے تھے، شاطری کا تابوت ایرانی پرچم میں لپیٹا ہوا تھا اور اسے سپاہ پاسدران کی یونیفارم پہنے ہوئے کمانڈروں نے گھیر رکھا تھا ، لیکن اس شخص کے بیچ میں چھوٹے قد اور سرمئی رنگ کے چھوٹے چھوٹے بالوں والا مسجد کی دوسری لائن میں بیٹھا ہوا 56 سالہ شخص قدس فورس کا کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی تھا، شاطری کے ساتھ ان کی دوستی اور بھائی چارہ مقدس دفاع کے دوران قائم ہوا تھا، مقدس دفاع ایران عراق جنگ کو دیا جانے والا نام ہے،وہ جنگ جو آٹھ سال جاری رہی اور اس میں قریب دس لاکھ مارےگئے۔
سلیمانی نے 15 سال قبل قدس فورس کی کمان سنبھالی تھی اور اسی وقت سے اس نے ایک فوجی قوت اور ایک طاقتور شخصیت کی حیثیت سے اس نے مشرق وسطی کو ایران کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی، عراق میں سی آئی اے کے سابق افسر جان ماگور کہتے ہیں :سلیمانی آج مشرق وسطی کے ایک مضبوط ترین عہدیدار ہیں لیکن کسی نے ان کے بارے میں اب تک کچھ نہیں سنا ہے،سلیمانی جب مجمعے میں جاتے ہیں–عام طور پر وہ جانبازوں کے درمیان تقریر کرتے ہیں یا ایرانی رہبر سے ملنے جاتے ہیں – تو زیادہ تر وہ لوگوں کے سامنے میں نہیں آتے ہیں اور شاذ و نادر ہی بلند آواز میں بات کرتے ہیں، وہ عام طور پر اس انداز میں برتاؤ کرتے ہیں جس کو عرب ” خلب ” کہتے ہیں ،اس کا مطلب پوشیدہ کرشمہ ہے۔
ایک سینئر عراقی عہدیدار کہتے ہیں :وہ نسبتا چھوٹے قد کے ہیں لیکن یہ کہانی کی ظاہری شکل ہے، جب کمرے میں 10 افراد ہوتے ہیں اور سلیمانی داخل ہوتے ہیں تو ، وہ آگے کر آپ کے پاس نہیں بیٹھتے ہیں بلکہ کمرے کے دوسری طرف خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں، وہ بات نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی تبصرہ کرتے ہیں، وہ تنہا بیٹھتے ہیں اور سنتے ہیں لیکن یقینا اس وقت ہر کوئی انہیں کے بارے میں سوچتا ہے ۔
شاطری کی سلیمانی نے تدفین میں کالی قمیض اور کوٹ پہنا ہوا تھا ، بغیر ٹائی کے جیسے ایرانی پہنتے ہیں، ان کے چہرے پر غم کے آثار نمایاں تھے،سلیمانی شاطری کی تدفین ایک روز قبل ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے ان کے گھر گئے تھے،شہید فوجیوں سے اس کو زبردست لگاؤ ہے اور وہ عام طور پر ان کے اہل خانہ سے ملتے رہتے ہیں، سلیمانی نے ایک ایرانی میڈیا کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا: جب میں شہداء کے بچوں کو دیکھتا ہوں تو میں ان کی خوشبو لے کر وجد میں آجاتا ہوں۔
دلاور آہستہ سے اٹھتا ہے
سلیمانی کو ایران سے باہردرپیش تمام تر مشکلات، اپنی ساری سنجیدگی اورسختی کے باوجود ایرانی معاشرے میں انھیں وفاداری کے نام سےجانا جاتا ہے، ایک ایسا چہرہ ہےجس نے انھیں لوگوں کی نظروں میں ناقابل تسخیر ہیرو بنا دیا ہے، ایران اور عراق جنگ کے بعد سے ہی لوگوں کو اس سردار پر اعتماد ہے ، اتنی بڑی طاقت کے باجود وہ اب بھی اپنے آپ کو لوگوں کا ایک چھوٹا سپاہی سمجھتے ہیں، سلیمانی کو ایران میں ایک اور لقب سے بھی جانا جاتا ہے’’ زندہ شہید ‘‘یہ لقب انہیں رہبر ایران نے دیا ہے۔
سلیمانی کا گھر تہران میں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ وہاں راحت اور سکون کے ساتھ بغیر کسی محافظ کےرہتے ہیں۔
ایک عراقی سیاستدان جو انھیں بہت قریب سے جانتے ہیں ،کہتے ہیں: سلیمانی روزانہ صبح 4 بجے اٹھتے ہیں اور رات 9:30 بجے سوجاتے ہیں، ان کی زندگی کا اپنا قانون ہے، سلیمانی کے لیے ان کے مقصد سے زیادہ کوئی بھی چیز اہم نہیں ہے، وہ اپنی اہلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور اپنا سارا خالی وقت ان کے ساتھ سفر کرنے میں گذارتے ہیں، ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، وہ بہت مطالعہ کرتے ہیں، اگرچہ ان کے پاس اعلی تعلیم نہیں ہے ، لیکن وہ ایک زبردست اسٹریٹجسٹ ہیں،وہ انسان کے تصور سے کہیں زیادہ ہوشیارہیں!۔
Business Insider
اتنی طاقت کہاں سے آئی ہے؟
مشرق وسطی میں قاسم سلیمانی طاقتور کیوں ہے؟
پچھلے سال ، Business Insider نے اپنے مختصر مضمون کا آغاز اسی عنوان سے کیا تھا، جیفری انگرسول نے قاسم سلیمانی کو مشرق وسطی کی ایک طاقتور شخصیت قرار دیتے ہوئے لکھا کہ وہ جب جہاں کا ارادہ کریں پہنچ جاتے ہیں ،وہ پانچ بچوں کے باپ اور اپنے خاندان سے پیار کرنےوالے انسان ہیں، اسے اپنی اہلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں اور انھیں اپنے ساتھ بہت زیادہ سفر پر لے جاتے ہیں۔
اپنے خاندان سے پیار کرنے والا لیکن اپنے وقت کی مشرق وسطی کی سب سے طاقتور آپریشنل فوج ہے، اس حد تک کہ آج کل انھیں ’’ڈارک نائٹ‘‘ (بیٹ مین فلم کا حوالہ دیتے ہوئے) کا لقب دیا گیا ہے، قاسم سلیمانی اس وقت قدس فورس کی سربراہی کر رہے ہیں، وہ ہر جگہ ہوتے ہیں،سلیمانی جو بھی ہوں بس اتنا ہے کہ وہ ایک محنتی فوجی اور ایک باصلاحیت تجربہ کار انسان ہیں، وہ غربت میں پلے بڑھے ہیں، انہوں نے 13 سال کی عمر سے ہی کام کیا اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹوں میں بہت تکلیفیں برداشت کی لیکن 70 کی دہائی میں اسلامی انقلاب کے آتے ہی انھیں اپنا راستہ مل گیا۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
ایران عراق جنگ کے بعد ان کے لیے راستہ اس طرح ہموار ہوا کہ آج وہ آج وہ ایک سب سے طاقتور فوجی کمانڈر بن چکے ہیں، ان کی کہانی اسپارٹاکس سے ملتی جلتی ہے، ان کی طاقت بھی ان کے الفاظ سے معلوم ہوتی ہے، انہوں نے ایران عراق جنگ میں گمشدہ افراد کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے پروگرا م میں مفصل گفتگو کی،ایسا لگتا تھا کہ وہ جنگ کے کسی مشرقی فلسفے کی بات کر رہے ہوں: میدان جنگ انسانوں کی کھوئی ہوئی جنت کا نام ہے، ایک جنت جو انسانوں کی شہادت اور رہنمائی کے ساتھ تعمیر ہوتی ہے، آپ نے دیکھا کہ ان کی نظر میں یہ جنت کی ایک قسم پانی سے بھری ہوئی نہریں ہیں اور دوسری قسم میدان جنگ ہے! ۔
ایک سال کے بعد اس سال گرمی کے موسم میںBusiness Insider قاسم سلیمانی کے بارے میں کچھ اور باتیں کررہا تھا؛یہ کہ وہ ہمیشہ غائب رہتا ہے، Insiderنے فرانسیسی نیوز ایجنسی کے حوالے سے لکھا کہ مشرق وسطی میں غائب شخص ہر جگہ ہےاور کہیں بھی نہیں ہے، یہ سلیمانی کی نئی حکمت عملی نہیں ہے ، 57 سالہ ایرانی کمانڈر شاذ و نادر ہی عوام میں نظر آتا ہے، سلیمانی عوام میں بہت کم ہی تقریر کرتے ہیں لیکن جب بھی وہ تقریر کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد ایک طرح کا واضح ذوق اور گرم جوشی پیدا ہوتی ہے جو ان کی شخصیت کی روحانی جذبہ کو مزید بڑھادیتی ہے، ن کے چہرے کی تصاویربہت کم شائع ہوئی ہیں لیکن انہیں تصاویر میں ان کی بھاری گھورتی ہوئی ، بھوری رنگ داڑھی اور بالوں کو کیمرے کے بند فریم میں دیکھا جاسکتا ہے، کہا جاتا ہے کہ سلیمانی شام کو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح جانتے ہیں اور انھیں عراق کے بارے میں بھی اچھی معلومات ہیں، قدس فورس کے ممبران ان کا مکمل احترام کرتے ہیں اور ان کے ماتحت ہیں، کوئی بھی ان کے اور ان کے افراد کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے، وہ ہر جگہ ہیں اور کہیں بھی نہیں ہیں!
Weekly standard
ہرفن مولا صاحب
ہرفن مولا صاحب؛ کوئی ایسا کام ہے جو سلیمانی انجام نہ دے سکیں؟
دو تین ماہ قبل Weekly standardاس عجیب عنوان کے ساتھ ایران کی قدس فورس کے پہلے شخص کی طرف گیا اور ان کی شخصیت کے بارے میں لکھا، مضمون نگار لی اسمتھ نے سلیمانی کے بارے میں لکھا :ان دنوں دنیا کی سب سے دلچسپ شخصیت قاسم سلیمانی ہے۔
اس سلسلہ میں اندازہ لگانے کے لئےکافی ہے کہ صرف مغربی میڈیا کو دیکھ لیں تاکہ ان کی پروفائل کے بارے میں مزید معلومات حاصل ہو سکیں، نیویارکر ، بی بی سی اور گارڈین نے اس کمانڈر کے بارے میں خاص مطالب لکھے ہیں، ایران کی قدس فورس کا کمانڈر رومیل کے بعد سےا ب تک کا دنیا کا سب سے اہم فوجی اسٹریٹجسٹ ہے(جرمنی کی افواج کے کمانڈر ارون جوہانس یوجین رومل المشہور “صحرا کی لومڑی” اور سب سے اہم یہ ہے کہ عوام کے مارشل کے علاوہ رومیل 88 کے نام سے بھی مشہور ہے۔
دلاور آہستہ اٹھتا ہے
انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران شمالی افریقہ اور فرانس میں بڑی فتوحات حاصل کیں، رومیل اپنے ماتحت ، جنگی قیدیوں اور دشمنوں کے ساتھ اپنی بڑائی اور اچھے سلوک کی وجہ سے تاریخ کے سب سے بڑے مارشلوں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے، مارشل کورس اب بھی دنیا کے تمام فوجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جاتے ہیں )۔
وہ ان میں سب صفات کے علاوہ صورتحال کو استحکام بخشنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے،حاج قاسم (و ہ نام سے جس سے ان کے دوست انھیں پکارتے ہیں) مشرق وسطی میں ہر جگہ موجود ہے، اس کی مثال اس وقت ملی تھی جب انھوں نے 2007 میں پیٹریاس کو وہ متنازعہ پیغام دیا تھا، مسئلہ یہ ہے کہ اگر سلیمانی کبھی عراق میں ہوتے تھے تو اب وہ ہر جگہ موجود ہیں لبنان ، غزہ ، یمن ، افغانستان میں ۔
سلیمانی ایک اہم شخص ہے،یہ بات ڈیموکریٹک ڈیفنس فاؤنڈیشن کے ایک ایرانی ماہر علی الفونی نے کہی:سلیمانی ایک سنجیدہ آدمی ہے،پورے ایران میں وہ ایک ہیرو کی طرح ہے کیونکہ اس نے ایران عراق جنگ کے دوران اپنے ملک کے دفاع کے لئےبہت سارے اہم کام کیے تھے،اس نے افغانستان سے آنے والے منشیات فروشوں کے گروہوں کو روک دیا اور اب شیعوں کے حقوق کے دفاع کے لئے داعش کی افواج کے خلاف برسرپیکار ہے، حاج قاسم جو بھی ہے اور جو بھی اس کے بارے میں کہاجاتا ہے ، اصل کہانی یہ ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہے جو بہت سی چیزوں کو جانتا ہے اور جس جگہ کے بارے میں بھی اس کو معلوم ہوتا ہے ، وہ ضرور وہاں جاتا ہے، ان دنوں حاج قاسم ہر جگہ موجود ہے ۔
The National
اس کے بارے میں سوال نہ پوچھو
متحدہ عرب امارات کا ’’صبح‘‘ اخبار بھی ان دنوں جب رومال اور خاکی وردی میں حاج قاسم سلیمانی کی تصویر داعشیوں کوبے دخل کرتے وقت عراق میں شائع ہوئی تھی،اس پر خاموش نہیں رہ سکا ، مشہور اماراتی اخبار نے مائیکل تھیوڈولو کا لکھا ہوامضمون شائع کیا جس میں انھوں نے لکھا : بھورے رنگ کے بالوں والا ،مہربان مسکراہٹ اور ایک باوقار آدمی کوئی اور نہیں بلکہ قاسم سلیمانی ہے، وہ شخص جو مشرق وسطی کے ایک ہوشیار کمانڈر سے زیادہ بینک منیجر یا اسکول ٹیچر کی طرح نظر آتا ہے۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
سلیمانی اس وقت ایک ایسی فوج کا کمانڈر ہے جس کی طاقت مغرب سے لے کر مشرق تک پھیلی ہوئی ہےلیکن سلیمانی کی کامیابی سیاسی حکمت عملی تلاش کرنا اور خصوصی کاروائیاں انجام دینا ہے۔
عراقی قومی سلامتی کے وزیر موفق الربیعی نے ایک بار ان کے بارے میں کہا تھا کہ خطے میں سلیمانی کی طاقت کے بارے میں کچھ نہ پوچھو،انھیں کوئی بھی چیز نہیں روک سکتی۔
Bloomberg
سلیمانی کیمرے کے سامنے کیوں آئے
بلومبرگ نےقاسم سلیمانی کے بارے میں ایک بڑے سوال کے ذیل میں اپنے مطلب کو بیان کیا ہے؛یہ کہ کیوں سلیمانی نے اچانک اپنے آپ کو ظاہر کیا، اس مشہور سائٹ نے ان دنوں قاسم سلیمانی کے میڈیا میں آنے کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: گذشتہ ہفتے ایرانی ٹیلی ویژن نے قدس فورس کے کمانڈر کی تصویر دکھائی جس میں انھیں عراق میں کرد پیشمرگہ کے ساتھ دکھایا۔
دلاور آہستہ سے اٹھتا ہے
سلیمانی کی تصویر اچانک پوری دنیا میں پھیل گئی، سلیمانی ایک زمانے میں ایک بڑا غائب تھا اور اب وہ دنیا کے میڈیا کا پہلا چہرہ ہے، اس مسئلے کا کیا پیغام ہے؟ کہانی واضح ہے، جب ہمیشہ سائے میں چھپا ہوا آدمی اچانک ہیرو بن کر سامنے آجاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران نے دنیا کو ایک واضح پیغام دیاہے: کہ اگر آپ داعش کو شکست دینا چاہتے ہیں تو آپ کو ہماری مدد کی ضرورت ہے!، بین الاقوامی اسٹریٹجک اسٹڈیز کے مرکز کے ماہر انتھونی کرزمین نے کہا :سلیمانی نے اپنے آپ کو ظاہر کرکے امریکیوں کو پیغام دیا ہے، ایران کے اثر و رسوخ اور طاقت کی حد کا پیغام ۔
امریکہ سے زیادہ کامیاب آدمی
جب حاج قاسم کی تصویر عراق میں منظر عام پر آئی تو اسپیگل رسالہ بھی مشرق وسطی کے پہلے شخص کو دیکھنے کے جوش و خروش کے سامنے نہیں ٹک سکا،ہفت روزہ ڈیر اسپیگل نے اس سلسلہ میں لکھا کہ سردار قاسم سلیمانی شخص نہیں ہے جو اپنی فوج کو لڑنے کے لیے بھیجے اور خود گھر پر رہے،یہ 57 سالہ کمانڈر آسانی سے محاذ کے پیچھے رہ سکتا ہے لیکن وہ میدان جنگ میں موجود رہناپسند کرتا ہے، وہ ایک ایسا ایلیٹ جنرل ہے جو تمام امریکی فیصلوں کو ناکام بنادیتا ہے، قاسم سلیمانی کو حال ہی میں شمالی عراقی شہر آمرلی کے وسط میں دیکھا گیا ہے، شمالی عراق میں واقع ترکمن نشین یہ شہر دو ماہ سے داعشی دہشت گردوں کے محاصرے میں تھا۔
دلاور آرام سے اٹھتا ہے
اس شہر کی آزادی ایک قابل ذکر کارنامہ تھا
قاسم سلیمانی ایک بہادر ، نڈر اور انتہائی بےباک ، بلند سوچ کا مالک ، ہوشیار اور نہایت ہی دلکش کرشمہ کے طور پر جانا جاتا ہے، سلیمانی کی کاروائیاں زیادہ تر خفیہ رہتی ہیں لیکن داعش کے بارے میں کہانی ذرا مختلف ہے، عراق میں امریکہ اور جنرل قاسم سلیمانی ایک ہی دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں لیکن مختلف نظریات اورالگ طریقوں سے، اس درمیان یہ سلیمانی ہے جو ہمیشہ امریکہ کے فیصلوں کے خلاف کام کرتا ہے اور یقینا وہ زیادہ کامیاب ہے!
رائے
ارسال نظر برای این مطلب