قاسم سلیمانی کو ۱۹۹۸ ء میں نیروی قدس سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کا سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں طالبان عروج پر تھے۔کردستان کی سول جنگ کےتجربے کی بنیاد پر وہ بہترین انتخاب تھے ؛
اوراس وقت افغانستان طالبان کےدورمیں سول جنگ کاشکارہوچکاتھا تو ایسےمیں وہی ان محاذوں پر بہترین کرداراداکرسکتے تھے۔اور اہم ترین بات یہ تھی کہ قاسم سلیمانی نے سپاہ قدس کی سپہ سالاری سنبھالنے تک جوتجربہ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ اور اس کےبعدایران اورافغانستان کےمنشیات فروشوں اوراسمگلروں کی سرکوبی سے حاصل کیا تھا وہ عسکری اعتبار سے بہت ہی قیمتی تھا۔
امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادی حواریوں کی پشت پناہی میں عراق اور شام جیسے ممالک میں بننے والی دہشت گردتنظیم داعش کہ جسکی شدت پسندی کا مہیب سایہ پوری دنیا پر منڈلا رہا تھا ، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی تھی ،عراق و شام جیسے ملکوں میں عام شہریوں خاص مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار جارہا تھا گویا یہ دولت ِ
اسلامیہ کےخونخوار مسلم ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرا رہے تھے اور ساری دنیااور عالمی طاقتیں ان کے ظلم و بربریت اور دہشت کے آگے گھٹنےٹیک چکی تھیں ایسے میں قاسم سلیمانی شہیدؒ اپنے مٹھی بھر جیالوں کے ساتھ وہاں خیمہ زن ہوئے جہاں ان کا مرکز و حکومت تھی اور نہایت ایمانی و دینی حمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے،مظلوموں کی آواز اورسسکتی مسلم امہ کی امید کا کرن بن گئے اور اپنے دئیے ہوئے وعدے کے مطابق تین مہینے کے اندراس تنظیم کا قلع قمع کرنے میں ناقابل فراموش اہم اور کلیدی کردارادا کرکے پوری دنیا میں یہ منادی کردی کہ
فیض ہوگا جہاں میں عام مرا
خدمتِ خلق ہو گا کام مرا
ہم ہی وہ صاحب ایمان اور اہل دانش ہیں جو اللہ کے احکام (اوامر و نواہی) پر عمل کرکے اپنے رب سے کئے عہد و وعدے پر عمل پیرا ہیں۔
الَّذینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَ لا یَنْقُضُونَ الْمیثاقَ۔۔۔
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے
شہید جنرل قاسم سلیمانی ؒنے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، جنگ افغانستان، صدام حسین کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔
عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران میں حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت عوام تک پہنچی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً “ظلی کمانڈر کے لقب سے مشہور تھے۔
اوراس وقت افغانستان طالبان کےدورمیں سول جنگ کاشکارہوچکاتھا تو ایسےمیں وہی ان محاذوں پر بہترین کرداراداکرسکتے تھے۔اور اہم ترین بات یہ تھی کہ قاسم سلیمانی نے سپاہ قدس کی سپہ سالاری سنبھالنے تک جوتجربہ آٹھ سالہ ایران عراق جنگ اور اس کےبعدایران اورافغانستان کےمنشیات فروشوں اوراسمگلروں کی سرکوبی سے حاصل کیا تھا وہ عسکری اعتبار سے بہت ہی قیمتی تھا۔
امریکہ و اسرائیل اور ان کے اتحادی حواریوں کی پشت پناہی میں عراق اور شام جیسے ممالک میں بننے والی دہشت گردتنظیم داعش کہ جسکی شدت پسندی کا مہیب سایہ پوری دنیا پر منڈلا رہا تھا ، ہر طرف تباہی ہی تباہی نظر آرہی تھی ،عراق و شام جیسے ملکوں میں عام شہریوں خاص مذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار جارہا تھا گویا یہ دولت ِ
اسلامیہ کےخونخوار مسلم ہولوکاسٹ کی تاریخ دہرا رہے تھے اور ساری دنیااور عالمی طاقتیں ان کے ظلم و بربریت اور دہشت کے آگے گھٹنےٹیک چکی تھیں ایسے میں قاسم سلیمانی شہیدؒ اپنے مٹھی بھر جیالوں کے ساتھ وہاں خیمہ زن ہوئے جہاں ان کا مرکز و حکومت تھی اور نہایت ایمانی و دینی حمیت کامظاہرہ کرتے ہوئے،مظلوموں کی آواز اورسسکتی مسلم امہ کی امید کا کرن بن گئے اور اپنے دئیے ہوئے وعدے کے مطابق تین مہینے کے اندراس تنظیم کا قلع قمع کرنے میں ناقابل فراموش اہم اور کلیدی کردارادا کرکے پوری دنیا میں یہ منادی کردی کہ
فیض ہوگا جہاں میں عام مرا
خدمتِ خلق ہو گا کام مرا
ہم ہی وہ صاحب ایمان اور اہل دانش ہیں جو اللہ کے احکام (اوامر و نواہی) پر عمل کرکے اپنے رب سے کئے عہد و وعدے پر عمل پیرا ہیں۔
الَّذینَ یُوفُونَ بِعَهْدِ اللّهِ وَ لا یَنْقُضُونَ الْمیثاقَ۔۔۔
جو خدا کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے
شہید جنرل قاسم سلیمانی ؒنے لبنان میں حزب اللہ کی عسکری قوت و تربیت، جنوبی لبنان سے اسرائیل کی پسپائی، جنگ افغانستان، صدام حسین کے بعد عراق میں سیاسی اور سفارتی فضا کی تشکیل نو، شام کی خانہ جنگی اور عراق میں داعش سے مقابلے میں اہم کردار ادا کیا۔
عراق میں موجودگی اور داعش سے نبرد آزمائی کے دوران میں حکومت ایران نے متعدد بار ان کی عسکری کامیابیوں کی تصاویر کو شائع کیا جس سے ان کی شناخت عوام تک پہنچی اور لوگ نہ صرف یہ کہ ان سے متعارف ہوئے بلکہ انہیں چہرے سے پہچاننے لگے۔ یہیں سے ان کی ہردلعزیزی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ میڈیا میں وہ عموماً “ظلی کمانڈر کے لقب سے مشہور تھے۔
رائے
ارسال نظر برای این مطلب