مواد

دو تاریخی عرب دارالحکومتوں کے خلاف صیہونی سازش کو ناکام بنانے میں جنرل سلیمانی کا کردار


Jan 07 2021
دو تاریخی عرب دارالحکومتوں کے خلاف صیہونی سازش کو ناکام بنانے میں جنرل سلیمانی کا کردار
شام اور عراق میں گذشتہ دہائی کے واقعات کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کی زیرقیادت عالمی صیہونیت نے مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے کی کوشش کی ہےاور اس مقصد کے لئے  انہوں نے دہشت گرد گروہوں کی شکل میں 100 سے زائد ممالک کے شہریوں کو ان دونوں ممالک میں بھیجا۔
بہت سے سیاسی حلقے ان گروہوں کے ذریعہ امت مسلمہ میں مذہبی جنگ اور انتہا پسندی کے فروغ میں ملوث نہیں تھے۔ کیونکہ عرب دنیا کے دو تاریخی دارالحکومتوں کی حیثیت بغداد اور دمشق کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ عالمی صہیونیست کا مقصد عراق اور شام کے خلاف فوجی کاروائی سے کہیں زیادہ تھا۔
دمشق امویوں اور بغداد عباسیوں کی دارالحکومت کی حیثیت سے ایک طویل عرصے سے عرب اور اسلامی سلطنتوں کے مابین طاقت کے توازن کا مرکز رہے ہیں  اور چونکہ ان دونوں عرب طاقتوں نے اسلام کی تعلیمات کو مسخ کرنے ، جنگوں کو بھڑکانے اور بغاوت کو اکسا نے کے ذریعہ  مسلمانوں کو سب سے بڑا دھچکا دیا۔ عالمی صہیونیت  اس دور کی تاریخ دہرانے اور امویوں اور عباسیوں کی طاقت کو زندہ کرنے پر مرکوز ہے۔
 
درحقیقت،دہشت گردوں کو عراق اور شام بھیج کر عالمی صیہونیت نے عربی اور اسلامی طاقتوں کے مابین محاذ آرائی کی کوشش کی تا کہ اپنے درمیانی اور طویل مدتی اہداف کو “تفرقہ ایجاد کرو اور حکمرانی کرو”  برطانوی پالیسی کے تحت  آگے بڑھائے لہذا اس نے ان دونوں ممالک میں انتہا پسند اور بغاوت پسند رہنماؤں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن دونوں ممالک کے دہشت گرد گروہوں کے خلاف شدید لڑائی اور قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کے بے مثال کردار کی وجہ سے یہ برطانوی پالیسی ناکام ہو گئی اور اس کے علاقائی حامیوں کی سازش ناکام بھی ہو گئی جو بڑے پیمانے پر نفسیاتی کاروائی اور شیعوں اور سنیوں کے مابین سازشوں کو بھڑکا کر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے علمبرداروں میں سے ایک کے طور پر جنرل سلیمانی نے دہشت گرد گروپوں کے خلاف ممالک کی خودمختاری کو برقرار رکھنے اور امت مسلمہ میں انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں مستحکم کردار ادا کیا تا کہ عالمی صہیونیت کو مسلمانوں کے خلاف ایک اور شکست کا سامنا کرنا پڑے۔ شام اور عراق  میں امن و سلامتی ایجاد کرنے کے ذریعہ انہوں نے عوام اور قانونی حکومتوں کا اعتماد بحال کر کے شیعہ اور سنی جنگ کو روکا۔ اور ان دونوں ممالک کے مسلمانوں اور یہاں تک کہ دوسرے مذاہب کے شہریوں کے مابین اتحاد کو مستحکم کیا اور عالمی صیہونیت کو مسترد کر دیا اور آخرکار عرب کی دو تاریخی دارالحکومتیں یعنی دمشق اور بغداد قانونی اور جائز حکومتوں کے ماتحت باقی رہیں۔


نظری برای این مطلب ثبت نشده است.

رائے

ارسال نظر برای این مطلب