مواد

سخت انتقام کے بارے میں رہبر معظم کا تصور


Jan 18 2021
سخت انتقام کے بارے میں رہبر معظم کا تصور
بغداد میں جنرل سلیمانی اور ان کے ساتھیوں پر امریکی حملے کے ایک سال بعد مقاومتی محاذ اور امریکی فوج کے درمیان سیاسی و عسکری کشیدگی نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ امریکی فوجی انخلاء کا بل پارلیمنٹ میں منظور ہونا مقاومتی بلاک کی کامیابی کا ثبوت  ہے۔ اس عرصے میں مقاومت نے عملی اقدامات کا سلسلہ شروع کیا اور رضاکار فورسز نے امریکی مفادات پر حملے کو ترجیحی بنیادوں پر اپنا ہدف قرار دیا۔ امریکی حکام کو خواب میں بھی اس کا اندازہ نہیں تھا کہ زندہ قاسم سلیمانی سے شہید قاسم سلیمانی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کی شہادت سے عوام اور مقاومتی بلاک میں بیداری کی لہر پیدا ہوئی اور عالمی استکبار کے خلاف اتحاد وجود میں آیا۔ ایران نے عین الاسد پر میزائل حملے کرکے دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلا ملک ہونے کا اعزاز حاصل کیا جس نے امریکی مفادات پر حملہ کیا۔ ان حملوں کے بعد دوستوں اور دشمنوں کے سامنے امریکی کمزوری واضح ہوگئی۔ اس سے خطے میں بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ یہ جنرل سلیمانی پر حملے کے بعد رہبر معظم کی جانب سے سخت انتقام کی دہمکی کی ایک تفسیر ہے حالانکہ شروع میں فوجی کاروائی کو ہی جنرل سلیمانی پر حملے کا انتقام قرار دیا جارہا تھا۔ ایران کا انتقام امریکی فوجی اڈے کو ہدف بنانے سے کہیں زیادہ وسیع ہے؛ حقیقت میں خطے سے امریکی فوج کا مکمل انخلاء ہی جنرل سلیمانی پر حملے کا انتقام ہے۔
امریکہ کی جانب سے جنرل سلیمانی پر حملے اور ایران کے دندان شکن جواب کے بعد عالمی مزاحمتی بلاک نے خطے میں عملی طور پر کردار ادا کرنا شروع کیا۔ امریکی حکام اور خطے میں موجود امریکی اتحادیوں کی عقل ٹھکانے آگئی ہے کیونکہ عرب ممالک کو امریکی حمایت اور پشت پناہی کی امید تھی لیکن اس واقعے کے بعد عرب حکمرانوں پر واضح ہوگیا کہ امریکہ مشکل اوقات میں اپنا دفاع نہیں کرسکتا ہے۔
 


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب